پاکستان کے دشمن

"میں اور وہ" سے اقتباس
تمہیں پتہ ہے پاکستان کا سب سے بڑا دشمن کون ہے۔۔۔ نینا نے پوچھا۔۔۔۔بھارت، اسرائیل اور ان کی پشت پناہی کرنے والے امریکہ اور برطانیہ وغیرہ ۔۔۔ میں نے کہا۔۔۔۔

نہیں یہ روائتی باتیں ہیں اور اس میں ایران اورافغانستان بھی شامل کیے جاسکتے ہیں مگر ایسا نہیں۔۔۔۔ پاکستان کی اصل دشمن پاکستان کی کرپٹ نوکر شاہی،کرپٹ اور بے حس سیاسی قیادت اورخود بے ہمت عوام ہیں۔۔۔ نینا نے کہا۔۔۔۔

اگر عوام میں جرأت ہو، عقل ہو، لکیر کے فقیر نہ ہوں تو وہ ان دشمنوں کو شکست دیکر ایک نئے نکور ماڈرن پاکستان کی تعمیر کرسکتے ہیں جسے کوئی بیرونی دشمن میلی نظر سے دیکھنے کی جرأت نہیں کریگا۔ جب عوام کی ذہنیت غلامانہ ہو۔ ان کا قبلہ لاڑکانہ، نوڈیرو، کنگری ہاؤس، نت ہاؤس، نائن زیرو، باچہ خان ہاؤس اور رائے ونڈ کے جاتی عمرہ فارمز ہوں تو ان کا ہر کوئی دشمن ہوگا۔ مثل مشہور ہے کہ جب ہاتھی بیمار ہوتا ہے تو جنگل کے سارے درندے اس کے قریب ہوجاتے ہیں۔ چونکہ ہاتھی کی موت پر سارے جنگل کو کچھ نہ کچھ کھانے کو مل جاتا ہے۔ اگر ہاتھی تندرست ہو جائے تو درندے واپس اپنی کھچاروں اور کمین گاہوں میں چلے جاتے ہیں۔۔۔۔ یہی حال ملکوں اور قوموں کا ہے۔ جب کوئی ملک اور قوم ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کا شکار ہو اسے جلد از جلد انجام تک پہچانے کیلئے دوسرے ملک اور اقوام بھی میدان میں اتر آتے ہیں۔۔۔۔۔

نینا نے کچھ سوچا اور پھر بولی۔۔۔ بدقسمی سے پاکستان آج کل سخت بیمار ہے۔۔۔۔ ایک بڑا اور قوی ہاتھی جو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہے۔۔۔۔ ایک عظیم ملک جہاں دنیا کے بڑے اور عظیم پہاڑ ہیں۔۔۔ جہاں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں اور وسیع میدان ہیں، جہاں دنیا کے سب سے بڑے گلیشئر اور دریا ہیں۔ جہاں جنگل، باغات اور زرعی زمینیں ہیں۔۔۔ قدرت کی کونسی نعمت ہے جو اس ملک میں نہیں مگر دنیا کی سب سے بڑی کرپٹ بیوروکریسی اور سیاسی جنتا اس کی حکمران اور منتظم ہے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ یہ بھی کہنا چاہئے کہ دنیا کے سب سے زیادہ بے حس، لکیر کے فقیر اور غلامانہ ذہن رکھنے والے اٹھارہ کروڑ عوام بھی اس ملک میں بستے ہیں جنہیں خدا پر نہیں بلکہ ان لوگوں پر بھروسہ ہے جو انہیں دن رات لوٹ لوٹ کر یورپ میں اپنے بینک بھررہے ہیں اپنی آنے والی نسلوں کیلئے فارم ہاؤس، جاگیریں۔ محلات اور پلازے خرید رہے ہیں مگر سب جانتے ہوئے بھی عوام بے حس ہیں اور ان ہی کی ظالمانہ حکمرانی اور لوٹ مار کو جمہوریت کہتے ہیں۔۔۔۔

اس کا حل کیا ہے میں نے پوچھا۔۔۔

اس کا حل ۔ ۔۔ ہاں۔۔۔ اس کا حل ایک گہرا ہل۔۔۔ جیسے راجہ ہل۔۔۔ پھر ایک سہاگہ ۔۔۔ پھر تپتی دھوپ۔۔۔ پھر ایک ہل۔۔۔۔ پھر تمام فالتو اور ناکارہ جڑی بوٹیوں اور جھاڑ جھنگاڑ کی صفائی اور پھر کھاد اور پانی۔۔۔۔نینا نے ایک منجھے ہوئے کسان کی طرح بات کی۔۔۔

میں سمجھا نہیں۔۔۔

تم سمجھ بھی نہیں سکتے۔۔۔۔

تم سکرپٹ رائیٹر اور ریڈر ہو۔ تم صرف اتنا جانتے ہو جتنا بول سکتے ہو۔ تم ہر پروگرام کی ایک سکرپٹ تیار کرتے ہو اور اسے پڑھتے ہو اور پھر ریڈیو یا ٹیلی ویژن پر بول دیتے ہو۔ اچھا اینکر وہی ہوتا ہے جو اپنے موضوع سے نہ ہٹے اور دیے ہوئے وقت میں اسے سمیٹ لے۔۔۔۔

کسان اور لیڈر کے اوصاف مشترک ہوتے ہیں۔ بلکل ویسے ہی جیسے ماں اور دھرتی ہیں۔ ماں اور دھرتی میں جو گہرائی ہے کسان اور لیڈر میں اسی قدر وسعت ہے۔ کسان میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ ایک بنجر اور چٹیل میدان کو اپنی محنت سے سر سبز کرتا ہے۔ وہ فالتو اور بیکار چیزوں کو تلف کرکے کارآمد اور رسیلی چیزیں پیدا کرتا ہے۔۔۔ تم نے میاں بخشؒ کو پڑھا ہے۔۔۔۔ نینا بولی۔۔۔۔

ہاں تھوڑا سا۔۔۔زیادہ نہیں۔۔۔ میں نے جواب دیا۔

ضرور پڑھنا۔۔۔۔

میاں محمد بخش ؒ کے پنجابی کلام میں بڑی وسعت اور گہرائی ہے۔ بابا فریدؒ ، وارث شاہؒ بھلے شاہؒ ، سلطان باھوؒ ، اور شاہ لطیفؒ کا کلام بھی بے مثال ہے مگر ان سب کی تشریح سیف الملوک میں ہے۔ میاں محمد بخشؒ کا مشہور شعر ہے کہ مالی کا کام پانی دینا ہے اور ربّ کا کام پھل اور پھول لگانا۔ اگر تم پودوں اور درختوں کی پیدائش اور پرورش پر غور کرو اور سمجھو تو تمہیں انسان کی پیدائش اور پرورش سمجھ آجاتی ہے۔ پودوں کی بھی نفسیات ہے۔ وہ ایک ماحول میں جیتے ہیں اور پھلتے ہیں۔ اگر انہیں ماحول میسر نہ ہو تو جل جاتے ہیں۔ جس طرح کسان پودوں کی نفسیات سمجھتا ہے اسی طرح ایک لیڈر عوام کی نفسیات کو سمجھ کر انہیں ایک ماحول میں ڈھالتا ہے اگر لیڈر کی نیت صاف اور جذبہ سچا ہو تو ربّ کی طرف سے مدد آہی جاتی ہے۔پھر ملک مضبوط اور قومیں خوشحال ہوتی ہیں۔ ہماری بدقسمتی کہ ہم نے لٹیروں کو لیڈر تصور کر لیا اور ان کی قیادت پر تکیہ کیا۔ ہمارے ملک کے سیاسی ماحول میں اتنا جھاڑجھنگاڑ ہے کہ۔۔۔ اللہ معاف کرے خوف آتا ہے۔۔۔ اس کے باوجود ہم ایٹمی قوت بن گئے۔یہ بھی ایک معجزہ ہے۔۔۔۔

