سیّد محمد ناصرعلی -----اردو خاکہ نگاری اور کہانی نویسی کا ایک منفرد نام افضل رضویؔ-ایڈیلیڈ، آسٹریلیا

سیّد محمدناصر علی ایک اعلیٰ درجے کے محقق،مضمون نویس، کہانی نویس اورخاکہ نویس ہیں۔ وزارتِ خارجہ کے ریسرچ ڈائریکٹریٹ سے وابستہ رہے اور دوران ملازمت کئی مضامین لکھے۔ان کی تصنیف ”قلم رکنے سے پہلے“ کچھ عرصہ قبل شائع ہوئی تھی جس کی تقریبِ رونمائی ساؤتھ آسٹریلیا میں کی گئی تھی نیز راقم الحروف کو اس تقریب کے اہتمام کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔ اب انہوں نے اوربہت سے موضوعات پر بھی قلم اٹھایا ہے۔ مزید یہ کہ ان کی دو تازہ کتابیں ”ہمارے خواب ہمارا عزم“ اور ”The Sound of Baqai“اردو اور انگریزی زبانوں میں حال ہی میں شائع ہوئی ہیں۔آپ کراچی کے موقر حلقوں میں ادب و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔آپ بقائی میڈیکل یونیورسٹی کے شعبہ نشرو اشاعت اور تعلقاتِ عامہ کے ڈائریکٹر ہیں۔ آپ ایک سادہ متحمل، منکسرالمزاج، نرم دل، نرم خو اور ملنساری کے جذبے سے سرشار ایسے انسان ہیں، جن سے مل کر پہلی ہی ملاقات میں نہ صرف اجنبیت کا احساس ختم ہو جاتا ہے؛بلکہ وہ اپنی شستہ گفتگو سے دوسروں کو اپنا گرویدہ بنالیتے ہیں۔بلاشک و شبہ ایک اچھے انسان ہونے کے ساتھ ساتھ آپ ایک اعلیٰ پائے کے ادیب بھی ہیں۔ان کی کتاب ”قلم رکنے سے پہلے“ پر تبصرہ کرتے ہوئے خورشید عابد لکھتے ہیں:
اردو ادب میں کئی بیوروکریٹس نے بہت نام کمایا ہے، شہاب صاحب ایک عمدہ مثال کی صورت
ہمارے سامنے ہیں۔حال ہی میں کراچی سے تعلق رکھنے والے معروف علمی و ادبی شخصیت سید
محمد ناصر علی کی کتاب ”قلم رکنے سے پہلے“ منظرِ عام پر آئی ہے۔اس کتاب کی سب سے بڑی
خوبی اس کی readability ہے یعنی اس کتاب میں سوانح، کالم،مزاح، یادنگاری، سیاست،
فلسفہ اورایسے کئی محاسن ہیں جو سیّدمحمد ناصر علی کی تحریروں میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔
سیّد محمد ناصر علی کی خاکہ اور کہانی نویسی پر اظہارِ رائے سے پہلے اردو ادب کا ایک اجمالی سا جائزہ پیش کرنا میرے نزدیک نہایت ضروری ہے تاکہ سیّد صاحب کے فن کو اس کے ادبی تناظر اور سیاق و سباق میں دیکھا جاسکے۔ اس بات سے ہمارے نقاد انکار نہیں کر سکتے کہ اردو ادب کی وسعتوں کا جس قدر تذکرہ کیجیے، کم ہے کیونکہ یہ ہر صنفِ ادب کو اپنے اندر سمونے اور اسے اپنانے کی صلاحیت اور استعداد رکھتا ہے۔ ریختہ سے اردو زبان کا نام لینے والی یہ زبان اپنی ہمہ گیریت کی بدولت آج دنیا کی چوتھی بڑی زبان کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ اپنی ابتدا ہی سے اس نے اپنی وسعت درازی کا ثبوت دیتے ہوئے سب سے پہلے شعرا ء کو اپنا گرویدہ بنایا اور بعد ازاں داستان گوئی کا ملکہ رکھنے والوں نے اسے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ابھی داستان گوئی کا فن اپنے عروج کی حدوں کو چھو رہاتھا کہ انگریزی ادب کے زیرِ اثر ناول بھی اس کا حصہ بن گیا اور پھر غلام عباس کے افسانوں کے آتے ہی اس نے اپنا دامن ان کے لیے بھی پھیلا دیا۔داستان، ناول، افسانے کے بعدتنقید، کالم نویسی، کہانی نویسی اور خاکہ نگاری کے ابواب بھی کھل گئے۔ خاکہ نگاری کی ابتدا بھی لاشعوری طور پر مولانا محمد حسین آزاد ؔ کی ”آبِ حیات“سے ہوئی اور بعد ازاں فرحت اللہ بیگ نے ”مولوی نذیر احمد“ کا خاکہ تحریر کرکے اسے اس مقام پر پہنچا دیا جس پر اردو ادب بلا شبہ فخر کر سکتا ہے۔

