دفاع کو مضبوط کرنے کی ضرورت

حکومت نئے مالی سال کے لئے دفاع پر 18 کھرب 4 ارب روپے خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جو کہ گزشتہ مالی سال کے دوران دفاع کے لئے مختص بجٹ سے تقریباً 13 فیصد زیادہ ہے۔دفاعی بجٹ جی ڈی پی کا تقریباً 1.7 فیصد اورنئے مالی سال کے لئے مختص کُل اخراجات کا 12.5 فیصد بنتا ہے۔گزشتہ سال دفاعی امور اور خدمات کے لئے 15 کھرب 70 روپے مختص تھے۔بعد میں اسے 15 کھرب 90 ارب روپے تک بڑھا دیا گیا ۔ بَری فوج کے لیے کُل بجٹ میں سے 824 ارب 60 کروڑ روپے، پاک فضائیہ کے لیے 368 ارب 50 کروڑ روپے اور پاک بحریہ کے لیے 188 ارب 20 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں کی پنشن بھی 26 فیصد اضافے سے 563 ارب روپے ہو گئی جو کہ گزشتہ مالی سال میں 446 ارب روپے تھی۔ فوج کی پنشن کو دفاعی خدمات کے بجٹ میں شامل نہیں کیا گیا ہے ۔دفاع سے متعلق دیگر خریداریوں اور اسٹریٹجک پروگراموں کو بجٹ (بشمول اسٹریٹجک جوہری ہتھیاروں کے بجٹ) میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔دفاعی بجٹ کی تفصیلات کے مطابق دفاعی انتظامیہ کے لئے 5 ارب 40 کروڑ روپے، ملازمین سے متعلقہ اخراجات کے لئے 705 ارب روپے، انتظامی اخراجات کے لئے 442 ارب روپے، مادی اثاثوں کے لئے 461 ارب روپے اور سول ورکس کے لئے 195 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔دفاعی خدمات کے اس تخمینے میں فوجیوں کو وردی اور سویلین ملازمین کو ادا کی جانے والی تنخواہیں اور الاؤنسز بھی شامل ہیں، انتظامی اخراجات میں ٹرانسپورٹ، پیٹرولیم، تیل اور لیوبریکینٹس، راشن، علاج، ٹریننگ وغیرہ، اسلحہ اور گولہ بارود کی درآمد اور متعلقہ خریداریاں، سول ورکس (موجودہ انفراسٹرکچر کی دیکھ بھال اور نئی عمارتوں کی تعمیر کے لئے فنڈز) شامل ہیں۔حکومت نے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرا م (پی ایس ڈی پی) 24-2023 کے تحت دفاعی ڈویژن کی جاری اسکیموں اور نئی اسکیموں کے لیے 3 ارب 40 کروڑ روپے بھی مختص کئے ہیں، اس میں سے حکومت نے ملکی حصے سے 3 ارب 30 کروڑ روپے اور غیر ملکی امداد کے حصے سے 50 لاکھ روپے مختص کئے ہیں۔حکومت نے آئندہ مالی سال کے پی ایس ڈی پی کے تحت دفاعی پیداوار کے 2 جاری منصوبوں کے لئے 2 ارب روپے کی رقم بھی مختص کی ہے، جاری منصوبوں کے تحت گوادر میں شپ یارڈ بنانے کے لئے پروجیکٹ مینجمنٹ سیل کے قیام کے لئے 10 کروڑ روپے اور ’کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینئرنگ ورکس‘ کے انفراسٹرکچر کو اپ گریڈ کرنے کے لئے ایک ارب 90 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔

پاکستان کے دفاعی بجٹ سے متعلق خرافات پھیلائے جاتے ہیں۔ دفاعی بجٹ اور اخراجات کے حوالے سے بڑھتے ہوئے حملوں اور تنقید کا مشاہدہ ہو رہا ہے۔ یہ غلط فہمیاں پیدا کی گئی ہیں کہ پاکستان کی مسلح افواج ہمارے کل بجٹ کا تقریباً 70 سے 80 فیصد کھاتی ہیں۔ اسی طرح یہ دعویٰ بھی کیا جاتاہے کہ پاکستان کا دفاعی بجٹ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران تیزی سے بڑھ رہا ہے اور پاکستان خطے کے کسی بھی ملک کے مقابلے دفاع پر زیادہ رقم خرچ کرتا ہے۔ ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کا ایک طبقہ اس دعوے سے بھرا ہوا ہے کہ دفاعی اخراجات کا مجموعی اثر قومی غربت اور پاکستان میں ترقی کے فقدان کی بڑی وجہ ہے

اس کا گہرائی سے جائزہ لینے، سچائی تلاش اور اصل محرکات کو اجاگر کرنے ضرورت ہے کہ یہ تاثرات کیوں پیدا ہوئے ہیں۔حقائق جاننے کے لئے پاکستان کے دفاعی بجٹ کے حوالے سے آزادانہ تحقیق کی جائے اور موازنہ روایتی حریف بھارت سے کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ تاثر کہ 70 سے 80 فیصد بجٹ افواج پاکستان کو جاتا ہے، بالکل غلط اور گمراہ کن ہے۔اس وقت پاکستان کی مسلح افواج کل آبادی کے 0.4فیصد پر مشتمل ہے جب کہ بھارت کی مسلح افواج اس کی آبادی کے0.2فیصد، امریکہ کی 0.4فیصد، اسرائیل کی 2.1فیصد، چین کی0.2فیصد پر مشتمل ہے۔ پاکستان کے کل اخراجات کا17 فیصد بھی دفاع پرخرچ نہیں ہو رہا اور تمام سرکاری اخراجات کا 83 فیصد سے زیادہ غیر دفاع پر خرچ ہوتا ہے۔اس کے برعکس گزشتہ چند دہائیوں میں ہندوستان کے فوجی اخراجات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ 1990 اور 2020 کے درمیان تین دہائیوں پر محیط، اس کے اخراجات میں 259 فیصد اضافہ ہوا۔ عالمی رینکنگ میں اس وقت ہندوستان دنیا کا تیسرا سب سے بڑا فوجی اخراجات کرنے والا ملک بن چکا ہے۔ 2020 میں، ہندوستان نے COVID-19 بحران کے درمیان دفاع پر 71.1 ارب امریکی ڈالر خرچ کئے۔ اسی سال ہندوستان کی غربت نے اپنی تاریخ کی بلند ترین شرح نمو دکھائی۔ اقوام متحدہ نے 2019 میں ملک میں تصدیق شدہ غریبوں کی تعداد 364 ملین یا کل آبادی کا 28 فیصد ہونے کا تخمینہ لگایا، جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان عالمی رینکنگ میں فوجی اخراجات میں 24ویں نمبر پر ہے۔ 1990 سے 2020 کے درمیان پاکستان کے دفاعی بجٹ میں 30 سالوں میں صرف 70 فیصد اضافہ ہوا۔ 3 فیصد سالانہ مہنگائی کے پیش نظر پاکستان کا مجموعی دفاعی بجٹ سکڑ گیا ہے۔ اس وقت پاکستان دفاعی وسائل میں بھارت سے بہت پیچھے ہے۔ اس کی مالی فراہمی ہندوستان کے دفاعی اخراجات سے تقریباً 7 گنا کم ہے۔ پاکستان دفاع پر خرچ کرنے والے سب سے زیادہ جی ڈی پی فیصد والے 15 ممالک میں شامل نہیں ہے۔ پاکستان نے 2022 میں اپنے جی ڈی پی کا 4 فیصد سے بھی کم دفاع پر خرچ کیا۔ حالیہ برسوں میں جی ڈی پی کے حصہ کے طور پر پاکستان کے فوجی اخراجات میں کافی اتار چڑھاؤ آیا ہے، لیکن 1987-2020 کے عرصے کے دوران اس میں کمی واقع ہوئی، کیونکہ یہ 1987 میں 6.9 فیصد تھی اور 2020,3 میں 4 فیصد پر اس وجہ سے، جی ڈی پی کے فیصد کے طور پر پاکستان کے دفاعی اخراجات بھی کم ہو رہے ہیں۔ خطے کے زیادہ تر ممالک جن کے وجود کو بہت کم خطرہ ہے وہ پاکستان کے مقابلے میں جی ڈی پی شرح فیصد کی بہت زیادہ رقم دفاع پر خرچ کر رہے ہیں۔ نظریاتی ریاست اسرائیل اپنی جی ڈی پی کا 5.2 فیصد دفاع پر خرچ کر رہا ہے۔جہاں تک سپاہیوں کے اخراجات کا تعلق ہے، سب سے اوپر پانچ فی کس فی سپاہی خرچ کرتے ہیں اسرائیل ( امریکی ڈالر2,508)، امریکہ ( 2,351ڈالر)، سنگاپور ( 1,930ڈالر)، کویت ( 1,830ڈالر) اور سعودی عرب ( 1,805ڈالر)، پاکستان صرف 47 امریکی ڈالرفی فوجی خرچ کرتا ہے۔اس کے برعکس بھارت 53ڈالر فی فوجی خرچ کرتا ہے۔ چین 2175ڈالر، ایران 188ڈالر، روس 423ڈالر، برطانیہ 873ڈالرفی فوجی خرچ کرتا ہے۔ یہاں تک کہ پڑوسی ملک سری لنکا اپنے ایک فوجی پر733امریکی ڈالر کاخرچہ برداشت کر رہا ہے۔
فوجی اخراجات بہت سے ممالک کے بجٹ کا ایک اہم حصہ ہیں ۔ یہ ایک ملک سے دوسرے ملک میں مختلف ہیں۔عالمی فوجی اخراجات کا تقریباً 60 فیصد صرف سرفہرست پانچ ممالک کا ہے اور امریکہ 11 ممالک سے بھی زیادہ اپنی فوج پرخرچ کرتا ہے۔ اس نے حالیہ برسوں میں اپنے فوجی اخراجات میں اضافہ کیا ہے۔ چین گزشتہ دہائی سے اپنے فوجی اخراجات میں اضافہ کر رہا ہے۔ جرمنی اور کینیڈا جیسے ممالک نے حال ہی میں عالمی واقعات کے ردعمل میں اپنے اخراجات میں اضافہ کیا ہے۔اس کے برعکس جاپان جیسے کچھ ممالک نے حالیہ برسوں میں اپنے فوجی اخراجات میں کمی کی ہے۔ مجموعی طور پر، فوجی اخراجات بہت سے ممالک کے بجٹ کا ایک اہم پہلو ہے، اور ان فنڈز کا مختص کرنا اکثر ملک کی ترجیحات اور عالمی سیاسی تعلقات کی عکاسی کر سکتا ہے۔سب سے زیادہ فوجی بجٹ والے ممالک میں امریکہ، چین، روس، بھارت، سعودی عرب، برطانیہ، جرمنی، فرانس، جنوبی کوریا اور جاپان شامل ہیں۔ امریکہ کا سب سے بڑا فوجی بجٹ ہے جو 876.9 ارب ڈالر دفاع پر خرچ کرتا ہے۔ چین کا دوسرا بڑا فوجی بجٹ 292 ارب ڈالر ہے۔ روس اپنی فوج پر 86.4 ارب ڈالر خرچ کرتا ہے جبکہ بھارت 81.4 ارب ڈالر مختص کرتا ہے۔ سعودی عرب کا پانچواں بڑا فوجی بجٹ ہے، جو 75 ارب ڈالر خرچ کرتا ہے۔ برطانیہ نے 68.5 ارب ڈالر مختص کئے ہیں۔ جرمنی کا ساتواں بڑا فوجی بجٹ ہے جس نے اپنی فوج پر 55.8 ارب ڈالر خرچ کئے ہیں، جب کہ فرانس نے 53.6 ارب ڈالر مختص کئے ہیں۔ جنوبی کوریا اور جاپان بالترتیب 46.4 ارب ڈالر اور 46 ارب ڈالر دفاع پر خرچ کرتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک ملک کے پاس منفرد سیکورٹی چیلنجز اور جغرافیائی سیاسی مقاصد ہیں جو اس کے فوجی اخراجات کی ترجیحات کو تشکیل دیتے ہیں۔ بھارت دفاع پر 81ارب ڈالرکے ساتھ دنیا میں 4نمبر پر ہے۔ یہ جی ڈی پی کا 2.4فیصد ہے جو کہ دنیا میں33واں نمبر ہے۔
اسرائیل اپنے دفاع پر 23ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ یہ دنیا کے15ویں نمبر پر ہے۔جو اپنے جی ڈی پی کا5.2فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے۔جو کہ دنیا میں9واں نمبر ہے۔ بنگلہ دیش کے فوجی اخراجات5 ارب ڈالر ہیں۔دنیا میں درجہ بندی کے لحاظ سے یہ 43ویں نمبر پر ہے۔ جی ڈی پی کا 1.1%ہے۔جو دنیا میں جی ڈی پی درجہ بندی 100ویں نمبر پر ہے۔بھارت کی طرح برازیل بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بننے کی مہم چلا رہا ہے ۔ برازیل کے فوجی اخراجات20 ارب ڈالر ہیں۔اس کی دنیا میں درجہ بندی 17ویں ہے۔اس کاجی ڈی پی کا حصہ1.1% ہے جس کی دنیا میں درجہ بندی 101ہے۔پاکستان کے پڑوس میں ایران کے فوجی اخراجات7 ارب ڈالر ہیں۔اس کی دنیا میں درجہ بندی 34ہے۔جوجی ڈی پی کا 2.6%ہے۔اس کی دنیا میں جی ڈی پی درجہ بندی 28ہے۔

ایک فہرست اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (SIPRI) کی فیکٹ شیٹ پر مبنی ہے، جس میں 2022 تک دنیا کے سب سے اوپر 15 فوجی خرچ کرنے والوں کی فہرست شامل ہے۔اس کے مطابق امریکہ 877ارب ڈالر اورجی ڈی پی کے3.5کے ساتھ دنیا کا39فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے۔ چین 292ارب ڈالر اور 1.6جی ڈی پی کے ساتھ دنیا کا13فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے۔ روس 86.4ارب ڈالر، 4.1جی ڈی پی کے ساتھ دنیا کا3.9 فیصد، بھارت 81.4ارب ڈالر، 2.4جی ڈی پی، دنیا کا 3.6فیصد دفاع پر خرچ کرنے والا ملک ہے۔ اسرائیل23.4ارب ڈالر، 4.5جی ڈی پی، دنیا کا1.0فیصد دفاع پرخرچ کرتا ہے۔اس نے پاکستان کو4.0فیصد جی ڈی پی دفاع پر خرچ کرنے والا دنیا کا 10واں ملک کہا ہے۔ اس کے مطابق اسرائیل جی ڈی پی کا5.3فیصد خرچ کرنے والا دنیا کا5واں نمبر ملک ہے۔

دوسری فہرست دی ملٹری بیلنس کے 2022 کے ایڈیشن پر مبنی ہے، جسے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز (IISS) نے اوسط مارکیٹ ایکسچینج ریٹ استعمال کرتے ہوئے شائع کیا ہے۔اس کے مطابق امریکہ 738ارب ڈالر اورجی ڈی پی کے3.5کے ساتھ دنیا کا39فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے۔ چین193.3ارب ڈالر اور 1.6جی ڈی پی کے ساتھ دنیا کا13فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے، روس 60.6ارب ڈالر، 4.1جی ڈی پی کے ساتھ دنیا کا3.9 فیصد، بھارت64.1ارب ڈالر، 2.4جی ڈی پی، دنیا کا 3.6فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے۔ اس کے مطابق افغانستان دفاع پر جی ڈی پی کا 10.6فیصد خرچ کرنے والا دوسرا ملک ہے۔ اسرائیل کو اس نے5.2فیصد کے ساتھ10ویں نمبر پر رکھا ہے۔ اس فہرست میں پاکستان کا نام شامل نہیں۔
پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیادپر قائم ہوا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں، ان کے اپنے رسم و رواج، مذہب اور روایات ہیں، لہٰذا، سماجی اور اخلاقی حیثیت سے، مسلمانوں کے لئے اپنا الگ وطن ہونا چاہیے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک نظریے کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا۔ پاکستان، آزادی کے وقت، دو بازوؤں پر مشتمل تھا، یعنی مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان؛ بالترتیب بلوچستان، شمال مغربی سرحدی صوبہ، مغربی پنجاب، سندھ اور مشرقی بنگال کے صوبوں کے ساتھ۔تقسیم کے وقت کشمیر ایک شاہی ریاست تھی، اور اس کی مسلم اکثریتی آبادی پر ہری سنگھ ڈوگرہ ہندو مہاراجہ کی حکومت تھی۔ تقسیم کے متفقہ اصول کے مطابق جموں و کشمیر سمیت تمام متصل مسلم اکثریتی علاقوں کو پاکستان میں ضم کر دیا جانا تھا، تاہم ہری سنگھ نے کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے اعلان میں تاخیر کی، جس کے نتیجے میں اس کی مسلم رعایا نے اس کے خلاف بغاوت کی۔ جموں میں کشمیری مسلمانوں کو سکھوں اور ہندوؤں نے ان علاقوں میں قتل کیا جہاں وہ اکثریت میں تھے۔ دی سٹیٹس مین کے ایڈیٹر ایان سٹیفنز نے کہا کہ 500,000 مسلمان، ''آبادی کا پورا مسلم عنصر'' ختم کر دیا گیا اور 200,000 '' لا پتہ'' ہو گئے۔باقی مغربی پاکستان کی طرف بھاگ گئے۔ آزادی پسندوں کو دیکھ کر ہری سنگھ گھبرا گیا اور ہندوستان سے مدد کی درخواست کی۔ ہندوستانی وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے 100,000 فوجیوں کوکشمیر پر لشکر کشی کے لئے سرینگر ہوائی اڈے پر اتاردیا۔ بعد ازاں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ اقوام متحدہ کے ایک کمیشن نے اگست 1948 میں دونوں ممالک کی فوجوں کے انخلاء کا مطالبہ کیا۔ جموں و کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے جس میں استصواب رائے کے ذریعے کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے استصواب رائے کا مطالبہ کیا گیا ۔اقوام متحدہ نے جنگ بندی لائن کا تعین کیا۔ ہندوستانی قیادت نے 1947 میں مذہبی بنیادوں پر برصغیر کی تقسیم کو قبول کیا تاہم، انہوں نے شروع سے ہی اکھنڈ بھارت کے نظریے کی پیروی کی۔ اکھنڈ بھارت کا نظریہ ہندوتوا کے تصور پر مبنی ہے۔ ہندوتوا کے بنیادی اصول یہ ہیں کہ ہندو تہذیب کی بالادستی کو زندگی کا واحد طریقہ اور ہندو مت کو برصغیر میں واحد مذہب کے طور پر قائم کیا جائے۔مسلمانوں کو ختم کر دیا جائے۔ ان اہداف کو حاصل کرنے کیلئے، برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کو ختم کرنا اور اسے ایک وجود بنانا 1947 سے ہندوستانی پالیسی سازوں کا بنیادی پالیسی مقصد رہا ہے۔
ہندو بھارتی ذہنیت کو اچھی طرح جانتے ہوئے، قائداعظم نے پاکستان کے لئے مضبوط مسلح افواج کی اہمیت پر زور دیا جو مستقبل میں کسی بھی بھارتی جارحیت کو روکنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اپنے کم وسائل کی وجہ سے، پاکستان نے خطے میں کمیونزم کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے امریکہ کے ساتھ اتحاد کیا۔ اس نے پاکستان کی طرف سے مضبوط مسلح افواج کی راہ ہموار کی۔ خطے میں کمیونزم کے پھیلاؤ کے خلاف فرنٹ لائن ریاست ہونے کے باوجود، پاکستان کو 1962 میں امریکی اور برطانوی قیادت نے دھوکہ دیا۔دونوں نے اسلام آباد کو یہ یقین دلایا کہ وہ چین بھارت تنازعہ ختم ہونے کے بعد اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے اپنی طاقت کا استعمال کریں گے۔ ایک بار بحران ختم ہوا لیکن ہندوستان کو مغرب سے زیادہ اہمیت اور ہر قسم کی امداد ملنے لگی۔آج بھارت کو انھوں نے اپنا سٹریٹجک پارٹنر بنا دیا ہے۔ 1964 میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 356 اور 357 کو مقبوضہ ریاست کشمیر تک بڑھا دیا گیا جس کی وجہ سے بھارتت کی مرکزی حکومت ریاست کی حکومت سنبھال سکتی تھی اور اپنے قانون سازی کے اختیارات استعمال کر سکتی ہے۔ ہندوستانی آئین جو مقبوضہ جموں و کشمیر کو مکمل آئینی خودمختاری کی ضمانت دیتا ہے۔ ان حالات میں پاکستان نے کشمیر کو آزاد کرانے کیلئے 1965 میں کشمیر میں آپریشن جبرالٹر شروع کیا۔ بھارت نے کشمیر میں اپنی افواج کے دباؤ کو کم کرنے کے لئے بین الاقوامی سرحد کے پار سے پاکستان پر حملہ کیا (اس طرح جنگ بندی کے ساتھ تنازعہ کو بھارت کی طرف سے ایک مکمل جنگ کی طرف بڑھا دیا گیا)۔ پاکستان کی مسلح افواج نے اس موقع پربھارت کوبھاری نقصان پہنچایا۔بھارتی علاقے کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر کے زبردست بھارتی جنگی مشینری کو شکست دی۔اس شکست کا بدلہ لینے کے لئے بھارت نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان نسلی فالٹ لائنز کا فائدہ اٹھایا۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کے دہشت گردوں کو تربیت دی۔ 1971 کی پاک بھارت جنگ کے بعد مشرقی پاکستان، آج کا بنگلہ دیش ہم سے جدا ہو گیا۔ جب بھارت نے 1974 میں ایٹمی تجربہ کیا تو پاکستان ایٹمی ہتھیار بنانے پر مجبورہوا۔ 1998 میں اپنے پہلے ایٹم بم کا کامیاب تجربہ کیا۔

عالمی سطح پر تنازعات، فوجی اخراجات اور ہتھیاروں کی تجارت کی نگرانی کرنے والے ادارے سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ری سرچ انسٹی ٹیوٹ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق گذشتہ ایک سال کے دوران گو کہ عالمی سطح پر کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے لیکن انڈیا کے جوہری اثاثوں میں اضافہ ہورہاہے۔ سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈین سمتھ کا کہنا ہے کہ ’ہم دنیا بھر میں جوہری ہتھیاروں کی کمی کے ایک طویل عرصے کے اختتام کی جانب بڑھ رہے ہیں یا وہاں پہنچ چکے ہیں۔سپری (ایس آئی پی آر آئی) کے مطابق 2022 کے آغاز میں9 جوہری طاقتوں برطانیہ، چین، فرانس، بھارت، اسرائیل، شمالی کوریا، پاکستان، روس اور امریکہ کے پاس جوہری وار ہیڈز کی کل مقدار 12 ہزار 710 تھی جو 2023 کے آغاز میں 12 ہزار 512 رہ گئی ۔ان میں سے نو ہزار 576 ہتھیار فوجی ذخائر میں ممکنہ استعمال کے لیے موجود تھے جو گذشتہ سال کے مقابلہ میں 86 ہتھیار زیادہ تھے۔سپری ان ممالک کے استعمال کے لئے دستیاب ہتھیاروں اور کل ذخیرے کے موازنہ کرتا ہے۔ جن میں تلف کرنے کے لئے مخصوص پرانے ہتھیار بھی شامل ہوتے ہیں۔سمتھ کا کہنا ہے کہ ’یہ ذخیرے قابل استعمال جوہری ہتھیاروں پر مشتمل ہیں اور ان اعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔یہ اعداد 1980 کی دہائی میں موجود 70 ہزار ہتھیاروں سے ابھی بھی کافی دور نہیں ہیں۔اس دوران انڈیا اور اسرائیل نے اپنے ذخیرے میں اضافہ کیا ہے۔ روس کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد چار ہزار 477 سے بڑھ کر چار ہزار 489 ہو گئی۔ باقی جوہری طاقتوں نے اپنے ہتھیاروں کا حجم برقرار رکھا۔روس اور امریکہ دنیا بھر کے جوہری ہتھیاروں کے 90 فیصد حصے کی ملکیت رکھتے ہیں۔پاکستان کا پڑوسی اور اتحادی چین اپنی معیشت اور اثر و رسوخ بڑھانے کے ساتھ اپنی فوج کے تمام حصوں پر بھی بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔وہ ایک عالمی طاقت کے طور پر آگے بڑھ رہا ہے۔بھارت بھی اشتعال انگیز ریاست کے طور پر علاقائی اور عالمی بالادستی کے خواب دیکھ رہا ہے۔

2019 میں، بھارت نے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے مقبوضہ کشمیر کی متنازع ریاست کو دو ٹکڑے کر کے بھارتی یونین میں شامل کر لیا۔ اس نے دونوں جوہری صلاحیت رکھنے والی ریاستوں کو دوبارہ جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا۔بھارت نے پاکستان کوسیاسی، سفارتی، اقتصادی اور عسکری طور پرکمزور کرنا چاہا۔مگر بالاکوٹ پر بھارت کے فضائی حملے کے جواب میں پاکستان نے بھارتی طیارے مار گرائے اور نئی دہلی کی کمر توڑ دی۔مبصرین کہتے ہیں کہ 9/11 کے بعد، امریکہ نے القاعدہ نیٹ ورک کو ختم کرنے کے واضح مقصد کے ساتھ افغانستان پر حملہ کیا۔ ہندوستان کو افغانستان میں اپنے قدم جمانے کا سنہری موقع فراہم ہوا۔ بھارت نے 2001 سے افغانستان میں بیٹھ کر (دشمن انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ مل کر) پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ شروع کردی۔ ہندوستانی پارلیمنٹ پر حملہ، بلوچستان/فاٹا میں دہشت گردی ، تحریک طالبان پاکستان، القاعدہ الہند اور اسلامک اسٹیٹ کا قیام، سمجھوتہ ایکسپریس، راولپنڈی اور پی این ایس مہران پر حملے، کراچی، ممبئی، پٹھانکوٹ، اوڑی، پلوامہ کے جھوٹے فلیگ آپریشن؛ پاکستان کی مسلح افواج کو بدنام کرنے، پاکستان کے لئے دو محاذوں پر مخمصے پیدا کرنے اور فوجی قوتوں کو اس حد تک نیچا/حوصلہ پست کرنے کے تقریباً ایک جیسے اسٹریٹجک مقاصد تھے کہ پاکستان کو مکمل طور پر مفلوج اور افراتفری پیدا کی جائے۔ایک طرف پاکستان دہشت گردی کی لعنت سے لڑنے میں مصروف تھا، ہندوستان نے پوری دنیا میں، خاص طور پر، امریکہ اور یورپی یونین کے ممالک میں جعلی میڈیا ہاؤسز قائم کر رکھے تھے۔ پاکستان کی مسلح افواج کو اس کی کشش ثقل کے مرکز کے طور پر شناخت کرنے کے بعد، اور اس محور کو ختم کرنے کے لئے، بھارتی میڈیا ہاؤسز نے پاکستان اور اس کے اہم اداروں کے خلاف منفی پروپیگنڈہ مہم چلائی کہ پاکستان عالمی دہشت گردی کا مرکز ہے، پاکستان افغان طالبان کے نیٹ ورکس کی حمایت کر رہا ہے، پاکستان کے ایٹمی ہتھیار بنیاد پرستوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں، اور، پاکستان کی مسلح افواج ایک بدمعاش ادارہ ہے جس پر قابو پایا جانا چاہیے۔. اس دشمنانہ ماحول میں جہاں اتحادی افواج بری طرح ناکام ہوئیں وہیں پاکستان کی مسلح افواج اپنی سرزمین پر دہشت گردی کو فیصلہ کن شکست دینے میں کامیاب ہوئیں۔ تمام تر مشکلات کے خلاف، پاکستان تقریباً 100,000 افراد کی قربانیاں دے کر اور گزشتہ برسوں میں 150 ارب امریکی ڈالر کے نقصان کے باوجود پاکستان نے تمام چیلنجز کا مقابلہ کیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت لی گئی۔ سیکیورٹی کی ناگفتہ بہ صورت حال نے معاشی بدحالی کو جنم دیا۔ اس سے افراط زر میں اضافہ ہوا اور فی کس آمدنی میں کمی آئی۔ COVID-19 کے بحران کے ساتھ اس معاشی بحران نے پاکستان میں محنت کش طبقے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کو کمزور اور ناکام بنانے کے درپے بھارت غربت کے باوجود دفاع پر خطیر رقم خرچ کر رہا ہے۔وہ ایک عالمی، اور ساتھ ہی ایک علاقائی غالب طاقت بننا چاہتا ہے۔وہ برصغیر اور بحر ہند کے ارد گرد کے علاقے پر اثر و رسوخ کا دائرہ بڑھانا چاہتا ہے۔ اپنی بڑی معیشت، سیاسی تسلط اور سب سے بڑھ کر بڑی مسلح افواج کی وجہ سے چھوٹی ریاستوں بنگلہ دیش، بھوٹان، نیپال، مالدیپ، ماریشس، سری لنکا کو اپنے دائرہ اثر میں لانے کی سر توڑ کوششیں کر رہا ہے۔ بھارت، ظاہر اور ڈھکے چھپے طریقوں سے یقینی بنا رہا ہے کہ ان ممالک میں بھارت نواز حکومتیں قائم ہوں۔ پاکستان وہ واحد ملک ہے جوجنوبی ایشیا میں ہندوستانی توسیع پسندی اورتسلط کو چیلنج کرتا ہے اور ہندوستان میں اقلیتوں اور بالخصوص مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے آواز اٹھاتا ہے۔ ان حالات میں بھارت ہمیشہ پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے اور اسے جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کا ہدف رکھتا ہے تاکہ وہ خود خطے کی واحد سپر پاور بن سکے۔ جب تک پاکستان کی بہادر اور پروفیشنل مسلح افواج موجود ہیں جنہوں نے اپنے خون پسینے سے دہشت گردی کو شکست دے کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے، تب تک بھارت اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ان حالات میں نئی دہلی یہ پروپیگنڈا کر کے پاکستانی عوام اور اس کی مسلح افواج کے درمیان دوری پیدا کرنا چاہتاہے کہ ملک کی تمام معاشی خرابیاں اس کے بھاری دفاعی بجٹ اور اخراجات کی وجہ سے ہیں۔ہندوستانی فوج 1,445,000 فعال اہلکاروں کے ساتھ، دنیا کی دوسری سب سے بڑی زمینی فورس ہے۔وہ جدید، موبائل، اور مہلک زمینی فورس میں اپ گریڈ شدہ جنگی نظام اور مواصلاتی آلات کو فیلڈنگ کرکے اور پیچیدہ مشترکہ ہتھیاروں اور مشترکہ کارروائیوں کو چلانے اور ان کا انتظام کرنے کی اپنی صلاحیت کو بڑھارہی ہے۔ ہندوستانی بحریہ دنیا کی 6ویں بڑی بحریہ ہے۔ طیارہ بردار بحری جہاز سمیت 285 کثیر جہتی پلیٹ فارمز کے ساتھ، یہ تیزی سے جدید اور متحرک قوت ہے۔ اس نے اب بڑے، جدید کثیر کردار والے جنگجوؤں کے حق میں محدود صلاحیتوں کے ساتھ پلیٹ فارمز کی پرانی ماڈلز کو تبدیل کرنے پر توجہ مرکوز کی ہے۔ہندوستانی بحریہ بڑی حد تک جدید ملٹی رول پلیٹ فارمز پر مشتمل ہے جس میں جدید اینٹی شپ، اینٹی ایئر، اور اینٹی سب میرین ہتھیار اور سینسر شامل ہیں۔ ہندوستانی فضائیہ چین کے بعد خطے کی سب سے بڑی ایوی ایشن فورس ہے اور دنیا کی پانچویں بڑی ہے، جس کے کل 2,000 سے زیادہ طیارے ہیں، جن میں سے 645 جنگی طیارے ہیں۔ آئی اے ایف تیزی سے مغربی فضائی افواج کی صلاحیتوں اور قابلیت کی ایک وسیع رینج میں شامل ہو رہا ہے۔ ہندوستانی اسٹریٹجک فورسز نے روایتی اور جوہری زمینی، ہوا اور سمندر پر مبنی بیلسٹک اور کروز میزائلوں کی وسیع اقسام تیار اور فیلڈ کی ہیں۔ بھارت کے پاس ICBM قابل آبدوز کی شکل میں یقینی طور پر سیکنڈ سٹرائیک کی صلاحیت ہے۔اس حالت میں، بھارت اور پاکستان کے درمیان روایتی فوجی عدم توازن گزشتہ تین دہائیوں کے دوران مسلسل بڑھتا چلا گیا ہے، اور آنے والے برسوں میں ممکنہ طور پر بھارت کے حق میں صلاحیت کا فرق مزید بڑھ جائے گا۔ معاشی بدحالی اور کووڈ-19 وبائی امراض کے باوجود، ہندوستان نے اپنی روایتی اور جوہری فوجی صلاحیتوں کی جدید کاری اور توسیع کے لئے مختص وسائل کو کم نہیں کیا۔ پاکستان کے پاس بھارت کے خلاف قابل اعتماد روایتی اور جوہری ڈیٹرنٹ پوزیشن برقرار رکھنے کے لئے ضروری فوجی اخراجات کی کم سے کم سطح کو برقرار رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو سکتا۔ بھارتی سیاسی و عسکری قیادت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر حملے کی مسلسل کھلی دھمکیاں دے رہی ہے۔ بھارت کے اکھنڈ بھارت کے نظریات اور پاکستان کو ختم کرنے کے غیر حقیقی سٹریٹیجک اہداف ہیں۔اس لئے جنوبی ایشیا جنگوں اور تنازعات میں گھرا رہے گا۔روایتی فوجی توازن میں بھارت کو پاکستان پر معیاری اور مقداری برتری حاصل ہے تاہم پاکستانی مسلح افواج قوم کی مکمل حمایت سے بھارت کی کسی بھی مہم جوئی کو ناکام بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔اگر بھارت اپنے دفاعی بجٹ میں کمی نہیں کرتا، اپنے غیر حقیقی تزویراتی اہداف کو ترک نہیں کرتا اور مسئلہ کشمیر کا پر امن حل تلاش نہیں کرتا، پاکستان یکطرفہ طور پر اپنے دفاعی اخراجات کو کیسے کم کر سکتا ہے۔ روایتی عدم توازن میں شامل فوجی عدم استحکام محدود سے بڑی روایتی جنگ اور بالآخر جوہری جنگ تک بڑھنے کاخدشہ ہے۔ اس کے برعکس پاکستان اور اسلام دشمنوں کی موجودگی میں پاکستان کے دفاع کو کمزور کرنے کی کسی سازش کو ناکام بنانے کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے۔

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 486715 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More