مزدوروں کو بھلا کر سیاست سیاست کھیل رہے ہیں

پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں جو کارخانوں اور فیکٹریوں کے مالک ہیں اور اپنے مفادات کیلئے مزدوروں کو بھلا کر سیاست سیاست کھیل رہے ہیں

مزدور کی تعریف عام طور پر جسمانی محنت اور مشقت کرنے والے انسان کے طور پر کی جاتی ہے۔ لیکن جدید دنیا میں اب جسمانی محنت کے ساتھ ساتھ ذہنی محنت کو بھی بعض حلقوں میں مزدوری شمار کیا جاتا ہے جیسے کہ صحافت کو قلم مزدور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، دفتروں میں کام کرنے والے چھوٹے ملازمین بھی مزدور کہلاتے ہیں۔ یہ مزدور ہی ہے جو سرمایہ دار کے سرمائے کو اہنی محنت سے دگنا اور چوگنا کرتا ہے اور سرمایہ دار ایک سے دو اور دو سے چار فیکریاں بنا لیتا ہے مگر یہ مزدور ہمیشہ کھانے پینے صحت اور رہائش کیلئے ترستا ہے۔ مزدور کا استحصال اگرچہ پوری دنیا میں ہوتا ہے لیکن بدقسمتی پاکستان میں اس کی شرح بہت زیادہ ہے۔ موجودہ وزیراعظم نیمزدور کی ماہانہ اجرت کم از کم بتیس ہزار کردی ہے۔جو مہنگائی کے تناسب سے اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ اگر مہنگاء کی شرح کو دیکھا جائے تو 32000 میں ایک مزدور کا گزارہ کرنا بہت ہی مشکل ہے۔

پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی، مزدوروں کا جسمانی، جنسی اور معاشی استحصال ہر وقت ہوتا ہے مزدوروں کی فلاح و بہبود کیلئیمحکمہ محنت کا قیام عمل میں لایا گیا تھا مگر شومئی قسمت کہ یہ محکمہ جسے لیبر قوانین پر عملدرامد کیلئے بنایا گیا تھا ایک بوجھ کے علاوہ کچھ بھی نہپی اور محکمہ لیبر کے افسران اور عملہ ہر فیکٹری، کارخانےء اور بھٹے سے ماہانہ بھتہ وصول کرتا ہے مگر ان پر نہ کوئی قانون لاگو ہوتا ہے اور نہ ہی یہ محکمہ مزدورو ں کی سنتا ہے۔ اگر کوئی مزدوروں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائے تو اسکی آواز کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند کردیا جاتا ہے یا ہھر اسے ملازمت سے فارغ کر دیا جاتا ہے اور اسطرح اسکی بے روزگاری اسکے آڑے آجاتی ہے اور وہ عدالت سے انصاف کے حصول کیلئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے سے بھی قاصر ہو جاتا ہے۔ کیونکہ وہ وکلاء کی فیسیں اور اہلکاروں کی رشوت دینے کے قابل نہیں ہوتا۔ عالمی قوانین کے تحت آٹھ گھنٹے کام کیلئے مختص کیے گئے ہیں مگر مزدور سے 12-14 گھنٹے کام لیا جاتا ہے جو مزدور کا جبری استحصال ہے۔ کیا پاکستان میں آج مزدور کی جو اجرت حکومت نے مقرر کی ہے اسے یہ اجرت دی جا رہی ہے؟ مزدور سے 12-14 گھنٹے کام لیا جا رہا ہے جو مزدور کا جنسی، جسمانی اور معاشی استحصال ہے۔ ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں ملتا ہے۔ اوور ٹائم نہ دینا، ہفتہ وار چھٹی نہ دینا، گزیٹیڈ ہالیڈیز، سالانہ چھٹیوں کا نہ دیا جانا، سالانہ بونس اور 5 % سالانہ بونس نہ دیا جانا، ای او بی آئی اور سوشل سیکیورٹی میں مزدوروں کی رجسٹریشن نہ کروانا، حکومت کی طرف سے مزدور کی کم از کم اجرت نہ دیا جانا 10 سے 15 ہزار روپے اجرت دیکر حکومت کی مقرر کردہ تنخواہ پر دستخط کروا لینا عام ہے مگر کوئی نہں ہے جو مزدور کے اس معاشی قتل کو روک سکے اور اس محکمے کے اہلکار جنہیں محنت کشوں کے معاشی حالات بہتر بنانے اور لیبر قوانین کو کارخانوں فیکٹریوں ار دوسری جگہوں پر نفاز کرنے کیلئے مقرر کیا گیا ہے مزدوروں کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔

مزدوروں کا یہ استحصال کھلے عام کیا جا رہا ہے جو حکومت سے ڈھکا چھپا نہیں ہے کیونکہ وہ سیاستدان جو سرمایا دار اور جاگیردار ہیں ہر دور میں کسی نہ کسی حکوت میں ہوتے ہیں وہ لوگ جان بوجھ کر مزدوروں کا معاشی قتل کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ ان سیاسی اور حکومتی سرمایا داروں کا مکمل اثر و رسوخ محکمہ لیبر پر ہے جو قوانین کے لاگو کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہلیں۔

پاکستان میں مزدور طبقہ دن بدن پس رہا ہے اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ مہنگائی اور لاقانونیت کی وجہ سے مزدور طبقہ دن بدن مشکلات کا شکار ہو رہا ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 28 سے 50 فیصد ہے جبکہ مزدور کی ایک دن کی اجرت سات سے آٹھ سو روپے ہے۔ پاکستان میں مزدور پر روز بروز زندگی تنگ کی جا رہی ہے جس سے مزدور معاشی طور پر کمزور ہو رہا ہے اور چوریاں اور ڈکیتیاں اور دوسرے جرایم میں اضافہ ہو رہا ہے جسکی تمام تر ذمہ دار موجودہ حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ جو ہر روز میڈیا پر مزدوروں کا راگ الاپتی ہے بھلا آستین کے سانپون سے بھی وفا کی امید رکھی جا سکتی ہے۔ مزدور کو آرام دینا اور اسکی تنخواہوں میں اضافہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں جو کارخانوں اور فیکٹریوں کے مالک ہیں اور اپنے مفادات کیلئے م،زدوروں کو بھلا کر سیاست سیاست کھیل رہے ہیں اپنے مفادات اور مذموم مقاصد کے لیے انہی مزدوروں کو سڑکوں پر لے آ تے ہیں اور انہیں اپنا زر خرید غلام بنا کر رکھے ہوئے ہیں۔ حکومت کے اس بارے اقدامات صرف کاغذوں تک محدود ہیں۔ اب جبکہ مزدور کو اپنے حقوق کا علم ہو چکا ہے تو اس وقت سے ڈرو جب یہ مزدور پاکستان کی فیکٹریوں اور کارخانوں وں کو تالے لگا کر تمہارے خلاف سڑکوں پر آنے کیلئے مجبور ہو جایں اور پھر حکومت چلانا مشکل ہو جائے گی۔

 

Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 139455 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.