شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ۔۔ بھارت اور پاکستان

شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا بین الاقوامی وزرائے خارجہ اجلاس 4 اور 5 مئی کو بھارت کے شہر گوا میں منعقد ہورہا ہے جو اس لحاظ سے اہمیت کا حال ہے کہ ایک طویل عرصے بعد بلاول بھٹو زرداری کی صورت میں پاکستان کے کسی بھی وزیر خارجہ کا 2011 ء کے بعد بھارت کا یہ پہلا دورہ ہے۔

اگست 2019ء میں مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کیے جانے کے بعد سے پاکستان اوربھارت کے دہائیوں سے خراب تعلقات تباہ کن صورت تو پہلے ہی اختیار کرچکے تھے تاہم مودی حکومت کی جانب سے پہلے جی 20 اجلاس کو سری نگر میں منعقد کیے جانے کی خبر اور اب ایس سی او میں بھی عالمی برادری سے بھارت کہیں یہ کوشش نہ کرے کہ وہ اجلاس کے مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان کے مفادات کیخلاف باتیں شامل کردے۔

مقبوضہ کشمیر پر ہمارا مؤقف اصولی تھا، خاص طور پر جب بھارت نے آرٹیکل 370 کو منسوخ کیا تو پاکستان کی جانب سے ٹھوس ردِ عمل سامنےآیا۔ مختلف مباحثوں میں ایس سی او اجلاس کے خلاف بھی باتیں ہوئیں لیکن ابتدا سے ہی میرا خیال ہے کہ ایس سی او ایک بہت بڑا پلیٹ فارم ہے جس کی ابتدا 2001ءمیں ہوئی تھی۔

یہ پوری دنیا کی 40 فیصد آبادی اور 4جوہری ممالک پر مشتمل ساری دنیا کے جی ڈی پی کا 30 فیصد ہے ،اگر بھارت اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان کو یہ پلیٹ فارم چھوڑ دینا چاہئے۔ پاکستان کی جانب سے ایس سی او اجلاس میں شرکت اچھا فیصلہ ہے اور میرا خیال ہے کہ ہمیں اس کا بہترین استعمال کرنا چاہئے۔

سربراہی اجلاس میں سائیڈ لائن پر ملاقاتوں کے مواقع میسر آتے ہیں۔ وہاں قازقستان اور روس یا چین کے علاوہ باقی ممبرممالک جن سے سائیڈ لائن ملاقاتیں اہمیت کی حامل ہیں۔ چین کے نئے وزیر خارجہ سے ملاقات بھی پاکستان کیلئے اہم موقع ہوگا کیونکہ ثمر قند میں ایس سی او کے سربراہانِ مملکت کی آخری ملاقات میں وزیر اعظم پاکستان شہبازشریف کی بھارتی ہم منصب نریندر مودی سے کوئی سائیڈ لائن ملاقات نہیں ہوسکی تھی۔

ایس سی او علاقائی پلیٹ فارمز میں سے ایک بہترین پلیٹ فارم ہے جسے استعمال کیا جاسکتا ہے اور اس پلیٹ فارم میں اقوامِ متحدہ کی طاقت ہے جو اقوام متحدہ کے چارٹرکے چیپٹر 8 کے تحت علاقائی تنظیم کے طور پر بنائی گئی۔

ایس سی او یا ای سی او یا دیگر تنظیموں کی حیثیت سے کسی بھی فیصلے پر اقوامِ متحدہ کی جانب سے بھی حمایت کی جاتی ہے اگرچہ وہ عالمی قوانین کے خلاف نہ ہو تو لیکن بنیادی طور پر بھارت ہمیشہ ایس سی او کے اس قسم کے نکات کو منفی طور پر استعمال اور اس کا استحصال کرنے کی کوشش کرتا آیا ہے۔

ماضی میں جب میں نے سفیرِ پاکستان کے طور پر اپنے فرائضِ منصبی سرانجام دئیے تو میرا مشاہدہ یہ رہا کہ جہاں بھی اس قسم کے سربراہی اجلاس منعقد ہوتے ہیں، بھارت ہمیشہ کچھ ایسے نکات شامل کرنے کی کوشش کرتا ہے جو پاکستان کو نشانہ بنائیں۔

ایس سی او میں ہمارے اچھے دوست بھی ہیں ۔ اس لیے مجھے ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ اس بار ایسی کوئی بات ہوسکے پھر بھی اس پلیٹ فارم کو بھارت کیلئے پاکستان کا استحصال کرنے کیلئے کھلا نہیں چھوڑا جاسکتا۔

شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں کثیر جہتی تعاون، تجارت، معیشت اور معاشی تحقیق و ٹیکنالوجی سمیت زیادہ تر ان چیزوں کے بارے میں بحث کی جائے گی جس میں متنازعہ چیزیں شامل ہیں جو چارٹر ممبران کو اپنے متعلق بحث شروع کرنے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔

یہ مسائل پلیٹ فارم پر اختلافات اور تنازعات سے تعلق رکھتے ہیں، چین کی جانب سے ایران اور سعودی عرب کے مابین ثالثی کے بعد سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جیو پولیٹیکل صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔

بھارت یقینی طور پر چاہے گا کہ پاکستان کے خلاف متعصبانہ نقطۂ نظر تشکیل دینے کیلئے راہ ہموار کی جاسکے تاہم شنگھائی تعاون تنظیم ایک کثیر الجہتی فورم ہے اور یہ وہ جگہ ہے جہاں اتفاقِ رائے کا احترام کیا جاتا ہے ، تاہم پھر بھی بہت کچھ ایسا ہے جو دیکھنا باقی ہے۔

یہ خوش آئند بات ہے کہ پاکستان کے وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری آج صبح اجلاس میں شرکت کیلئے روانہ ہوچکے ہیں ، جہاں اجلاس میں وہ پاکستان کا نقطہ نظر رکن ممالک کے سامنے رکھیں گے، جس سے پاکستان کواپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے علاوہ کشمیر اور فلسطین سمیت دیگر تصفیہ طلب مسائل کے حل اور دیگر معاملات میں پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کو آگے بڑھانے میں بھی مدد ملے گی۔
 

Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador)
About the Author: Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador) Read More Articles by Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador): 39 Articles with 33247 views Former Ambassador to UAE, Libya and High Commissioner of Malta.
Former Chief Security Advisor at United Nations۔(DSS)
.. View More