مخدوش معیشت ۔۔ چین کا کردار ۔۔ عالمی سازشیں

پاکستان کی دگرگوں معیشت بتدریج پستی کی طرف گامزن ہے جس کی سب سے بڑی وجہ حکمرانوں کی لاپرواہی اور عدم دلچسپی ہے، ملک میں اقتدار سنبھالنے والی کوئی جماعت کبھی معیشت کے حوالے سے تیاری نہیں کرکے آتی جس کے نتیجے میں اکثر بیرون ممالک سے معیشت دانوں کو امپورٹ کرکے تمام معاملات ان کے حوالے کردیئے جاتے ہیں جس کا نتیجہ عموماً معاشی تباہی اور بدحالی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

عالمی اداروں اور پاکستان کے معاشی ماہرین کے درمیان ان دنوں اعتماد کا واضح فقدان دیکھا جارہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اعداد و شمار اکثر لفظوں کے گورکھ دھندے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے ۔اسی لئے حکومتوں کو بار بار منی بجٹ اور دیگر اقدامات کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

ماضی میں ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے امریکا کے لاڈلے تھے تو آئی ایم ایف بھی امریکی اثرو رسوخ کی وجہ سے ہمارے لئے خزانے کا منہ کھول کررکھتا تھا اور ہمارے لئے کوئی سختی نہیں تھی لیکن آج صورتحال تبدیل ہوچکی ہے جس کی وجہ سے ہمارے وزیرخزانہ امریکی سفیر کی منتیں کرنے پر مجبور ہیں کہ آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج کیلئے سفارش کریں۔

پاکستان میں عوام کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ میں بیٹھے نمائندگان کو بھی حقیقت سے دور رکھا جاتا ہے جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ بجٹ کی تیاری میں عوام کو کبھی اعتماد میں نہیں لیا جاتا اور عوامی نمائندوں کو بھی محض بجٹ پیش کرنے سے ایک روز پہلے یا بجٹ کے روز اجلاس کے ایجنڈے کے ساتھ کتاب نما تفصیل تھمادی جاتی ہے جس میں لفظوں کے ہیر پھیر کو مختصر وقت میں سمجھنا کسی کے بس کی بات نہیں ۔

معیشت کی بدحالی اور سیاست کی مخدوشیت ہمارے لئے سب سے بڑے چیلنجز ہیں ، ہمارے ملک کو اگلے مالی سال اپنے معاملات چلانے کیلئے 25 ارب ڈالر درکار ہونگے تاہم ہماری ایکسپورٹ سے ہونیوالی آمدن ہمارے اخراجات کے مقابلے بہت کم ہےاور ایکسپورٹ ٹو جی ڈی پی کی شرح چار سو فیصد ہے جبکہ دلوالیہ ہونے والے ممالک ساڑھے 3 سو پر ہی ہار مان گئے لیکن ہم خوش قسمت ہیں کہ پاکستان ابھی تک دیوالیہ ہونے سے محفوظ ہے ۔

پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح صرف 10 فیصد ہے اور جب تک یہ شرح 20 فیصد تک نہیں آتی تب تک بہتری کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔حالات انتہائی تشویشناک ہیں جس میں فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے گرد ونواح میں ہونیوالے جیوپولیٹیکل عوامل اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے آئی ایم ایف ابھی تک بیل آؤٹ پیکیج کے حوالے سے شش و پنج کا شکار ہے گوکہ وزیرخزانہ نے امریکی سفیر سے ملاقات بھی کی اور یہ بھی سچ ہے کہ آئی ایم ایف اور ورلڈبینک پر امریکا کا اثرو رسوخ ایک حقیقت ہے لیکن اس کے باوجود تاحال کوئی امید بر نہیں آتی۔

ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان میں معاشی عدم استحکام کو مشکلات کی دلدل سے نکال کر بحالی کی طرف گامزن کرنے کیلئے سیاسی استحکام ناگزیر ہے۔ اس وقت خوراک کا بحران ہولناک صورت اختیار کرتا جارہا ہے، تجارتی خسارہ ماضی کے ریکارڈ توڑ کر آگے ہی آگے بڑھتا جارہا ہے اور دووقت کی روٹی سے محروم لوگوں کیلئے موت کو گلے لگانا زیادہ آسان ہوچکا ہے، اس لئے معاشی مشکلات سے نجات کیلئے زبانی جمع خرچ کے بجائے اپنی آمدن کو بڑھانا ہوگا۔

ضیا ء الحق کے دور میں افغان جنگ اور پھر افغانستان میں دہشت گردی کیخلاف جنگ کے زمانے میں پاکستان پر امریکا کی طرف سے ڈالروں کی برسات ہوتی تھی جو اب بند ہوچکی ہے تاہم اس وقت جغرافیائی تناظر میں چین کی اہمیت کئی گنا بڑھ چکی ہے اور پاکستان بھی بتدریج چین کے قریب ہوتا جارہا ہے تاہم پاک چین تجارتی تعلقات کے ثمرات کے حصول میں ابھی مزید وقت درکار ہے۔

چین کا روڈ اینڈ بیلٹ منصوبہ 4 ٹریلین ڈالر کا ایک عظیم الشان منصوبہ ہے اور اس پر ایک ٹریلین ڈالر خرچ ہوچکے ہیں اور دنیا کے تقریباً 162 ممالک اس منصوبے کے حوالے سے چین کے ساتھ معاہدے کرچکے ہیں اور چین کی اقتصادی ترقی کو دیکھ کر امریکا کو شدید تشویش لاحق ہوچکی ہے۔

چین اس وقت دنیا کا سب سے بڑا تجارتی ملک بن چکا ہے اوربیلٹ اینڈ روڈ منصوبے پر اربوں ڈالر خرچ چکا ہے ، یہ بھی درست ہے کہ چین نے ہمیشہ پاکستان کا ہر مشکل میں ساتھ دیا ہے لیکن راقم الحروف کئی بار اس بات کا اعادہ کرچکا ہے کہ امریکا کی خارجہ پالیسی میں چین کا اثرو رسوخ کم کرنا سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

بدقسمتی سے گزشتہ دور حکومت میں سی پیک پر کام تعطل کا شکار رہا تاہم یہ کام دوبارہ بحال ہوچکا ہے اور سی پیک کے فیز ٹو پر کام میں تیزی خوش آئند ہے ۔ خنجراب میں عالمی سطح کا ایئر پورٹ بھی سی پیک کا ایک اہم حصہ ہے۔

امریکا نے خطے میں چین کا بڑھتا اثرو رسوخ کم کرنے کیلئے اوکاس، اکارڈاور ایسے دوسرے اتحاد بنانے کے علاوہ بھارت کے ساتھ ایسے دفاعی معاہدے بھی کئے ہیں جن کا ماضی میں کوئی تصور بھی نہیں تھا۔ امریکا بھارتی ریاست گجرات کا ایئر بیس بھی اپنے استعمال میں لے چکا ہے ۔

سی پیک کے منصوبے کا ایک اہم جزو یہ بھی ہے کہ سمندری 15 ہزار ناٹیکل کے فاصلے کو زمینی پانچ ہزار میل تک محدود کردیا جائے ، یہ منصوبہ چین کے تابناک مستقبل کا ضامن ہے کیونکہ امریکا نے سمندروں میں اوکاس ، کوارڈ اور ایسے دیگر منصوبوں کے ذریعے چین کے راستے مسدود کرنے کیلئے سب میرین اور بھاری ہتھیاروں سے لیس عسکری و سول ذرائع کو تیار رکھا ہے۔

امریکا چین کی بڑھتے قدموں کو روکنے کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے لیکن اگر ہم دیوالیہ ہوگئے تو چین کو ہماری دوستی یا محبت میں نہیں بلکہ اپنے مفادات میں ہماری مدد کو آنا ہوگا کیونکہ چین کے مفادات پاکستان سے جڑے ہیں۔

پاکستان نے کئی ممالک کے ساتھ بارٹر سسٹم کے تحت تجارت کا فیصلہ کرکے احسن اقدام اٹھایا ہے کیونکہ بارٹر سسٹم سے ہمیں ڈالر کی قلت کے معاملے سے نمٹنے میں مدد مل سکتی ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم بارٹر کیلئے اضافی مصنوعات کیسے بنائینگےکیونکہ جی ایس پی پلس ملنے کے بعد اتنی مصنوعات نہیں بناسکے جتنی یورپ کو ضرورت تھی، اس لئے اب بارٹر ٹریڈ کیلئے معاشی ایمرجنسی لگانے کی ضرورت ہے تاکہ اپنی پیداوار کو بڑھاکر تجارت کیلئے آگے بڑھا جاسکے۔

حکومت کیلئے ضروری ہے کہ ہمیشہ دوسروں پر اکتفا کرنے کے بجائے اپنے زور بازو کو بھی آزمائے اور ملک میں معاشی اصلاحات متعارف کروائی جائیں۔ بجلی، گیس، قرضوں کا حصول اور دیگر مسائل کے حل سے صنعتوں کو دوام مل سکتا ہے جو پاکستان کی ڈوبتی معیشت کی کشتی کو پار لگانے کیلئے ناگزیر ہے۔

معاشی مسائل کی دلدل سے نکلنے کیلئے سب سے پہلے صنعتوں کا پہیہ چلانے کی ضرورت ہے کیونکہ جب تک صنعتیں نہیں چلیں گی معیشت کی گاڑی آگے نہیں بڑھ سکے گی۔ معیشت کو منزل کی طرف گامزن کرنے کیلئے صنعتکاروں کے مسائل حل کرکے انہیں مراعات دینا ہونگی تاکہ پیداوار میں اضافہ کرکے اپنے لئے جینے کے اسباب پیدا کئے جاسکے۔

اگر حکومت نے بر وقت ہوش کے ناخن نہ لیے تو بد ترین معاشی بحران کے باعث تصور سے بد تر مسائل سامنے آسکتے ہیں جس کیلئے عوام ذہنی طور پر تیار نہیں۔ عوام کو معاشی بحران زندہ درگور کرتا جارہا ہے، نوجوان نسل روزگار کیلئے ملک سے باہر جانے کو ترجیح دے رہی ہے، ہمارے بہترین مہارت رکھنے والے ہنر مند پاکستان چھوڑ رہے ہیں۔ ایسے میں ملکی معیشت کی ڈوبتی کشتی کو سہارا دینے کیلئے حقیقی اقدامات کی ضرورت ہے۔
 

Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador)
About the Author: Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador) Read More Articles by Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador): 39 Articles with 33233 views Former Ambassador to UAE, Libya and High Commissioner of Malta.
Former Chief Security Advisor at United Nations۔(DSS)
.. View More