خاکہ نگاری پر گزشتہ تین چار عشروں میں بہت کا م ہوا ہے اور اس سلسلے میں پاک و ہند سے کئی نام ہمارے سامنے آتے ہیں۔ اردو ادب کے معروف ریسرچ سکالر جناب جمیل جالبی کا تذکرہ کرنا نہایت ضروری ہے کہ انہوں نے اس صنفِ ادب کی جو تعریف -اردو خاکہ نگاری کے معتبر نام ”شاہد احمد دہلوی“کی تصنیف”چند ادبی شخصیتیں“ کے مقدمہ میں -لکھی ہے وہ انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
خاکہ ایک ایسی صنفِ ادب قرارپائی ]ہے[ جس میں کسی ایسے انسان کے خد و خال پیش کیے جائیں،کسی ایسی شخصیت کے نقوش ابھارے جائیں جس سے لکھنے والا خلوت اور جلوت میں ملا ہو۔اس کی عظمتوں اور لغزشوں سے واقف ہواور تمام تاثرات کو ایسے شگفتہ انداز میں پیش کرے کہ پڑھنے والا بھی اس شخصیت سے واقف ہوکراسے ایک کردار کے طور پر قبول کرے جو ان تمام انسانوں سے ذرا سامختلف ہو جن سے ہم اور آپ اپنی اپنی زندگیوں میں دوچار ہوئے ہیں۔ خاکہ نگاری میں قوتِ مشاہدہ، ماضی کے واقعات
کو یاد کرکے پیش کرنے کا ڈھنگ اور ان سب واقعات کو اپنے زاویہ ئ نظر کی لڑی میں پروکر خوب صورت ہار یا گلدستہ بنانے کا سلیقہ خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ اس اعتبار سے خاکہ نگاری، سیرت نگاری کے فن سے بالکل ایک الگ صنفِ ادب بن جاتی ہے۔دراصل جدید خاکہ نگاری مختصر افسانہ سے بہت قریب ہے۔
(مقدمہ:چندادبی شخصیتیں ازشاہد احمد دہلوی، ص۲۱)

اگرچہ دیگر بہت سی اصنافِ ادب کی طرح خاکہ نگاری بھی انگریزی ادب سے آئی ہے لیکن اردو خاکہ نگاری کا مقام و مرتبہ زمانہ حال میں نہایت بلند ہے کہ اردو خاکہ تہذیب کی حدوں کو پار نہیں کرتا اور یہ بات خاکہ نگار کے پسِ ذہن ہمیشہ موجود رہتی ہے کیونکہ وہ اسی معاشرے کا فرد ہوتا ہے جس معاشرے کی شخصیات کی وہ خلوت اور جلوت کو اپنے قلم کے زور سے اپنے قاری سے متعارف کراتا ہے۔ سید محمد ناصر علی کے خاکے پڑھنے سے یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ ان کے قلم سے کہیں چونک نہیں ہوئی اور انہوں نے نہایت خو ب صورتی سے قاری کو اپنی شخصیت سے متعارف کر الیا ہے۔وہ اپنی قوتِ مشاہدہ کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے خاکوں میں نہ صرف جاہ و حشمت اور وقار کو پیشِ نظر رکھتے ہیں بلکہ اپنی شگفتہ مزاجی سے کام لے کر قاری کی دلچسپی کو بھی برقرار رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں۔

سطورِ بالا میں اردو خاکے کے سفر کے تناظر میں عرض کر رہا تھا کہ یہ بھی انگریزی ادب ہی کی دین ہے۔چنانچہ موقع غنیمت جانتے ہوئے یہ بات بھی یہاں احاطہئ تحریر میں لانا ضروری سمجھتا ہوں کہ انگریزی ادب میں خاکے کی کیا تعریف متعین کی گئی ہے۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیجیے کہ ”خاکہ“ انگر یزی لفظ ”سکیچ“ یا ”اسکیچ“کا ترجمہ ہے۔جس کی تعریف جے۔ اے۔ کڈن درج ذیل الفاظ میں کرتا ہے:
Two basic categories of sketch may be distinguished: (a) a short piece of prose (often of perhaps a thousand to two thousand words) and usually of a descriptive kind. Commonly found in newspapers and magazines. In some cases it becomes very nearly a short story (q.v.). A well-known example is Dickens's Sketches by Boz (1839), a series of sketches of life and manners; (b) a brief dramatic piece of the kind one might find in a revue (q.v.) or as a curtain raiser (q.v.) or as part of some other kind of theatrical entertainment. A good example is Harold Pinter's Last Bus. The sketch has also been developed into a particular dramatic form, as a kind of monodrama (q.v.) by monologists like Hetty Hunt, Ruth Draper and Joyce Grenfell. The solo mime Marcel Marceau worked out his own form of dramatic sketch. See also character. (Cuddon, 2012)
جب کہ انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا میں اس کی تعریف درج ذیل الفاظ میں کی گئی ہے۔
Literary sketch, short prose narrative, often an entertaining account of some aspect of a culture written by someone within that culture for readers outside of it—for example, anecdotes of a traveler in India published in an English magazine. Informal in style, the sketch is less dramatic but more analytic and descriptive than the tale and the short story. A writer of a sketch maintains a chatty and familiar tone, understating his major points and suggesting, rather than stating, conclusions. (Encylopedia Britannica vol.7, p.398)

اب اگر مندرجہ بالا اردو اور انگریزی تعریفوں کو پیشِ نظر رکھیں تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ واقعی جدید اردوادب میں خاکہ نگاری کے میدان میں سب سے بڑا نام شاہد احمد دہلوی کا ہے۔ ان کے لکھے ہوئے خاکے ہمیشہ اہلیانِ وعلم و ادب کو متاثر کرتے رہیں گے؛لیکن زمانہ حال کے زندہ و جاوید خاکہ نگاروں میں ایک نام جو سامنے آیا ہے، وہ سیّد محمد ناصر علی کا ہے۔ مجھے ان کے تحریر کردہ خاکے پڑھنے کاموقع میسّر آیا ہے۔ ان خاکوں میں مجھے تصنوع کا عنصر بالکل نہیں ملا۔ وہ سیدھے سادے الفاظ میں ایسا مرقع کھینچتے ہیں کہ شخصیت سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔سیّد محمد ناصر علی کے بقول، ”لفظی خاکے کے معنی لفظی پیمانہ پیش ہے۔ آپ کی رائے قلم کو مہمیز لگاسکتی ہے۔میں نے تو مائیکل انجیلو کے کہنے کے مطابق صرف فالتو پتھر ہٹائے ہیں۔“گویا جن شخصیات کے خاکے اور کہانیاں انہوں نے تحریر کیے ہیں دوسرے لفظوں میں وہ ایسی ہی شخصیات تھیں اور ہیں جیسے ان کے مرقعے کھینچے گئے ہیں۔دیکھیے کس خوبصورتی سے وہ ”بوا“ کی شخصیت کو ہم سے متعارف کراتے ہیں۔

’بوا‘ پرانی تہذیب و معاشرت کی علم بردار۔۔۔ خوش لباس، خوش شکل۔۔۔گھر میں ہمیشہ سفید غرارہ قمیض
پہنتیں اورتقریبات میں رنگین غرارہ سوٹ ان کا پسندیدہ لباس ہوتا۔۔۔ شخصیت سنجیدہ اور وضع داری کا
مرقع۔۔۔چہرے پر ٹھیک ناک کے نیچے نتھنے کے قریب موٹا سا مسہّ ان کی شخصیت کو منفرد بناتاتھا۔۔۔
سرخی پوڈر اور میک اپ سے بے نیاز بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ ان کو اس قسم کے کسی مصنوعی حسن کے سہارے کی جوانی اور بڑھاپے میں ضرورت نہیں پڑی۔۔۔ قدرت نے خود ہی انہیں جاذبیت اور کشش سے نوازاتھا۔

سیّد محمدناصرعلی کے خاکے ”بوا“ میں ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ایک خوب صورت خاکہ تو ہے ہی لیکن ساتھ ہی ساتھ ہماری توجہ تقسیمِ ہند کے نامساعد حالات و واقعات کی طرف بھی مبذول کراتاہے گویا اس خاکے میں انہوں نے ایک تیر سے دو شکار کیے ہیں۔یہ کسی بھی صاحبِ تحریر کا ہنر ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہنر سے قاری کو نہ صرف تحریر میں گم کردے بلکہ اس کے لیے معلومات کے خزینوں کے در بھی وا کر دے۔ میرے خیال میں ناصر ہر دو طرح سے کامیاب ہیں اور یہی ان کا اصل فن ہے۔

تقسیم برصغیر کے بعد ہجرت کی تکالیف خاندان کے بہت سے افراد نے جھیلیں۔پاکستان کے لئے
آسودہ زندگی کو خیر باد کہا اور ناآسودگی کے پہاڑ عبور کئے۔ زمین،جائیداد،دولت سب کچھ پیچھے چھوڑ
دیا۔ البتہ جنہوں نے تعلیم کو اپنا زیور سمجھا ان کے ہاں آسودگی،کشادگی رزق اور خوشحالی نے بھی اپنا
روپ خوب دکھایا۔ یوں ’بوا‘ کی بات سچ ثابت ہوئی کہ تعلیم ایسی دولت ہے جسے کوئی نہیں چھین سکتا۔
جتنی تقسیم کرو اس میں اتنا ہی اضافہ ہوتاہے۔
”فرد فرید__فریدالدین “میں سیّد ناصر علی نے جس مہارت سے ڈاکٹر فریدالدین بقائی کا خاکہ تحریر کیا ہے وہ انہیں اپنے عہد کے خاکہ نگاروں میں ممتاز بناتا ہے۔وہ لکھتے ہیں:
گول چہرہ۔۔۔ کشادہ پیشانی۔۔۔ سرمائی۔۔۔ بال سلیقہ سے بنے ہوئے۔۔۔ متوسط قد۔۔۔
سادہ لباس۔۔۔ پرکشش شخصیت۔۔۔ نپے تلے قدموں کی چال کے ساتھ۔۔۔ ڈاکٹر بقائی
آگئے۔ انہوں نے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے کمرے کے باہربینچ پر بیٹھے منتظر لوگوں پر ایک
طائرانہ نظر دوڑائی اور مجھے اشارے سے کہا کہ پہلے آپ آیئے۔۔۔ اسے قیافہ شناسی کہوں۔۔۔
یا اپنانصیب۔۔۔ یا ان کی مروم شناسی۔۔۔آپ اسے کوئی بھی نام دے سکتے ہیں۔