تم کسی انقلاب کی بات کررہی ہو شائد۔۔۔ میں نے پوچھا۔۔۔

تم درست سمجھے۔۔۔ نینا نے کہا۔۔۔ ایک خونی یا پھر فکری انقلاب علاوہ اس کے کوئی دوسری صورت نہیں۔ میں کسی فلسفی کا قول نہیں دھراؤنگی۔ یہ ایک فیشن ہے اور لوگ اپنی علمی دھاک بٹھانے کیلئے قرآن و حدیث سے لیکر ھیگل، ٹائن بی، ابن خلدون اور دیو جانسن تک کے حوالے دیتے ہیں۔ جو انصاف نہیں کرتا وہ عمر ثانی بن جاتا ہے۔ جو عیاری اور مکاری پر ایمان رکھتا ہے وہ فقر و فکر کا مبلغ ہے۔ زندگی کا کوئی پرت اٹھاؤ اس پر منافقت کی سیا ہی سے لکھا ایک حوالہ ضرور ہوگیا۔ فلسفیوں کی بات اپنی جگہ درست مگر ہر کھیت گنا، چاول، کیسر اور کپاس پیدا نہیں کرتا۔ ہر خطے، ملک اور معاشرے کے مسائل الگ ہیں اور ان کا حل بھی الگ الگ ہے۔ یونانی، مصری، ہندی، رومی، ایرانی اور چینی تہذیبوں میں فرق ہے۔ فلسفیوں کے قول سچے ہیں مگر ہر مرض کی دوانہیں۔ یہ قول و اقوال ورکشاپوں، سیمیناروں اور تقریروں کی زینت بڑھاتے ہیں اور تحریروں کے حسن کو نکھارتے ہیں مگر کھیت کی صفائی، فصل کی بیجائی اور کٹائی کے کام نہیں آتے۔ ہمیں ایک اچھا اور ہموار کھیت تیار کرنا ہے جو چار صوبوں ، اضلاع اور دیہاتوں پر مشتمل ہے۔ ہم نے اس کھیت میں موسم کے مطابق اچھی اچھی اور صحت مند فصلوں کے بیج بونے ہیں انہیں پانی دینا ہے اور کیڑے مار اور مضربوٹیاں تلف کرنے والی ادویات چھڑکنی ہیں۔ چوروں، ڈاکوؤں اور جنگلی درندوں کے حملوں سے اپنی فصل کو بچانا ہے تاکہ ملک سے غربت، بھوک اور بیماری ختم ہو۔۔۔ ہمارے مسائل کا حل ٹائن بی، روسو اور ہیگل کے فلسفوں میں نہیں۔ ہماری مٹی میں بھٹائیؒ ، اقبالؒ اور میاں محمد بخشؒ جیسے مفکر اور درویش پیدا ہوئے اور ہمیں ان ہی کے اقوال و افکار میں اپنے مسائل کے حل ڈھونڈنے ہیں۔۔۔

تم پاکستانی اخباریں پڑھتے ہو؟

نہیں۔۔۔۔

پڑھا کرو۔۔۔ نینا نے کہا۔۔۔ پچھلے دنوں ایک بحث چل رہی تھی کہ کیا اقبالؒ کا فکر و فلسفہ ہمیں گیس، بجلی اور روٹی دے سکتا ہے۔۔۔

پھر۔۔۔ میں نے پوچھا۔۔۔۔۔

پھر کیا۔۔۔ لوگوں نے ڈکشنریاں نکالیں۔ کمپیوٹر آن کرلئے اور بحث چھڑ گئی۔۔۔ کسی نے کہا دے سکتا ہے۔ کسی نے کہا نہیں۔۔۔ وہ جو اقبالؓ شناسی کا دعویٰ کرتے ہیں ناشناسوں سے الجھ پڑے اور کافی دنوں تک ایک فضول بحث چلتی رہی۔۔۔۔ فضول اس لئے کہ جو اقبالؒ شناس ہیں وہ بھی ناشناس ہی ہیں چونکہ جس بحث سے عام آدمی کا فائدہ نہ ہو اسے سمجھ نہ آئے وہ فضول ہوتی ہے۔ یہ بحث ایک مخصوص طبقے نے چھیڑی اور دوسرے مخصوص طبقے نے اسے وقت گزاری کا وسیلہ بنا لیا اور وقت گزر گیا۔۔۔۔ اقبالؒ خواص کا نہیں عوام کا شاعر تھا۔ اقبالؒ ایک تحریک اور فکر کا نام ہے جسے سمجھنے کیلئے انگریزی دان ہونا ضروری نہیں۔ قائداعظمؒ انگریزی میں تقریر کرتے تھے تو لوگ روتے تھے۔ یہ لوگ بھی سیالکوٹ کے تھے جس کی مٹی سے اقبالؒ کا خمیراٹھا۔ کسی نے پوچھا روتے کیوں ہو تمہیں کچھ سمجھ آرہی ہے۔ سیالکوٹ کے دیہاتوں سے آئے ان پڑھ کسانوں نے کہا انگریزی سمجھ نہیں آرہی جذبات سمجھ رہے ہیں۔ یہ جو کچھ کہہ رہا ہے وہ سچ ہے اور سچی بات دل پر لگتی ہے۔ یہ ہمارے دل کی بات کررہا ہے۔ قائداعظمؒ وہی بات کررہے تھے جو اقبالؒ نے کی۔ اقبالؒ نے جو کہا وہ بھی نیا نہیں تھا۔ جو اقبالؒ نے کہا وہی سعدیؒ نے فارسی میں کہا، میاں محمد بخشؒ نے پنجابی میں کہا، بٹھائیؒ نے سندھی میں کہا۔ خوشحال خان خٹک اور رحمن باباؒ نے پشتو میں۔۔۔۔

