فلسفہ قربانی

تحریر: ناعمہ کاشف

” فرما دو بےشک میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا، (صرف) اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے ۔” (الانعام: 169)
قربانی و ایثار ایک ایسا جذبہ ہے جس کے لیے انتہائی دلی خلوص درکار ہوتا ہے اور قربانی ہوتی بھی قیمتی چیز کی ہے۔ یہاں قیمتی سے مراد مہنگی نہیں بلکہ وہ جو ہماری نظر میں اہم ترین ہو۔ قربانی یہ نہیں کہ انسان وہ چیز دے جس کی اسے کوئی چاہت نہ ہو یا جو اس کی نظر میں کوئی وقعت نہ رکھتی ہو۔ قربانی تو وہ ہے جو انسان اپنی پسندیدہ، محبوب کوئی قیمتی یا کوئی اہم ترین چیز قربان کرے اور وہ بھی صرف اپنے خالق کو راضی کرنے کے لیے۔ جیسے ہمارے پیارے نبی حضرت ابرہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں اپنی سب سے عزیز چیز یعنی اپنے فرزند ارجمند کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار ہوگئے اور پھر ان کے فرزند کی اپنے رب اور اپنے باپ سے فرماں برداری تو دیکھیں کہ وہ بھی خود کو قربان کرنے کے لیے رضامند ہو گئے، ان کے صرف ایک حکم پر۔ اسے کہتے ہیں قربانی۔

ہم اگر اس واقعے پر ذرا غور کریں تو ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ یہ قربانی دو طرح کی تھی، ایک مالی اور دوسری روحانی۔ اب دیکھیں ذرا جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابرہیم علیہ السلام کو اپنی سب سے عزیز ترین چیز کو قربان کرنے کا کہا تو ان کی سب سے عزیز چیز ہی تو ان کا اثاثہ تھی۔ وہ قیمتی اثاثہ حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے۔ جب حضرت ابرہیم علیہ السلام نے اپنے فرزند پاک کو ذبح کیا( بےشک اس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کا ایک بال بھی بیکا نہ ہونے دیا اور ان کی جگہ ایک مینڈھا قربان کر دیا) لیکن انہوں نے تو اپنا مال قربان کر دیا تھا۔ لیکن کیا صرف انہوں نے اپنا مال قربان کیا ؟ بالکل نہیں، انہوں نے اپنا مال ہی نہیں بلکہ وہ محبت جو ایک باپ اپنی اولاد سے کرتا ہے، وہ وابستگی جو ان کو اپنے بیٹے سے تھی اور تمام خواہشات بھی قربان کردی تھیں۔ یہ دو طرح کی قربانی ہوئی، مالی بھی اور روحانی بھی۔ ہم سب مسلمان اس سنت ابراھیمی پر عمل کرتے ہوئے ہر سال عیدالاضحی کے موقع پرجانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔لیکن کیا ہم نے غور کیا کہ یہ تو صرف مالی قربانی ہوئی کہ ہم نے اپنا مال خرچ کیا کوئی قربانی کے قابل جانور خریدا اور اسے ذبح کر دیا۔ تو پھر روحانی قربانی کیسے ہو گی؟ اپنے دل و دماغ سے وہ تمام خواہشات اور وہ تمام رقابتیں جو ہمیں تو عزیز ہیں لیکن ہمارے رب کو نہیں، انہیں بھی قربان کر کے اس سنت کو مکمل طور پر ادا کرنا چاہیے۔ یوں دونوں طرح کی قربانی عمل میں آئےگی، مالی بھی اور روحانی بھی۔

قربانی کی قبولیت صرف مال خرچ کرنے سے نہیں ہوتی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنے نفس کو بھی قربان کرنا پڑتا ہے اور وہ بھی صرف اپنے خالق کی رضا کے لیے۔ جب ہمارا خالق ہمیں ان گنت نعمتوں سے نواز سکتا ہے، ہر پل ہم پراحسان کرتا رہتا ہے تو کیاہم اپنے خالق کی رضا کے لیےاپنے مال کے ساتھ اپنے نفس کو نہیں ذبح کرسکتے؟ اپنے جذبات کو نہیں قربان کر سکتے؟بےشک کر سکتے ہیں اور ان شاء اللہ تعالیٰ کریں گے بھی، صرف اپنے رب تعالیٰ کی رضا کے لیے۔ اللہ تعالیٰ سورت الحج، آیت: 37 میں فرماتا ہے،” اللہ تعالیٰ کو نہ تو قربانی کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون، بلکہ اسے تمہارا تقوی پہنچتا ہے۔”
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس نیکی کو کامل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


 
Naima
About the Author: Naima Read More Articles by Naima: 2 Articles with 902 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.