ہمارے پاس راشن بھی ختم ہوچکا ہے اور۔۔۔ پاکستانی جان کے خطرے کے باوجود سوڈان چھوڑنے کو تیار کیوں نہیں؟

image
 
’سالوں کی محنت اور مشقت سے اپنا کاروبار کھڑا کیا ہے۔ یہاں کے لوگ ہم پر اعتماد کرتے ہیں اور اُن کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات ہیں۔ اب اگر ان حالات میں یہ ملک چھوڑ کر جائیں گے تو اپنے کاروبار سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ ویسے بھی جس ملک نے ہمیں اتنا کچھ دیا اب ان حالات میں اسے چھوڑ کر جانے کا دل نہیں کرتا۔‘
 
یہ کہنا ہے کہ پنجاب کے ضلع گجرات کے رہائشی اعجاز احمد کا جو سوڈان کے جنگ زدہ دارالحکومت خرطوم میں گذشتہ سات سال سے ایئر کنڈیشن کی تین ورکشاپس چلا رہے ہیں۔
 
تاہم ایسا سوچنے والے صرف اعجاز احمد ہی نہیں بلکہ گوجرانوالہ کے رہائشی انجینیئر رانا قیصر نے بھی یہی فیصلہ کیا ہے کہ وہ شدید خانہ جنگی کے باوجود پاکستان واپس نہیں جائیں گے۔ قیصر تقریباً دس سال سے سوڈان میں کاروبار کر رہے ہیں۔
 
سوڈان میں ہونے والی حالیہ جھڑپوں میں روز بروز شدت آنے کے باعث غیرملکی شہریوں کو ملک سے بحفاظت نکالنے کے لیے کئی ریسکیو آپریشن کیے جا چکے ہیں۔ یہ آپریشن زمینی، فضائی اور بحری ذرائع سے کیے گئے ہیں۔
 
پاکستان کی وزارت خارجہ کے مطابق سوڈان میں موجود پاکستانی سفارت خانہ یہاں مقیم پاکستانیوں کے انخلا میں مدد فراہم کر رہا ہے اور گذشتہ روز پورٹ سوڈان سے 37 پاکستانیوں کو لے کر ایک بحری جہاز جدہ پہنچا ہے۔
 
اگرچہ اس صورتحال کے باعث بہت سے پاکستانی سوڈان سے جلد از جلد بحفاظت نکلنے کی سعی کر رہے ہیں مگر کچھ ایسے پاکستانی بھی ہیں جو جنگ زدہ سوڈان چھوڑ کر پاکستان نہیں آنا چاہتے۔
 
image
 
رانا قیصر سوڈان میں سولر پینل کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ ان کے پاس بیس افراد پر مشتمل پاکستانی سٹاف تھا جس میں سے 18 واپسی کا سفر اختیار کر چکے ہیں جبکہ رانا قصیر اس وقت اپنے بیٹے کے ہمراہ سوڈان ہی میں ہیں۔
 
وہ کہتے ہیں کہ ’وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ آج اگر ہم واپس چلے گے تو پھر دوبارہ سوڈان میں موجود اپنے تعلق داروں کے پاس کیسے آئیں گے۔ اس لیے سوچا کہ جو سٹاف واپس جانا چاہتا ہے، چلا جائے ہم نہیں جائیں گے۔ بیٹے اور دو اور سٹاف ممبران نے ساتھ چھوڑنے سے انکار کیا ہے۔ ویسے بھی میرے پاس پاکستان جا کر کرنے کے لیے کوئی کام نہیں ہے۔‘
 
رانا قیصر کہتے ہیں کہ ’اس وقت صرف وہ لوگ ہی سوڈان چھوڑ کر جا رہے ہیں جن کی سوڈان میں ملازمتیں ہیں۔ جن لوگوں نے سوڈان میں اپنے کاروبار بنائے ہیں، جن کے یہاں کے مقامی لوگوں سے ذاتی مراسم بن چکے ہیں، یا جنھوں نے شادیاں کر لی ہیں وہ سوڈان کو نہیں چھوڑ رہے ہیں۔‘
 
اعجاز احمد کا کہنا تھا کہ وہ کئی ایسے پاکستانیوں کو جانتے ہیں ’جنھوں نے سوڈان نہیں چھوڑا، ہاں یہ ضرور ہوا ہے کہ لوگوں نے عارضی طور پر خرطوم کی جگہ دوسرے شہروں میں پناہ حاصل کرلی ہے جبکہ کئی لوگ خرطوم میں بھی موجود ہیں۔‘
 
’خرطوم میں دکانیں، پیٹرول پمپ سب کچھ بند ہیں، نظام زندگی معطل ہے‘
 
image
 
رانا قیصر بتاتے ہیں کہ وہ عارضی طور پر گذشتہ روز ہی خرطوم کو چھوڑنے پر مجبور ہو چکے تھے اور اس وقت مدنی شہر میں موجود ہیں۔‘
 
وہ کہتے ہیں کہ ’خرطوم کے حالات انتہائی خوفناک ہو چکے ہیں۔ اب تو یہ صورتحال ہے کہ فائرنگ رکنے کا کوئی پتا نہیں چلتا۔ وہاں پر دکانیں، پیٹرول پمپ سب کچھ بند ہیں۔ نظام زندگی معطل ہے۔‘
 
ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کے پاس کھانے پینے کے اشیا ختم ہو چکی ہیں ’خود ہمارے پاس جو راشن تھا وہ ختم ہو چکا ہے۔ ہم لوگ باہر نکلے کہ کسی دکان سے کوئی راشن وغیرہ لے لیں تو سب بند تھا۔‘
 
انھوں نے بتایا کہ اس بارے میں انھوں نے فوجی اہلکار سے پوچھا تو اس نے کہا کہ ’راشن ختم ہے تو دکان کا تالا توڑو اور اگر کچھ مل جاتا ہے تو لے لو۔‘
 
رانا قیصر کہتے ہیں کہ ’جب ہمارے جانے والے تمام سٹاف ممبران قافلے کے ساتھ پورٹ سوڈان کے لیے نکل گئے تو ہم نے بھی فیصلہ کیا کہ ہم بھی عارضی طور پر خرطوم کو چھوڑ کر مدنی شہر میں رہائش اختیار کریں گے۔ اس شہر میں ہمارے پہلے ہی سے کاروباری تعلقات موجود ہیں۔‘
 
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اپنا جتنا بھی سامان گاڑی میں لوڈ کرسکتے تھے، وہ لوڈ کیا ہے۔ جس کے بعد اپنی دو موٹر سائیکلوں اور دیگر دو گاڑیوں سے پیٹرول نکال کر سفر والی گاڑی میں ڈالا۔‘
 
انھوں نے بتایا کہ ’مدنی شہر میں حالات بالکل پر سکون ہیں اور ہم نے یہاں پر اپنا کام بھی شروع کر دیا ہے۔‘
 
دوسری جانب اعجاز احمد کہتے ہیں ’میں اس وقت شندی شہر میں ہوں۔ سٹاف کے جانے کے بعد ہم لوگوں نے مجبوری میں خرطوم میں اپنی تینوں ورکشاپس بند کر دی تھیں۔ جس کے بعد اپنے سسرال کے مشورے پر اب شندی شہر میں آ چکے ہیں۔ یہاں پر مکمل امن ہے اور ہمیں کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘
 
’خرطوم سے مدنی پہنچنے پر سرکاری فوج نے ہمارا استقبال کیا‘
 
image
 
اعجاز احمد کہتے ہیں کہ ’ظاہر ہے خرطوم چھوڑنے میں خطرہ تو موجود ہے۔ کئی علاقوں میں لڑائی ہو رہی ہے۔ کچھ علاقے تو ایسے ہیں جہاں پر شدید فائرنگ ہو رہی ہے۔ اس لیے ہم نے خرطوم چھوڑنے سے پہلے شندی کی طرف نکلنے والے راستے کا تعین کیا تھا۔ جس میں ہمیں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔‘
 
رانا قیصر بتاتے ہیں کہ ’خرطوم میں جگہ جگہ لڑائی کے خوفناک اثرات دیکھے ہیں۔ مدنی شہر پہنچنے تک ایک اعصاب شکن سفر تھا مگر ہمیں واپسی کے راستے پر سرکاری اور غیر سرکاری فوجوں نے بالکل بھی نہیں روکا، صرف سرکاری اور غیر سرکاری پوسٹوں پر شناخت چیک کی گئی اور تلاشی لی گئی تھی اور اس کے بعد جانے دیا گیا ہے۔‘
 
ان کا کہنا تھا کہ ’خرطوم سے مدنی پہنچنے پر سرکاری فوج نے ہمارا استقبال کیا تھا۔ انھوں نے ہمیں کہا کہ اچھا کیا کہ خرطوم کو چھوڑ دیا ہے۔ مدنی شہر میں حالات اچھے ہیں۔ یہاں پر اپنا کام کاج کریں حالات جلد ہی بہتر ہو جائیں تو خرطوم چلے جائیں۔‘
 
’یہاں کے لوگ جنگ کے ماحول کے عادی ہو چکے ہیں‘
اعجاز احمد کہتے ہیں کہ ’میں جانتا ہوں کہ ہر تھوڑے عرصے بعد سوڈان کے حالات خراب ہو جاتے ہیں۔ یہاں کے لوگ جنگ کے ماحول کے عادی ہیں مگر پھر حالات ایک دم ٹھیک بھی ہو جاتے ہیں۔‘
 
ان کا کہنا تھا کہ ’اب اس وقت لڑائی ہو رہی ہے، یقین کریں یہ لڑائی اگر ختم ہو جائے تو یہاں پر کاروبار دوبارہ شروع ہو جائے گا اور ایسا لگے گا کہ کبھی لڑائی ہوئی ہی نہیں ہے۔‘
 
وہ کہتے ہیں کہ ’اسی وجہ سے میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنا کاروبار عارضی طور پر بند کردوں گا مگر پاکستان نہیں جاؤں گا۔ اگر ایک مرتبہ ان حالات میں پاکستان چلا گیا تو محنت سے بنایا ہوا کاروبار ختم ہو جائے گا۔‘
 
اعجاز احمد کا کہنا تھا کہ ’اس جنگ نے ختم ہونا ہی ہے جس کے بعد پھر امن ہو جائے گا اور ہمارا کام پھر چل پڑے گا اور اس مشکل کے وقت میں سوڈان ہی میں رہنے سے ہمارے ان لوگوں سے تعلقات مزید بہتر ہو جائیں گے۔‘
 
رانا قیصر کہتے ہیں کہ سوڈان ہی نہیں بلکہ پورے افریقہ میں کاروبار کے مواقع پاکستان اور باقی دنیا سے بہتر ہیں۔
 
image
 
پاکستانی سوڈان میں کون کون سے کاروبار کرتے ہیں؟
رانا قیصر کہتے ہیں کہ ’سوڈان میں پاکستانیوں نے تقریباً اٹھارہ سٹیل ملیں لگا رکھی ہیں۔ یہ ساری سٹیل ملیں پاکستان کے بڑے سرمایہ کاروں نے لگائی ہیں اور ان سٹیل ملوں کے نام بھی کراچی، لاہور، فیصل آباد سٹیل مل رکھے ہوئے ہیں۔‘
 
ان کا دعویٰ تھا کہ ’پاکستانیوں نے سب سے زیادہ سرمایہ کاری سٹیل کے کاروبار میں کی ہے۔‘
 
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کی وجہ سوڈان میں سٹیل کی مانگ کے علاوہ بڑھتا ہوا ترقیاتی کام ہے۔ جس کے لیے پاکستان کے علاوہ مقامی عملہ بھی رکھا گیا ہے۔
 
رانا قیصر کے مطابق سوڈان میں ’اس کے علاوہ پاکستانی مستریوں کی بہت ڈیمانڈ ہے۔ پاکستان سے کئی مستری یہاں پر کام کرتے رہے ہیں جبکہ کئی ایک نے سوڈان میں شروع میں مستری سے کام کیا اور پھر ٹھیکداری کا کام کرنے لگے ہیں۔‘
 
وہ کہتے ہیں کہ ’اس کے علاوہ پاکستانی درمیانے درجے کے کاروباروں سے بھی منسلک ہیں۔‘
 
’یہاں پر چھوٹے، بڑے کاروبار کے لیے سرمایہ کاری کرنے پر بہت زیادہ سہولتیں دی گئی تھیں۔ جس میں ٹیکس کی چھوٹ بھی شامل ہے اور مقامی لوگ اور مقامی عملہ ایماندار ہے۔‘
 
اعجاز احمد کے مطابق ’سرمایہ کاری کے لیے حکومت تو سہولتیں فراہم کرتی ہی ہے مگر مقامی لوگ بھی ہم غیر ملکی کاروبار کرنے والوں کو بہت عزت و احترام دیتے ہیں اور سوڈان کے قانون نے ہمیشہ ہماری مدد کی ہے۔‘
 
ان کا کہنا تھا کہ ان ہی سہولتوں کی وجہ سے گذشتہ پانچ چھ سالوں سے پاکستان سے کافی تعداد میں کاروباری افراد نے سوڈان کا رخ کیا ہے۔ جس کے نتیجے میں پاکستانیوں کے لیے بھی سوڈان میں ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔
 
ان کا کہنا تھا کہ ’میں امید کر رہا ہوں کہ ہم کچھ ہی دونوں میں دوبارہ شندی سے خرطوم کی طرف سفر کر رہے ہوں گے اور دوبارہ اپنے کاروبار میں مصروف ہوں گے۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: