والدین کا سہارا بیٹیاں بھی بن سکتی ہیں، پوری فیملی کو سپورٹ کرنے والی 18 سالہ لڑکی جس سے مردوں کو بھی سبق سیکھنے کی ضرورت

image
 
ہم میں سے ہر دوسرا فرد صنفی مساوات کا علمبردار نظر آتا ہے لیکن بحیثیت ایک معاشرے کے ہم وہی قدامت پسند سوچ رکھتے ہیں- جس میں لڑکیوں کا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے یا لڑکوں کو گھر کے کام میں مدد کرنے پر زن مرید جیسے القاب دیئے جاتے ہیں۔
 
اس سچائی سے نظریں نہیں پھیریں جاسکتیں کہ ہم اقدار میں تنزلی کا شکار ہیں۔ اس بات کا اعتراف اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیو گوتریس نے عالمی یوم خواتین پر کیا۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں انہوں نے کہا کہ صنفی مساوات کے ہدف کا حصول زیادہ مشکل ہوگیا ہے اور اقوام متحدہ کے حقوق نسواں کے ادارے کے ایک تخمینے کے مطابق ایسا تین سو سال میں ممکن ہو سکے گا۔
 
لیکن یہ معاشرہ تین سو سال تک کسی لیبارٹری میں نہیں رکھا جائے گا کہ یک دم اسمیں سب اچھا ہوجائے بلکہ چھوٹی چھوٹی سی کوششیں ہی صنفی مساوات کے حصول کی طرف ایک قدم کہلائیں گی۔ ایسا ہی ایک قدم کراچی کے علاقے اورنگی ٹاون کی عطوفہ نے بھی اٹھایا ہے جو مرکزی بازار میں آلو کے چپس بیچنے نکل کھڑی ہوئی ہے۔
 
18 سالہ عطوفہ زمانے کے گرم سرد سے آشنا
کورونا سے متاثرہ خاندانوں میں سے ایک عطوفہ کا خاندان بھی تھا جو کہ چار لوگوں پر مشتمل ہے۔ ماں باپ اور بڑی بہن کے ساتھ کرائے کے گھر میں مقیم اورنگی ٹاؤن کی اس بہادر لڑکی نے جب گھر کے حالات خراب ہوتے دیکھے تو والد کے ساتھ ایک مقامی کمپنی میں ملازمت کرلی۔ مگر کورونا کی وبا کی وجہ سے کئی کاروبار بند ہوگئے کئی سو لوگوں کو نوکریوں سے فارغ کردیا گیا اور عطوفہ اور ان کے والد بھی ان ہی میں سے تھے۔ جب نوکری سے نکالے جانے کے بعد اور کوئی چارہ نہ ہوا تو عطوفہ نے آلو کے چپس کا ٹھیلا لگا لیا۔
 
image
 
کم عمر لڑکی مگر خواب بہت بلند
ایک انٹرویو میں عطوفہ نے بتایا کہ انکی ہم عمر لڑکیاں اسکول کالج میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں لیکن گھر کے حالات کے سبب وہ تعلیم حاصل نہ کر سکیں۔ انہی حالات کو بہتر بنانے کی غرض سے عطوفہ نے اپنا کاروبار کرنے کا سوچا۔
 
ایک کمیٹی سے ملنے والی پیسوں کو لے کر عطوفہ نے آلو کاٹنے اور فرائے کرنے والی مشین کے ساتھ دیگر سامان خریدا۔ انکے مطابق وہ تیل سے لے کر کیچپ، چٹنیاں اور مصالحے بھی معیاری خریدتی ہیں۔ رمضان کی روٹین کچھ ایسی ہے کہ سحری کے بعد آرام کر کے وہ دوپہر میں میں آلو اور باقی سامان خرید لیتی ہیں۔ رائتہ اور چٹنی وغیرہ وہ گھر میں ہی بناتی ہیں ساتھ میں آلو بھی صاف کر کے ساتھ لے آتی ہیں۔ افطار کے بعد اپنا اسٹال لگاتی ہیں اور تقریبا رات دو بجے تک فارغ ہو کر گھر جاتی ہیں۔
 
میں آرمی جوائن کرنا چاہتی تھی، عطوفہ
انٹرویو دیتے ہوئے عطوفہ نے بتایا کہ وہ آرمی جوائن کرنا چاہتی تھیں لیکن حالات کے سبب ایسا نہ ہو سکا۔ انکے چچا اور باقی رشتے دار اس بات کی مخالفت کر رہے تھے کہ لڑکی سے کام کرواؤ گے لیکن انکے والد نے انھیں سپورٹ کیا۔ اس اسٹال سے وہ یومیہ پانچ یا چھ سو کی بچت کرلیتی ہیں اور پر امید ہیں کہ وہ اس سے اچھا اسٹال لگائیں گی اور ان لڑکیوں کو اپنے ساتھ رکھیں گی جو ان کی طرح گھر کا خرچ چلا رہی ہیں۔
 
image
 
اورنگی ٹاؤن کے سیکٹر ساڑھے گیارہ، اقبال مارکیٹ پاکستان بازار میں عطوفہ کا یہ چھوٹا کا اسٹال صنفی مساوات کی کوشش کے لیے ایک قدم ہے۔ ہمیں بھی اس کوشش میں ان کا ساتھ دینا چاہیئے تاکہ ان جیسی اور لڑکیاں جو لوگوں اور رشتے داروں کی باتوں کے ڈر سے اپنے گھر والوں کی مدد کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہیں وہ آگے بڑھ سکیں۔
YOU MAY ALSO LIKE: