نائن الیون کا درس

امریکہ میں ورلڈٹریڈ سنٹر کی 10 برسی تزک و احتشام سے منائی گئی۔9/11 کو ٹی وی پر برسی کی تقریبات دیکھتے ہوئے شعور و افکارکے دھارے میں گنجلک سوالات کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا .۔کیا 9/11 کی زمہ دار ہے؟ کیا امت مسلمہ پر دہشت گردی کی چھاپ ہمیشہ رہے گیَ؟ کیا کبھی حقائق منظر عام پر آسکیں گے؟ پاکستان نے فرنٹ لائنر کی حثیت سے کیا کھویا کیا پایا؟9/11 کے بعد تحریک آزادی کشمیر پر کیا اثرات مرتب ہوئے ۔ کو9/11امریکی تاریخ کا بدترین سانحہ قراد دیا جاتا ہے۔جس نے دنیاکی تاریخ کو یکسر بدل ڈالا۔9/11کی کوکھ سے ایسی سیاست نے جنم لیا جس نے اقوام عالم کے تعلقات کو یکسر بدل دیا۔دشمن دوست اور دوست دشمن بن گئے۔ امریکہ کی فراہم کردہ لسٹ کے ،مطابق19 ہائی جیکرز نے چار ہوائی جہازوں کے لئے تین مقامات کو نشانہ بنایا جس میں لگ بھگ3 ہزار افراد لقمہ اجل بنے جبکہ رد عمل میں امریکہ اور اتحادیوں نے عراق و کابل پر جنگیں مسلط کیں تو2 لاکھ50 ہزار مسلمان عدم راہی ہوئے۔جنگ کے 10 سالوں میں4 ٹریلین ڈالر راکھ ہوچکے تاہم ابھی تک اسکے خاتمے کے کوئی اثار نہیں۔پاکستان نے جنگ میں سنگین معاشی جانی اور عسکری صدمات سہے۔ایرک میسی نے اپنے مقالے بعنوان مستقبل کا ابھرتا پاکستان میں لکھا ہے کہ پاکستان40 ہزر پاکستانیوں کی ہلاکت اور50 ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرچکا ہے۔ہلاک شدگان میں5 ہزار سیکیورٹی اہلکار شامل ہیں۔8ہزار معزور ہوئے۔ابتدا میں ناٹو کا ہدف افغانستان تھا مگر اب انکی جنگ کا محور و مرکز پاکستان ہے´۔پاکستان میں اج تک اتفاق رائے پیدا نہ ہوسکا کہ یہ جنگ پاکستان کی ہے یا امریکی مفادات کی لڑائی ہے۔امریکی اخبار واشنگٹن ٹائمز میں برسی پر شائع ہونے والے ایڈیشن میں درج ہے کہ9/11 سے امریکیوں نے سبق حاصل کیا وہ امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں کا جذبہ حب الوطنی ہے۔ امریکہ میں بسنے والے70 لاکھ مسلمانوں کے متعلق شکوک و شبہات کا شکار تھی کہ وہ شدت پسندی کی جانب مائل ہوسکتے ہیں۔اخبارclash of civilisation کے متعلق لکھتا ہے کہ9/11 کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال نے سیموئیل ہمگٹنٹن کے فلسفے تہذیبوں کے ٹکراو کو کلی طور پر رد کردیا۔ایک سروے کے مطابق امریکہ یورپ اور مسلمانوں کے مابین بڑے تصادم کی وجہ 9/11کے حملے ہیں اس پر لوگوں کی رائے2001 میں28٪2002 میں35 فیصد2006 میں40٪2011 میں35٪ رہی۔ نو دو گیارہ کے فوری بعد63٪ لوگوں کا خیال تھا کہ امریکہ اورمغرب کی جنگ مسلمانوں کے چھوٹے چھوٹے شدت پسند گروہوں سے ہوگی اور یہ شرح اگست2011 میں گر کر57٪ ہوگئی۔ امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل کے مطابق 9/11سے پہلے امریکی پالیسی چین کے گرد گھوم رہی تھی مگر حادثے کے بعد مسلم ملکوں کو مرکزی حثیت مل گئی۔افغانستان اور پاکستان امریکی پالیسی سازوں کے لئے مرکز ہیں جو پہلے امریکی خارجہ پالیسی کے ایجنڈہ میں تیسرے درجے پر تھے۔ وائس آف امریکہ اور جرمن ٹائمز کے خصوصی شماروں میں شائع ہونے والے فیچرز میں دنیا بھر کے تجزیاتی افلاطونوں جنگی ماہرین محققین اور سکالرز کی اکثریت کے اس تجزئیے اور سچ کی تصدیق کی گئی ہے کہ 9/11 کا تعلق القاعدہ یامسلمانوں سے نہیں ہے بلکہ یہ بش regim کی ائل مافیا کے صہیونی اماموں اور رزیلوں کا کارنامہ ہے جو اقوام مسلم کے معدنی وسائل کی ڈکیتی کی پلاننگ کرچکے تھے۔