سب نے کہا اے غافلو جاگو، ہمت کرو، غلامی نے نجات پاؤ، غلامانہ ذہنیت چھوڑو اور محنت کرو۔ بحث چھیڑنے والے نے سچ کہا کہ اقبالؒ کے پیغام میں بجلی، گیس اور روٹی نہیں۔ اسے کیا پتہ کہ اقبال ؒ کون تھا۔ہاورڈ اور آکسفورڈ میں تو اقبالؒ نہیں پڑھایا جاتا۔اب تو پاکستانی تعلیمی اداروں میں بھی اقبالؒ اور جناحؒ کی جگہ آصف ذرداری ، نواز شریف اور پرویز مشرف نے لے لی ہے۔سرحد میں باچا خان کی تصویر قائداعظم ؒ کی جگہ سرکاری دفاتر میں دیکھائی دیتی ہے اور ایوان صدر میں ہر طرف بھٹو خاندان نظر آتا ہے۔سندھ میں الطاف بھائی ہیں اور بلو چستان میں کوئی بھی نہیں۔امیر اور حکمران خاندانوں کو کیا پتہ کہ اقبالؒ کا پیغام بے حمیت اور بے ہمت لوگوں کیلئے نہیں۔ اقبالؒ کے پیغام میں غیرت اور جرأت تھی جو ہم نے چھوڑ کر امریکہ کی غلامی اختیار کی ،باہمی اختلافات اور عداوتیں پال لیں ۔اقبالؒ نے اپنے پیغام میں نہیں کہا کہ ڈیم نہ بنانا، بجلی پیدا نہ کرنا۔ کرپشن کرنا اور کرپٹ سیاستدانوں کو لیڈر مان کر ان کی پوجا کرنا۔۔۔ اقبالؒ کا پیغام جرمنوں اور ایرانیوں نے سمجھا اور ان کے پاس بجلی بھی ہے اور کپڑا بھی، گیس بھی ہے اور غیرت بھی، بات صرف سمجھنے کی ہے جسے سمجھ آجائے۔ اقبالؒ کا پیغام غیرت مندوں کیلئے تھااورغیرت اب ہماری میراث نہیں۔۔۔

ہمارے ملک میں ترقیاتی پروگرام، سکیمیں اور پروجیکٹ بھی ایسے ہی بنتے ہیں۔۔۔ وقت گزاری کے لئے۔۔۔ میں نے پوچھا۔۔۔

ہاں وقت گزاری کیلئے۔۔۔۔۔۔

پروجیکٹ، پروگرام اور سکیمیں۔ ترقی اور خوشحالی کے لئے نہیں بلکہ کک بیک، کمیشن، غبن اور کرپشن کے لئے بنتی ہیں۔ جس ملک میں حج سکیم میں کرپشن ہو۔ رشوت ہو، غبن ہو، اقربأپروری ہو وہاں اور کس چیز کی گنجائش رہ جاتی ہے۔۔۔ دیکھو دباتیں یاد رکھو۔۔۔۔

کونسی دو باتیں میں نے کہا۔۔۔۔۔

پہلی بات یہ کہ فکرو فلسفہ ایک بنیادی چیز ہے۔ کنفیوششش کے فکرو فلسفہ نے ایک افیونی اور سست قوم کو دنیا کی عظیم اور ترقی یافتہ قوم بنادیا۔۔۔۔ میں چین کا حوالہ دے رہی ہوں۔۔۔۔ کوریا، تائیوان، سینگاپور اور چاپان بھی اسی فکرو فلسفہ پر کار بند ہیں مگر چین دشمنی میں اس کا اظہار نہیں کرتے۔۔۔۔۔

چین میں وقت گزاری کے لئے کنفیوشش اور ماؤکے افکار پر فضول بحث نہیں ہوتی چونکہ وہاں لوگوں کو کام سے فرصت نہیں اور نہ ہی وہاں بیرونی طاقتوں کے تنخواہ دار ، دانشور اور قلمکار ہوتے ہیں۔۔۔۔ اقبالؒ کا فلسفہ و فکر خوداری، قومی غیرت، جذبہ ایثار و قربانی اور انتھک محنت اور لگن پر مبنی ہے۔۔۔۔ ہمارے ملک کے شیدے اور میدے سیاستدان اور حکمران کہتے ہیں کہ خوداری اور غیرت سے جینے کا مطلب امریکی امداد کی بند ش اور بیرونی دوروں اور خیر خیرات پر پابندی ہے۔۔۔۔

