امن کی ضمانت

پاکستان جغرافیائی لحاظ سے ایک ایسے مقام پر واقع ہے جو اس کی اہمیت کو دو چند کررہا ہے۔علامہ اقبال کا ۱۹۳۰ ؁ کا خطبہ دیکھیں تو حیرانگی ہوتی ہے کہ دو قومی نظریہ کے عظیم د ا نشور، فلاسفر اورخالق نے تاریخ کو کہاں کھڑا کر دیا ہے۔انھوں نے ا پنے خطبہ میں ان انتہائی اہم گوشوں کو بے نقاب کیا جو اس وقت کسی کو سجھا نی نہیں دے رہے تھے ۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ افغانی ،ایرانی اور عرب جرنیل وقفوں وقفوں سے برِ صغیر پر حملہ آور ہو تے رہے ۔وہ جن علاقوں سے ہندوستان کو تاراج کرنے کیلئے وارد ہوتے تھے وہی حصے اب پاکستان کا حصہ ہیں۔آج بھارت کی سیفٹی اور امن پاکستان کے وجود اور قیام سے ممکن ہو سکا ہے کیونکہ پاکستان ایک آہنی دیوار کی صورت میں حملہ آوروں کی راہ میں حائل ہے ۔ پاکستان جس مقام پر کھڑا ہے وہی سے سارے راستے بھارت کی سرحدوں کو چھوتے ہیں گویا کہ پاکستان کا وجود بھارت کی سلامتی کی ضمانت ہے۔ اب افغانی،عرب اور ایرانی جرنیل بھارت پر یلغار کرنے سے قاصر ہیں ۔ گویا کہ خطبہ برِ صغیر کے امن کی روح ہے۔علامہ اقبال نے اپنے خطبے میں اس حقیقت کو اجاگرکیا کہ پاکستان کا قیام برِ صغیر کے امن کی ضمانت ہے اور یہ صدیوں سے جاری کشت و خون کو روکنے کی کلید ہے اور بالکل ایسے ہی ہوا۔بھارت گاؤ ماتا کے جس نظریہ پر قیامِ پاکستان کو ٹھکرا رہا تھا اس میں خود اس کے وجود کی بقا کا راز پنہا ں تھا جو تعصب کی وجہ سے بھارت کو دکھائی نہیں دے رہاتھا ۔ پاکستان کا تصور سچائی پر مبنی تھا لہذا پاکستان کو قائم ہو کر رہناتھا اور یہ ضد اور ہٹ دھرمی کے باوجود قائم ہو کر رہا۔مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہر لال نہرو اکھنڈ بھارت کا جو خواب دیکھ رہے تھے اس کا منطقی نتیجہ برِ صغیر کی مکمل تباہی اوت کشت و خون تھا کیونکہ دو متحارب گروہوں کو ایک چھت تلے پر امن رکھنا کسی کے بس میں نہیں تھا لہذٓ خون کی ایسی ندیاں بہتیں جو کسی کے روکے سے نہ رکتیں۔ کشت و خون پربند باندھنے کا واحد راستہ پاکستان کا قیام تھا اور علامہ اقبال نے اسی راہ کی نشاندہی کی تھی ۔شدت پسند ہندوؤں اور نیشنلسٹ مسلمانوں کو یہ راستہ قبول نہیں تھا کیونکہ اس میں ان کی سیاسی موت تھی اسی لئے وہ قیامِ پاکستان کے مخالف تھے ۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح بھی صدقِ دل سے نیشنلسٹ سیات کے علمبردار تھے لیکن ۱۹۳۶؁ کے انتخابات کے بعد کانگریسی حکومتوں نے مسلمانوں کے ساتھ جس طرح سوتیلی ماں کا سلوک روا رکھا انھیں اپنی نیشنلسٹ سیاست کو خیر باد کہہ کر قیامِ ِ پاکستان کے دو قومی نظریہ کا علم تھامنا پڑا جسے علامہ اقبال نے ۱۹۳۰؁ میں پیش کیا تھا ۔،۔

اکھنڈ بھارت کے نظریہ کی سیاسی ناکامی کے بعد بھارت نے پاکستان کوکبھی بھی دل سے تسلیم نہیں کیا لیکن یہ کیسا عجیب اتفاق ہے کہ جو ملک بھارت کو قبول نہیں اسی کاوجو د اسے حفاظتی حصار عطا کئے ہوئے ہے ۔ بھارت کے دل میں اگر ایرا ن،عرب اور افغانستان کا خوف اور ڈر باقی نہیں رہا تو اس کا کریڈٹ بھی پاکستان کو جاتا ہے کیونکہ ان تمام ممالک کی سرحدیں بھارت کی بجائے پاکستان سے ملتی ہیں۔محمود غزنوی،شہاب الدین غوری اور محمد بن قاسم جیسے جری سپہ سالاروں نے ہندوترا کے بت کو جس برح طرح پاش پاش کیا تھا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔بھارت کو شاعرِ مشرق کے دو قومی نظریہ پر اس کا شکرگزار ہو نا چائیے تھا لیکن ایسا ہونے کی بجائے بھارت پاکستان کے وجود کو ملیا میٹ کرنے کی سازشوں میں مصروف ہے ۔ بھارتی قیادت کو علم ہو نا چائیے کہ ایرانی، افغانی اور عرب جنگجوؤں کا سامنا کرنا بھارتی بساط سے باہر ہے ۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ وہ جب بھی حملہ آور ہوتے تھے ہندوترا کے پجا ریوں کو شکستِ فاش سے ہمکنار ہونا پڑتا تھا ۔ تاریخ میں جو بات رقم ہے وہ یہی ہے کہ ایرانی ، افغانی اور عرب جانبازوں کے سامنے بھارتی سورمے کھڑے نہیں ہو سکتے تھے کیونکہ لاا لہ اﷲ کا رود کرنے والی قوم کا سامنا کرنا بت پرستوں کے بس میں نہیں ہوتا تبھی توبرِ صغیر پر اسلام کا پرچم لہرارہا ہے جو ہندوترا کے پجا ریوں کو ایک آنکھ نہیں بھا تا۔سومنات کا مندر بھی تو افغانیوں نے ہی توڑا تھا ۔(ؓقوم اپنی جو زرو مال و جواہر پر مرتی۔،۔بت پرستی کے عوض بت شکنی کیوں کرتی )۔اسلام کی آمد سے کروڑوں انسان اسلام کی دولت سے فیضیاب ہو ئے تو پھرہندو ازم کا زوال فطری تھا۔ضربِ حیدری سے ہندوترا کے پجاریوں کی ساری کوششیں نقش بر آب ثابت ہوئیں کیونکہ شہادت کے طلبگاروں نے ہر مکروہ سوچ کو اپنی بسالتوں سے خاک میں ملا دیا ۔بقولِ اقبال ؔ ۔(باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہیں ہم۔،۔ سو بارکر چکا ہے تو امتحاں ہمارا)۔،۔(تیغوں کے سائے میں پل کر جواں ہوئے ہیں۔،۔خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا) ۔ ،۔

صدیوں تک ہندوستان پر اسلام کا جھنڈا لہرانے والی قوم محلاتی سازشوں کا شکار ہوئی تو پھر طوقِ غلامی اس کا مقدر بنا اور ایک صدی تک اسے انگریزوں کی غلامی و ذلت کا سامنا کرنا پڑا ۔ہند وؤ ں اور انگریزوں کے اتحاد اور باہمی سازشوں نے مسلمانوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ۔لیکن اس کے باوجود قائدِ اعظم اور علماء کرام نے علیحدہ مملکت کے نعرے کو قبولِ عام عطا کیا، عوام کو آزادی کیلئے عزم و ہمت عطا کیا اور ان کئے اندر آزادی کی نعمت کا احساس اجاگر کیا۔قربانیاں،پھانسیاں اور جلا وطنیاں سر فروشوں کو آزادی کی راہ سے ہٹانے میں ناکام ہو گئیں تو انگریزوں کو اپنا اقتدار سمیٹ کر واپس انگلستان جانا پڑا ۔ دو قومی نظریہ کی حقیقت عوام کی لازوال قربانیوں کی مرہونِ منت ہے ۔پاکستان ۱۹۹۸؁ میں ایٹمی قوت بنا تو دنیا ششسدر رہ گئی ۔ انگریزوں کی غلامی میں مغلیہ حکمرانوں کی ریاستی غلطیوں کا بڑا عمل دخل تھا ۔اگر وہ عدل و انصاف اور انسان دوستی کا مظاہرہ کرتے تو برِ صغیر کی تاریخ بالکل مختلف ہوتی ۔ مخالفین کو کچلنا اور انھیں ذلیل و رسوا کرنا جب ریاست کی ترجیح بن جائے تو ریاستیں مٹ جایا کرتی ہیں ۔ صبر،برداشت اور تحمل ریاست کی بقا کے ضامن ہوتے ہیں لیکن کوتاہ نظر حکمران ایسا دیکھنے سے محروم ہوتے ہیں جس کا نتیجہ اقتدار کا خاتمہ اور ملکی غلامی ہوتا ہے اور یہی سب کچھ مغلوں کے ساتھ ہواتھا۔ تاج و تخت کیلئے خاندانی لڑائیوں نے انگریزوں کو ہندوستان پر قبضہ کی راہیں دکھائیں اور پھر پوری ایک صدی کے طو قِ غلامی نے یہاں کے باسیوں سے ان کی آزادی اور غیرت کورہن رکھ لیا۔مسلمانوں کو ذلت اور پستی کا سامنا کرنا پڑا ۔طویل جدو جہد اور مشاہیر کی فہم و فراست سے برِ صغیر آزادی کی نعمت سے سرفراز ہو تو ایک نئی اسلامی ریا ست پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر ابھری جس کا خواب شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے دیکھا تھا ۔ یہ ریاست اپنے اندرونی تضادات اور عدل و انصاف کے فقدان کی وجہ سے صرف ۲۴ سال ہی قائم رہ سکی ۔ اس کا مشرقی بازو عالمی سازشوں سے کاٹ دیا گیا لیکن اس ریاست کی اہمیت پھر بھی کم نہ ہو سکی۔اس کی جغرافیائی حیثیت نے اسے جو اہمیت عطا کر رکھی ہے وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید اجاگر ہوتی جا رہی ہے۔ مشرقِ وسطی ایک طرف ، ایران دوسری طرف،افغانستان تیسری طرف،چین چو تھی طرف جبکہ تیل کے ذخائر کی حامل خلیجی ریاستیں بالکل متصل ہیں ۔اب کون کور چشم ہو گا جو پاکستان کی اہمیت سے آنکھیں موندھ لے گا ؟ علامہ اقبا ل کے خطبہ کی روح نے ہمیں ایک ایسے احساس سے سرشار کر رکھا ہے جس پر ہمیں فخر ہے ۔ بد قسمتی سے ہماری سیاسی قیادت باہمی مناقشت،الجھاؤ اور جھگڑوں میں الجھ کر اس ملک کی اہمیت کو پاؤں تلے روندھ رہی ہے جس پر ہمیں ان کی فہم و فراست پر ترس آتا ہے۔پاکستان ایک عظیم ملک ہے لیکن یہ ہمارا المیہ ہے کہ ہمیں وہ قیادت نہ مل سکی جو علامہ اقبال کے پیش کردہ نظریہ میں حقیقت کے رنگ بھر سکتی۔سطحی ، نعرے باز اور رنگ باز قیادت موجود ہے لیکن وہ قیادت جو پاکستان کو اس کا حقیقی مقام دلا سکے ابھی تک اس کا دور دور تک نشان دکھائی نہیں دے رہا۔عوام کو اسی قیادت کا انتظار ہے جو خطبہ کی روح کو حقیقت کا جامہ پہنا سکے۔ (دیکھئے بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا۔،۔ گنبدِ نیلو فری رنگ دکھا تا ہے کیا)۔،۔
 

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 449181 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.