جدید فقہی مسائل- حصہ ششم آخری

سوال:
کیا مشینی ذبیحہ حلال ہوتا ہے؟
جواب:
شرعی طور پر ذبح کے لیے چند شرائط فقہاء کرام نے ذکر کی ہیں ان کا ذبح میں ہونا ضروری ہے۔
ذبح کرنے والا مسلمان ہو یا اہل کتاب ہو۔
ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا۔
فقہا احناف کے نزدیک تین رگوں کا کاٹنا ضروری ہے بہتر چار رگوں کا کاٹنا ہے۔ مگر کم از کم تین ضروری ہیں۔
تیز دھار آلہ سے کاٹنا۔
جمہور علماء کے نزدیک سینہ کے بالائی اور جبڑوں کے درمیان سے کاٹنا۔
مشین کے ذریعے ذبح میں اگر یہ شرائط پائی جائیں تو ذبح درست ہے ورنہ نہیں۔ مشین کے ذریعے ذبح کرتے وقت ہر جانور پر الگ الگ بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ذبح سے پہلے یہ جانور کسی اور وجہ سے مرا ہوا نہ ہو یعنی ذبح کے وقت جانور کا زندہ ہونا ضروری ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی: صاحبزادہ بدر عالم جان

سوال:
گھر میں کتا پالنا کیسا ہے؟ لوگ کتے کو پلید کہتے ہیں۔ اصل حکم کیا ہے؟
جواب:
کتا پلید جانور ہے اور ان جانوروں میں شامل ہے جو درندہ صفت ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے :

وَما من اهل بيت يرتبطون کلباً اِلا نقص من عملهم کل يوم قيراط اِلّا کلب صيدٍ او کلب حرثٍ او کلب غنمٍ.
(رواه الترمذی والنسائی بحواله مشکوٰة)

ہر وہ گھر والے جو کتا پالتے ہیں تو روزانہ ان کے اعمال میں ایک قیراط کی کمی ہوتی ہے مگر وہ کتا جو شکار کیلئے ہو یا فصل یعنی کھیتی باڑی کی حفاظت کیلئے یا مویشی کی حفاظت کیلئے پالتے ہیں وہ جائز ہے۔
معلوم ہوا کہ صرف شکاری کتا یا اپنے گھر اور مال کی حفاظت کیلئے کتا پالنا جائز ہے اس کے علاوہ بلا ضرورت کتا پالنا جائز نہیں ہے۔
دوسری روایت میں ہے کہ جس گھر میں کتا ہو اس میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی: صاحبزادہ بدر عالم جان

سوال:
اگر کوئی شخص سعودی عرب میں رمضان شریف کا آغاز کرتا ہے جو پاکستان سے دو روز قبل تھا اور دسویں روزے کو واپس آیا تو یہاں آٹھواں روزہ تھا۔ اب وہ اعتکاف بیٹھنا چاہتا ہے تو اس کے لئے اعتکاف کی کیا صورت ہو گی؟
جواب:
اگر کسی شخص نے سعودی عرب میں پہلا روزہ رکھا، اس لئے کہ اس نے وہیں یکم رمضان پالیا، کیونکہ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے :

فَمَنْ شَهِدَ مِنْکُمُ الشَّهرَ فَلْيَصُمْهُ.

البقرة، 2 : 184

’’پس تم میں سے جو کوئی اس مہینے کو پالے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے۔‘‘

اب جبکہ اُس نے رمضان کا آغاز پاکستان سے دو دن قبل کیا اور یہ بھی قطعی ہے کہ اعتکافِ مسنون دس دن سے اور رمضان تیس دن سے زیادہ نہیں ہوسکتا تو اِس صورت میں معتکف کے لئے ضروری ہے کہ وہ سعودی عرب کے حساب سے بیسویں جبکہ پاکستانی حساب سے اٹھارہویں روزے کو اعتکاف بیٹھے۔
البتہ پاکستان میں چاند کے حساب سے جب 28 روزے ہوئے تو اس کے تیس روزے پورے ہو گئے اور تیس سے زائد روزے نہیں رکھے جاسکتے۔ اس لئے اس کا مسنون اعتکاف بھی اٹھائیسویں روزے پر مکمل جائے گا۔

اگلے دن یعنی پاکستان میں 29 رمضان کو وہ شخص اِفطار کرے گا اور اعتکاف کرنا چاہے تو نفلی کرسکتا ہے۔

حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان المبارک کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمای :

لَا تَصُوْمُوا حَتَّی تَرَوُا الْهِلَالَ. وَلَا تُفْطِرُوا حَتَّی تَرَوْهُ، فَإِنْ اُغْمِیَ عَلَيْکُمْ فَاقْدِرُوا لَه.

مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب وجوب صوم رمضان لرؤية الهلال، 4 : 759، رقم : 1080

’’چاند دیکھے بغیر نہ روزہ رکھو اور نہ ہی چاند دیکھے بغیر عید کرو، اور اگر مطلع ابر آلود ہو تو (روزوں) کی مدت پوری کرو (یعنی تیس روزے پورے کرو)۔‘‘
لہٰذا ضروری ہے کہ جس جگہ کے چاند دیکھنے پر روزہ رکھا تھا، وہیں کے حساب سے تیس روزے پورے کرے۔ کیونکہ کوئی قمری مہینہ تیس دن سے زائد کا نہیں ہوتا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

سوال:
کیا کسی مریض کو حالتِ روزہ میں خون دینا جائز ہے؟
جواب:
جسے خون دیا جاتا ہے اسے تو لازمی طور پر روزہ افطار کرنا ہے البتہ خون دینے والا اپنی صحت کا خیال کرے۔ خون دینے سے روزہ تو نہیں ٹوٹتا البتہ کمزوری لاحق ہو جاتی ہے۔ اس لئے خون دینے والے کو اپنی صحت کے مطابق ایسا قدم اٹھانا چاہئے جس سے اس کا روزہ بھی برقرار رہے اور شدید نقاہت بھی نہ ہو۔ ہاں اگر ایمرجنسی ہے تو ظاہرًا بات ہے کہ کسی انسان کی جان بچانا فرض ہے لہٰذا بایں صورت ضعف برداشت کرے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

سوال:
کیا روزے کی حالت میں انہیلر(Inhaler) لینا جائز ہے؟
جواب:
Inhaler انہیلر صرف آکسیجن نہیں بلکہ اس میں دوائی ملی ہوتی ہے جو دل اور معدے تک بطور دوا اثر انداز ہوتی ہے۔ اس لئے اس سے پرہیز کریں۔ اس کے بغیر اگر سانس کا مریض رہ نہیں سکتا اور سانس کی شدید تکلیف میں مبتلا رہتا ہے تو روزہ افطار کرلے اور اگر روبصحت ہونے کی توقع نہ ہو تو فی روزہ فطرانے کی مقدار (دو کلو گندم، آٹا، یا اس کی قیمت) فقیر، مسکین کو فدیہ دے خواہ ہر دن خواہ یکمشت، خواہ ایک کو یا زیادہ کو دے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

سوال:
کیا انجکشن / ڈرپ لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟
جواب:
جی ہاں انجکشن، ڈرپ یا کوئی اور چیز جو غذاء یا دواء میں شامل ہو اور دماغ یا معدہ تک اثر انداز ہو اس کے استعمال سے روزہ ٹوٹ جائے گا اگر شدید بیمار ہے تو اُسے ویسے ہی روزہ نہ رکھنے کی اجازت بلکہ حکم ہے۔ وہ لازمی طور پر افطار کرے اور دواء و غذاء جو معالج ماہر کہے اسے استعمال کرے۔ حتی کہ اگر بیماری کی شدت یا جان جانے کا خوف ہو تو روزہ رکھنا شرعًا ممنوع اور روزہ رکھنے کی صورت میں مریض گناہگار بھی ہوگ۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

