شہرہ آفاق کالم نگار ، ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف محمد اسلم لودھی - (23ویں قسط )

ملک کی اہم علمی، ادبی ، معاشرتی شخصیات اور پاک فوج کے شہیدوں پر لکھناآپ کا محبوب مشغلہ رہا
غریب گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود آپ نے غربت کو اپنے راستے کی دیوار نہیں بننے دیا
آپ دو سال روزنامہ جرات،چھ ماہ روزنامہ دن ، تین سال روزنامہ پاکستان ، دو سال پشاور کے ارود اخبار آج اور چودہ سال نوائے وقت میں ہفتہ وار کالم لکھتے رہے
آپ کو 2007ء میں اردو کالم نگاری کا پہلا ٹیٹرا پیک ایوارڈ (پچاس ہزار کا چیک)حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے
انٹرویو ۔ شہزاد چودھری

 سوال۔لودھی صاحب یہ بتائیں کہ کیا میجر شفقت بلوچ کو اس عظیم کارنامے کی انجام دھی پر کوئی فوجی اعزاز دیا گیا کہ نہیں؟ جب میجر شفقت بلوچ کو بریگیڈ کمانڈر نے ہڈیارہ ڈرین سے واپس بلا یا تو ان کے بعد پاک فوج کے کس افسر کی قیادت میں جوانوں نے بھارتی فوج کے مکروہ عزائم کو خاک میں ملا یا ۔؟
اسلم لودھی ۔ شہزاد صاحب جہاں تک میجر شفقت بلوچ کی بہادری کا معاملہ ہے ،بھارتی فوج کے جس بریگیڈ نے برکی سیکٹر پر حملہ کیا تھا۔ اس کی کمانڈلیفٹننٹ جنرل ہربخشش سنگھ کے پاس تھی ۔ہربخش سنگھ نے اپنی کتاب میں میجر شفقت بلوچ اور پاک فوج کے جوانوں کی بہادری کا ذکر نہایت اچھے طریقے سے کیا ہے ۔چنانچہ میجر شفقت بلوچ کو جنگ کے خاتمے پر صدر پاکستان محمد ایوب خاں نے ستارہ جرات کے اعزاز سے نوازا۔ یہ نشان حیدر کے بعد سب سے بڑا فوجی اعزاز تصور کیا جاتا ہے ۔ جنگ کی باقی تفصیل اس قسط میں ملاحظہ فرمائیں-:
.........................
بھارتی فوج کے جرنیل ہربخش سنگھ کی کتاب میں ہڈیارہ ڈرین کے محاذ پر ناکامیوں کی کئی اور وجوہات بھی لکھی ہیں ۔جن قارئین کو جنرل ہربخشش سنگھ کی کتاب میں ہڈیارہ ڈرین کے حوالے سے مزید پڑھنے کی جستجو ہو ،وہ میری کتاب قومی ہیرو حصہ اول کے صفحہ نمبر 231پر پڑھ سکتے ہیں ۔اس حوالے سے جب میجر شفقت بلوچ سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا بھارتی جرنیل یہ بتائیں کہ بھارتی فوج کے بریگیڈ نے 12گھنٹے میں کتنے علاقے پر قبضہ کیا ۔کتنے پاکستانی قیدی بنائے اور کتنے پاکستانیوں کی نعشیں قبضے میں کیں۔اس حوالے سے بھارتی جرنیل کی کتاب بالکل خاموش ہے بلکہ انہوں نے یہ لکھ کر اپنی شکست کا اعتراف خود کرلیا کہ حملہ آور بریگیڈ کی تین پلٹنیں شدید مزاحمت کی وجہ سے صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔گویا بھارتی فوج کی ان تین پلٹنوں کو مٹانے والے پاکستانی فوج کے ہی جوان تھے۔
.......................
1965ء کی جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ بھارتی فوج کو برکی سیکٹر میں دس گھنٹے روکنے کے بعد بریگیڈ کمانڈر نے اس لیے میجر شفقت بلوچ اور ان کی کمپنی کے جوانوں کو واپس بلالیا تھا کہ اب میجر عزیز بھٹی کی قیادت میں ان کی کمپنی کے جوان بی آربی کے مشرقی کنارے پر پوزیشنیں سنبھال چکے تھے ۔ اب دشمن کے سامنے میجر عزیزبھٹی اور ان کی کمپنی کے جوان سینہ سپر تھے ۔میجر بھٹی پیچھے رہنے کی بجائے او پی پوسٹ پر جا پہنچے ۔یہ برکی گاؤں کا ایک چوبارہ تھا جس کے بالا خانے میں موجود رہ کر میجر بھٹی نے بھارتی فوج پر اس قدر کامیابی سے گولہ باری کروائی کہ بھارتی فوج کی پیش قدمی رک گئی۔ بھارتی فوج حیران تھی کہ اس قدر صحیح نشانے سے فائرکا آنا اس بات کا ثبوت تھا کہ ان کے قریب ہی کوئی ماہر نشانہ باز اوپی موجود ہے جو بالکل صحیح رینج پر گولہ باری کروا کر بھارتی فوج کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہا ہے ۔جس بالا خانے پر میجرعزیز بھٹی پچھلے تین دن اور تین راتوں سے اپنے اوپی کے ساتھ موجود تھے ۔اس چوبارے پربھارتی توپ خانے نے بے تحاشا گولہ باری کی لیکن قدرت خدا کی میجر بھٹی ہر حملے میں محفوظ رہے۔بھارتی فضائیہ کے طیاروں نے بھی نیچی پرواز کرکے بالا خانے کو تباہ کرنے کی جستجو کی ۔جس سے اس چوبارے کو قدرے خاصا نقصان تو پہنچا لیکن میجر بھٹی اور او پی محفوظ رہے ۔پھر وہ لمحہ بھی آ پہنچا جب بھارتی فوج نے اس چوبارے کو چاروں اطراف سے گھیر لیا۔ اب وہاں سے بچ کر نکلنا تقریبا ناممکن تھا ۔چنانچہ میجر بھٹی اپنے اوپی کے ہمراہ بالا خانے سے نیچے اترے تو بھارتی فوج کا ایک دستہ وہاں موجود تھا ۔جنہوں نے دیکھتے ہی ہینڈاز اپ کا حکم دیا ۔میجر بھٹی کا اشارہ ہوتے ہی سٹین گن گولیاں اگلنے لگیں اور چند ہی لمحوں میں وہاں موجود بھارتی فوجی ڈھیرہو چکے تھے ، جو بچے وہ بھاگ نکلے ۔اس طرح میجر بھٹی محاصرہ توڑ کر بی آر بی کے مغربی کنارے پر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ۔دشمن بی آربی کے مشرقی کنارے تک پہنچنے میں کامیاب ہوچکا تھا۔میجر بھٹی نے جوانوں کونہر کے ساتھ ساتھ پوزیشنیں لینے کا حکم دے کر خود نہر کے اونچے کنارے پر کھڑے ہوکر دشمن کی پیش قدمی اور فائرنگ رینج کا جائزہ لینے لگے ۔صوبیدار نے کہا میجر صاحب آپ براہ راست دشمن کی زد میں ہیں۔ اس لیے پٹڑی سے نیچے اتر آئیں ۔میجر بھٹی نے جواب دیا۔ اس بات کا مجھے بھی علم ہے کہ میں دشمن کی فائرنگ کی زد میں ہوں لیکن اس سے اونچی کوئی اور جگہ نہیں جہاں کھڑا ہو کر میں دشمن کی نقل وحرکت کا مشاہدہ کرسکوں ۔میری جان کی فکر مت کرو۔ اس لمحے وطن عزیز کی حفاظت اور سلامتی ہر چیز پر مقدم ہے۔ اگر میری جان وطن عزیز پر قربان ہوجائے تو اس سے زیادہ خوش قسمتی اور کیا ہو گی ۔آپ بغیر آرام کئے 120گھنٹے سے مسلسل مصروف جنگ تھے لیکن ہشا ش بشاش دکھائی دے رہے تھے ۔کمانڈنگ آفیسر نے کہا میجربھٹی آپ نے اس محاذ پر تاریخی جنگ لڑی ہے، میں آپ کو مبارک باد دیتا ہوں لیکن بہ حیثیت انسان آپ کو آرام کی ضرورت ہے۔میجر بھٹی نے شدت جذبات سے مغلوب ہوکر کمانڈنگ آفیسر کو کہا جس جذبے اور احساس کے ساتھ آپ نے مجھے یاد کیا ۔میں اس کے لیے ممنون ہوں ۔آپ یقین کیجئے میرے لیے آرام و راحت محاذ جنگ پر ہی ہے اگر مجھے واپس بلا لیا گیا تو یہ میرے لیے روحانی عذاب ہوگا۔میں پچھلے مورچوں پر جانے کی بجائے وطن عزیز کی حفاظت کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرنا زیادہ پسند کرتا ہوں ۔اس پر کمانڈنگ آفیسر لاجواب ہوگئے ۔
دشمن کو ہر لمحے کمک پہنچ رہی تھی ۔میجر بھٹی کا خیال تھا کہ دشمن پیش قدمی کے لیے بی آربی نہر پر عارضی پل بنانے کی کوشش کریگا ۔اس لیے انہوں نے پیٹرولنگ کا حکم دے دیا ۔متواتر جاگنے سے میجر بھٹی کی آنکھیں سوجھ چکی تھیں ۔ وہ پلکیں جھپکنے میں تکلیف محسوس کررہے تھے۔، تھوڑی دیرجیپ پر رکھے ہوئے سٹریچر پر آرام کیا لیکن اس لمحے تھوڑی سی غفلت بھی بہت بڑے نقصان کا باعث بن سکتی تھی ۔12ستمبر کی صبح برکی سے شمال کی جانب کھجورں کے درختوں میں دشمن کے فوجی ٹینکوں اور توپوں سمیت نہر کی طرف بڑھتے دکھائی دیے۔آپ نے رینج کا تعین کرکے فائر مانگا جس سے پیش قدمی والے اکثر بھارتی فوجی مارے گئے، جو باقی بچے وہ واپس بھاگ گئے۔ میجر بھٹی نہرکے بلند کنارے سے نیچے اتر آئے ، وضوکرکے نماز پڑھی اور صوبیدار غلام محمد کے ساتھ چائے پینے لگے ۔صوبیدار اعلی پائے کے دست شناس بھی تھے ۔میجر بھٹی نے انہیں اپنا ہاتھ دکھایا اور پوچھا کیامیرے نصیب میں شہادت ہے یا نہیں ۔؟ صوبیدار نے ہاتھ دیکھ کر کہا شہادت تو لکھی ہے لیکن یہ نہیں پتہ کب نصیب ہو۔میجر بھٹی نے ہاتھ کھینچ کر بتایا۔ میں آپکو بتاتا ہوں میری شہادت بہت قریب ہے ۔اس کے بعد نئی وردی پہنی اور ایک بار پھر نہرکے بلند کنارے پر دشمن کی پیش قدمی کا جائزہ لینے لگے ۔انہوں نے دیکھا کہ دو ٹینک تیزی سے نہر کی جانب بڑھ رہے ہیں ۔میجر بھٹی نے رینج بتاکر فائر مانگا تو دونوں ٹینک تباہ ہوگئے۔ ان کے پیچھے ایک اور ٹینک گولہ باری کرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ اس ٹینک میں بیٹھے ہوئے دشمن نے شاید انہیں دیکھ لیا تھا ۔اسی لمحے گولے کا ایک شیل میجربھٹی کی جانب بڑھا پھر جلتا ہوا فولاد ان کے سینے سے پارہوگیا ۔برکی محاذ پر سات دن اور سات راتیں جاگنے والے پاک فوج کے عظیم مجاہد میجر راجہ عزیز بھٹی ابدی نیند سو گئے ۔ بے مثال بہادری کا مظاہرہ کرنے پر آپ کو بعد از شہادت نشان حیدر کے اعزاز سے نوازاگیا ۔اس طرح یہ اعزاز حاصل کرنیوالے آپ پاک فوج کے تیسرے آفیسر تھے ۔
........................
بھارتی شہر کھیم کرن پاک فوج کے قدموں میں
لاہورکے محاذ پر پٹائی کے بعد بھارتی فوج نے قصور شہر کی مشرقی سرحد پر یلغار کردی ۔بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بتاتا چلوں کہ قیام پاکستان سے پہلے قصور شہر اور کھیم کرن ضلع لاہور کے دائرہ کار میں ہی آتے تھے ۔ 14اگست 1947کے بعد ریڈ کلف کی مہربانی سے کھیم کرن کو بھارت میں شامل کردیا گیا۔ یوں بین الاقوامی سرحد کی لکیر قصور اور کھیم کرن شہر کے درمیان صرف سات میل کے فاصلے پر کھینچ دی گئی ۔پینتیس ہزار آبادی کا یہ شہر تاریخی اہمیت کا حامل تھا ۔ مغروربھارتی فوج طاقت کے نشے میں چورجب اس محاذ پر آگے بڑھی تو پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے اس کے بڑھتے ہوئے قدم نہ صرف روک دیئے بلکہ بھارتی فوج پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ وہ اپنے ہی فوجیوں کی لاشیں چھوڑ کر پسپا ہو گئی اور بھارتی فوج کے زیراستعمال شرمن ٹینک ذلت و رسوائی کی تصویر بنے، جگہ جگہ اپنی تباہی کی داستان سنا رہے تھے ۔8ستمبر 1965ء کو ہمارے توپ خانے نے چن چن کر بھارتی مورچوں کو نشانہ بنایااور روہی نالے پر پل بنا کر اسے عبور کرکے پاک فوج اسل اتر اور چیمہ کے درمیان پہنچ گئی ۔دن کے دس بج رہے تھے۔ جب رسالدار لال خاں نے چار ٹینکوں کی قیادت کرتے ہوئے پیش قدمی کی تو اردگرد کپاس اور گنے کی اونچی فصلوں میں چھپے ہوئے بھارتی فوجیوں نے اندھادھند فائرنگ کردی ۔جس سے رسالدار لال خاں اپنے ٹینک میں ہی شہید ہوگئے لیکن ان کے ساتھیوں نے وضعدار حسن کی قیادت میں پیش قدمی کو جاری رکھا ۔ابھی کچھ ہی فاصلہ طے ہوا تھا کہ وضعدار حسن بھی جام شہادت نوش کرگئے ۔رات کے اندھیرے نے جب ماحول کو سیاہ چادر پہنا دی تو پاک فوج کے ٹینک بھورا کاہنا اور آسل اتر کے درمیان سڑک کے ساتھ اکھٹے ہوگئے ،اتنے میں ایک ٹینک بہت تیزی سے اس جانب بڑھتا دکھائی دیا، قریب آکر ٹینک میں سوار سکھ فوجی نے گردن نکال کر پوچھا۔ کیا آج کی رات ہم یہاں ہی ٹھہریں گے۔تو پاک فوج کے جوانوں نے ان کے سینے پر سٹین گن رکھ کر کہا ہاں سردار جی ۔ آپ ہمارے مہمان بن چکے ہیں ۔بھارتی ٹینک ہاتھ لگ چکااور سکھ فوجی کو جنگی قیدی بنا لیا گیا ۔جب یہ خبر بھارتی فوج تک پہنچی تو بھارتی توپ خانے نے رات گیارہ بجے زبردست گولہ باری شروع کردی ۔ہمارے مجاہدوں کو خدا پر بھروسہ تھا۔ وہ ٹس سے مس نہ ہوئے ۔بھارتی توپ خانے کے جتنے گولے فائر ہوئے وہ ہمارے ٹینکوں اور فوجیوں سے کچھ فاصلے پر ہی گرتے رہے ۔جبکہ ہمارے ٹینک اور فوجیاس گولہ باری سے محفوظ رہے ۔اگلی صبح جب یہ توقع کرکے بھارتی فوج نے پیش قدمی شروع کوشش کی تو پاک فوج کے جوانوں نے بھارتی فوج پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ پسپائی اختیارکرتے ہوئے کھیم کرن کے قدیمی شہر سے بھی پیچھے پسپا ہو گئی ۔برگد کے درخت کے نیچے ایک کنواں تھا جس کے قریب ہماری ٹینک شکن توپ لگی ہوئی تھی اور مسلسل گولہ باری سے دشمن کے ٹینکوں کوراکھ کا ڈھیر بنا رہی تھی ۔
( جاری ہے)
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 665606 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.