ویسے شیدے کی بات میں وزن ہے۔۔۔ میں نے کہا۔۔۔۔

وزن تو من موھن سنگھ، ایل کے ایڈوانی اور سونیا گاندھی کی باتوں میں بھی ہے۔ وزن امریکی تھنک ٹینک اورنیو کانزکی باتوں میں بھی ہے۔۔۔ اگر امداد اور خیرات پر ہی جینا ہے تو امریکہ اور بھارت کی باتیں مان لو۔ بلوچستان، پختونستان، سندھو دیش، جناح پور کوبننے دو۔ فوج اور ایٹمی پروگرام کو ختم کرو اور پنجاب کا نام پاکستان رکھو اور خوشحالی سے جیو۔

یہ کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔ میں نے کہا۔۔۔۔

تو پھر شیدے۔ میدے اور فیدے سے نجات حاصل کرو۔ امریکی امداد کو مسترد کرو اور ایک بار دیوالیہ ہونے کے لئے تیار ہوجاؤ۔۔۔۔۔ اگر ایک بار ہمت کا مظاہر ہوگیا تو نہ امریکی امداد بند ہوگی، نہ ملک دیوالیہ ہوگا بلکہ شیدوں سے جان چھوٹ جائے گی۔۔۔۔ امریکہ افورڈ ہی نہیں کر سکتا کہ پاکستان چین کے اور قریب ہوجائے اور کلی طورپر چین پر انحصار کرے۔ سعودی عرب بھی پاکستان سے قطع تعلق نہیں کریگا اور بہت سے ملک پاکستان کے قریب ہوکر۔ اس کی نیوکلیئر ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرینگے۔۔۔۔۔

اس کا مطلب۔۔۔۔۔۔ میں نے پوچھا۔۔۔۔

مغرب اور امریکہ کی مکمل شکست اور دنیا میں نئی ہلچل۔۔۔۔۔ ایک نئی طالبانا ئیزیشن اور ایک خونی انقلاب اور سیلاب جو پاکستان، افغانستان اور ایران کے دریاؤں سے بہتا ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر سب کچھ بھسم کردے گا۔ جب سمندروں کو آگ لگے گی تو کوئی ایٹمی قوت، بحری بیڑہ، بندگاہ، ملک اور قوم اس کی تپش سے بچ نہ پائے گی۔۔۔۔۔ یہ امریکہ کو بھی پتہ ہے اور اہل مغرب کو بھی۔۔۔۔ سندھودیش، جناح پور، پختونستان اور گریٹر بلوچستان والے خود فہیمی کے نشے میں ہیں۔۔۔ انہیں پتہ نہیں کہ ٹہنی شاخ سے کٹ کر درخت نہیں بنتی۔ گملے گلدان اور باغ میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ گملوں میں موسمی پھول اور گلدانوں میں کٹی ہوئی شاخین سجائی جاتی ہیں۔ گلدانوں میں پھول اور ٹہنیاں بدل دی جاتی ہیں اور گملوں کے پھولوں کی عمریں مختصر ہوتی ہیں۔۔۔۔

دوسری بات کیا تھی۔۔۔۔ میں نے پوچھا۔۔۔۔۔

دوسری بات پہلی بات کی تشریح ہے۔۔۔۔ نینا نے کہا۔۔۔۔

دوسری بات خوداری سے جیو۔ خود انحصاری کا مظاہرہ کرو۔۔۔۔ ظالم کا ہاتھ روکو اگر نہیں رکتا تو توڑو۔ عدل مانگو نہیں ملتا تو بے عدل کو عدالت سے باہر نکالو۔ انصاف کرو اور انصاف مانگو۔۔۔۔۔

یہ تو سول نافرمانی کی باتیں ہیں۔۔۔۔

نہیں۔ یہ سول نافرمانی نہیں بلکہ خوداری اور غیرت کی باتیں ہیں۔

کیا پولیس گردی کا شکار ہوکر جیل جانے اور باہر آکر چور، ڈاکو اور سمگلر بننے سے بہتر نہیں کہ ظالم اور
کرپٹ پولیس والے کا مقابلہ کیا جائے۔۔۔۔

تم ٹھیک کہتی ہو۔۔۔۔ میں نے کہا۔۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔۔۔

مگر کیا۔۔۔۔۔

مگر ایسا ممکن نہیں۔۔۔۔ اگر ظالم پولیس والے کا مقابلہ کروگے تو صفحہ ہستی سے نہ صرف خود مٹ جاؤگے بلکہ سارے خاندان کو ساتھ لے ڈوبو گے۔ہر سیاسی جماعت میں کرپٹ سیاستدان، سمگلر، ڈاکو، گدی نشین پیر اور مخدوم تو ہوتے ہی ہیں مگر ان سب کے علاوہ کچھ ججوں، جرنیلوں، سول بیوروکریسی اور صحافیوں کی خاموش ممبر شب بھی ہوتی ہے جو اس کرپٹ نظام کو چلاتے ہیں اور اپنااپنا حصہ لیتے ہیں۔ پولیس ان ہی خاموش سیاسی ممبروں اور کارکنوں کے اشاروں پر سیاسی گھرانوں اور ان کے جیالوں اور عدالتوں کی خدمت کرتی ہے۔ ظالم سرکاری اہلکار کو چیلنج کرنے کا مطلب ایک سیاسی جماعت سے ٹکر لینا اور انڈر ورلڈ کے غنڈوں اور لیڈروں کو للکارنا ہے۔۔۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا۔۔۔نینا نے کہا۔۔۔تم ٹھیک کہتے ہو۔ ۔۔شائد میں جذباتی ہوگئی تھی۔۔۔۔ سندھ میں ایک مشہور ڈاکو تھا۔ ناور جسکانی۔۔۔۔۔

وہ ایک عام آدمی تھا۔ شائد میں صحیح نہ بتا سکوں مگر میں نے ایسا ہی سنا ہے۔ نادر جسکانی ایک غریب لڑکا تھا اور کہیں سکھر کے علاقہ میں سڑک کے کنارے ہوٹل پر ٹی بوائے کا کام کرتا تھا۔ اس ہوٹل پر پنجاب اور کراچی سے آنے والے ٹرک رکتے تھے اور مسافر کچھ دیر کیلئے آرام کرتے تھے۔

ایک دن ایک ٹرک خراب ہوگیا اور نادر نے ٹرک ڈرائیور اور کنڈیکٹر کو قریب ہی اپنی جھگی میں رات گزارنے کی دعوت دی۔ ٹرک ڈرائیور نے نادر کی ہمدردی کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور رات کے اندھیرے میں اس کی معصوم بہن اور بیوہ ماں کے ساتھ بدکاری کا مرتکب ہوا۔نادر کو پتہ چلا تو اس نے بدلہ لیا اور ٹرک ڈرائیور کو ہلاک کردیا۔

پھر۔۔۔۔۔ میں نے پوچھا۔۔۔۔

نادر پر قتل کا مقدمہ بنا اور پولیس نے نادر پر ہر طرح کا ظلم کیا۔پولیس والوں نے اس کی ماں اور بہن کو کئی کئی بار اپنی ہوس کا نشانہ بنایا اور پھر کسی نے شائد پولیس والوں نے ہی اس کی بہن کو قتل کردیا اور ماں علاقہ چھوڑ کر روپوش ہوگئی۔

نادر کسی طرح پولیس کے شکنجے سے بھاگ کر کچے میں چلا گیااور ڈاکوؤں کے جھتے میں شامل ہوا۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ نادر نے چن چن کر پولیس والوں، بدمعاش ڈرائیوروں اور اپنے مخالفین کو قتل کیا۔ ٹرک، بسیں اور گاڑیاں لوٹیں اور سارے سندھ میں دہشت کی علامت بن گیا۔ نادر جسکانی کو پکڑنے اور مارنے کے لئے پولیس ناکام ہوئی تو فوج طلب کی گئی مگر کامیابی نہ ہوئی۔ آخر کار نادر کے ایک ڈی ایس پی دوست نے اسے گھر بلا کر قتل کردیا اور لاش ریلوے پھاٹک پر لاکر پولیس مقابلہ ظاہر کردیا۔۔۔۔

ریلوے پھاٹک پر کیوں۔۔۔۔ میں نے سوال کیا۔۔۔۔

ڈی ایس پی نے کہا کہ اسے مخبر نے بتایا تھا کہ نادر جسکانی اس راستے سے بھیس بدل کر گزرے گا لہٰذا نے میں پھاٹک پر ناکہ لگا یا اور نادر کو دھر لیا۔۔۔

نادر کے متعلق کئی قصے اور کہانیاں گھڑی گئیں۔ نادر کا تعلق الذولفقار نامی تنظیم سے جوڑا گیا۔۔۔۔۔ نادر کو بیرونی قوتوں کا ایجنٹ بتا یا گیااور جب بے نظیر کی پہلی حکومت آئی تو نادر سمیت تمام ڈاکوؤں کو سیاسی ورکر اورجمہوریت کی راہ پر قربان ہونے والے ہیروز بنا دیا گیا۔

