ترکیہ میں سیاسی استحکام مگر پاکستان میں ہیجان

پاکستان اور ترکیہ کےدیرینہ تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے، دونوں برادر مسلم ریاستوں نے دہشت گردی ، قدرتی آفات اور دیگرکئی مسائل کا ملکر جوانمردی سے مقابلہ کیا۔اندرونی مسائل کے علاوہ دونوں بااثر مسلمان ریاستوں نے دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کیلئے ہمیشہ آواز اٹھائی اور ہر فورم پر ملکر سازشوں کا سامنا بھی کیا ہے۔

پاکستان اور ترکیہ کے درمیان کئی چیزوں میں مماثلت کے باوجود اس وقت دونوں ممالک کا موازنہ درست نہیں کیونکہ ترکیہ میں گزشتہ 20 سال سے رجب طیب اردگان مسلسل حکومت کررہے ہیں۔ 2003 میں وزیراعظم، پھر 2014 سے اب تک صدر کے عہدے پر براجمان طیب اردگان کی حکومت کے اقتدار میں ہونے کی وجہ سے وہاں حکومت کا ایک تسلسل چل رہا ہے۔

ترکیہ نے چند ہفتے پہلے ایک ہولناک زلزلے کے باعث بھاری جانی و مالی نقصان اٹھایا، پاکستان میں قدرتی آفت تو نہیں لیکن سیاسی زلزلے کے جھٹکے ناقابل برداشت ہوچکے ہیں۔ سیاسی اور اداروں میں آنے والازلزلہ پاکستان کی جڑوں کو ہلارہا ہے۔ اس وقت ہر ادارہ دوسرے ادارے کے پیچھے پڑا ہے ۔

ترکیہ میں رجب طیب اردگان کے دور کو ایک شاندار عہد کہنا بے جا نہ ہوگا کیونکہ وزات عظمیٰ سے پہلے اردگان جب میئر تھے تب سے وہ عوامی فلاح وبہبود میں مصروف ہیں اور وزیراعظم بننے کے بعد انہوں نے ملک کے خراب معاشی حالات کو سنبھالا، آئی ایم ایف کے قرضے واپس کئے اور اپنے ملک کو مسائل کی دلدل سے نکال کر حوشخالی کی راہ پر گامزن کیا۔

طیب اردگان ترکیہ کے مقبول ترین لیڈر ہیں جس کی مثال کچھ سال قبل فوجی بغاوت کے وقت دیکھنے میں آئی جب ترک قوم حکومت کے حق میں فوج کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئی اور اردگان کا دفاع کیا۔ پاکستان میں بھی ایسی کچھ کرشماتی شخصیات موجود ہیں جن کی آواز پر عوام لبیک کہہ سکتی ہے لیکن وہ لوگ اپنی شہرت کا منفی استعمال کرتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ اردگان کے کچھ نامناسب فیصلوں اور اقدامات کی وجہ سے ترکیہ کی معیشت بھی اس وقت شدید مشکلات سے دوچار ہے ،ترک کرنسی لیرا کا حال بھی اس وقت نہات خراب ہے، ترکیہ میں ایک ڈالر تقریباً 20 لیرا کے برابر ہوچکا ہے، معاشی بحران کی وجہ سے ملک میں بھوک اور بدحالی میں اضافہ ہورہا ہے ۔

اس سے پہلے واضح طور پر نتائج سامنے آتے رہے ہیں لیکن حالیہ الیکشن کے نتائج سے اندازا ہوتا ہے کہ شائد اردگان کی مقبولیت میں کمی ہوئی ہے اورشائد یہی وجہ ہے کہ ترکیہ کی تاریخ میں پہلی بار 26 مئی کو رن آف الیکشن ہورہا ہے۔

انتظامی معاملات کو دیکھا جائے تو صدر اردگان کی ترکیہ میں اداروں پر گرفت بہت مضبوط ہے اور کسی ادارےکی طرف سے واضح طور پر اردگان کی مخالفت یا مخاصمت کھل کر سامنے نہیں آئی۔اس کی بڑی وجہ سیاسی استحکام ہے۔ملک میں سیاسی عدم استحکام ہو تو اداروں میں سیاست سرائیت کرجاتی ہے تاہم ترکیہ میں ایسا دیکھنے میں نہیں آیا۔

اب اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو پاکستان کی مخدوش معاشی اور سیاسی صورتحال میں تناؤ میں اضافہ ہوا اور چیف جسٹس آف پاکستان پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔

بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ انصاف کے اداروں کی طرف سے کچھ ایسے فیصلے کئے گئے جن پر سنجیدہ حلقوں کو تحفظات تھے اور اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔اگر سپریم کورٹ فل کورٹ بنادیتی تو شائد صورتحال اس نہج پر نہ پہنچتی ۔

اب ایک طرف پارلیمنٹ میں چیف جسٹس کیخلاف ریفرنس کی صدائیں سنائی دے رہی ہیں تو دوسری طرف سڑکوں اور حتیٰ کہ سپریم کورٹ کے باہر بھی منصف اعلیٰ کیخلاف ایک تحریک چل نکلی ہے تو اس کے نتائج سود مند نہیں ہونگے۔

کسی بھی جمہوری نظام میں مقننہ یعنی سیاستدانوں، عدلیہ یعنی چیف جسٹس سمیت اعلیٰ عدالتوں کے جج اور عسکری حکام کا اپنا اپنا کردار ہوا کرتا ہے۔ یہاں تمام ہی ادارے ایک دوسرے سے باہم دست و گریباں نظر آتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو انتخابات منعقد نہیں کروانے، عدلیہ کو فیصلہ سازی کے ساتھ ساتھ اپنے عدالت میں دئیے گئے ریمارکس سے وقتاً فوقتاً سیاستدانوں کو بھی لتاڑنا ہے چاہے اس کا حاصل کچھ نہ ہو، اسی طرح عسکری اداروں کے کچھ افراد نے ماضی میں کس کس طرح سیاست میں مداخلت کی، یہ ہم سب کے سامنے ہے جبکہ سیاستدان عدلیہ سے اپنی مرضی کے فیصلے کروانا چاہتے ہیں۔

اگر صورتحال آگے آنے والے کچھ مہینوں تک جوں کی توں رہی تو ملک جو حقیقتاً ڈیفالٹ کرچکا ہوگا وہ اس کا باضابطہ اعلان کرنے پر مجبور ہوجائے گا جس کے بعد پاکستان کے حالات سری لنکا جیسے بلکہ اس سے بھی بد تر ہوسکتے ہیں ،توبہتری اسی میں ہے کہ تمام تر ریاستی ادارے اپنے اپنے دائرۂ کار میں رہ کر اپنے فرائض سرانجام دیں تاکہ ملک میں غریبوں پر آئے ہوئے مہنگائی، بے روزگاری اور بد امنی کے اس سیلاب کا کوئی تدارک تلاش کیاجاسکے۔
 

Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador)
About the Author: Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador) Read More Articles by Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador): 39 Articles with 33237 views Former Ambassador to UAE, Libya and High Commissioner of Malta.
Former Chief Security Advisor at United Nations۔(DSS)
.. View More