شہرہ آفاق کالم نگار ، ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف محمد اسلم لودھی - (18ویں قسط )

ملک کی اہم علمی، ادبی ، معاشرتی شخصیات اور پاک فوج کے شہیدوں پر لکھناآپ کا محبوب مشغلہ رہا
غریب گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود آپ نے غربت کو اپنے راستے کی دیوار نہیں بننے دیا
آپ دو سال روزنامہ جرات،چھ ماہ روزنامہ دن ، تین سال روزنامہ پاکستان ، دو سال پشاور کے ارود اخبار آج اور چودہ سال نوائے وقت میں ہفتہ وار کالم لکھتے رہے
آپ کا دو مرتبہ تمغہ حسن کارکردگی کے لیے حکومت پنجاب کی جانب سے نام تجویز کیا گیا لیکن ایوارڈ نہ مل سکا
آپ کو 2007ء میں اردو کالم نگاری کا پہلا ٹیٹرا پیک ایوارڈ (پچاس ہزار کا چیک)حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے
آپ کی گیارہ کتابیں صوبہ پنجاب ، گیارہ خیبرپختونخوا اور گیارہ کتابیں آزاد جموں و کشمیر کے تعلیمی اداروں کی لائبریریوں اور بپلک لائبریریوں کے لیے منظور ہو ئیں

انٹرویو ۔ شہزاد چودھری
سوال ۔ لودھی صاحب یہ بتائیں کہ کبھی آپ نے پتنگ بھی اڑائی ہے یا نہیں ؟اس حوالے سے آپ کے ذہن میں کوئی واقعہ ہو تو وہ ہم سے شیئر کریں۔
اسلم لودھی۔شہزاد چودھری صاحب ، میں نے زندگی میں جتنی مرتبہ پتنگ اڑانے کی کوشش کی ، ہمیشہ ناکام رہا، لیکن اس کام میں میرا بڑا بھائی اکرم لودھی بہت کامیاب پتنگ باز تھا ۔ وہ جس پتنگ کے پیچھے بھاگتا ,چاہے اسے واہگہ سرحد ہی کیوں نہ عبور کرنی پڑے ۔ وہ پتنگ کو پکڑ کے ہی واپس آیا کرتا تھا ۔جب اسکے پاس کافی پتنگیں اکٹھی ہوجاتیں تو چھٹی کے دن جب اسے فراغت حاصل ہوتی ۔ تو پیچ لڑانے سے کبھی باز نہ رہتا لیکن اس کے پاس اپنی خریدی ہوئی نہ تو کبھی ڈور ہوتی اور نہ ہی پتنگ۔ وہ اپنا شوق لوٹی ہوئی پتنگوں اور ڈوروں سے ہی پورا کیا کرتا تھا ۔ چونکہ ہم دونوں بھائی ایک ہی سکول میں پڑھتے تھے، اس لیے جب وہ کٹی ہوئی پتنگ کے پیچھے بھاگتا تو مجھے یہ حکم دے کر جاتا کہ خبردار تم نے گھر جا کر نہیں بتانا کہ میں پتنگ کے پیچھے بھاگا ہوں ۔ چونکہ وہ مجھ سے عمر میں دو سال بڑا تھا اس لیے کتنی بار اس کے ہاتھوں مجھے پھینٹی بھی کھانی پڑی ۔اگر میں کبھی والدہ کو اس کی شکایت لگا دیتا تو وہ موقع ملتے ہی مجھ پر اپنا غصہ ضرور نکالتا ۔
...........................
مارچ کے مہینے میں اکثر بہار کا موسم شروع ہوا کرتا تھا ، لاہور میں بڑی شایان شوکت کے ساتھ بسنت منائی جاتی تھی ، قدرت کی جانب سے انسانوں کے لیے یہ پیغام تصورہوتا کہ ہر آنیوالے دن سردی کم سے کم ہوتی جائے گی تو راتیں ٹھنڈی اور دن خوشگوار موسم میں تبدیل ہو جائیں گے ۔اسی لیے لوگ اسے بسنت بہار کا نام دیا کرتے تھے ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرے بڑے بھائی اکرم صاحب جو بہت ماہر پتنگ باز تھے ۔پتنگیں خریدنے کے لیے گھر سے پیسے تو ملتے نہیں تھے۔ اس لیے جب ہم دونوں سکول سے چھٹی کرکے گھر کی جانب آرہے ہوتے تو وہ مجھے ریلوے لائن کے ساتھ بنی ہوئی پگڈنڈی پربٹھا کر اپنا بستہ بھی میرے سپردکرکے خود کسی نہ کسی کٹی ہوئی پتنگ کے پیچھے بھاگ کھڑا ہوتا ۔اندرون لاہور کے قدیمی حصے میں پتنگ بازی کے اکثر پیچ لڑائے جاتے تھے جس میں لاہور سے باہر کے مہمان بھی ذوق اور شوق سے شریک ہوتے ۔ بطور خاص میاں صلاح الدین ( عر ف میاں صلی ) کی پرانی حویلی جو بادشاہی مسجد کے قریب ہی واقع تھی ، اس حویلی میں بسنت بہار منانے کا بہت اچھا انتظام کیا جاتاتھا ۔جس میں امریکہ اور یورپی ممالک کے سفیر بھی شریک ہوا کرتے تھے ۔وہاں جب کسی کی پتنگ کٹ جاتی تو وہ ہوا کے دوش ہلارے کھاتی ہوئی شہر کے نواحی علاقوں میں پہنچ جاتی ۔ چونکہ ہمارے ریلوے کوارٹر اور سکول بھی نواحی علاقوں پر مشتمل تھے ،اس لیے یہاں کے رہنے والے اکثر بچے پتنگ اڑانے کی بجائے پتنگ لوٹنے کا زیادہ شوق رکھتے تھے اور جس کے ہاتھ میں پتنگ کی ڈور آ جاتی تو وہ یہی سمجھتا جیسے قارون کا خزانہ اسے مل گیا ہو ۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ میں شروع ہی سے اس کام میں نکما ثابت ہوا تھا۔ اول تو میں کسی پتنگ کے پیچھے بھاگتا ہی نہیں تھا اور اگر کبھی بھاگ بھی پڑتا تو میرے ہاتھ کبھی پتنگ نہیں آتی تھی ۔ اگر قدرتی طور پر میرے ہاتھ سے کسی پتنگ کی ڈور ٹچ ہو جاتی تو میں جیسے ہی پتنگ کو اتارنے لگتا تو لکڑی کے بڑے بڑے ڈھانگے اٹھائے بچے بڑے درمیان میں آجاتے اور اچھی بھلی پتنگ کو لیرو لیر کردیتے ۔جس کا مجھے بے حد افسوس ہوا کرتا تھا۔جیسے بہت بڑا خزانہ میرے ہاتھ میں آنے سے پہلے ہی ضائع ہوگیا ۔لیکن میرا بھائی اکرم اس معاملے بہت خوش قسمت تھا۔
ایک مرتبہ یہ ہوا کہ والدہ نے اکرم بھائی کو حکم دیا کہ تم دو تین ٹین ( کنستر) بھر کے گائے کا گوبر لے کر آؤ تاکہ فروخت کرنے کے لیے گولے بنائے جا سکیں ۔جیسے ہی بھائی گوبر اکٹھا کرنے کے لیے گھر سے باہر نکلا تو اڑتی ہوئی پتنگ جو ہچکولے کھاتی ہوئی ہمارے کوارٹروں کے اوپر سے گزر رہی تھی ۔جیسے ہی بھائی اکرم کی نظر اس کٹی ہوئی پتنگ پر پڑی تو انہوں نے اپنا سامان کسی کے پاس امانت کے طور پر رکھا اور خود پتنگ پکڑنے کے لیے بھاگ کھڑا ہوا ۔دیکھنے کو تو یوں محسوس ہورہا تھا کہ وہ پتنگ زیادہ فاصلہ طے نہیں کرے گی اور جلد پکڑی جائے گی لیکن تیزہوا کے دوش وہ اڑتی ہی چلی گئی اور بھائی اکرم پوری دلجمعی کے اس کے پیچھے بھاگتے رہے ۔جب کئی گھنٹے اسی چکر میں گزر گئے تو انہیں احساس ہوا کہ والدہ نے تو گوبر لانے کے لیے کہا تھا ۔ ایک ہاتھ میں پتنگ پکڑے وہ دوڑتے ہوئے جب گھر واپس آ رہے تھے تو اس وقت سورج غروب ہونے کے لیے مغرب کی پستیوں میں جاتا ہوا دکھائی دے رہا تھا او ر شام کا اندھیرا ہر لمحے بڑھتا جا رہا تھا ۔بھائی اکرم کو اس بات کا علم تھا کہ اگر خالی ہاتھ گھر پہنچا تو والدہ کے ہاتھوں خوب پٹائی ہوگی۔ اس لیے پٹائی سے بچنے کے لیے ان کے دماغ میں ایک طریقہ آیا وہ خالی ٹین سر پر اٹھاکر ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ دوڑتے ہوئے سیدن شاہ کالونی جا پہنچے ۔ان کی عقابی نظروں نے دیکھا کہ گجر برادری کی کچھ عورتیں گائے کے گوبر کے اوپلے تھاپ کر ابھی گھر ہی پہنچی ہونگی کیونکہ گوبر ابھی اصلی حالت ہی میں تھا ۔انہوں نے جلدی جلدی اوپلے ٹین میں ڈالے اور ٹین بھرکے وہاں دوڑتے ہوئے گھر جا پہنچے ۔ جب والدہ نے پوچھا تو تم عصر کے وقت گھر سے نکلے تھے ،اتنا وقت کہا ں ضائع کیا تو انہوں نے کوئی نہ کوئی کہانی سن کر ٹین میں بھرا ہوا گوبر والدہ کو پیش کردیا ۔گوبر دیکھ والدہ اطمینان کا اظہار کرکے خاموش ہو گئیں ۔
.......................
یہ بھی بتاتا چلوں کہ میرا بھائی اکرم اخروٹ اور بانٹے بھی بڑے کامیابی سے کھیلتے تھے ۔ محلے کا جو لڑکا شرط لگا کر ان کے ساتھ کھیلتا ۔ہار ہی اس کا مقدر بنتا ۔یہی وجہ ہے گھر میں اخروٹ اور نئے سے نئے بانٹوں کے انبار لگے رہتے ۔ لڑکوں کے دیکھا دیکھی میں بھی کبھی کبھار بانٹے یا اخروٹ کھیلنے کی کوشش کرتا تو ہمیشہ ہار ہی میرا مقدر بنتی ۔مجھے اپنے آپ بہت غصہ آیا کرتا تھا کہ بھائی اکرم کا نشانہ سو فیصد ٹھیک ہے جبکہ میرا نشانہ کبھی بھی ٹھیک نہیں لگتا تھا ۔ اس لیے بھائی اکرم کے جیتے ہوئے بانٹے اور اخروٹ میں ہی ہار دیتا تھا ، جس پر وہ مجھ پر بہت غصے بھی ہوتے اور والدہ کو میری شکایت لگا دیتے کہ اسلم میرے بانٹے ہار جاتا ہے ۔مجھ سمیت تمام بھائیوں کی جیب تو ہمیشہ خالی ہوتی تھی اس میں پیسے ہوتے تو میں بھی بانٹے خرید لیتا ۔اس لیے سوائے خاموشی کے میرے پاس کوئی جواب نہ ہوتا ۔لیکن یہ بات حیران کن ہے کہ لڑکے بھائی اکرم سے ہار جاتے وہ اکثر مجھے گھر سے باہربلاکر چیلنج کرتے کہ آؤ ہمارے ساتھ بانٹے کھیلو ۔مجھے ان کی یہ واردات کافی دیر بعد سمجھ آئی ۔ اس لیے میں انکار کردیتا تھا ۔
مجھے ابھی تک یاد ہے ، کہ بسنت شروع ہوتی تو ریلوے کوارٹروں کے لڑکے درختوں کی لمبی لمبی ٹہنیوں پر خار دار جھاڑیاں لگا کر باندھ لیتے پھر ہر کٹی پتنگ کے پیچھے بھاگ کھڑے ہوتے ۔ اگر پتنگ ہاتھ آجاتی تو خود کوبہت خوش نصیب سمجھتے اگر ہاتھ نہ آتی تو ہاتھ میں پکڑے ہوئے ڈھانگے مار کر پتنگ کو پھاڑ دیتے ۔ 30/Cکے جس کوارٹر میں ہماری رہائش تھی ، اس کے بالکل سامنے 16کوارٹروں کی لمبی قطار تھی ۔جس میں ریلوے ملازمین اپنی فیملیوں کے ساتھ رہائش پذیر تھے ۔ہمارے کوارٹر کے بالکل سامنے ایک شخص سید محمد رہتا تھا جو ریلوے کی محافظ تنظیم واچ اینڈ وارڈ کا سپاہی تھا ۔یہ وہ زمانہ تھا جب ریل گاڑیوں سے اترے ہوئے سامان کو چوری کرنے کے لیے چور رات کے اندھیرے میں وار داتیں کیا کرتے تھے ۔ جس رات سید محمد کی ڈیوٹی ہوتی اس دن چور بھی چوری سے محتاط رہتے ۔چور چونکہ مقامی لوگ ہی ہوا کرتے تھے، اس لیے سب کے علم میں تھا کہ سید محمد بہادر اور ایمان دار سپاہی ہے اس لیے وہ کسی بھی چور کو معاف نہیں کرتاتھا ۔
ایک دن جبکہ سید محمد کے چھوٹے بھائی محمد ایوب ( جو محکمہ واچ اینڈ وارڈ) کے ہی سپاہی تھے لیکن سید محمد کی نسبت نرم مزاج کے حامل انسان تھے ۔ وہ بھی میری طرح رات کے اندھیرے سے ڈرتے تھے ۔ اس لیے انچارج کوکہہ کر اس کی ڈیوٹی دن میں لگوائی جاتی تھی ۔ ایک مرتبہ ہوا یہ کہ ایوب کی ڈیوٹی رات کی ہوگئی ۔ چوروں کو بھی اس بات کی خبر ہوگئی۔ انہوں نے اعلان کردیا آج رات یارڈ میں واردات کرنے کے لیے چورآئیں گے جس میں طاقت ہے وہ روک لے ۔ جب یہ خبر سید محمد کو پہنچی تو وہ بھی اپنے بھائی کی مدد کے لیے وردی پہن کر یارڈ میں جا پہنچا ۔ ساری رات یہ دونوں بھائی ریلوے مال گودام کی حفاظت کرتے رہے ۔ اعلان کے باوجود چور ، چوری کرنے نہ آئے ۔ بعد میں پتہ چلا کہ چور ، سید محمد کے خوف سے واردات کرنے نہیں آئے ۔
ایک دن جب سورج طلوع ہوا تو سب اپنے اپنے روزمرہ کاموں میں مصروف ہوگئے ۔ حسن اتفاق سے اس دن سید محمد کی یارڈ میں ڈیوٹی تھی ۔ وہ واچ اینڈ وارڈ کی وردی پہن کر ،ہاتھ میں سٹک پکڑ کر ریلوے یارڈ میں گشت کررہے تھے۔ اس کی بیوی اپنے گھر کے کام کاج میں مصروف تھی جس کا نام تو شاید کسی کو بھی نہیں پتہ تھا لیکن سب اسے کاکی دی امی کہہ کر پکارتے تھے ۔اس کی تین بیٹیاں اور چار بیٹے تھے ، گوگی سب سے بڑا تھا۔ اس لیے ماں اور باپ کی آنکھوں کا تارا تھا ۔ وہ چپکے سے اپنے گھر سے نکلا اور لکڑی کا ڈھانگا ہاتھ میں پکڑکر پتنگیں لوٹنے کے لیے کوارٹروں کے پیچھے جا پہنچا ۔دور سے ایک پتنگ ہچکولے کھاتی ہوئی میاں میر پل کی جانب جاتی ہوئی دکھائی دی ۔ گوگی کا دل بھی للچایا کہ وہ اس پتنگ کو ضرور پکڑ کے رہے گا ۔اس کی نظریں پتنگ پر جمی ہوئی تھیں اور وہ نتائج سے بے خبر دوڑتا جارہا تھا۔ جیسے ہی وہ میاں میر پل کے درمیان میں پہنچا توایک تیز رفتار کار نے اسے اٹھا کر اتنی دور پھینکا کہ گوگی اسی جگہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے خالق حقیقی کے پاس جا پہنچا ۔ جیسے ہی یہ خبر کوارٹروں میں پہنچی تو میاں میر پل کی جانب بے ساختہ دوڑنے لگے ۔جس کار نے ٹکر ماری تھی وہ کار لیکر رفوچکرہو گیا ۔ جب گوگی کی نعش کو اٹھاکر کوارٹروں میں لایا گیا تو والدین سمیت سارے محلے والوں کی آہ بکا نے آسمان سر پر اٹھا لیا ۔ گوگی کی موت پر رونے والے صرف اس کے والد ین نہیں تھے بلکہ ریلوے کوارٹروں کا شاید ہی کوئی مرد یا عورت ہو گی جس کی آنکھوں میں آنسو نہ آئے ہوں ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایک کا دکھ سب کا دکھ سمجھا جاتا تھا ۔گوگی سب کو روتا ہوا چھوڑ کر اپنے محبت کرنے والوں کے ہاتھوں قبر میں جا اترا ۔ گوگی کی موت کے سوگ میں بہت دنوں تک کوارٹروں کے لوگ غم زدہ رہے ۔جبکہ گوگی کی والدہ کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی ۔وہ سید محمد جو بہت سخت دل کے انسان مشہور تھے ، بیٹے کی موت نے ان کو خون کے آنسو رولا دیا ۔

( جاری ہے )
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 666108 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.