آجکل کے والدین اپنے بچوں کی تربیت سے چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہیں

والدین کی عظمت سے کون واقف نہیں، والدین وہ ہستی ہیں جو اولاد کے لئے ہر تکلیف اٹھانے کو تیار رہتے ہیں، ان کے لئے جان بھی قربان کردیتے ہیں۔ ماں ہو یا باپ ان کی عزت اولاد کا فرض ہے۔ لیکن افسوس یہی اولاد جس کے لئے ماں باپ اپنا رات دن سب کچھ قربان ان کے لیے کردیتے ہیں وہ جب کسی قابل ہوتی ہے . تو ان والدین کو تکلیف پہنچانا اپنا حق سمجھتی ہے۔ بلکہ کی آئے دن روزمرہ خبریں پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا پر آتیں ہیں. بیٹوں نے والدین کو یا ماں کو گھر سے نکال دیا یا جائیداد کی خاطر ابدی نیند سلادیا. یا اس لمحے پر جب ماں کو بیٹوں کی ضرورت تھی زندہ درگور کرکے لاوارث چھوڑدیا. اس کی وجہ جو سامنے آرہی ہے والدین کی اپنے بچوں کی تربیت سے ہے . اگر والدین شروع ہی سے اپنے بچوں کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم دیں اور ان کو بتایا جائے . والدین کے کیا حقوق ہوتے ہیں ، بہن بھائیوں و رشتہ داروں کے کیا حقوق ہیں . بیوی اور بچوں کے کیا حقوق کیونکہ اسلام میں تو پڑوسی تک کے حقوق کے بارے میں بتادیا گیا ہے. کیونکہ آگے چل کر یہ ہی بیٹی بہن بھی بنے گی ، بیوی بھی ، ماں بھی ، نند بھی اور ساس بھی بنے گئی اگر شروع سے ہی تربیت والدین کی رہیگی تو یہی بیٹی اپنے گھر کو گل گلزار بنادیگی . آج کل زمانے میں جس طرح سے دنیا بدل رہی ہے.لوگ بھی اپنے رویوں میں تبدیلی لارہے ہیں . اکثر اوقات دیکھا گیا ہے بیوی اپنے گھر والوں کو جہاں زیادہ ترجیح دیتی ہے. مگر شوہر کے گھر والوں کو صرف خانہ پری کرتی ہے وہاں ہی شوہر اپنے گھر والوں کو مگر بیوی کے گھر والوں کی صرف برائے نام پھر یہاں سے ہی ایک محبت بھرے گھر میں برتن بجنے کی شروعات ہوجاتیں ہیں . جبکہ دونوں شوہر اور بیوی کا فرض ہے دونوں طرف کے گھر والوں کو عزت واحترام دے مگر بات وہاں ہی آجاتی ہے. اگر ان کے گھر والوں نے ان دونوں کی صیح اسلامی احکام سے تربیت کی ہوتی یہ مسئلہ ہی نہیں بنتا . ہمارا اسلام کہتا ہے یہی چھوٹی چھوٹی نیکیاں ہیں جو آخرت میں کم نیکیاں ہونے پر شامل کی جائینگی جس سے لوگوں کو آخرت میں ریلیف بھی ملے گا . اکثر دیکھا گیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر شوہر اور بیوی کی تکرار ہوجاتی ہے کہ گاڑی میں فرنٹ سیٹ پر میں بیٹھوں گی جب کہ بیٹا چاہتا ہے کہ میری ماں میرے ساتھ بیٹھے اس ہی پر گھروں میں چھوٹی سی بات پر جو آگے بڑھ کر گھر بھی ٹوٹتے ٹوٹتے بچے ہیں . ادھر پھر یہ ہی بات آجاتی ہے کہ اگر والدین اپنی بچیوں کی صیح تربیت کریں تو اس طرح کی باتیں نہ ہو جن سے نوبت گھر ٹوٹنے تک پہنچ جائے. اگر ماں حیات ہے تو ماں کا حق ہے کیونکہ ماں تو ایک ہی ہوتی ہے۔ ماں کا رتبہ بڑا ہے۔ ماں تو بیوی سے اوپر ہی ہوتی ہے تو بیٹا اپنی ماں کو ہی آگے بٹھائیں گا۔ لیکن عام طور پر دیکھنے میں اس سے الٹ ہی آتا ہے کہ لوگ اپنی بیویوں کو ہی آگے بٹھائے ہوئے نظر آتے ہیں، یہ ہمارا عمومی رویہ ہے۔ کیونکہ بیویاں بھی برا مانتی ہیں اگر شوہر اپنی ماں کو آگے بٹھانے کی بات کرے۔ جبکہ کچھ گھرانوں میں اب بھی یہ دیکھا جاتا ہے کہ ماں کی واقعی میں بہت عزت و احترام کیا جاتا ہے اس کو وہ مقام اور رتبہ دیا جاتا ہے کہ کچھ بھی ہو ماں کی بات ہر حال میں پوری بھی کی جاتی ہے اور مانی بھی جاتی ہے اور اسی طرح گاڑی کی فرنٹ سیٹ ماں کے لئے رکھی جاتی ہے۔ یہی ہونا چاہیے اور جو بھی خاندانی لڑکی ہو گی وہ اپنی ساس کو ہی آگے بٹھائے گی، جس لڑکی کی تربیت اور خاندانی گھرانے سے ہوگی اُسکی تربیت اچھی ہی ہوگی وہ لڑکی اپنے شوہر کی ماں کو بھی عزت دے گی، کیونکہ جس ماں نے اپنے بچے کو پال پوس کر اس قابل بنایا کہ وہ آج اس لڑکی کا شوہر ہے تو یہ اس ماں کا ہی حق ہے کہ وہ آگے بیٹھے۔ اور جو لڑکی ایسا کرنے پر منہ بنائے اسے تو گاڑی سے نکال باہر کردینا چاہیے۔ بلکہ اُسے آئندہ گاڑی میں بھی نہیں بیٹھانا چاہیے بہت سی بہو بہت اچھی ہوتیں ہیں اور ادہر اعتراض بھی نہیں کرتیں اور دیکھا گیا اکثر بیٹے بھی ہمیشہ ماں ہی کو آگے بٹھاتا پسند کرتے ہیں اور یہ ان پر فرض بھی ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ ماں خود ہی بہو کو کہے کہ تم آگے بیٹھو میں پیچھے بیٹھوں گی 90 فیصد لوگ اپنی ماؤں کو ہی آگے بٹھائیں گے،10 فیصد ہی ایسے بے غیرت بیٹے ہوں گے جو ایسا نہیں کریں گے، لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں حج کرنا ہے حج تو آپ کے گھر میں ہوجائے گا اگر آپ اپنی ماں کی عزت اور خدمت کرو گے تو یہ تو تمھارے گھروں میں ہی حج آیا ہوا ہے اگر سمجھیں تو بیٹے کی کمائی پر پہلا حق اس کی ماں کا ہے اس کے بعد دوسرے نمبر پر اس کی بیوی آتی ہے۔ دیکھا گیا ہے جو اسلام کے قریب اور خاندانی بہنیں ہوتیں جن کی تربیت اسلامی ماحول میں کی گیں ہیں وہ گاڑی کا دروازہ بھی ساس کے لیے کھولتی ہوئی نظر آتیں ہیں اور خود سے اپنی ساسوں کو آگے بڑی عزت و تکریم سے بیٹھاتے ہوئے دیکھا گیا ہے ۔کچھ ساسیں اور ان کی بیٹیاں اپنے بھائیوں کی بیویوں سے متنفر کرنے کے لیے کیا کیا ڈرامہ الاپ تیں اللہ کی پناہ اور اچھے خاصے میاں بیوی میں جھگڑے کی بنیاد رکھ دیتی ہیں. اگر ساس نے اپنے گھر سے تربیت کی ہوئی ہوتی تو وہ اپنی بیٹیوں کو بھی اچھی تربیت دیتی تو لڑائی کی نوبت ہی نہیں آتی ۔ جو اچھی تربیت والی لڑکی ہوگی وہ کبھی بھی اس بات پر نہ جھگڑا کرے گی نہ بحث کرے گی۔اور جو بد تہذیب اور اخلاق سے گری ہوئی اور گھر سے برائے نام دین دیکھانے کی ڈھونگی لڑکی ہوگی وہ سوائے لڑنے جھگڑنے اور شوہر کو اپنی ماں سے بدظن کرنے کے لیے اس طرح کے مختلف کے بہانے تراشے گی.اور بیٹے کو اس کی جنت سے دور کریگی اور خود اپنے گھر کو عذاب میں مبتلا کریگی . جس طرح کی آجکل ہر گھر میں جو مشکلات ، پریشانیاں، بیماریاں، اُلجھنیں، نفسانفسی، وغیرہ کی مصیبتیں ہر گھر کی دہلیز پر خیمہ زن ہیں . اس کی وجہ بیشتر یہی ہے کہ بیٹوں نے اپنے والدین کی خبر گیری سے ہاتھ کھینچ لیے ہیں اور بہوں نے شوہر کے والدین کو فاضل پرزہ جات سمجھ کے گھروں سے باہر دھکیل دیا ہے. اللہ سب بچیوں کو اسلامی تہذیب و تمدن کی طرف راغب کرئے اور ان کے والدین اپنے بچوں کی صییح اسلامی اصولوں پر چلنے کی توفیق دے کہ وہ نئے گھر میں اپنے شوہر کے ساتھ اور شوہر بیوی کے ساتھ ایک اچھی زندگی کی شروعات کریں اور ہمارا معاشرہ میں ایک انقلابی تبدیلی کی طرف گامزن ہو اس ہی میں ہم سب کی بہتری ہے.
 

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 233 Articles with 83147 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.