اس جہاز کو تو خدا بھی نہیں ڈبو سکتا لیکن پھر٬ وہ شخص جس کی زندگی بدقسمت جہاز ٹائٹینک پر لگنے والے ایک زخم نے بچائی

image
 
تقریبا 111 سال قبل ایک شخص کے ساتھ ایسا حادثہ پیش آیا جس نے اس کی زندگی بچا لی۔
 
یہ شخص آئر لینڈ کے جو سواربرک تھے جنھوں نے کم عمری میں ہی اپنے بھائی کے ساتھ ملک چھوڑنے کا منصوبہ بنا لیا تھا۔
 
اپنے چھوٹے سے شہر کو خیرباد کہنے کے بعد وہ بیلفاسٹ پہنچے جہاں ان کو ایک بحری جہاز میں بطور انجن عملہ کام مل گیا۔ یہ جہاز امریکہ روانہ ہونا تھا لیکن اس سے پہلے کے جہاز سفر پر روانہ ہوتا ان کی انگلی زخمی ہو گئی۔
 
اس واقعے کے بعد ان کو جہاز چھوڑنا پڑا۔ یہ جہاز کوئی عام بحری جہاز نہیں تھا بلکہ اپنے وقت کا سب سے پرتعیش بحری جہاز ٹائٹینک تھا۔
 
بیلفاسٹ میں تیار ہونے والا مشہور ٹائٹینک بحری جہاز اپنے پہلے ہی سفر کے دوران اس وقت ڈوب گیا تھا جب اپریل 1912 میں ایک آئس برگ سے ٹکرا گیا تھا۔ اس حادثے میں جہاز پر سوار 1500 سے زیادہ مسافر ہلاک ہو گئے تھے۔
 
image
 
جو کی بیٹی ایلانور اب 85 سال کی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کے والد کی انگلی پر اس وقت کام کے دوران زخم آیا جب ٹائٹینک جہاز تیار ہونے کے بعد ساوتھ ہیمپٹن بھیجا جا رہا تھا۔
 
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’زخم کی وجہ سے ان کو اترنا پڑا اور ان کے بھائی کو بھی ان کے ساتھ ہسپتال جانا پڑا۔‘
 
’میرے والد کو ہسپتال نے بتایا کہ اب وہ امریکہ نہیں جا سکتے اور پھر وہ اپنے گھر بیلفاسٹ واپس چلے گئے۔ ان کے بھائی بھی ان کے ساتھ تھے۔‘
 
’وہ دونوں بہت مایوس تھے اور میرے والد کو افسوس تھا کہ ان کی وجہ سے ان کے بھائی بھی نہیں جا پائے۔‘
 
بیلفاسٹ واپسی کے چند ہی دن بعد ٹائٹینک کے ڈوب جانے کی خبر ملی۔ اگر وہ بھی اس جہاز پر سوار ہوتے تو ان کا ڈوب جانا تقریباً یقینی تھا کیوں کہ دونوں بھائی جہاز کے انجن روم میں کام کرتے تھے۔
 
image
 
وہ اس عملے کا حصہ تھے جو انجن روم میں کوئلے کے ساتھ کام کرتا تھا۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے 79 افراد میں سے صرف 20 اس حادثے میں زندہ بچے۔
 
تاہم ان کے بھائی بل آخرکار کینیڈا جانے میں کامیاب ہوئے جہاں انھوں نے شادی بھی کی۔ 1967 میں انھوں نے اخبارات سے اپنی کہانی پر بات چیت کی۔
 
انھوں نے رپورٹرز کو بتایا تھا کہ جب ان کو جہاز ڈوبنے کا پتہ چلا تو وہ حیرانی سے تقریباً مرنے والے تھے۔
 
image
 
’جو اور میں اس عملے کا حصہ تھے جس نے ٹائٹینک کے سب سے پہلے سفر کا کچھ حصہ اس پر گزارا تھا۔‘
 
’انجن روم میں کام کی وجہ سے مجھے پورا سفر کرنا تھا لیکن جو کا ہاتھ زخمی ہو گیا اور میرے پاس اس کے ساتھ بیلفاسٹ واپس جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔‘
 
انھوں نے بتایا کہ جہاز کی تعمیر کے دوران اس طرح کے دعوے کیے گئے تھے کہ ’اس جہاز کو تو خدا بھی نہیں ڈبو سکتا۔‘
 
دوسری جانب جو نے نیوی میں شمولیت اختیار کی۔ وہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی لڑائیوں کا حصہ رہے جس پر انھیں اعزازات بھی ملے۔
 
جو 52 سال کی عمر میں دوسری جنگ عظیم میں لگنے والے زخموں کی وجہ سے انتقال کر گئے تھے۔
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: