شادی کو ڈھائی ماہ ہی گزرے تھے کہ ایک دن٬ اچانک معذور ہوجانے والے شوہر کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچانے والی بیوی محبت کی اعلیٰ مثال

image
 
کسم کی شادی کو ابھی ڈھائی ماہ ہی ہوئے تھے کہ ان کے شوہر منجیت اہلوت ایک حادثے کا شکار ہو گئے اور ان کی ریڑھ کی ہڈی میں چوٹ آئی، جس سے ان کے جسم کا نچلا حصہ مفلوج ہو گیا۔

ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے کسم کہتی ہیں کہ ’وہ 6 اگست 2006 کا دن تھا۔ اس واقعے نے میری زندگی کو بالکل بدل کر رکھ دیا۔‘

19 سالہ کسم کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس صورتحال کا سامنا کیسے کیا جائے۔

’ایک طرف میرے شوہر دن رات ہسپتالوں کے چکر لگا رہے تھے اور دوسری طرف میرا خاندان اور رشتے دار مجھ پر دوسری شادی کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے۔‘

کسم کہتی ہیں کہ ان کے گھر والے اور رشتہ دار ان پر جتنا زیادہ دباؤ ڈال رہے تھے، انھیں اتنا ہی یقین ہوتا گیا کہ وہ اپنی زندگی منجیت کے ساتھ ہی گزارنا چاہتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اگر میں دوسری زندگی شروع کرتی اور پھر ایسا کوئی حادثہ ہوتا تو کیا میں دوبارہ زندگی شروع کرنے کا سوچتی۔۔۔ دوسری بات منجیت کو میری سب سے زیادہ ضرورت تھی۔‘

’مسلسل بستر پر لیٹے رہنے سے میرے شوہر کی کمر اور نچلے دھڑ میں زخم ہو جاتے تھے۔ انھیں 24 گھنٹے میری ضرورت ہوتی تھی۔‘

شوہر کی دیکھ بھال کے ساتھ پڑھائی بھی مکمل کی
 
image
 
کسم بتاتی ہیں کہ جب منجیت کے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا تو وہ صرف 12ویں پاس تھیں۔ کسم نے اپنی پڑھائی دوبارہ شروع کی اور پہلے گریجویشن، پھر بی ایڈ اور پوسٹ گریجویشن کی اور ملازمت بھی شروع کر دی۔

کسم کہتی ہیں کہ جتنے زیادہ چیلنجز آئے، اتنی ہی ہمت سے انھوں نے ہر صورتحال کا مقابلہ کیا۔ انھوں نے منجیت کو ڈپریشن پر قابو پانے کے لیے مزید مطالعہ کرنے کی ترغیب دی۔

کسم کہتی ہیں کہ ’لوگ مشورے دیتے تھے کہ منجیت کی زندگی تو برباد ہو گئی، کم از کم اپنی زندگی تو بچاؤ لیکن میں نے ایسے لوگوں کو کبھی جواب نہیں دیا اور اپنی ذمہ داری کو نبھاتی رہی۔‘

17 برس قبل ہونے والا حادثہ
منجیت کا کہنا ہے کہ ان کی اہلیہ کسم نہ صرف چٹان کی طرح ان کے ساتھ کھڑی رہیں بلکہ انھیں نئی ​​زندگی دینے میں سب سے بڑا کردار بھی انھی کا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’17 سال پہلے ہونے والے اس حادثے نے مجھ سے سب کچھ چھین لیا۔ میں اپنی موٹر سائیکل پر سوار تھا کہ ایک کار نے مجھے ٹکر مار دی۔ پھر پیچھے سے آنے والی ایک اور کار نے مجھے دوبارہ ٹکر ماری اور میں شدید زخمی ہو گیا۔ میری ٹانگیں ٹوٹ گئیں اور میرا نچلا حصہ مفلوج ہو گیا۔‘

’وہیل چیئر پر ہونے کے باوجود میری بیوی نے میری دیکھ بھال کی، مجھے ذہنی طور پر بھی حوصلہ دیا۔ یہاں تک کہ مجھے یہ سمجھنے میں بھی مدد کی کہ حادثے کے بعد بھی میں سر اونچا کر کے معاشرے میں کیسے لوٹ سکتا ہوں۔‘
 
image

سنہ 2013 میں پیرا سپورٹس کا آغاز
کسم اور منجیت کا کہنا ہے کہ حادثے کے سات سال بعد ہسپتالوں میں رہنے کے بعد زندگی دوبارہ پٹری پر آ گئی۔

منجیت کے بڑے بھائی کلدیپ اہلاوت، جو لندن میں رہتے ہیں، نے انھیں پیرا گیمز کے بارے میں مشورہ دیا۔

منجیت بتاتے ہیں کہ ’ابتدائی طور پر یہ ایک بڑا سوال تھا کہ یہ کیسے ممکن ہو گا کیونکہ پریکٹس کے لیے کسی کو ہر روز میرے ساتھ سٹیڈیم جانا پڑے گا اور اس کا انتظام کیسے کیا جائے گا۔ اس سب کے درمیان، کسم نے گاڑی چلانا سیکھی اور ہر روز میری مدد کی اور ہم سٹیڈیم جانے لگے۔‘

مارچ سنہ 2013 میں پیرا کھیلوں میں حصہ لینے کے بعد منجیت نے پانچ قومی کھیلوں میں حصہ لیا اور ہر بار چاندی یا کانسی کے تمغے جیتے۔

پھر اکتوبر 2018 میں انڈونیشیا میں منعقدہ ایشین گیمز میں شرکت کا بھی موقع ملا۔

منجیت کہتے ہیں کہ ’کسم اپنے دن کی شروعات میرے اٹھنے سے پہلے کرتی تھیں اور پھر مجھے تیار ہونے میں مدد کرتی تھیں۔ پھر وہ مجھے سٹیڈیم لے جاتی تھیں اور پھر گھر واپس لاتی تھیں۔ پیرا سپورٹس میں کامیابی حاصل کرنے میں بھی کسم کا بڑا ہاتھ ہے۔‘
 
image

اپنی جدوجہد کے بارے میں مزید بتاتے ہوئے کسم کہتی ہیں کہ منجیت کے بڑے بھائی کلدیپ نے مایوسی کے عالم میں پیرا سپورٹس کے بارے میں بتایا اور تب سے ان میں کھیلوں کا جنون پیدا ہوا۔

پھر وہیل چیئر پر بیٹھ کر منجیت نے شاٹ پٹ، جیولین تھرو اور ڈسکس تھرو میں سخت مشق کی اور کھیلوں میں کامیابی حاصل کی۔

’خاندان کے تمام افراد نے ہمارا ساتھ دیا اور منجیت کو تیار کرنے میں کوچ امرجیت سنگھ نے بھی بہت بڑا کردار ادا کیا۔ پاپا (سسر) بھی گراؤنڈ میں رہتے تھے اور منجیت کی مدد کرتے تھے۔‘

اسی دوران منجیت کو نئی دہلی میں شاہ رخ خان سے ملنے کا موقع بھی ملا۔
 
image

’آج کے دور میں کسم جیسی بہو کا ملنا ناممکن لگتا ہے‘
منجیت کے والد مہندر اہلاوت کا کہنا ہے کہ ہم سب نے ساوتری ستیہون کی کہانی افسانوی کتابوں میں سنی ہے کہ کس طرح ساوتری نے اپنے شوہر ستیہون کو موت کے منہ سے نکالا۔

’ہم والدین ہیں، ہمیں ہر حال میں منجیت کا ساتھ دینا ہی تھا لیکن کسم کو ہم نے کہا کہ وہ اپنی نئی زندگی شروع کرے کیونکہ منجیت تقریباً ختم ہو چکا ہے لیکن کسم نے ہماری بات سنی نہ ہی اپنے خاندان کی اور منجیت کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’آج کے دور میں کسم جیسی بہو کا ملنا ناممکن لگتا ہے اور جو بھی ان کی کہانی سنتا ہے وہ ان سے متاثر ہوتا ہے۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: