شہرہ آفاق کالم نگار ، ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف محمد اسلم لودھی - (17ویں قسط )

ملک کی اہم علمی، ادبی ، معاشرتی شخصیات اور پاک فوج کے شہیدوں پر لکھناآپ کا محبوب مشغلہ رہا
غریب گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود آپ نے غربت کو اپنے راستے کی دیوار نہیں بننے دیا
آپ دو سال روزنامہ جرات،چھ ماہ روزنامہ دن ، تین سال روزنامہ پاکستان ، دو سال پشاور کے ارود اخبار آج اور چودہ سال نوائے وقت میں ہفتہ وار کالم لکھتے رہے
آپ کا دو مرتبہ تمغہ حسن کارکردگی کے لیے حکومت پنجاب کی جانب سے نام تجویز کیا گیا لیکن ایوارڈ نہ مل سکا
آپ کو 2007ء میں اردو کالم نگاری کا پہلا ٹیٹرا پیک ایوارڈ (پچاس ہزار کا چیک)حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے
آپ کی گیارہ کتابیں صوبہ پنجاب ، گیارہ خیبرپختونخوا اور گیارہ کتابیں آزاد جموں و کشمیر کے تعلیمی اداروں کی لائبریریوں اور بپلک لائبریریوں کے لیے منظور ہو ئیں

سوال ۔ لودھی صاحب اس کا مطلب ہے آپ جوانی میں کرکٹ کھیل کر زندگی کو خوب انجوائے کیا کرتے تھے ۔؟
اسلم لودھی ۔شہزاد صاحب جب ڈھنگ کی کوئی نوکری تو ملتی نہیں تھی ،پھر دل بہلانے کے لیے کرکٹ کھیلنا ہی شروع کردی ۔ ویسے بھی جب اپنی رگوں میں جوان خون گردش کررہا ہو تو کچھ نہ کچھ کرنے کو دل تو کرتا ہے ۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ کرکٹ ٹیم میں صرف میرا بھائی اکرم ہی شامل نہیں تھا ، سب سے بڑے بھائی رمضان خان بھی جب گھر میں فارغ ہوتے تو بھی ہماری ٹیم میں شامل ہو جایا کرتے تھے ۔جبکہ میرے والد صاحب جنہوں نے فیروز پور چھاؤنی میں مایہ ناز کھلاڑی کی حیثیت سے کرکٹ کا آغا ز کیا تھا پھر انہوں نے واں رادھا رام ( حبیب آباد ) میں بھی کرکٹ کے میدان میں وہ جوہر دکھائے کہ پورا شہر میرے والد صاحب کو استاد جی کے لقب سے پکارنے لگا تھا ۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ جب بھی ہماری کرکٹ ٹیم مخالف ٹیم سے ہارنے لگتی تو ہم میں سے ایک بھائی اپنے والدصاحب کو بلالاتا ۔ جیسے ہی والد صاحب ہماری ٹیم کا حصہ بن تے تو ہار ہوا میچ ہم آسانی سے جیت جاتے ۔ کئی بار ایسا بھی ہوتا کہ والد صاحب کی ڈیوٹی شام کو ہوا کرتی تھی ، لکڑیاں اتارنے والا ڈبہ بھی ہمیں نہ ملتا تو والد صاحب میچ دیکھنے کے لیے بذات خود گراؤنڈ کے باہر کھڑے کرکٹ سے محظوظ ہوا کرتے تھے ۔وہ اکثر ہمیں کہا کرتے تھے تم باولر کی باہر جاتی ہوئی گیند کو کیوں چھوڑ دیتے ہو ۔ اسی گیند پر زور دار ہٹ ماری جاتی ہے۔
..............
بہرکیف ایک مرتبہ کسی بات پر اختلاف کی وجہ سے حکیم زادہ (جس کی ایک ٹانگ پولیو کی وجہ سے ٹیڑھی تھی )ہماری ٹیم کا بیٹ لے کر غصے سے گھر چلا گیا ۔ہماری ٹیم چونکہ غریب کھلاڑیوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔ اس لیے پوری ٹیم میں زیادہ سے زیادہ دو بلے ہوا کرتے تھے ،اگر ایک بلا ٹوٹ جاتا تو سمجھو ٹیم ختم ہوگئی ۔ کپتان نے حکیم زادہ سے بیٹ واپس لینے کی ذمہ داری مجھے سونپ دی ۔ میں نے اسے پیار سے سمجھایا کہ ناراضگی اپنی جگہ لیکن تم ٹیم کا بیٹ اپنے گھر کیوں لے آئے ہو ۔ وہ بیٹ مجھے فوری طورپر مجھے واپس کرو ۔ میری اس بات پر حکیم زادہ ( جو پشتو پٹھان تھا اس لیے بات بات پر لڑ پڑتا ) نے کہا میں آپ کو بیٹ نہیں دوں گا ۔ اس کی اس بات پر مجھے بہت غصہ آیا۔ میں نے اونچی آواز میں کہا تم نہیں تمہارا باپ بھی بیٹ دے گا ۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ میری ابھی یہ بات بھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ حکیم زادہ کا باپ گھر سے باہر نکل آیا اور حکیم زادہ سے بیٹ پکڑ کر گھر کے اندر جاتے ہوئے مجھے کہا اب مجھ سے بیٹ لے کر دکھاؤ ۔تعجب کی بات تویہ ہے کہ مجھے اس بات کا علم نہیں تھا کہ حکیم زادہ کا ابا بھی ہماری بات سن رہا ہے ۔ میں نے حکیم زادہ کے والد سے بہت معذرت کی لیکن خردماغ ہونے کی وجہ سے وہ لڑائی جھگڑے پر اتر آیا ۔میں چونکہ صلح جو انسان ہوں اور لڑائی جھگڑے سے دور بھاگتا ہوں۔ اس لیے میں خاموشی سے واپس اپنے گھر چلا آیا ۔ چند دن بعد حکیم زادہ وہ بلا لے کر ہمارے گھر دے گیا ۔
ایک مرتبہ میچ شروع ہونے سے پہلے جب گنتی کی گئی تو ایک کھلاڑی کم تھا ۔بہت سوچ بچار کے بعد جب سر اٹھا کے دیکھا تو کچھ فاصلے پر روزی خان کا بیٹا سلطان شاہ کہیں جارہا تھا ۔بھائی اکرم نے اسے اشارے سے بلایا اور کہا کہ تم ہماری ٹیم کی جانب سے میچ کھیلوگے ۔اس نے کہا مجھے کرکٹ کھیلنا نہیں آتی۔میں نے تو کبھی کرکٹ کا میچ بھی نہیں دیکھا ۔اس لیے مجھے تو معاف ہی کردیں ۔بھائی اکرم نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہاتم پریشان نہ ہو ۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں ۔ سلطان شاہ بھائی اکرم کی باتوں میں آگیا وہ جس لباس میں تھا ،اسی لباس میں ٹیم میں شامل ہو گیا ۔ میچ شروع ہوگیا۔ جب سلطان کی بیٹنگ کی باری آئی تو اس نے بلے کو اتنی زور سے گیند پر مارا کہ گیند تو باؤنڈر ی کے پار کر گیا لیکن بلے کے دو ٹکڑے ہوگئے ۔ہماری ساری ٹیم تو کنگلوں پر مشتمل تھی ۔میچ کے لیے گیند خریدنے کے پیسے بھی بہت مشکل سے اکٹھے کیے جاتے تھے ۔ بلے کی قیمت کو پورا کرنا پوری

(2)
ٹیم کے بس میں نہیں تھا ۔اس لیے سلطان شاہ کو میچ کھلانے کی سزا ساری ٹیم کو بھگتنی پڑی ۔پھر بلا کب خریدا گیا اور کب دوبارہ کرکٹ شروع ہوئی ۔ مجھے کچھ بھی یاد نہیں رہا۔
.....................
لاہورچھاؤنی کے ریلوے کوارٹروں کے رہنے والوں کو یہ فائدہ ضرور تھا کہ موسم بہارکی آمد کے ساتھ ہی بطور خاص مارچ کے مہینے میں فورٹریس سٹیڈیم ( جو ریلوے کوارٹروں سے زیادہ دور نہیں تھا ) میں ہر سال ہارس اینڈ کیٹل شو کا انعقاد بھی کیا جاتا تھا ۔پنجاب کے تمام علاقوں سے یہاں گائے ، بھینسیں اور بکرے وغیرہ مقابلے میں حصہ لینے کے لیے لائے جاتے تھے ۔ جبکہ رات کے وقت پاکستان آرمی کے جوانوں کی طرف سے مختلف کھیل دکھائے جاتے ،جن میں ملٹری پولیس کے جوان اپنی اپنی ہیوی موٹرسائیکلوں پر الٹے پلٹے بیٹھ کر خوب کرتب دکھاکر اپنی مہارت کا ثبوت دیا کرتے تھے ۔سب سے آخر میں ان کا جوکر چلتی ہوئی موٹرسائیکل پر ایسے ایسے کرتب دکھاتا کہ دیکھنے والوں کی حیرت گم ہو جاتی ۔اس وقت یہی سنا تھا کہ جوکر سب جوانوں کا استاد ہے۔ اس لیے وہ سب سے زیادہ ماہر بھی ہے ۔دن کے اجالے میں فورٹریس سٹیڈیم میں نیزہ بازی کے مقابلے بھی منعقد کیے جاتے تھے۔ جس میں دور درازسے آنے والے گبھرو جوان اور ایچی سن کالج کے گھوڑ سوار حصہ لیا کرتے تھے ۔کچھ لوگ کامیاب ہو جاتے تو کچھ لوگ ناکام ٹھہرتے ۔پھر کامیاب نوجوانوں کو بھرے ہوئے سٹیڈیم میں ٹرافی اور سرٹیفیکٹ سے نوازا جاتا ۔جو کسی بھی نوجوان کے لیے زندگی کا اثاثہ بنتی ۔
بہرکیف رات کے وقت پاک فوج کے جوانوں کی جانب سے ایک بھوت پریڈ بھی کی جاتی تھی ۔یہ پریڈ کرنے والے فوج کے جوان اونٹوں سوار ہوتے اور ان کے ہاتھ جلتی ہوئی مشعلیں ہوتیں ۔ جس سے وہ مختلف الفاظ لکھتے اور مناظر بناتے ۔چونکہ ہم بھی کسی نہ کسی طرح سٹیڈیم میں داخل ہو ہی جاتے، اس لیے ہمیں بھی بھوت پریڈ بہت اچھی لگتی تھی ۔ہم دوستوں کی ٹولیاں بنا کر پریڈ کے آغاز سے بہت پہلے سٹیڈیم کے باہر بنی ہوئی قطار میں جا کھڑے ہوتے ۔جہاں سے گزر کر لوگ سٹیڈیم میں مفت داخل ہو جاتے تھے ۔ہم اس جگہ جا کر بیٹھ جاتے۔ جہاں سے یہ پریڈ بڑی واضح دکھائی دیتی تھی ۔ اس میلے میں سائیکلوں پربھی جلتی ہوئی مشعلیں پکڑے ہوئے لوگ فورٹریس سٹیڈیم کے شمالی دروازوں سے اندر داخل ہوتے اور پوری گراؤنڈ کا چکر لگانے کے ساتھ ساتھ اپنے کرتب دکھاتے تھے ۔فورٹریس سٹیڈیم کی مین عمارت کی بالائی منزل پر بیٹھا ہوا ایک شخص ساتھ ساتھ کمنٹری بھی کررہا ہوتا ۔اس زمانے میں لیئق احمد اور حسن جلیل بہت مشہور کمنٹریٹر تصور کیے جاتے تھے ۔
صرف سٹیڈیم کے اند ر ہی کھیل تماشے نہیں دکھائے جاتے تھے بلکہ سٹیڈیم کے باہر جو کھلا میدان تھا ،جہاں ہمارے سمیت کتنی ہی کرکٹ کی ٹیمیں میچز کھیلاکرتی تھیں ، اس جگہ پر لکی ایرانی سرکس ، موت کا کنوں جن کے باہر لکڑی کے پھٹے لگا کر ایسا اسٹیج تیار کیا جاتا جہاں خوبصورت ناچنے والی عورتیں اور خواجہ سر بھی ساری رات ڈانس کیا کرتے تھے ، اس کے ساتھ مختلف اشیا ء کی نمائش کرنے والی کمپنیاں اور ادارے اپنے اپنے سٹال لگا یا کرتے تھے ۔ چونکہ ہماری جیبیں ہمیشہ خالی ہی ہوتیں۔ اس لیے ہم جیسے مفت خورے ہر ادارے کے سٹال پر ایسے جا کر کھڑے ہوجاتے جیسے ہم نے ابھی ساری چیزیں خرید لینی ہیں ۔اگر ہم خرید بھی لیتے تو اس میں اتنے نقص نکلتے کہ انہیں تبدیل کرنے کے لیے کتنے ہی چکر لگانے پڑتے ۔ مجھے یا د ہے ایک مرتبہ ٹویویو ناسک والوں کا ایسا سٹال لگا تھا جس پر ہر لمحے لوگوں کا اتنا رش رہتا کہ ہر وقت خریداروں کی لمبی قطار لگی رہتی ۔ میں یہ نہیں سمجھ پایا کہ شیشے کے ان گلاسوں اور کراکری میں کونسی ایسی خوبی تھی کہ لوگ آنکھیں بند کرکے اسے دھڑا دھڑ خرید رہے تھے ۔
.................
ایک مرتبہ ریلوے کوارٹروں کے چند دوستوں نے ( جن میں بھی شامل تھا ) فورٹریس سٹیڈیم کے اکلوتے ہوٹل پر چائے پینے کا پروگرام بنایا ، میں بھی اس غرض سے دوستوں کے ساتھ چل پڑا کہ یقینا جو دوست چائے پینے جارہے ہیں، ان کے پاس چائے کا بل ادا کرنے کے پیسے ہونگے ۔ جب ہم سٹیڈیم کے سامنے بڑے سے گراسی لان میں رکھی ہوئی کرسیوں پر بیٹھ کر ویٹر کا انتظار کرنے لگے تو ہمیں اس وقت سخت ندامت کا سامنا کرنا پڑا کہ کافی دیر بیٹھنے کے باوجود ہوٹل کا کوئی ویٹر چائے کا آرڈر لینے کے لیے ہمارے پاس نہ آیا ۔میرے ساتھ جو لڑکا بیٹھا تھا اس کا نام مستانہ تھا وہ پشتو پٹھان تھا وہ کسی فیکٹری میں ملازمت کرتا تھا اور چھٹی جماعت پاس تھا ، اس نے دور جاتے ہوئے ایک ویٹر کو آواز دی اور ہاتھ سے اشارہ بھی کیا ۔جب ویٹر ہمارے قریب آیا تو مستانے نے غصے بھرے لہجے میں کہا تم نے ہمیں سمجھ کیا رکھا ہے ہم سارے میٹرک میٹرک پاس ہیں ۔جاؤ ہمارے لیے گرما گرم چائے لے کر آؤ ۔ویٹر چائے کا آرڈر لے کر چلا گیا ۔ کچھ دیر بعد اس نے چائے لا کر ہمارے سامنے رکھے ہوئے میز پر سجا دی ۔ہم سب دوست اپنے اپنے سامنے رکھی ہوئی چائے پینے لگے ۔ اپنے اپنے گھروں میں ہم گڑ کی چائے پیتے تھے یہاں چینی کی بنی ہوئی چائے مل گئی جو یقینا کسی اعزاز سے کم نہ تھی ۔چائے پینے کے ساتھ ساتھ ہم بڑے لوگوں کی طرح ساری دنیا کی گپیں بھی لگا رہے تھے ،جیسے بڑے بزنس مین آپس میں اکٹھے ہوکر گپیں مارتے ہیں ۔ چائے ختم ہوگئی تو ویٹر برتن اٹھانے آیا اور ساتھ ہی بل اس کے ہاتھ میں تھا جو شاید پچیس روپے تھے ۔ جیسے ہی بل مستانے کے ہاتھ آیا تو اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ۔اتنے پیسوں کا بل ۔توبہ ۔ اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تو صرف دس روپے نکلے ۔مستانے نے مجھے کہا اپنی جیب میں ہاتھ ڈالوجتنے پیسے نکلیں مجھے دے دو ۔ میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو صرف چار آنے نکلے ۔وہ میں نے مستانے کے ہاتھ پر رکھ دیئے ۔ باقی دوستوں نے بھی اپنی اپنی جیبوں سے پیسے نکالے تو بمشکل پندرہ روپے بنے ۔جب ہم پیسے اکٹھے کررہے تھے تو ویٹر قریب ہی کھڑا ہماری شکلیں اور شکلوں پر آتے جاتے رنگ دیکھ رہا تھا ۔جب مستانے نے ویٹر کے ہاتھ پر پندرہ روپے رکھے تو اس نے غصے کے عالم میں کہا ۔ اسی لیے تو کوئی ویٹر تمہارے پاس آ نہیں رہا تھا ۔تم سب شکل ہی سے کنگلے لگتے ہو ۔یہاں سے بھاگ جاؤ ورنہ ہم پولیس کو بلا لیں گے ۔سب دوستوں نے اتنی تیز دوڑ لگائی کہ پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا ۔
(جاری ہے)
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 666164 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.