معیشت کی بدحالی میں ہمارا کردار

پاکستان کی معیشت ہمیشہ مد و جزر کا شکار رہی ہے لیکن افسوس کہ ہمارا ملک آج سنگین معاشی بحران کا شکار ہوچکا ہے، روپیہ اپنی قدر کھوچکا ہے، برآمدات میں اضافے کے بجائے کمی ہورہی ہے، ٹیکس آمدنی بھی معیشت کو سہارا دینے کیلئے ناکافی ہے اور ادائیگیوں کا بوجھ ہمیں مزید ہلکان کرتا جارہا ہے۔

اس وقت عالمی منظر نامہ یکسر تبدیل ہوچکا ہےجس کی وجہ سے پاکستان کیلئے بدلتے حالات کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسی شدت اور رفتار سے سفارتکاری کرنا دشوار ہورہا ہے۔

آج کی دنیا میں آئی ایم ایف، ورلڈبینک، ایف اے ٹی ایف یا کوئی بھی عالمی مالیاتی ادارہ ہو جب تک اس میں جغرافیائی پہلوؤں کو دیکھتے ہوئے سفارتکاری نہ کی جائے تو امداد اور مذاکرات میں دقت کے ساتھ ساتھ اکثر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑسکتا ہے۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے اکابرین آج بھی خود کو اسی طرح لاڈلا تصور کرتے ہیں جس طرح اور جب ہم افغان جنگ میں امریکا کے شانہ بشانہ تھے اور ایک فرمائش پر ہم پر ڈالروں کی برسات ہوجاتی تھی لیکن آج حقیقت کچھ اور ہے۔

آج آئی ایم ایف جس طرح پیچیدگیاں نکال رہا ہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی لیکن جب ہم عالمی طاقتوں کے راج دلارے تھے تو اس وقت آئی ایم ایف کے اصول و ضوابط کا اطلاق اتنا نہیں ہوتا تھا اور ہم سے لاڈلوں کی طرح سلوک ہوتا تھا۔

آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر کی سری لنکا اور گھانا کی مثالیں درست ہیں کیونکہ ہم ان حالات کے قریب پہنچ چکے ہیں، پاکستان میں مہنگائی کی شرح 31 فیصد کہی جارہی ہے لیکن عالمی ماہرین 60 فیصد سے زائد کے دعوے کررہے ہیں۔

ہمیں اس وقت خوراک کے بحران سے بچنے کیلئے فوری طور پر 14 اعشاریہ 6 ملین ڈالر کی ضرورت ہے جس کی ورلڈ فوڈ آرگنائزشن بھی تصدیق کرچکا ہے۔

پاکستان کی معاشی مخدوشیت میں اضافے کی وجہ امریکا اور چین کا تنازعہ بھی ہے کیونکہ امریکا ہر صورت خطے میں چین کا اثرو رسوخ کم کرنے کی کوشش میں ہے اور ایسے میں چین سے قریبی تعلقات کی وجہ سے پاکستان کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

عالمی سطح پر جغرافیائی تبدیلیوں کی وجہ سے حالات تیزی سےبدل رہے ہیں جس میں پاکستان کو سفارتکاری بہتر بنانے کیلئے فوری سفارتکاروں کی ٹاسک فورس تشکیل دیکر اقوام عالم میں پاکستان کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنا ہوگی۔

آئی ایم ایف اور ورلڈبینک میں امریکا کے ڈائریکٹرز کی بہتات کی وجہ سے ان اداروں میں امریکی اثرو رسوخ عام سی بات ہے جس کا اثر ہم پاکستان کی جانب سے قرضوں کے حصول کیلئے کی جانیوالی کاوشوں پر بھی دیکھ سکتے ہیں۔

راقم الحروف پہلے بھی بارہا اس بات کا تذکرہ کرچکا ہے کہ امریکا کے عسکری مینول میں عالمی مالیاتی اداروں کو اپنے اہداف کے حصول کیلئے استعمال کرنے کا باب موجود ہے اور یہ حقیقت ہے کہ امریکا مالیاتی اداروں کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرنے سے کبھی گریز نہیں کرتا۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے قرضوں کی ضمانت میں تاخیر بھی ایک افسوسناک امر ہے کیونکہ اگر یہ کام پہلے ہوجاتا تو آج پاکستان میں مہنگائی کا طوفان اتنا تباہ کن نہ ہوتا۔

ماضی میں دہشت گردی کیخلاف جنگ کے دوران سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے شاہی حکام سفیروں کے گھر تک آجاتے تھے لیکن آج پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور افراتفری کی وجہ سے دوست ممالک بھی ہم سے کنارہ کشی اختیارکرتے نظر آرہے ہیں اور کشیدگی کی وجہ سے کوئی بھی ملک پاکستان کو سنجیدہ لینے کیلئے آمادہ نظر نہیں آتا۔

جغرافیائی تبدیلیوں اور نئے بننے والے الگ گروہوں اور اتحاد میں شاید پاکستان کہیں فٹ نہیں آتا جس کی وجہ سے ہماری اہمیت اور افادیت کم ہوچکی ہے ۔ دور رفتہ میں ہم نے دیکھا کہ سعودی عرب پاکستان کے ساتھ بہت زیادہ قریب تھا اور ہم بھی سعودی عرب کی بات کو عزت دیتے تھے ۔

ماضی میں مؤخر ادائیگیوں پر بھی تیل آجاتا تھا لیکن آج کوئی ہم سے بات نہیں کرتا۔ اس کی وجہ ہماری اپنی کوتاہیاں ہیں کیونکہ ہمارے اکابرین کی ذاتی انا نے حالات کو ایسی نہج پر پہنچادیا ہے جہاں معاشی صورتحال گھانا اور سری لنکا سے زیادہ دور نہیں ہے لیکن سیاست دان اور عدلیہ آپس میں سینگ پھنسائے ہوئے ہیں۔
بقول شاعر :
نادیدہ بہاروں کا فسوں ٹوٹ چکا ہے
پژمردگی رنگ چمن بول رہی ہے
ممکن ہے کہ لب ساکت و جامد رہیں لیکن
اے اہل وطن ارض وطن بول رہی ہے

اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی اور گروہی مسائل اور معاملات کو پس پشت ڈال کر کم سے کم 6 ماہ کیلئے ملک کو مشکلات کے بھنور سے نکالنے کیلئے اتفاق کرلیں کہ صرف اور صرف ملک کو بچانا اور بحالی کی طرف لے جانا ہی مقصد ہوگا کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو آنے والا وقت مزید کٹھن ہوسکتا ہے ۔ اگر بھوک اور افلاس کے مارے عوام سڑکوں نکل آئے تو ان کو سنبھالنا کسی کیلئے بھی آسان نہیں ہوگا کیونکہ بھنور میں پھنسی کشتی کسی بھی وقت سمندر کی تہہ میں جاسکتی ہے۔
 

Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador)
About the Author: Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador) Read More Articles by Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador): 39 Articles with 33238 views Former Ambassador to UAE, Libya and High Commissioner of Malta.
Former Chief Security Advisor at United Nations۔(DSS)
.. View More