سوال:
کیا روزے کی حالت میں مسواک یا ٹوتھ پیسٹ سے دانت صاف کرنا جائز ہے؟
جواب:
جی ہاں! روزے کی حالت میں مسواک یا ٹوتھ پیسٹ سے دانت صاف کرنا جائز ہے بشرطیکہ ٹوتھ پیسٹ کے اجزاء حلق سے نیچے نہ جائیں البتہ مسواک سے دانت صاف کرنا سنت ہے۔ مسواک کے سوکھے یا تر ہونے یا خشک ہونے میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

سوال:
کیا روزہ کی حالت میں لپ اسٹک یا پٹرولیم جیلی (ویزلین) لگانا جائز ہے؟
جواب:
جی ہاں، روزہ کی حالت میں لپ اسٹک یا پٹرولیم جیلی (ویزلین) لگانا جائز ہے بشرطیکہ ان کا ذائقہ حلق میں نہ جائے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

سوال:
کیا دوران نماز موبائل بند کرنے سے نماز ادا ہو جائے گی؟
جواب:
اگر یہ عمل بار بار نہ ہو بلکہ ایک یا دو بار ایسا کر لیا تو اس سے نماز میں کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ یہ عمل قلیل ہے۔ اس کے برعکس اگر اس نے بار بار ایسا کیا تو عمل کثیر کی بناء پر نماز فاسد ہو جائے گی۔
موبائل سامنے رکھے ہونے کی صورت میں نمازی نے دورانِ نماز اگر ایک آدھ مرتبہ موبائل پر آنے والے فون کا نمبر دیکھ کر زبان سے تکلم کیے بغیر اسے بند کر دیا تو اس سے بھی نماز فاسد نہیں ہوگی۔ جیسا کہ امام طحطاوی فرماتے ہیں :
(لو نظر المصلي إلی مکتوب وفهمه) سواء کان قرآنا أوغيره قصد الاستفهام أو لا أساء الأدب، ولم تفسد صلاته لعدم النطق بالکلام.
طحطاوی، مراقی الفلاح : 187
’’نمازی نے (دورانِ نماز) ارادتاً یا غیر ارادی طور پر کسی تحریر کی طرف دیکھا اور اسے سمجھ لیا خواہ وہ قرآن یا اس کے علاوہ کوئی تحریر ہے تو ادب کے خلاف ہے لیکن نطقِ کلام نہ پائے جانے کی وجہ سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔‘‘
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

سوال:
اسلام اور سائنس کا باہمی تعلق کیاہے؟
جواب:
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو حصول علم پر زور دیتا ہے اور اس کا آغاز بھی حصول علم کے حکم سے ہوا۔ قرآن حکیم میں اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِيْ خَلَقَo

’’(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایاo‘‘

العلق، 96 : 1

جبکہ سائنس وہ شعبہ علم ہے جو تجربہ اور مشاہدہ پر مبنی ہے اب اسلام ہی وہ دین ہے جس نے انسانیت کو تجربے اور مشاہدہ سے متعارف کرایا۔

اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِo

’’بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردش میں عقلِ سلیم والوں کے لئے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیںo‘‘

آل عمران، 3 : 190
قرآن حکیم نے سائنسی شعور عطا کرتے ہوئے کائنات کی تسخیر کرنے کی تعلیم دی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَسَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِيْعًا مِّنْهُ.
’’اور اُس نے تمہارے لئے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، سب کو اپنی طرف سے (نظام کے تحت) مسخر کر دیا ہے۔‘‘
الجاثيه، 45 : 13
اسلام ہمیں اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ ہم فطرت کے اسرار کو سمجھیں اور اس کی تسخیر کریں۔ ایسے ہی بقیہ مذاہب کی طرح سائنس اور اسلام کے مابین کوئی تضاد یا تعارض نہیں ہے بلکہ اسلام ہی کا عطا کردہ ایک رویہ ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس وقت دنیا میں ہونے والی سائنسی ترقی کی بنیاد مسلمانوں ہی کی مرہون منت ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

سوال:
اکثر غیرمسلم ہمیں یہ طعنہ دیتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے۔ آپ اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے۔ یہ کردار سے پھیلا ہے تلوار کے زور سے نہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کفار و مشرکین کو ایمان کی دعوت دیتے ہوئے اپنے کردار کو پیش کیا تھا۔ قرآن حکیم میں ہے :

فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِهِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَO

’’بیشک میں اس (قرآن کے اترنے) سے قبل (بھی) تمہارے اندر عمر (کا ایک حصہ) بسر کرچکا ہوں، سو کیا تم عقل نہیں رکھتےo‘‘

يونس، 10 : 16

لوگوں میں عمر گزارنا سیرت و کردار کا پتا دیتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صادق اور امین جانے جاتے تھے اور کفار و مشرکین کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن اخلاق اور حسن کردار کا اس حد تک اعتراف تھا کہ بت پرستی پر قائم رہنے کے عوض وہ وہ آپ کی ساری باتیں ماننے پر تیار تھے۔ جب وہ اس پر سمجھوتہ نہ کرنے کے حوالے سے مکمل طور پر مایوس ہو گئے تو انہوں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہاء کر دی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں مسلمان حاضر ہوتے تو کوئی زخمی حالت میں ہوتا، کسی کو کوڑوں سے مارا گیا ہوتا، تو کسی کو تپتی ریت پر گھسیٹا گیا ہوتا۔ یہ درد ناک صورتحال دیکھ کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کو صبر کی تلقین فرماتے۔
تبيان القرآن، 5 : 762
بیعت عقبہ اولیٰ کے موقعہ پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو مدینہ روانہ فرمایا۔ ان کی دعوت اس قدر پر اثر ثابت ہوئی کہ اگلے سال حضرت مصعب رضی اللہ عنہ 75 مسلمانوں کو بیعت عقبہ ثانیہ کے لئے مکہ لے کر آئے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے ہمراہ 12 انصار صحابہ کو نقباء مقرر فرما کر مدینہ رخصت کیا اور جب ہجرت مدینہ ہوئی تو مدینہ کے لوگوں کی غالب اکثریت اس حال میں مسلمان ہو چکی تھی کہ نہ تلوار اٹھائی گئی اور نہ ہی اذن قتال نازل ہوا تھا۔
قرآنی تعلیمات اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی 63 سالہ انقلابی جدوجہد سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں جتنے بھی معرکے ہوئے، ان میں کسی کو زبردستی مسلمان بنانے کی ایک بھی مثال نہیں ملتی۔ اگرچہ ضرورت کے وقت دفعِ شر اور فتنہ و فساد کو روکنے کے لئے جنگ میں پہل کی گئی لیکن زیادہ تر معرکوں کی نوعیت دفاعی رہی۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب بھی مخالفین نے سرِ تسلیم خم کیا یا راہِ فرار اختیار کی، صلح کے لئے ہاتھ بڑھایا یا ہتھیار ڈال دیئے تو پھر مسلمانوں نے بھی ان پر ہتھیار نہ اٹھائے۔ اسلام میں جنگ محض برائے جنگ نہیں بلکہ قیامِ امن کا ذریعہ ہے۔ محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا تو سندھ دار السلام بن گیا۔ یہ محض مسلمانوں کے کردار اور ان کے ثقافتی غلبہ کا اثر تھا کہ غیر مسلم حلقہ بگوش اسلام ہوتے گئے اور دنیا میں ہر طرف اسلام کا ڈنکا بجنے لگا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

تمام سوالات اور جوابات کے ثبوت کے لیے لنک ۔۔۔۔۔
https://www.thefatwa.com/urdu/catID/5/جدید-فقہی-مسائل/

خادم الفقراء