ڈینگی بخار٬ سیلاب٬ بارشیں اور اجتماعی دعائیں

امام غزالی ؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نوشیرواں عادل نے اپنے وزیر یونان سے کہا کہ مجھے پچھلے بادشاہوں کی سیرتوں کے متعلق کچھ بتا وزیر نے کہا کہ میں ان کی سیرت تین باتوں سے بیان کرو ،دوباتوں سے یا ایک بات سے نوشیرواں نے کہا تین چیزوں کے ساتھ ان کی توصیف کرو وزیر نے کہا کہ میں نے ان کا کوئی شغل یا عمل جھوٹا نہیں پایا ،کوئی قول بے اصل نہیں دیکھا اور کسی بات سے جاہل اور غافل نہیں پایا نوشیرواں نے کہا کہ اب دو چیزوں کے ساتھ ان کا وصف بیان کر وزیر نے کہا کہ وہ ہمیشہ بھلائی کی طرف سبقت لے جاتے تھے اور برائی سے بچتے تھے نوشیرواں نے کہا کہ اب ایک چیز کے ساتھ ان کی توصیف کر تو وزیر نے جواب دیا
”اُن کی حکومت بہ نسبت رعایا کے اپنے نفس پر زیادہ تھی “

قارئین اگر آج ہم غور سے دیکھیں اور جاننے کی کوشش کریں کہ آخر کیاوجہ ہے کہ دنیا جہاں کی مصیبتیں اور تکلیفیں امت مسلمہ کو باالعموم اور پاکستانیوں کو باالخصوص گھیرے ہوئے ہیں آخر ایسی کون سی خطا ہے کہ جس کی وجہ سے ہر طرح کی بلائیں ہمارا ہی پیچھا کررہی ہیں اور نہ تو آرام اور عزت کی زندگی میسر ہے اور نہ ہی غیرت کی موت ۔بے عزتی کی زندگی اور بے غیرتی کی موت ہی ہمار امقدر بنی ہوئی ہے یورپ اور ترقی یافتہ ممالک کو اگر دیکھتے ہیں تو انسان کی قدر وقیمت تو بعد کی بات ہے پتہ چلتا ہے کہ وہاں جانوروں کو بھی وہ حقوق حاصل ہیں کہ جو ہمارے یہاں انسانوں کو میسر نہیں ہیں امریکہ کا صرف کتوں اور جانوروں کی خوراک اور علاج معالجہ کا بجٹ پاکستان اور آزادکشمیر کے ہیلتھ او رایجوکیشن بجٹ سے زیادہ ہے اُس پر بھی ہمارے حکمران اور سیاست دان اگر ہوش کے ناخن نہ لیں اور وہ مسخرانہ بیانات جاری رکھیں جو ہم 64سالوں سے دیکھتے آرہے ہیں تو ہمارا اللہ ہی حافظ ہے ۔

قارئین اگر آج کی بلاﺅں پر نگاہ ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ پورا پنجاب جس کی آبادی 10کروڑ کے قریب ہے وہ ”ڈینگی بخار “کاشکارہوچکا ہے درجنوں اموات واقعہ ہوچکی ہیں اور خدانخواستہ سینکڑوں اور ہزاروں جانوں کے اتلاف کا اندیشہ ہے خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اپنے وزراءاور مشیروں کے ہمراہ لاہور سمیت تمام متاثرہ علاقوں میں شب وروز جارہے ہیں محکمہ صحت عامہ پنجاب کے ڈاکٹرز سر توڑ محنت کررہے ہیں لیکن افریقہ سے آنے والا مصری نسل کا یہ وائرس پھیلتا چلا جارہاہے اور ڈینگی بخار نے وہ شکل اختیار کرلی ہے جو کسی دور میں برطانیہ میں طاعون نے اختیار کی تھی شنید یہ بھی ہے کہ مختلف ممالک سے سیکنڈ ہیڈ ٹائر اور دیگر سامان کے جو کنٹینرز منگوائے گئے تھے یہ مچھر ان میں موجودتھا اور ان کے ساتھ پاکستان امپورٹ ہوا یہاں اس بات کی تحقیق کرنا حکام کا فرض ہے کہ ”کوار نٹائن کنڑول اتھارٹیز “جن کا فرض ہوتا ہے کہ وہ بیرون ممالک سے آنے والی ہرچیز کا معائنہ کریں کہ ان میں کوئی مضر صحت چیزشامل تو نہیں ہے وہ محکمہ کیا کررہا تھا اور اب ان کی گوشمالی کون کرے گا ۔۔۔؟

قارئین اسی طرح صوبہ سندھ جو پاکستان کی معاشی زندگی کی”لائف لائن “ہے جہاں ستر فیصد سے زائد انڈسٹری ہے اور جہاں روشنیوں کا شہر کراچی ایک ماں کی طرح پورے ملک کے غریب لوگوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتاتھا اسے دوطرح کی آفتوں نے آگھیراہے ایک طرف کراچی میں ایم کیوایم ،پاکستان پیپلزپارٹی اور اے این پی کی مسلح لڑائیوں میں ہزاروں لوگ جانیں گنوا بیٹھے اور دوسری جانب اندرون سندھ ہونے والی صر ف ایک ہفتے کی بارشوںنے 20لاکھ سے زائد انسانوں کو گھر سے بے گھر کردیا آج پاکستان آرمی ،پاک بحریہ ،رینجر ز اور دیگر حکومتی ادارے مل کر بھی اس آفت کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہوچکے ہیں ۔

قارئین یہاں ہم موضوع کے دوسرے حصے کی طرف آتے ہیں جس کا تعلق آج کے کالم کے ابتداءمیں امام غزالی ؒ کی بیان کردہ حکایت کے ساتھ ہے نوشیرواں عادل کو اس کے وزیر نے پرانے کامیاب بادشاہوں کی جو تین ،دواور ایک عادتیں باری باری بتائی تھیں صر ف انہی کی روشنی میں اگر ہم اپنے آج کے حکمرانوں کا جائز ہ لیں تو زمین آسمان کا فرق دکھائی دیتاہے ۔

قارئین اگر یاد کریں تو گزشتہ سال سیلاب کے موقع پر ہمار ے صدر پاکستان جنا ب آصف علی زرداری برطانیہ کے دورے پر تشریف لے گئے تھے اور وہاں کے لیڈرز نے بھی اس بات پر تعجب کا اظہار کیا تھا کہ یہ کس طرح کے صدر ہیں کہ ان کے ملک میں لوگ مصیبت میں مبتلاہیں اور یہ ایک غیر ضروری دورے پر وقت ضائع کررہے ہیں آج بھی وہی منظر دوبارہ دکھائی دے رہا ہے جنا ب صدر آصف علی زرادری ایک مرتبہ برطانیہ میں موجودہیں اور ان کا اپنا صوبہ سندھ سیلاب میں غرق ہورہا ہے اور کوئی انہیں اگر صائب مشورہ دینے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا انجام ”ڈاکٹر ذوالفقارمرزا اور شاہ محمودقریشی “جیسا ہو جاتا ہے ۔غالب کی زبان میں ہم بھی یہی کہیں گے
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ ” توکیا ہے “
تمہیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے ؟
جلاہے جسم جہاں ،دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جواب راکھ جستجو کیا ہے ؟
رگوں میں دوڑتے پھرنے کہ ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے ؟
رہی نہ طاقتِ گفتار اور اگر ہوبھی
تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے ؟

قارئین ہم اگرچہ اپنے منہ میں زبان رکھتے ہیں اور یہ زبان اظہار کی طاقت بھی رکھتی ہے لیکن غالب کے اشعار کی طرح ہمیں بھی اپنے حکمرانوں سے کوئی توقع نہیں ہے یہاں پر ازراہ ِ تفنن ایک اور بات بتاتے چلیں کہ جناب صدر آصف علی زرداری نے انگلینڈ سے اپنی کابینہ اور پاکستانی عوام کو ”اجتماعی دعاﺅں “کا قیمتی مشورہ دیا یا نصیحت کی ان کے فرمان کی روشنی میں وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی نے اپنے مریدوں کے ہمراہ پارلیمنٹ ہاﺅس کی مسجد میں اور رحمان ملک نے آئی جی اسلام آبادکے ہمراہ فیصل مسجد اسلام آباد میں اجتماعی دعا کروائی اور خو دبھی حصہ لیا ابھی دعا مانگ کر مساجد سے باہر ہی آئے تھے کہ بارش ختم ہونے کے دعاﺅں کے برعکس ملک کے بیشتر حصوں کو بادلوں نے آگھیر ا اوراسلام آباد سمیت پورے ملک میں ریکارڈ بارش ہوئی ایک اسی بات سے اندازہ لگا لیں کہ اللہ بزرگ وبرتر ہم سے کتنا ناراض ہے اور حکمرانوں کی دعاﺅں میں قبولیت کی کتنی تاثیر ہے ۔

قارئین ہماری اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ حضرت محمد ﷺ کے امتی ہونے کی بدولت ہمارے حال پر رحم فرمائے اور امتحان اور مشکل کی یہ گھڑیاں ختم ہوں ۔آمین ۔

آخر میں حسب ِ روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
جج نے ملزم سے پوچھا
”تم نے آخر اس شخص کی جیب کیوں کاٹی ہے “
ملزم نے معصوم منہ بنا کر جواب دیا
”سر میں دیکھنا چاہتاتھا کہ میں یہ کام کرسکتا ہوں کہ نہیں ۔۔۔؟“

قارئین دعاﺅں کامشورہ دینے والے برطانیہ کے دورے پر موجود ہمارے صدر آخر کیا دیکھنا چاہتے تھے کہ خود تو وہ دوروں پر ہیں اور 18کروڑ پاکستانی ڈینگی اور سیلاب کے رحم وکرم پر ہیں اللہ ہمیں صالح قیادت نصیب فرمائے ۔آمین۔۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 340383 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More