دیکھو اگر پولیس انصاف سے کام لیتی تو نادر کی ماں اور بہن سے زیادتی کرنے والوں کو عدالت میں لاتی اور انہیں سزا دلواتی تو نادر قاتل نہ بنتا۔ اگر سیاستدان اور میڈیا ذمہ داری کا ثبوت دیتے تو اصل حقائق کو سامنے لاتے اور ڈاکو اور قاتل سیاسی ورکر اور جمہوریت کی راہ پر جان نچھاور کرنے والے ہیرونہ بنتے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سیاستدان، ان کا ہمنوا میڈیا، جرائم پیشہ عناصر اور پولیس ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔۔۔۔۔

اس کا کوئی حل بھی تو ہوگا۔۔۔۔ میں نے نینا سے پوچھا۔۔۔۔

اس کا حل خونی انقلاب، ایک سول نافرمانی کی تحریک یا پھر مثبت اور تعمیری سوچ۔۔۔۔۔

مثبت اور تعمیری سوچ کو کس طرح اجاگر کیا جائے کہ سول نافرمانی اور خونی انقلاب سے بچا جا سکے۔۔۔۔ میں نے کہا۔۔۔۔

سیاسی بت پرستی کو ترک کرکے اچھے اور عام لوگوں کا چناؤ جیسے ایران، ملائشیا، روس اور ونزویلا کے عوام نے کیا۔۔۔۔۔ آزاد خودمختار اور سیاسی وابستگی سے مبرا اور کرپشن سے پاک عدلیہ۔۔۔۔۔ سیاستدانوں، جاگیرداروں اور بیوروکریسی کا شفاف اور کڑا احتساب۔۔۔۔۔ صوابدیدی اختیارات، صوابدیدی کوٹے اور استحقاق کا خاتمہ۔۔۔۔۔ سینیٹروں، اسمبلی ممبروں اور وزیروں مشیروں کے پروٹوکول اور عیاشیوں کا خاتمہ۔۔۔ورنہ صرف اور صرف تباہی بربادی اور غلامی۔۔۔

مگر نینا یہ ممکن نہیں۔ وزیر کو سیکیورٹی کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔۔ میں نے کہا۔۔۔۔

برطانیہ میں بھی وزیر ہیں۔ چین اور امریکہ میں بھی سینیٹر اور کانگریس کے ممبر ہوتے ہیں۔ ہر ملک میں حکومتی اور سرکاری لوگ ہوتے ہیں۔ کیا ان ملکوں کی پولیس کا کام صرف اور صرف وزیروں، مشیروں، سرکاری اہلکاروں اور اسمبلی ممبروں کی حفاظت ہوتا ہے۔ نہیں۔ ۔۔ جسے خود پر بھروسہ نہیں۔۔۔۔ جسے عوام میں پذیرائی نہیں۔۔۔ جس کے عمل و کردار کی وجہ سے اس کی جان کو خطرہ۔۔۔ جس نے لوٹ مار کا مال جمع کر رکھا ہے۔۔۔۔ عوام میں رہتے ہوئے خوف آتا ہے وہ الیکشن نہ لڑے اور نہ ہی وزیر بنے۔۔۔۔ اپنے گھر میں رہے اپنی حفاظت خود کرے اور مزے سے جیئے۔۔۔۔

اس سے آدھے مسائل حل ہوجائینگے۔ حکومت قانون سازی کرے اور صرف مناسب سیکورٹی کے علاوہ پولیس کو اپنا کام کرنے دے تاکہ ملک میں قانون کی حکمرانی ہو اور ہر شخص کو تحفظ ملے۔۔۔۔۔ اگر پولیس سیاستدانوں کی حفاظت پر ہی لگی رہے گی تو یقیناًغنڈہ گردی بڑھے گی اور عوام میں بد دلی اور بے چینی ہوگی۔ کرپشن میں اضافہ ہوگا اور عوام کا حکومتی اداروں سے اعتماد اٹھ جائے گا۔۔۔۔۔ عدلیہ میں کرپٹ اور سیاسی جج ہونگے تو فیصلے با اثر لوگوں کے حق میں ہونگے۔ اور عوام حاجی منگل باغ آفریدی، فضل اللہ، صوفی محمد اور بیت اللہ مسعود کی طرف دیکھیں گے۔ اگر یہ مرگئے یا ماردیئے گئے تو ایسے درجنوں اور پیدا ہوجائینگے چونکہ فضل اللہ اینڈ کمپنی کرپٹ سیاسی عدالتی نظام کاری ایکشن ہے۔ یہ فیصلہ بھی عوام کو کرنا ہے کہ انہیں ایک صاف ستھرا سیاستدان، عدل کرنے والا جج اور حفاظت کرنے والا پولیس مین چاہئے یا ایک خودکش بمبار یا منگل باغ آفریدی۔۔۔۔۔

