شہرہ آفاق کالم نگار ، ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف محمد اسلم لودھی - (22ویں قسط )

ملک کی اہم علمی، ادبی ، معاشرتی شخصیات اور پاک فوج کے شہیدوں پر لکھناآپ کا محبوب مشغلہ رہا
غریب گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود آپ نے غربت کو اپنے راستے کی دیوار نہیں بننے دیا
آپ دو سال روزنامہ جرات،چھ ماہ روزنامہ دن ، تین سال روزنامہ پاکستان ، دو سال پشاور کے ارود اخبار آج اور چودہ سال نوائے وقت میں ہفتہ وار کالم لکھتے رہے
آپ کو 2007ء میں اردو کالم نگاری کا پہلا ٹیٹرا پیک ایوارڈ (پچاس ہزار کا چیک)حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے
انٹرویو ۔ شہزاد چودھری

سوال ۔ اسلم لودھی صاحب یہ بتائیں کہ جب ایک بریگیڈ بھارتی فوج نے لاہور کے برکی محاذ پر یلغار کردی تو کیا میجر شفقت بلوچ کی قیادت میں ایک کمپنی نے پورے بریگیڈ کو کیسے اور کب تک روکے رکھا ۔میجر شفقت بلوچ سے جو بعد میں آپ کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے اپنی اس کامیابی کی کیا وجوہات بتائیں ۔؟ہماری قائین ان واقعات کو جاننے کی جستجو رکھتے ہیں ؟
اسلم لودھی ۔ شہزاد صاحب اس قسط میں برکی سیکٹر کے ہڈیارہ ڈرین کے دونوں کناروں پر ہونے والا پہلے عظیم جنگی معرکے کی تفصیل شامل ہے اور میجر شفقت بلوچ نے اپنے ایک سو دس جوانوں کو کس طرح ڈرین کے مغربی کنارے پر پھیلا دیا کہ انہوں نے بھارتی فوج کو اس بات کا علم ہی نہیں ہونے دیا کہ ان کے ساتھ صرف ایک سو دس جوان برسرپیکار ہیں ۔قارئین سے گزارش ہے کہ پاک بھارت جنگ کے ابتدائی معرکے کی تفصیل اسی قسط میں پڑھیں -:
.....................
بریگیڈکمانڈر نے بھارتی حملے کی اطلاع جب آرمی چیف جنرل موسی خان کو دی تو وہ بھی سخت پریشان ہوگئے۔ انہوں نے لاہور کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی فوج اس وقت کہاں تک پہنچی ہے ۔ جب انہیں بتایا گیا کہ ہڈیارہ گاؤں پر بھارت کا قبضہ ہو چکا ہے اور وہ تیزی سے ہڈیارہ گندہ نالہ ( ڈرین) کو عبور کرنے کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں ۔جب جنرل موسی خاں نے صدر پاکستان ایوب خان کو بھارتی حملے کی خبر دی تو وہ بھی پریشان ہوگئے ۔انہیں جب بتایا گیا کہ اس وقت ایک بریگیڈ بھارتی فوج کے سامنے میجر شفقت بلوچ کی ایک سو دس جوانوں پر مشتمل 17پنجاب کی ڈی کمپنی ہڈیارہ نالے کے مغربی کنارے پر موجود ہے تو انہوں نے وائرلیس پر میجر شفقت بلوچ سے رابطہ کرکے حکم دیا کہ اگر تم بھارتی فوج کو دو گھنٹے تک روکے رکھو ۔ تو میجر عزیز بھٹی کی قیادت میں پاک فوج کی مزید کمپنیاں دفاع وطن کے لیے بی آر بی کی جانب بڑھ رہی ہیں میجر شفقت بلوچ نے پیغام بھیجا کہ سر جب تک میری کمپنی کا ایک جوان بھی زندہ ہے، بھارتی فوج اس طرف سے لاہور کی جانب نہیں بڑھ سکتی ۔ پھر دنیا نے کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ میجر شفقت بلوچ کی قیادت میں صرف ایک سو دس جوانوں نے بھارتی فوج کے ایک بریگیڈکی نہ صرف پیش قدمی روک دی بلکہ اسے تباہ کردیا۔بعد ازاں بھارتی فوج کو یہاں ایک نیا بریگیڈ لانچ کرنا پڑا ۔ میجر شفقت بلوچ نے ایک ملاقات میں مجھے بتایا کہ میں ہڈیارہ ڈرین کے مغربی کنارے کے اوپر کھڑا ہو کر دور بین سے بھارتی فوج کے ٹینکوں اور توپوں کا مشاہد ہ کر رہا تھا جو تیزی سے ڈرین کی جانب بڑھ رہے تھے ۔اس وقت میرے پاس صرف جیپ پر نصب ایک توپ تھی جس سے میں گولہ باری کروا رہا تھا ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ہمارا ہر گولہ بھارتی ٹینکوں اور توپوں کے پرخچر اٹھا رہا تھا جبکہ بھارتی ٹینکوں ، توپوں ، مشین گنوں کی گولیوں اور گولوں کی جو بوچھاڑ ہماری جانب آرہی تھی ، ہڈیارہ ڈرین کے بلند مغربی کنارے پر کھڑے ہونے کے باوجود مجھے نہیں لگ رہی تھی۔ صرف ایک گولی میرے بازو کو چھوتی ہوئی گزر گئی ۔ میجر شفقت بلوچ نے مزید بتایا کہ انہیں پاک فوج کے جوان بار بار کہہ رہے تھے کہ سر آپ براہ راست دشمن کی زد میں ہیں۔ آپ بند سے نیچے اتر آئیں ۔ لیکن میرا جواب یہی تھا کہ وطن عزیز کے دفاع کے لیے اگر میری جان بھی چلی جاتی ہے تو یہ میری خوش بختی ہوگی ۔ صدر پاکستان ایوب خان نے بھارتی فوج کو دو گھنٹے روکنے کے لیے کہا تھااوریہاں بھارتی فوج کو روکے دس گھنٹے گزر چکے تھے ۔
میجر شفقت بلوچ کی قیادت میں پاک فوج کی ایک کمپنی( جس میں صرف ایک سو دس جوان ہوتے ہیں )نے بھارتی فوج کے ایک بریگیڈ کو حملے کو نہ صرف روکا بلکہ تباہ کرکے دنیا کی عسکری تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کردیا ۔جب میجر عزیز بھٹی کی قیادت میں پاک فوج کی مزید کمپنیاں بی آر بی کے مشرقی کنارے پر پوزیشنیں سنبھال چکی تھی تو میجر شفقت بلوچ کو اپنی کمپنی سمیت واپس آنے کا حکم دے دیا گیا ۔ جب یہ کمپنی بریگیڈ ہیڈ کوارٹر پہنچی تو کمانڈنگ آفیسر نے پوچھا میجر شفقت بلوچ صاحب ہمارے کتنے فوجی جوان شہید ہوئے ۔ میجر شفقت بلوچ نے کہا سر 108 جوان گن لیں ۔ بھارتی کی گولہ باری اور اندھا دھند فائرنگ سے ہمارا کوئی فوجی شہید نہیں ہوا ۔ جب ہم آپ کے حکم پر واپس آرہے تھے تو اپنی ہی بچھائی ہی باروی سرنگوں کے پھٹنے سے ہمارے دو فوجی شہید ہوئے ۔جنگ کے بقیہ واقعات اس روحانی واقعے کے بعد تحریر کیے جائیں گے۔
عمار صدیقی کی ایک کتاب "مجاہدین صف شکن "میں ایک ایسے شخص کا خط شامل ہے جو 5اور 6ستمبر 1965ء کی رات مسجد نبوی ﷺ میں موجود تھا ،وہاں موجود کئی افراد نے ایک ہی خواب دیکھا کہ روضہ رسول ﷺ سے حضرت محمد ﷺ بہت تیزی سے ایک تیزر فتار گھوڑے پر سوار ہو کر باب اسلام میں تشریف لے گئے ۔ صحابہ کرام نے عرض کی ۔ یا رسول اﷲ ﷺ اس قدر جلدی کہاں تشریف لے جارہے ہیں ۔آپﷺ نے فرمایا پاکستان میں جہاد کے لیے جارہاہوں ۔ یہ فرماتے ہی آپ ﷺ برق رفتارسے آپ نظروں سے اوجھل ہوگئے۔آپ کے پیچھے مواجہ شریف سے ہی پانچ صحابہ کرام برق رفتاری سے چلے گئے ۔ان واقعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بظاہر یہ جنگ پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے
لڑی تھی لیکن پس پردہ اس جنگ میں نبی اخرالزمان حضرت محمد ﷺ اور صحابہ بذات خود شریک تھے ۔یہی وجہ ہے کہ بھارتی ٹینکوں، توپوں اور مشین گنوں کے دھانوں سے نکلنے والی گولیوں اور گولے سامنے بلند ٹیلے پر کھڑے میجر شفقت بلوچ کو نہیں لگ سکے ۔یہ بھی کہا جاتا کہ آسمان سے فرشتے بھی تائید خداوندی کے لیے میدان جنگ میں اترے تھے ۔جن لوگوں نے یہ جنگ مکمل ہوش میں دیکھی ہے، وہ میری اس بات کی گواہی دینگے کہ آسمان پر ایک تلوار بھی نمودار ہوئی تھی جس کی ہتھی پاکستان کی جانب اور تلوار کی نوک بھارت کی جانب تھی ۔یہی وجہ ہے اس جنگ کے دوران عقل کو دنگ کردینے والے جنگی اور روحانی واقعات رونما ہوئے ۔
اسی طرح گنج کرم پیر سید محمد اسماعیل شاہ بخار ی المعروف کرماں والوں کی کتاب میں 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے حوالے سے ایک واقعہ بھی موجود ہے ۔اگست 1965ء میں آپ ؒ میوہسپتال لاہور میں زیر علاج تھے ۔جہاں آپ کے پروسٹیٹ کی اوپن سرجری ہوئی تھی ۔سرجری کے بعد آپ کو سخت بخارنے بھی آ گھیرا ۔ اس لیے معالجین نے آپ ؒ کو اپنے گاؤں کرماں والا واپس جانے سے منع کردیا تھا ۔اس لیے آپ ؒ گلبرگ میں اپنے ایک مرید خاص کے گھر ہی قیام پذیر تھے ۔یہ 2ستمبر 1965ء کی بات ہے کہ اچانک آپ نے مریدخاص کو حکم دیا کہ گاڑی تیار کی جائے ہمیں واہگہ سرحد پر جانا ہے ۔عقیدت مندوں نے آپؒ کی توجہ دلائی کہ ڈاکٹروں نے آپ کو سفر سے منع کررکھا ہے ، پھر آپ کو سخت بخار بھی ہے ۔کونسی ایسی ضرورت آن پڑی ہے کہ آپ واہگہ جانا چاہتے ہیں ۔؟آپؒ نے فرمایا جس بات کا علم نہ ہو ۔اس کے بارے میں اصرار نہیں کرنا چاہئے۔ چنانچہ گاڑی تیار ہوگئی تو آپ ؒ اپنے زخموں سے رستے ہوئے خون کے باوجود گاڑی میں سوار ہو کر واہگہ سرحد پر جاپہنچے اور وہاں آپ ؒ ایک چارپائی پر بیٹھ کر کچھ کلمات پڑھتے رہے اور بھارت کی جانب پھونکیں مارتے رہے ۔پھر اپنے ایک ہاتھ میں مٹی اٹھائی اس پر کچھ پڑھا اور بھارت کی جانب پھینک دی ۔شام ہونے سے پہلے آپؒ اپنی قیام گاہ پرتشریف لے آئے ۔ بخار کی شدت کے ساتھ ساتھ زخموں سے خون بہنے لگا ۔ساری رات آپؒ درد سے کراہتے رہے ۔اگلی صبح ہوئی تو پھر آپؒ نے حکم دیا کہ گاڑی تیار کی جائے ۔عقیدت مندوں نے ایک بار پھر آپؒ کو سفر سے روکنا چاہا تو آپ ؒ نے فرمایا ۔بیلیاں سرحدیں بھی تو مضبوط بنانی ہیں ۔مجھے نبی کریم ﷺ کی جانب سے حکم ملاہے کہ یہ فریضہ میں ادا کروں ۔یہ کہتے ہوئے آپ ؒ ایک بار پھر برکی ہڈیارہ سیکٹر جا پہنچے ۔وہاں بھی سرحد کے قریب چارپائی پر لیٹ کر خاموشی سے کچھ پڑھتے رہے اور بھارت کی جانب پھونکیں مارتے رہے ۔ واپس آنے سے پہلے آپ نے ایک ہاتھ میں مٹی اٹھائی اور اس پر کچھ کلمات پڑھ کے بھارت کی جانب پھینک دی اور گلبرگ میں اپنی قیام گاہ پر واپس آگئے ۔ ساری رات تکلیف اور پریشانی میں گزاری ۔ تیسری صبح ایک بار پھر آپؒ نے گاڑی تیار کرنیکا حکم دیا۔اور فرمایا آج ہم حسینی والا بارڈر جائیں گے ۔ حضور آپؒ کی طبیعت انتہائی ناساز ہے اور آپؒ کو تیسرا دن ہو گیا ہے گھر سے باہر سفر کرتے ہوئے جبکہ معالجین نے آپ کو سفرکرنے سے منع فرمایا ہے ۔اگر آپؒ اسی طرح سفرکرتے رہے تو آپؒ کی تکلیف میں مزید شدت پیدا ہوجائے گی ۔ مرید خاص کی باتیں سننے کے بعد آپؒ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور فرمایا بیلیا جس بات کا علم نہ ہو ،اس پر اصرار نہیں کرتے ۔بس خاموشی ہی بہتر ہے ۔ مرید خاص نے ادب سے سرجھکایا اور گاڑی کا انتظام کردیا۔ آپ ؒ تیسرے دن کار میں لیٹ کر حسینی والا بارڈر جا پہنچے اور وہاں پر بھی وہی عمل دھرایا جو اس سے پہلے واہگہ ، برکی سیکٹر میں دھراچکے تھے ۔ شام ہونے سے پہلے آپ اپنی قیامگاہ پر پہنچ گئے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر اپنا چہرہ آسمان کی طرف کرکے آپؒ نے فرمایا۔ اے باری تعالی ۔نبی آخرالزماں حضرت محمد ﷺ نے پاکستان کی سرحدیں محفوظ کرنے کی میری ڈیوٹی لگائی تھی ۔الحمدﷲ وہ ذمہ داری میں نے پوری کردی ہے ۔ اب الحمد ﷲ پاکستان کی سرحدیں محفوظ ہیں ۔یہ بات 3,4اور 5ستمبر کی ہے۔
حسن اتفاق سے بھارتی فوج کی ابتدائی یلغار انہی مقامات سے ہوئی اور سب نے کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ میجر شفقت بلوچ ، بھارتی ٹینکوں ، توپوں اور مشین گنوں سے صرف 200گز کے فاصلے پر مٹی کے بلند ٹیلے ( گندہ نالہ کے بند پر)پر کھڑے تھے اور سامنے بھارتی فوجیوں کو اپنی جانب گولہ باری کرتے ہوئے دیکھ بھی رہے تھے لیکن کوئی گولہ اور گولی میجر شفقت بلوچ کے سینے میں نہیں اتر سکی جبکہ اس کے برعکس میجر شفقت بلوچ کی کمپنی کے پاس اسلحہ انتہائی محدود تھا کیونکہ وہ جنگ کرنے کی غرض سے یہاں نہیں آئے تھے بلکہ پیش بندی کے طور انہیں ہڈیارہ ڈرین کے کنارے پر رات کو پہنچنے کا حکم ملا تھا ۔ابھی تو مورچے بھی نہیں کھودے گئے تھے کہ انہیں بھارتی فوج نے حملہ کردیا ۔
...................
بھارتی فوج کے لیفٹیننٹ جنرل ہربخش سنگھ نے اپنی کتاب War Dispatches Indo-Pak- Confliet 1965 میں بڑے واضح انداز میں اپنی جنگی حکمت عملی کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے پاکستانی جانبازوں بالخصوص میجر شفقت بلوچ اور ان کے ساتھیوں کی جرات اور بہادر ی کا ذکر کیا ہے ۔ جو درج ذیل ہے ۔
The fight at the Hudiara Drain . To enable a smoot start for tha main advance on tha Barki axis, the Sutlej Ranger posts at Rakh Hardit Singh, Then Sarja Marja SG 8891 and Ghawandi SG8389 were Cleared in a preliminary operation commencing at 4.00 hour 6th September 1965. By 5.30 hour the main force crossed the International Border
48 Infantry Brigade commenced the advance with Gorkha Rifles leading by 0702 hour the leading elements had contracted the enemy position at Hudiara Drain SG 8092.
(جاری ہے )
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 665575 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.