نرودا گام :عدل و انصاف کا قتل عام

وطن عزیز میں سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ہر سال کم از کم 300 فرقہ وارانہ فسادات کے کیس درج ہوتے ہیں۔2020 کے دہلی فساد میں 520 مقدمات درج ہوئے جبکہ کل تعداد857 ہو گئی تھی ۔ اسی طرح 2021 میں ملک کے اندر378 مقدمات درج ہوئے۔ یہ تو خیر فرقہ وارانہ فسادات کی تعداد ہے ورنہ سیاسی مظاہروں میں ہونے والے تشدد اور کسانوں یا طلباء کی جھڑپوں کے 2021 میں 41954 مقدمات درج ہوئے ۔ ان میں 1.50 لاکھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ تو خیر مقدمات کے اندراج کا معاملہ ہے لیکن سرکاری ادارہ این سی آر بی کے مطابق 2017 سے2021 کے درمیان فرقہ وارانہ فساد کے تحت گرفتار ہونے والے لوگوں میں سے صرف 6% لوگوں پر جرم ثابت ہوا اور 3% لوگوں کو سزا ملی۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ اول تو جن بارسوخ فسادیوں پرکسی دباو کے تحت مقدمات درج ہوگئے تھے ان کا مقدمہ کمزور کرکے انتظامیہ نے انہیں بچا لیا نیزاصل فسادیوں کی جانب سے توجہ ہٹانے کے لیے جن بے قصور لوگوں کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کردیئے گئے تھے ان کا ثبوت پولیس پیش نہیں کرسکی۔ دہلی فساد کے معاملے میں عدالت نے پولیس کو حال میں سخت پھٹکار بھی لگائی۔ اس کے علاوہ فساد بھڑکانے والوں کے مجرم ٹھہرائے جانے کی شرح 3% فیصد ہے جبکہ اس سے بھی کم لوگوں کو سزا کا مستحق سمجھا گیا۔

وزارت ِ داخلہ کے تحت تیار کردہ اس رپورٹ میں درج ان تلخ حقائق کے باوجود 25 نومبر 2022 کو وزیر داخلہ امیت شاہ نے یہ اعلان کردیا کہ ‘2002 کے اندر ایک بار نریندر مودی کے زمانے میں فساد کرنے کی کوشش کی گئی تو ایسا سبق سکھایا کہ2022 آگیا کوئی گردن نہیں اٹھاتا ۔ فساد کرنے والے گجرات سے باہر چلے گئے۔ وزیر داخلہ کا یہ بیان سفیدجھوٹ ہے۔ سچائی تو یہ ہے کہ 2017 سے 2021 کے درمیان گجرات میں فرقہ وارانہ تشدد کے134 مقدمات درج ہوئے۔ یہ اعداد و شمار خود امیت شاہ کی وزارت کے شائع کردہ ہیں مگر یا تو اسے پڑھتے نہیں یا جان بوجھ کر کذب گوئی کرتے ہیں اور لوگ اسے مان بھی لیتے ہیں کیونکہ زر خرید میڈیا اس کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا رہتا ہے۔ دہلی کی پولیس وزارت داخلہ کے تحت کام کرتی ہے یعنی نظم و نسق کے لیے خود امیت شاہ ذمہ دار ہیں ۔ اس کے باوجود ان کے دورِ اقتدار میں دو فسادات ہوئے۔ پہلا شمال مشرق دہلی کے اندر ہوا ۔ اس کا بہانہ بناکر سی اے اے کے خلاف کام کرنے والوں کو گرفتار کرلیا گیا مگر اس کے بعد جہانگیر پوری میں ہوگیا ۔ اس لیے بڑی بڑی ڈینگ مارنے والے وزیر داخلہ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لینا چاہیے۔

بی جے پی کی سیاست میں فرقہ واریت وہ سکہ ہے جو ہمیشہ فائدہ پہنچاتا ہے۔ گجرات کے اندر انتخاب سے بہت پہلے مودی شاہ نے سوچ لیا تھا کہ اس بار اپنی ڈوبتی کشتی کو پار لگانے کے لیے فساد کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔ پچھلی بار کانگریس اور بی جے پی کے درمیان صرف دس سیٹوں کا فرق رہ گیا تھا۔ اس بار بھارت جوڑو یاترا کے سبب اگر پانچ سیٹوں پربھی الٹ پھیر ہوجاتا تو مشکل ہوجاتی اس لیے یوم آزادی کے دن بلقیس بانو کی عصمت دری اور ان کے اہل خانہ کا قتل کرنے والے بھیڑیوں کو آزاد کردیا گیا ۔ رہائی پر ان کی پذیرائی کرکے اس کی ویڈیو بنائی گئی اور اسے خوب پھیلایا گیا۔ وہاں کے مقامی رکن اسمبلی راول جی سے یہ بیان دلوایا گیا کہ برہمن سنسکاری ہوتا ہے ۔ وہ آبرو ریزی کیسے کرسکتا ہے؟ اس کے بعد اسے ٹکٹ دیا گیا اور پہلے مرتے پڑتے جیتنے والا سابق کانگریسی پینتیس ہزار کے ریکارڈ فرق سے کامیاب ہوگیا ۔ یہ ہے فرقہ وارانہ فساد سے وابستہ سیاسی مفاد ۔

اسی طرح کا معاملہ نرودا حلقۂ انتخاب میں بھی ہوا۔ وہاں سے دومرتبہ بی جے پی کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے بلرام تھوانی کا ٹکٹ اس بار کاٹ دیا گیا۔ اس کی جگہ نرودا پاٹیا فساد کے مجرم منوج کوکرانی کی بیٹی پایل کوکرانی کو امیدوار بنایا گیا۔ بی جے پی کے اس فیصلے سے ہندو رائے دہندگان اس قدر خوش ہوئے کہ پہلے تھوانی کو 60ہزار ووٹ کے فرق سے کامیاب کیا تھا تو اب کوکرانی کو 83 ہزار سے زیادہ فرق سے کامیاب کیا۔ عوام خود اگر فساد سے خوش ہونے لگے تو سیاستداں کو اور کیا چاہیے؟ اس فسادی سیاست کا فائدہ پوپٹ لال شاہ کو بھی ملا۔ احمد آباد کی ایلس بریج سے بی جے پی کے رہنما ہرین پنڈیا رکن اسمبلی اور وزیر مملکت برائے امورِ داخلہ تھے۔ انہوں نے اپنے سنگھی سنسکار کے باوجود مودی کی کابینی نشست میں کارسیوکوں کی لاشوں ٹرک پر احمد آباد میں گھمانے کی مخالفت کی تھی۔ آگے چل کر ان کا قتل ہوا تو جن لوگوں پر اس کا الزام لگا ان میں سے پوپٹ لال شاہ بھی تھے۔ بی جے پی نے پہلی بار انہیں اسمبلی الیکشن کا ٹکٹ دیا اور اس فیصلے سے احمد آبادی ہندو اتنے شادمان ہوئے کہ اپنے ضلع کی 21 میں سے 19 نشستوں پر بی جے پی کو کامیاب کردیا۔ اس کا مطلب ہے کہ فساد مخالف مسلمان ہو یا ہندو، ان دونوں کے عوام اور حکومت دونوں دشمن ہیں۔ اس بابت گاندھی جی پڑپوتے تشار گاندھی کہتے ہیں کہ عام لوگوں کی فطرت میں محبت کی جگہ نفرت کو داخل کردیا گیا ہے اس لیے وہ اس طرح کا غیر فطری رویہ اختیار کرتے ہیں۔

27 فروری2002کو گجرات میں بدنام ِ زمانہ فرقہ وارانہ فساد ہوا۔ اس میں انتظامیہ کی بھر پور شمولیت کے سبب اسے نسل کشی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔اس لیے کہ اگر اس کو سرکاری تحفظ حاصل نہیں ہوتا تو اس قدر تباہی و بربادی نہیں ہوتی ۔ سچ تو یہ ہے پھر سے اقتدار میں آنے کے لیے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی اس طرح کا کوئی نہ کوئی ہنگامہ بپا کرنا چاہتے تھے کہ جس کے سبب گجرات کے عوام کیشو بھائی سرکار کی ناکامی کو بھول کر پھر سے بی جے پی کو اقتدار سونپ دیں۔گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ اور سنگھ پریوار میں گھر بھیدی شنکر سنگھ واگھیلا نے اپنی ایک اخباری ملاقات میں یہ اعتراف کیا تھا کہ یہ خبر گرم تھی ’کچھ بڑا ہونے والا ہے‘۔ اس وقت یہ کوئی نہیں جانتا تھاکہ کیا بڑا ہونے والا ہے؟ جب فساد ہوگیا تو سب لوگ یہ جان گئے۔ شنکر سنگھ واگھیلا کے مطابق بی جے پی کے علاوہ کسی اور کو یہ معلوم ہونا ناممکن تھا کہ سابرمتی کے کس ڈبے میں رام بھگت سوار ہیں۔ اس لیے یہ کسی اندر کے آدمی کا کام تھا۔ فورنسک رپورٹ نے بھی یہ ثابت کردیا کہ باہر سے بوگی کو جلایا نہیں جاسکتا۔ اس لیے آگ اندر ہی لگی یا لگائی گئی اور نریندر مودی نے اس کاخوب استعمال کرکے اپنی سیاست چمکائی یہاں تک کہ وزیر اعلیٰ سے ترقی کرکے وزیر اعظم بن گئے۔

گجرات فساد کے وقت مرکز اور ریاست دونوں جگہ بی جے پی کی سرکار تھی لیکن میڈیا بڑی حد تک آزاد تھا اس لیے 2002 کے گجرات فساد کو ذرائع ابلاغ میں غیر معمولی کووریج دیا ۔ یہاں تک کہ عدالتِ عظمیٰ نے 9 معاملات میں ایس آئی ٹی بنانے کا حکم دیا۔ ان میں سے ایک نرودا گام اور دوسرا نرودا پاٹیا کے مقدمات تھے ۔ میڈیا اور عدلیہ کی مخالفت کا اثر اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی پر یہ ہوا کہ انہوں نے پہلے تو اپنے وزیر اعلیٰ کو راج دھر م پالن کرنے یعنی عوام کے درمیان تفریق و امتیاز نہیں کرنے کی تلقین کی اور پھر گوا کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں اسے ہٹانے کا ارادہ کرلیا ۔ لال کرشن اڈوانی نےاٹل جی کو نیچا دکھانے کی خاطر مودی کو بچایا جو آگے چل اڈوانی کی سیاسی موت کا سبب بنے۔ اس طرح اڈوانی نے اپنی مخاصمت کی بھاری قیمت چکائی۔ آگے چل کر اٹل نے بھی اپنی انتخابی شکست کا الزام گجرات کے فساد پر ڈالا ۔ اس طرح یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ گجرات کے فساد نے بی جے پی کے دو بڑے رہنماوں کا کانٹا نکال کر وزیر اعلیٰ نریندر کی راہ ہموار کی اور انہیں وزیر اعظم بنادیا۔ یہ تو خیر سیاسی تباہ کاری ہے لیکن اس نے سماجی سطح پر بے شمار فتنہ و فساد برپا کیا نیز اب عدلیہ کا جنازہ اٹھا رہا ہے۔

نرودا گام میں جس طرح غیر متعلق لوگوں کو زندہ جلایا گیا اس کی ایک مثال قرآن حکیم میں بھی ملتی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے ’’قسم ہے مضبوط قلعوں والے آسمان کی ‘اور اُس دن کی جس دن کا وعدہ کیاگیا ہے‘اور دیکھنے والے کی اور دیکھی جانے والی چیز کی کہ مارے گئے گڑھے والے‘(اُس گڑھے والے) جس میں خوب بھڑکتے ہوئے ایندھن کی آگ تھی‘ جب کہ وہ اُس گڑھے کے کنارے پر بیٹھے ہوئے تھے اور جو کچھ وہ ایمان لانے والوں کے ساتھ کر رہے تھے اُسے دیکھ رہے تھے‘اور اُن اہل ایمان سے اُن کی دشمنی اس کے سوا کسی وجہ سے نہیں تھی کہ وہ اُس خدا پر ایمان لے آئے تھے جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے‘جو آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا مالک ہے‘اور وہ خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے۔جن لوگوں نے مومن مردوں اور عورتوں پر ستم توڑا اور پھر اس سے تائب نہ ہوئے‘ یقینا اُن کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور اُن کے لیے جلائے جانے کی سزا ہے‘‘۔ یہاں برجوں والے آسمان کی قسم شہادت دے رہی ہے کہ کائنات کے ستاروں اور سیاروں پر حکمرانی کرنے والی جو قادر مطلق ہستی کی گرفت سے انسان نہیں بچ سکتے ۔ قیامت کے ہولناک مناظر کی قسم اس لیے کھائی گئی کہ دنیا نے تو سارے مظالم کرلیے مگر بروز قیامت ہر مظلوم کی داد رسی اور ہر ظالم کی پکڑ ہوگی۔تیسری قسم گواہی دے رہی ہے کہ جس طرح اِن ظالموں نے بے بس اہل ایمان کے جلنے کا تماشا دیکھا اُسی طرح قیامت کے روز ساری خلق ان کے انجام بد کا نظارہ کرے گی ۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1227404 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.