چونکہ سیّد صاحب نے پروفیسر ڈاکٹر فریدالدین بقائی کے ساتھ کم و بیش ایک عشرہ پر محیط وقت گزارا چنانچہ ان کا جو وقت ڈاکٹر بقائی کی معیّت میں گزرا تو میرے خیال میں یقینا اس دوران میں انہیں اُن کو پرکھنے، جاننے اور سمجھنے کے بھر پور مواقع میّسر آئے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر بقائی کے خاکے میں ہمیں جہاں ان کی شخصیت کے بارے علم ہوتا ہے وہاں ان کے عام لوگوں کے ساتھ رویے پر بھی روشنی پڑتی ہے۔

سیّدناصر صاحب کے خاکوں کا ایک اور خاص وصف جو دورانِ مطالعہ مجھے محسوس ہوا اور جس سے میں خوب محظوظ ہوا اور مجھے یقین ہے کہ ان کا قاری بھی اس سے محظوظ ہوئے بغیر نہ رہ سکے گا وہ ہے مزاح کا عنصر۔ بظاہر سیّد ناصر علی ایک سنجیدہ انسان دکھائی دیتے ہیں،مگر ان کی تحریروں میں شگفتگی کا پہلو بھی نمایاں نظر آتا ہے۔”N/A - Sim“میں آئیے آپ کو ان کے مزاح اور شگفتگی کی ایک ہلکی سی جھلک دکھاتا چلوں:
صبح کے ۲۱ بجے نسیم صبح خیز کا ایک جھونکا آیا۔ مشام جان کو چھوا۔مطلب کہ۔۔۔ چھونے کا وقت تو گزر گیا تھا اس لئے جان سے لپٹ گیا۔ یوں سمجھئے کہ چمٹ گیا۔۔۔ مطلب کہ۔۔۔ہم نے بھی اسے خود دل و جان سمجھ کر چمٹا لیا۔۔۔ غلط نہ سمجھئے گا!چمٹا وہ نہیں جو خواتین باورچی خانہ میں کھانا پکاتے وقت استعمالکرتی ہیں؛ بلکہ بوقت ضرورت اپنے دفاع اور بلاضرورت چمٹنے والے کو دور رکھنے کی غرض سے حملے کے لئے بھی استعمال کرتی ہیں __ مطلب کہ __ ہم نے انہیں گلے لگالیا __ خوش آمدید کہنا ہماری عادت بھی ہے اور آبا کی روایت بھی __ یہ معاشرتی قدر تو ہے ہی۔ اس قدر کی قدر کرنا ہماری پہلی دوسری بلکہ تیسری __ غلطی بن گئی۔

دیکھئے ایک اور جگہ کس خوب صورتی سے اپنی پیدائش کا ذکر ظریفانہ انداز میں کرتے ہیں:
میری پیدائش نے کوئی تاریخی کارنامہ انجام نہیں دیا__ کوئی ہلچل نہیں مچائی __ بس چند ماہ بعد دنیا
میں امن قائم ہوگیا۔ جنگ عظیم دوم ایک معاہدہ کے تحت اختتام پذیر ہوئی۔ جرمن شکست کھاگئے۔
دنیا میں امن اور کسادبازاری کا دور شروع ہوا۔ میری پیدائش یکم جنوری ۵۴۹۱ء کو ہوئی اور جنگ عظیم
دوم بند کرنے کا معاہدہ مئی ۵۴۹۱ء کو ہوا۔یقین کریں کہ جنگ کے آغاز اور اختتام میں میرا کوئی ہاتھ
یا عمل دخل نہیں تھا۔ پانچ ماہ کا بچہ کیا کردار اداکرسکتا تھا۔

سیّد محمد ناصر علی جس مہارت سے دوسری شخصیات کے خاکے ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں کچھ اسی طرح کے فن کا مظاہرہ وہ اپنی شخصیت کو متعارف کرانے کے لیے بھی کرتے ہیں۔جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے کہ سیّد ناصرعلی ایک تہذیب یافتہ اور رکھ رکھاؤ والے انسان ہیں۔میرے اس بیان پر انہی کی وہ تحریر مہر ثبت کرتی ہے،جس میں انہوں نے اپنی شخصیت اور اپنی رول ماڈل فیملی کا تذکرہ کیا ہے۔ موصوف ”کس نمی پر سد“ میں لکھتے ہیں:
میں یہ جانتا ہوں ویسا ہی کہ بس میں ہوں۔ جیسا مجھے ہونا چاہیے۔۔۔میں ایک بیٹا ہوں جسے ذمہ داری
کا احساس ہے۔۔۔ایک متوازن شوہر۔۔۔شفیق باپ اور مختلف اداروں میں کام کرتے کرتے باعزت مقام تک پہنچنے والا۔۔۔اپنے کام سے غیر مشروط لگاؤ رکھنے والا۔۔۔صرف محنت سے اور کرم الٰہی سے
صاف اور سیدھا راستہ طے کرتا ہوا اس بلندی ئشکر پر پہنچا ہو ں۔۔۔ربِّ ذولجلال کے خاص کرم سے زندگی
خوب نہیں بہت خوب گزری ہے۔۔۔باقی ہر بات ملتوی کرکے۔۔۔داستان حال کا آغاز کرتا ہوں۔

ادب اور ادیب کے بارے راقم الحروف کا ایک نظریہ ہے کہ ایسا ادب تخلیق ہونا چاہئے جس سے معاشرے کے سدھرنے کا کوئی پہلو نکلتا ہو اور جس میں انسانیت اور اس کی قدروں کا تذکرہ ہو، جس سے ہماری آنے والی نسلوں کو اپنی شناخت میں دشواری نہ ہو؛ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی نقاد مجھے اِس تحریک یا اُس تحریک کا پیرو قرار دے۔ سیّد محمد ناصر علی کے خاکے اورکہانیاں پڑھ کر ایک اطمنان تو ہوا کہ یہ طبع زاد ہیں اور پھر ان سے کسی کی دل آزاری یا معاشرے کے بگاڑ کا کوئی پہلو نہیں نکلتا۔

سیّد صاحب کی کہانیوں کی ایک نمایاں خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے دوستوں اور محسنوں کو کبھی فراموش نہیں کرتے۔اگرچہ اس کا ذکر پہلے بھی ہو چکا ہے لیکن جس طرح انہوں نے ”یہی مختصر سا قصہ ہے__میری زندگی کا حصّہ ہے“میں ڈاکٹر فرید الدین بقائی مرحوم کا کیا ہے، کم ہی لوگ ایسا کرتے ہیں۔ کسی کی زندگی میں کسی کی اچھائی بیان کرنا کبھی کبھار خوشامد کے زمرے میں آجاتا ہے؛ لیکن جب کوئی کسی ایسے شخص کی بابت مثبت رائے کا اظہار کرے جو اس دارِ فانی سے کوچ کر چکا ہو تو تحسین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور سیّد ناصر نے یہ ذمہ داری خوب نبھائی ہے۔

پاکستان میں کتنے لوگ ہیں جو اپنی محنت کی کمائی فروغِ تعلیم‘بحالیئ صحت کے لئے اپنے وسائل استعمال
کررہے ہیں۔ ان کی دولت نہ ان کے صحیح کام آرہی ہے نہ ہی قوم کے مسائل کے حل کرنے میں استعمال
ہورہی ہے۔ ڈاکٹر بقائی اور ان کی بیگم کار خیرمیں دولت جس جذبہ سے صرف کررہے ہیں وہ مثال ہے۔
ان کی زندگی بہت سادہ ہے جبکہ وہ بہت پر تعیش زندگی گزارسکتے ہیں۔

جو لوگ سیّد ناصر علی کو جانتے ہیں وہ اس بات سے یقینا آگاہ ہیں ان کا تعلق صحافت کے شعبہ سے بھی بہت گہرا رہا ہے؛چنانچہ اپنے مرقعاتی مضمون ”چند دن خالد علیگ کے ساتھ“ میں انہوں نے اپنی پہلی ملاقات اور پھر ان کے ساتھ گزارے اپنے ایّام کا ذکر جس کمال خوبی سے کیا ہے وہ ایک باکمال ادیب ہی کر سکتا ہے۔

”عزیز دوست کا زندگی نامہ“ میں مصنف نے شرق الاوسط میں ملازمت کے لیے آنے والے دو احباب”معروف“ اور ”معین“ کا تذکرہ جس ایمانداری اور خوب صورتی سے کیا ہے وہ واقعی قابلِ داد ہے۔ انہوں نے معین کے کردار کو تو بطور مہمان خاکے کا حصہ بنایا؛ لیکن معروف کی زندگی اور شخصیت کا جس طرح خاکہ بیان کیا ہے، وہ خاکہ نگاری کی چند اعلیٰ مثالوں میں سے ایک ہے۔اسی طرح انہوں نے ”کھو کھر سا ہم کو یار ملا“ میں اپنے دوست اشرف کھوکھرکا خاکہ بھی نہایت مہارت سے کھینچا ہے۔
سیّد محمدناصر علی کا طرّہ امتیاز یہ ہے کہ ان کا دل پاکستان کے ۰۷فی صد اس طبقے کے لیے بے چین رہتا ہے جنہیں زندگی کی بنیادیں ضرورتیں تو دور کی بات دو وقت کی روٹی کے بھی لالے پڑے رہتے ہیں۔ ان کا قلم ان کمزور اور معاشرے کے ستائے ہوئے لوگوں کی جیسے آواز بن کر مسندِ اقتدار پر بیٹھے لوگوں کے ضمیر کو جھنجوڑنا چاہتا ہو اور انہیں اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ابدی زندگی کی ایک ہلکی سی جھلک دکھا نا چاہتا ہو۔ سیّد ناصر کا دل بھی شاید ناصر کاظمی کی طر ح کسی اداس دنیا میں گم ہو جاتا ہے۔لیکن سیّد ناصر کا قلم اسی احساس اور جذبے کو ”تضاد۔۔۔شاد باد“ میں اس طرح قرطاسِ ابیض پر بکھیرتا ہے کہ دل بھی اداس ہو تا ہے اور آنکھیں بھی پر نم ہوجاتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
دیہی علاقوں میں زمینداروجاگیردار کے پاس اپنی ضرورت سے زیادہ غلہ ہے۔ پڑے پڑے کیٹروں
کی غذابن کر خراب ہوجاتا ہے۔۔۔ زیادہ دور کیوں جائیں۔تھر میں رہنے والے غذا،دوا تو چھوڑئیے۔
زندگی کی بنیادپانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ ان کے لئے امدادی سامان صاحب کی اجازت کے بغیر تقسیم نہیں ہوسکتا۔ صاحب اختیار کے نشے میں مست محفل رنداں میں غم غلط کرنے میں مشغول ہیں۔
نہ چھیڑاے نکہت باد بہاری ہم مشغول ہیں۔

اور پھر جب ان کا دل دردوغم کے سمندر سے باہر نکلتا ہے تو ان کا قلم سیاست دانوں کی ناانصافیوں کو باور کرانے کے لیے کہیں کہیں طنز کے نشتربھی چبوتا ہے۔ اسی خاکے میں جس کا ذکر سطورِ بالا میں ہو ا ہے،لکھتے ہیں:
قوم کی خدمت کرتا ہوں۔ میری صحت بھی تو رات دن قومی کام بھگتاتے ہوئے خراب ہوئی۔ قوم کو میری
صحت کا خیال کرنا چاہئے۔ علاج کا خرچ قومی خزانہ سے ادا ہونا ہے کسی غریب کی جیب سے نہیں!غریب
کا خزانے سے کیا مطلب۔ اس نے کون سا ٹیکس ادا کیا ہے؟ اس کا حق بنتا ہی نہیں ہے۔ اس کو سوچنا چاہئے وہ غریب کیوں پیدا ہوا؟ اگر علاج کے اخراجات برداشت کرنے کی سکت نہیں تو بیمار کیوں پڑتا ہے؟ روٹی نہیں ملتی تو ہمارا قومی لیڈر بولتا ہے کہ ”کیک کھائے“ ہمارے آرام وآسائش کو نظر نہ لگائے۔ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہونا میرا مقدر تھا۔

”نقش اس کا میرے آئینہ ئادراک میں ہے“ کہنے کو ایک عام سی کہانی ہے لیکن اس میں بھی سیّد محمد ناصر علی نے جس طرح اپنے دوست کا ذکر کیا ہے وہ قابل دید ہی نہیں قابلِ ستائش بھی ہے:
عمران میر کے ساتھ زندگی کے پچاس سے زیادہ سال گزرے۔ ان بیتے برسوں میں زندگی کے سب ہی
رنگ ہونے کے باوجود ہر رنگ اچھوتا ہے۔ساتھ گزاراوقت تو بیت گیا۔ یادوں کا ہجوم ذہن کے پردہ پر
تیزی سے ابھرتا اور ڈوبتا ہے۔ عمران میر اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ یادیں اور باتیں حرماں نصیبوں کے
لئے چھوڑ گئے۔

سیّدناصر کی خاکہ نگاری پر تبصرے کے دوران جس خاکے یا کہانی(کسی حد تک افسانے)نے مجھے بے حد متاثر کیا، وہ ”عشرت بھٹہ“ کے عنوان سے ہے۔ اس میں ناصر اپنے فن کے عروج پر نظر آتے ہیں اور مجھے یقینِ واثق ہے کہ آنے والے زمانوں میں جب نقاد اس پر تنقید لکھے گا تو میرے ان الفاظ سے ضرور اتفاق کرے گا کیونکہ اس کہانی کا رومانوی پہلو بھی اہم ہے اور ہمارے معاشرے کی ناہمواری بھی عیاں ہے، گویا ناصر نے اس کہانی کے ذریعے سے عوام الناس کو ایک پیغام دینے کی اپنی سی سعی کی ہے کہ انا اور ضد صرف اور صرف بربادی کا سبب بنتی ہے،اس لیے اس سے جہاں تک اجتناب کیا جاسکے، کرنا چاہیے۔اپنے اس بیان کی دلیل ناصر کی اسی کہانی سے ذیل میں پیش کر رہا ہوں:
اس شام میرے والدین بڑے بھائی اور بھابی میرے بھائی اور عشرت کی نسبت کو رشتہ میں باندھنے
ان کے گھر پہنچے۔معاملات خوبصورتی سے طے پارہے تھے کہ اچانک ممانی بول پڑیں کہ شادی ہو گی تو
آنے والے تین ماہ میں ہوگی ورنہ۔۔۔بھابی نے بہت سمجھایا کہ شادی کی تیاری میں وقت اور پیسہ درکار
ہے، کم از کم ایک سال کا وقت چاہیے؛ مگر ممانی اپنی بات پر اڑی رہیں۔ اور یوں یہ انمول رشتہ ضد کی بھینٹ چڑھ گیا جس نے بلآخر عشرت کی جان لے لی۔ناصر نے اس خاکے میں اپنے زورِقلم سے کچھ ایسا تاثر پیدا کر دیا ہے کہ بلا شبہ اس خاکے کو ایک افسانے کے طور پر منٹو اور غلام عباس کے افسانوں کا ہم پلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ناصرصاحب کا ایک اور خاکہ جو معاشرتی ناہمواریوں بلکہ بیماریوں کا ترجمان کہا جا سکتا ہے وہ”اک عجیب سی لڑکی“ کے عنوان سے ہے۔ اس میں انہوں نے دولت کو معیار بنانے والے طبقے پر گہری طنز کی ہے اور بتایا ہے کہ رشتوں کے بندھن میں انسان کے کردار کو اولیت دی جانی چاہیے۔

سیّد محمد ناصر علی کی کہانیاں جہاں سلیس اردو کی ترجمان ہیں وہاں نئے دور کے نئے تقاضوں کی بھی عمدہ مثال ہیں۔ سیّدناصر نے صرف خاکے لکھنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے زمانہ طالبعلمی کی یاداشتوں کو بھی قارئین کے لیے رقم کر دیا ہے۔یوں ان کی کہانیاں کہیں خاکے کی شکل میں ابھرتی ہیں تو کہیں افسانوی روپ دھار لیتی ہیں۔صرف یہی نہیں ان کے یہاں بہ یک وقت ایک اچھے مضمون نویس، کہانی نویس، افسانہ نگار اور مکتوب نگار کی خوبیاں نظر آتی ہیں۔سیّد محمد ناصر علی کے خاکے/ کہانیوں کو افسانے کے پیرا میٹرز پر پرکھیے تو وہ اچھے افسانے کی مثال بن جائیں اور کہانی کہیے تو قاری اس کے سحر میں گم ہو جائے، مضمون کہیے تو اوّل تا آخر پڑھنے کو جی چاہے۔سیّدناصر کی اس تصنیف میں خاکے، کہانیوں کے علاوہ ایک اور صنفِ ادب ”مکتوب نگاری“کابھی ایک نمونہ موجود ہے۔

سطورِ ذیل میں دیکھیے کس خوب صورتی سے اپنے زمانہ طالب علمی کی یاداشت کو ”گھامڑ“ میں بیان کرتے ہیں:
فہمیدہ چھوٹے قد کی قبول صورت انتہائی ملنسار اور پڑھنے میں کم کم ہی دلچسپی لینے والی لڑکی تھی؛ پھر بھی ہر سال پاس ہوجاتی۔ اسے اپنے چھوٹے قد کا احساس تھا۔ اپنی اس کمی اور احساسِ کمتری کو اونچی ایڑی کے سینڈل پہن کر پورا کرتی۔ چلتے ہوئے سینڈل سے کھٹ کھٹ کی آواز پیدا ہوتی۔ خاص طورسے سُن سان کو ریڈورمیں کھٹ کھٹ کی گونجتی آواز۔ یہ آواز کلاس میں سب ہی طلبہ کو ناگوار گزرتی تھی خاص طور سے جب کلاس میں خاموشی طاری ہو اور صرف پروفیسر کی آواز گونج رہی ہو۔ فہمیدہ عادتاً تاخیر سے کلاس میں کھٹ کھٹ کرتی پہنچتی۔

اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ سیّد ناصر علی نے نہ صرف اس کہانی کے اہم کردار کا حلیہ اپنے قاری کے سامنے کامیابی سے رکھ دیا ہے بلکہ کہانی کے صوتی اثرات سے بھی متعارف کرانے میں کامیاب رہے ہیں۔

اسی طرح ”پہلی ملاقات“ جس میں انہوں نے اپنے ایک دوست سے متعارف کرایا ہے، اسے ان کے شاہکار فن پاروں میں سے ایک شمار کیا جاسکتا ہے۔دوست کا یہ تعارف ایک بہترین خاکہ بھی ہے اور ایک جیتی جاگتی اور سچی کہانی بھی۔دیکھیے کس خوبصورتی سے ذہین عالم خاں سروہا کا حلیہ بیان کرتے ہیں۔
فرحان حسن نے ایک چھ فٹ اور دوانچ لمبے تڑنگے، کندھے جھکائے راہداری سے گزرتے ہوئے شخص کو اپنے کمرے سے- سیٹ پر بیٹھے بیٹھے -آواز دی۔۔۔ ان سے ملیے! یہ آپ کے نئے ڈائریکٹر ہیں۔ آواز سن کر وہ کمرے میں آئے مختصر تعارف کے بعد وہ مجھے یونیورسٹی کیمپس میں واقع فاطمہ ہسپتال کے ایک کونے میں واقع شعبہ تعلقات عامہ میں موجود دوساتھیوں سے ملوانے لے چلے۔ چلتے چلتے میں نے انہیں ان کے نام کی عجبیت کے بارے میں چھیڑ دیا پھر کیا تھا راستہ بھر اس بات پر زور رہا کہ میرے ماں باپ نے میرانام بہت سوچ سمجھ کر رکھا۔ یہ صرف نام نہیں ان کا دیاہواگل دستہ ہے جو میرے ذہن کو تازہ رکھتا ہے۔ یہی میری پہچان ہے۔ اس کا اثر دیکھ لیجئے کہ میرے دشمن بھی مجھے ذہین کہتے ہیں۔

دل تو چاہتا ہے کہ ان کی اس کہانی کے ایک ایک بانکپن کو فن کی کسوٹی پرپر کھوں لیکن بخوفِ طوالت اختصارپسندی سے ہی کام لینا پڑے گا۔ ناصر علی نے اس کہانی میں جا بجا چٹکلوں سے اپنی تحریر کو شگفتہ بنایا ہے۔ذیل کے اقتباس سے میری اس رائے کی قطعی تصدیق ہو جائے گی۔

لڑکپن کے دن تھے۔ گوشت والے کی دکان پرگئے اور تین پاؤ قیمہ مانگا۔ قصائی نے آواز لگائی ”لڑکے صاحب کا قیمہ بنا دے“۔ بڑی سادگی اور معصومیت سے فرمایا،”کلو بھائی اپنے ہاتھ کا قیمہ دینا“۔ دوسرے گوشت والوں نے کلو کا ریکارڈ لگا دیا کہ لڑکے کی بات بھاری پڑ گئی۔

مکتوب نگاری بھی ایک فن ہے۔ اسداللہ غالب،مولوی نذیر احمد، ابوالکلام آزاد اور میرزا ادیب کے مکاتیب فن کی بلندیوں پرنظر آتے ہیں۔غالبؔ نے مراسلے کو مکالمہ بنا دیا۔ مولوی نذیر احمد نے اپنے خطوط کے ذریعے معاشرتی اقدار کو متعارف کرایا۔ آزاد نے اپنے مکاتیب میں انتہائی مشکل زبان استعمال کی جب کہ میرزا ادیب نے اپنے مکاتیب سے قاری کو سحر زدہ کردیا۔سیّد ناصر علی نے اس میدان میں بھی قدم رکھا اور مولوی نذیر احمد کے تتبع میں اپنی بیٹی کے نام ایک مکتوب لکھا؛جسے انہوں نے اپنی اس تصنیف میں بھی شامل کر لیا ہے۔یہ مراسلہ دراصل پند ونصائح کا مجموعہ ہے کہ موصوف کی بیٹی ہمیشہ کے لیے دیارِ غیر بسنے جارہی تھی؛ چنانچہ بیٹی کی محبت میں انہوں نے اسے بہت سی نصیحتیں کی ہیں۔ اقتباس ملاحظہ کیجیے:
تمہاری پرورش اور تربیت کسی خود بخود اگنے والے پودے کی طرح نہیں ہوئی ہے؛بلکہ تمہیں باغ کے
خوبصورت پودے کی طرح پروان چڑھایا گیا ہے۔ جنگل کی بے ربط جھاڑیوں اور درختوں کی مانند نہیں۔
نئے معاشرے کے اتار چڑھاؤ اور اس کی اچھائیوں برائیوں سے- اپنی دور اندیشی کے باعث -متنبہ کرتے ہوئے نصیحت کرتے ہیں اور ایک ناصح کے طور پر منصہ شہود پر جلوہ گر ہوتے ہیں۔لکھتے ہیں:
۔۔۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بحیثیت مسلمان حرام اور حلال کا فرق مٹا دو۔ اللہ نے جو چیز حرام قراردی ہے ان کی سائنسی اور معاشرتی خرابیاں ظاہر ہوچکی ہیں۔ حلال اعمال کے اثرات بھی شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

تمہیں اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہے۔تمہارا اہم فریضہ حیدر علی کی تعلیم اور تربیت مثبت انداز میں کرنا ہے۔ اس کی شخصیت کو مضبوط بنانا ہے۔ حرام، حلال، صحیح و غلط، جائز و ناجائز کی پہچان کرانے کے ساتھ ساتھ ایک اچھا انسان اور اچھا مسلمان بنانا ہے۔ اس ملک میں اور وہاں کے ماحول میں یہ معمولی ذمہ داری نہیں ہے۔

الغرض ”خاکے کہانیاں‘جن خاکوں اور کہانیوں پر مشتمل ہے، ان پر روشنی ڈالتے ہوئے خود مصنف کا کہنا ہے:
ان میں وہ کردار ہیں جنہیں میں نے دیکھا۔ ان کے ساتھ رہا۔ان سے قربت قلبی بھی رہی۔ قربت ذہنی بھی۔
بعض کردار وہ ہیں جن کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ ”تومن شدی۔من تو شدی“۔ اس ربط اور تعلق نے
انکے بارے میں لکھنے پر اکسایا اور خاکہ وجود میں آگیا۔ ان خاکوں میں وہ شخصیات بھی شا مل ہیں جو میری محسن ہیں۔ انہوں نے بے حساب اور بے طلب محبتیں دی ہیں۔ توجہ دی ہے کچھ ایسے اصحاب ہیں جن سے قربتیں رہیں مگر وقت پڑنے پرہر چیز کو نظر انداز کرکے دوری اختیار کرلی۔ میں پھر بھی ان کا مقروض ہوں کہ ان کے رویوّں نے سیکھنے کا موقع دیااور اس قرض کو اتارنے کی ایک چھو ٹی سے کوشش ہے۔کسی کے بارے میں منفی اظہار کا مقصد دل شکنی نہیں بلکہ اس کردار کے عدم توازن کی طرف توجہ ضرور ہے۔

آخر میں مَیں جناب سیّد محمد ناصر علی صاحب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے کہانی اور خاکہ نویسی کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اس میں ایک باب کا اضافہ کیا اور دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے زورِ قلم سے اردو زبان و ادب کی یونہی خدمت کرتے رہیں۔آمین
Afzal Razvi
About the Author: Afzal Razvi Read More Articles by Afzal Razvi: 118 Articles with 173436 views Educationist-Works in the Department for Education South AUSTRALIA and lives in Adelaide.
Author of Dar Barg e Lala o Gul (a research work on Allama
.. View More