عدالت، پولیس اور سیاستدان سے منگل باغ کا کیا تعلق ۔۔۔۔۔ میں نے پوچھا۔۔۔۔

میں نے کہا ناں کہ منگل باغ اور فضل اللہ معاشرتی اونچ نیچ، غنڈہ گردی، سیاسی دہشت گردی، نا انصافی اور پولیس گردی کا ری ایکشن ہے۔۔۔لوگ ججوں سے عاجز آکر طالبان کے پاس چلے گئے ۔ انہوں نے فضل اللہ، منگل باغ اور مسعود کو اپنا لیڈر مان لیا اور ان کے حکم پر لوگوں کے گلے کا ٹنا اور خود کو بارود سے اڑانا شروع کردیا۔۔۔۔ اگر آج یو این او کی نگرانی میں آزاد اور شفاف الیکشن ہوں تو لوگ زرداری، میاں برادران اور چوہدریوں کے مقابلے میں منگل باغ،مولوی عبدالعزیز اور فضل اللہ کو زیادہ ووٹ دینگے۔۔۔۔۔
کیا یہ لوگ ملک بھی چلا لینگے۔۔۔۔ میں نے پوچھا۔۔۔۔۔

نہیں۔۔۔۔۔ ملک تباہ کردینگے۔۔۔۔۔۔

زرداری، میاں اور چوہدری آہستہ آہستہ تباہ کرینگے اوراپنا اپنا حصہ امریکہ ، کوریا، برطانیہ، فرانس وغیرہ لے جائینگے۔ جیسے پرویز مشرف، شوکت عزیز اور سینکڑوں روشن خیال اور ان کے ہم خیال لے گئے۔۔۔۔ زرداری، میاں اور چوہدری غیر محسوس طریقے سے اور چند سالوں میں جو کام کریں گے۔ مولوی، ملاں اور طالب چند دنوں میں کردینگے جیسے انہوں نے سوات اور بونیر میں کیا۔۔۔۔۔پھر۔۔۔۔۔۔ ؟پھر وہی۔۔۔۔۔ آزاد عدلیہ، ذمہ دار بیوروکریسی اور مڈل کلاس اور پڑھی لکھی سیاسی قیادت۔۔۔۔۔۔ ورنہ منگل باغ اور فضل اللہ۔۔۔۔۔ نینا نے کہا۔۔۔۔۔

یہ لوگ تو جلد مارے جائینگے۔۔۔ فوج انہیں ختم کردے گی۔۔۔ حکومت سے لڑنا مشکل ہے۔ چاہے امریکہ، روس، اسرائیل اور بھارت طالبان کی کتنی ہی مدد کیوں نہ کریں۔ امریکہ اور اہل مغرب کا دوغلہ پن بھی زیادہ عرصہ نہیں چلے گا اور نہ ہی غیر ملکی خزانے پر چلنے والی تحریک طالبان لمبی مدت تک اپنا وجود قائم رکھ سکے گی۔ ۔۔ میں نے کہا۔۔۔۔۔

تم ٹھیک کہتے ہو مگر یہ ابتداء ہے۔۔۔ موجودہ تحریک طالبان ایک بنیاد ہے کچھ لوگ ان سے لاتعلق بھی ہوجائینگے اور نفرت بھی بڑھے گی چونکہ ان کے رویے میں درندگی اور سفا کی ہے۔ مگر آنے والے طالبان ایسے نہیں ہونگے۔ وہ قرآن سمجھنے والے اور نرم رویہ رکھنے والے ہونگے۔۔۔۔ ان کا طریقہ مختلف ہوگا۔۔۔۔ وہ سوات کے جنگلوں میں نہیں پارلیمنٹ ہاؤس اور گورنر ہاؤس کے سامنے ہونگے۔۔۔۔۔ تم نے چاؤ سیسکو کا اختتام دیکھا تھا۔۔۔۔۔ نینا نے پوچھا۔۔۔۔۔۔

نہیں۔ ۔۔۔ میں نے جواب دیا۔۔۔۔۔

وہ بھی ایک طالبانائیزیشن ہی تھی۔۔۔۔۔جیسے ایران میں ہوا۔۔۔۔۔
Anwaar Raja
About the Author: Anwaar Raja Read More Articles by Anwaar Raja: 71 Articles with 70190 views Anwaar Ayub Raja is a professional Broadcaster, voice over artist and linguist for Urdu and Mirpuri languages. Soon after graduating from University o.. View More