وائس اف آمریکہ اور جرمن ٹائمز کے مطابق ایک عشرہ گزرنے کے کے باوجودcia کے بعد نائن الیون کے حقائق کی روک تھام کررہی ہے۔امریکہ اور دنیا بھر کی اکثر امریکن نواز یورپی اور مسلم ریاستیں القاعدہ کو مورد الزام ٹھراتی آرہی ہیں۔گو کہ اسامہ بن لادن نے ان حملوں کی زمہ داری قبول کرلی تھی۔اہل دانش و بنیش سرکاری اور غیر سرکاری آفیسرز اور عام امریکیوں کی بڑی اکثریتcia اور دیگر سراغسان ایجنسیوں اور زرائع ابلاغ کی تحقیقات سے متفق نہیں انکا کہنا ہے کہ گراونڈ زیرو کے سانحہ جانفزا کا القاعدہ کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں بلکہ بش ایڈمنسٹریشن کے جنگ باز وزرا اسلحہ ساز فیکٹریوں کے صہیونی مالکان اور اسرائیلی ایجنٹوں نے ورلڈٹریڈ سنٹر کو غتر بود کیا۔وائس آف امریکہ کی ریسرچ کے مطابق اسرائیلی شرپسندوں نے تباہی سے پہلے وہاں بارود ٹائم بم انسٹال کررکھے تھے ۔گراونڈ زیرو پر ایستادہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو روئے ارض سے مٹانے کی خاطر میزائل بھی استعمال ہوئے۔امریکہ میں ایک اور اعتدال نظریے کی صدائے باز گشت کی گونج سنائی دیتی ہے کہ امریکی حکومت نے خود تو اپنے شہریوں کو ہلاک نہیں کیا مگر ایجنسیاں حملوں سے باخبر تھیں پھر بھی حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے برابر تھے۔سازشی نظریہ سازوں کا کہنا ہے کہ چاند پر قدم رکھنے والے خلابازوں کی فلمیں چاند کی بجائے فلم اسٹوڈیو میں فلمائی گئیں۔دونوں صورتوں میں بش کو بغداد و کابل پر حملوں شہری آزادیوں کو لگام دینے کے لئے کوئی جواز درکار تھا؟ سرمایادارانہ نظام کے پجاری اور پرتش کار جو بش جونیر کے مقربین تھے یہ گنے چنے سرمایہ دار کارخانوں اور کارپوریشنز کے مالک ہیں۔بش نے ساروں کو ٹیکس میں چھوٹ دی۔وہ امیر سے امیر تر بن گئے،اگر9/11 کاشعبدہ رونما نہ ہوتا تو بش سمیت کسی اور کو یہ ہمت نہ تھی کہ وہ آئل مافیا کے شدت پسند سرمایایہ داروں پر ڈالروں کی بارش کرتا۔9/11کے بعد آزادی کشمیر پر قیامت آن پڑی۔bbcکے مطابق 9/11 نے کشمیر کے تمام حریت پسند گروپ کمزور ہوتے گئے ۔ کشمیر میں جاری مسلح جدوجہد اور مزاحمت کا زور ٹوٹ گیا۔ امریکی صدر نے تحریک مزاحمت کو دہشت گردی سے ملا دیا اور باقائدہ جنگ کرنے کا اعلان کیا یوںتحریک کو جو عالمی پزیرائی حاصل تھی وہ دھیمی پڑ گئی جبکہ بھارتی موقف کو تقویت نصیب ہوئی۔امریکی جنگ میں صف اول کے اتحادی پاکستان پر زور دیا کہ وہ کشمیر پالیسی میں لچک پیدا کرے۔وکی لیکس کے انکشافات کے مطابق اگر طالبان دوبارہ مسند اقتدار پر جلوہ گر ہوئے تو تحریک کشمیر دوبارہ بھڑک اٹھے گی اور عین ممکن ہے کہ اس مرتبہ تحریک کی ڈور پا چین تھام لے۔ ٹیلی گراف نے اپنے ایڈیشن میں لکھا کہ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں ہلاکت جنگ کا نقطہ عروج ہے جو2001 میں شروع ہوئی تھی۔برٹش میڈیا لکھتا ہے کہ 9/11کے بعد پاک امریکہ تعلقات میں کئی نشیب و فراز آئے۔امریکہ نے13 ستمبر2001 کوisi کے سربراہ کو واشنگٹن میں وارننگ دی گئی کہ اگر پاکستان طالبان کے خلاف امریکی اتحادی کا رول ادا نہیں کرتا تو پاکستان کو پتھر والے دور میں دھکیل دیا جائے گا۔جنرل مشرف نے حال ہی میں امریکی ٹی ویcbs کو انٹرویو دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ اس وقت کے نائب وزیرخارجہ رچرڈ ارمیٹیج نے مجھے دھمکی دی تھی کہ امریکہ پاکستان پر حملہ کرسکتا ہے۔9/11 کے چھ ماہ بعد القاعدہ کے اہم ترین کمانڈروں کی گرفتاریاں شروع ہوئیں۔مارچ2002 میں لادن ایمن الظواہری کے بعد تیسری پوزیشن پر فائز ابوزبیدہ کو فیصل آباد سے گرفتار ہوا۔رمزی بن فقیہ نامی کمانڈر امریکی جہاز ایس ایس کول پر حملہ کرنے والے گروہ میں شامل تھا۔اسکی گرفتاری 2002 کو کراچی میں عمل آئی ۔ فقیہ ایک طرف جرمنی ہیمبرگ میں القاعدہ سیل کا انچارج تھا تو دوسری طرف اس نے ہائی جیکرز کو مالی امداد مہیا کی۔یکم مارچ 2003کو بش نے پاکستان سے9/11 الیون کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ کی گرفتاری کا اعلان کیا جس کءگرفتاری پر25 بلین ڈالر تھی۔یہ ہائی پروفائل کامیابی تھی2004 میں لادن کے قریبی ساتھی خلفان کو2004 میں گجرات سے دھر لیا گیا۔خلفان کینیا میں امریکی سفارت خانے پر حملہ کرنے کی واردات میں ملوث تھا۔پاکستان میں القائدہ یونٹ کے سرخیل ابو فراج2005 میں ٹرائبل ایریا سے گرفتار ہوا۔وہ پاک فوج اور القاعدہ کے درمیان رابطے کا کام کرتا تھا۔اسامہ بن لادن اپریل2011 میں ایبٹ اباد میں امریکی کمانڈوز کے ہاتھوں مارا گیا۔ مغربی اخبارات میں شائع ہونے والے متن سے یہ سچ برآمد ہوتا ہے کہ نو دوگیارہ کی دہشت گردانہ کاروائی اسامہ کی بجائے اسرائیلی ایجنٹوں کا مکروہ کارنامہ ہے۔ امریکہ میں ائل مافیا کے سرکردہ وزرا اور اسرائیل نواز لابیوں نے عراق و کابل پر قبضہ کرکے وسطی ایشیائی ریاستوں کے تیل گیس اور انرجی کے وافر خزانوں تک پہنچنے اور دنیا کے کل تیل کا چوتھائی حصہ رکھنے والے عراقی وسائل کی لوٹ مار کے لئے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو تباہ کرنے کی سازش تیار کی تھی۔اسرائیل کے کٹر دشمن صدام حسین کو مارنے اور عراق کی ڈسپلنڈ فورس کو ریزہ ریزہ کرکے اسرائیل کومڈل ایسٹ کا چوہدری بنانا اور اسرائیل کی قومی سلامتی کو محفوظ تر بنانا بھی سازش کی کڑیاں تھیں۔پاکستان کو اعتراف کرلینا چاہیے کہ وہ امریکی مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ پاکستان کی جنگ نہیں۔امریکہ پاکستان سمیت عالم اسلام کا دشمن ہے ۔ بش جونیر نے 2.5لاکھ عراقی اور افغانی شہریوں کا خون چوس لیا مگر ان آدم خور بلوں کی پیاس ختم ہونے کا نام نہیں لیتی یہی وجہ ہے کہ دس سال پعد بھی خون پینے کا سلسلہ جاری و ساری ہے بس نام اور چہرے بدل گئے۔بش جونیر کی جگہ اوبامہ براجمان ہیں۔ پاکستان کا فرض ہے کہ وہ اس اتش گیر جنگی جہنم سے جلد از جلد باہر نکلے عالم اسلام انکل سام کے قاتل چہرے اور مقاصد کو اچھی طرح پرکھ چکا ہے۔ امت مسلمہ کو امریکی وحشت کا مقابلہ کرنے کے لئے اتفاق و اتحاد اور یکجہتی کو اپنانا چاہیے ۔پاکستان کی حکومتی سیاسی اور عسکری لیڈرشپ کو متفقہ طور پر بنائی جانے والی پالیسی کے تناظر میں فوری طور پر جنگ سے علحیدہ ہوجانا چاہیے ورنہ یہی جہنم سب کیچھ بھسم کرسکتا ہے۔ امت مسلمہ اپنا قبلہ درست کرے ہمیں احتساب کرنا ہوگا کہ امت کب تک امریکی غلامی کی زنجیروں میں جکڑی رہے گی؟ ہم کب تک امریکہ کے سامنے کشگول لٹکاتے رہیں گے؟ قرضوں کا شکنجہ کب تک ہماری گردنیں جکڑتا رہے گا؟ ہم کب تک ڈرون کی ظلمت سہتے رہیں گے؟ طالبان کے گیت گانے والی دینی جماعتیں بتا سکتی ہیں کیا القاعدہ رہنماؤں کی پاکستان سے گرفتاریاں عالمی سطح پر ہماری بدنامی کا شاخسانہ نہیں ہیں؟ امریکی قابضین کی جنگی کاروائیوں کی کسی طور پر حمایت نہیں کی جاسکتی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ القاعدہ اور عسکریت پسندوں کی موجودگی کا کوئی جواز نہیں۔
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 128484 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.