ٹکراؤ کا ماحول

یہ دنیا سدا سے تغیر پذیر رہی ہے۔اس کا تغیر انگیز ہونا ہی اس کی خوبصورتی کی بنیاد ہے۔ہمیں تغیر کو ہمیشہ خوش آمدید کہنا چائیے کیونکہ اسی سے یہ دنیا ترقی کی راہیں تراشتی ہوئی آگے کی جانب بڑھتی ہے۔لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ تغیر ہونا کیسا چائیے؟ تغیر مثبت ہو تو انسانی زندگیوں میں سکون و طمانیت کا راج ہو تا ہے لیکن اگر یہ الٹی سمت میں چل پڑے تو پھر معاشرہ اتھل پتھل کا شکار ہو جاتا ہے۔جرمنی کا روڈلف ہٹلر بھی تو تبدیلی کا نعرہ لے کر منظرِ عام پر آیا تھا اور اپنی شعلہ بیانی سے پورے جرمنی کو اپنی مٹھی میں بند کر لیا تھا۔اس کی شعلہ بیانی نے عوام کو پورے یورپ پر جرمنی کے تسلط کا گرویدہ بنا دیاتھا۔ابتدا میں ہٹلر کو کامیابیاں بھی ملیں لیکن اس کا جو انجام ہوا وہ سب پر عیاں ہے ۔ ہٹلر نے تبدیلی کے نعرے کو جس طرح ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔وطن پرستی کے نعرے نے دوسری جنگِ عظیم کو جنم دیا جس میں ہٹلر کو شرمناک شکست ہوئی اور ذلت آمیز معاہدے کا سامنا کرنا پڑا جس سے جرمنی کی آزادی دوسروں کے رحم و کرم پر رہ گئی۔تبدیلی کیلئے مخصوص آمرانہ روش کوخیر آباد کہنا ہوتا ہے تبھی تو تبدیلی کا اجلا چہرہ دیکھنا نصیب ہو تا ہے۔تبدیلی ہر انسان کی خواہش ہو تی ہے لیکن کیا تبدیلی کی خاطر آئین و قانون اور ضابطو ں کو پاؤں تلے روندھ دیاجائے ؟آئین و قانون کا مذاق اڑایا جائے اور معاشرتی روایات کوپرِ کاہ سے زیادہ اہمیت نہ دی جائے جن پر معاشرہ قائم ہو تا ہے؟تبدیلی در حقیقت ان رویوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند ہوتی ہے جو انسانی تکریم کے خلاف ہو تے ہیں ۔عظمتِ انسان کو جب روندھ دیا جاتا ہے اور عدل و انصاف ایک مخصوص گروہ کیلئے مخصوص ہو جاتا ہے تو پھر تبدیلی کا نعرہ عوامی نفرت کا آئینہ دار بن جاتا ہے۔ ،۔
پاکستان میں سیاست کا ایک اپنا رنگ ہے،ایک اپنا انداز ہے،ایک اپنی روائیت ہے اور ایک اپنی شناخت ہے۔عوامی حقوق کی جنگ لڑنے والے ہمیشہ آئین و قانون کے دائرے کوکبھی نہیں توڑتے بلکہ وہ اپنی جدو جہد کو آئین و قانون کے تابع رکھتے ہیں۔حکومت کے فسطائی حربے اور قید و بند کی صعوبتیں ان کے عزم و ہمت میں لغزش پیدا نہیں کر پاتیں۔برِ صغیر کی تاریخ قیدو بند کی روح پرور داستانوں سے بھری پڑی ہے ۔ آزادی کے متوالوں نے جرات و بسالت کی ایسی حیرت انگیز داستانوں کو جنم دیا ہوا ہے کہ انسانی قلب سے ایسے نامور جانبازوں کیلئے دادو تحسین کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔عوام اپنے حقوق کیلئے سینہ سپر ہو جاتے ہیں۔حکومتی ہتھکنڈے اور جبر و کراہ ان کی راہ کی رکاوٹ بننے کی ناکام کوشش کرتا ہے لیکن جیالے ہر رکاوٹ کو عبور کرتے ہوئے اپنی منزل کی جانب محوِ سفر ہو جاتے ہیں ۔میں نے جن رویوں کا ذکر کیا ہے اس میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تمیز نہیں ہے۔انقلابی جہاں بھی ہو گا انقلابی ہی ہوگا۔ زندانوں کا خوف اسے چھو کر بھی نہیں گزرتا ۔(سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے۔،۔ دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے)ایک شعر نہیں بلکہ ایک سوچ ہے جس کے اندر انقلابیوں کا دل دھڑکتا ہے۔حسرت موہانی ،محمد علی جوہر،مولانا ظفر علی خان، مہاتما گاندھی ،ابو الکلا م آزاد ، پنڈت جواہر لال نہرو ،عطا اﷲ شاہ بخاری ،پاچہ خان اور یا پھر علمائے ہند کے اکابرین کی جدو جہد سے آزادی کی شمع روشن ہو ئی ۔ غیر ملکی آقاؤں کا جبر بھی ان کے اندر جی داری کا جوہر ماند نہ کر سکا ۔انھوں نے حکومت کے خلاف اسلحہ اٹھانے کی بجائے پر امن جدو جہدکو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا تو تب کہیں جا کر اس جدوجہد کے بطن سے آزادی کا سورج طلوع ہوا۔وقت بدلتا ہے تو بہت کچھ بدل جاتا ہے۔نئی سیاسی جماعتیں اور پھر نئے قائدین اپنی فہم و فراست اور منشور سے سیاست کے میدان میں تبدیلیوں کے بیج بوتے ہیں۔وہ عوام کی پذیرائی سے اپنی راہ کا تعین کرتے ہیں۔وہ حکومت کی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں تو انھیں دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اب یہ سیاسی قائدین پر ہے کہ وہ اس دباؤ کا سامنا کرتے ہوئے غیر جمہوری روش کو اپناتے ہیں یا پھر جمہوری جدوجہد کے دائرے میں مقید رہتے ہیں۔سیاسی قائدین کیلئے اسلحہ اور بارود شجرِ ممنوعہ ہو تا ہے لہذا وہ الفاط کی طاقت سے عوام کو اپنا گرویدہ بناتے ہیں ۔ پاکستان میں ایک نئے کلچر کو دور دورہ ہے۔ (بدلتا ہے رنگ آسما ں کیسے کیسے)سیاسی جماعتوں نے پولیس اور رینجرز کے خلاف اسلحے اور بارود کا سہارا لینا شروع کردیا ہے ا س کی ابتدا تو ۱۹۹۰؁ کی دہائی میں ایم کیو ایم نے شروع کی تھی ۔جس کے بعد کراچی قتل و غارت گری،بھتے ، اغوا اور تاوان کا مرکز بن گیا جس کی وجہ سے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو جون ۱۹۹۲؁ کو ملک سے فرار ہو نا پڑا ۔اسلحے کے استعمال کے بعد ایسا ہی ہوتا ہے۔اسلحے سے دوسروں کو نشانہ بنانے والے ایک دن اسی اسلحے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ دھشت گردی کے اس طرزِ عمل سے کراچی نے شدید نقصانات اٹھائے جس سے کراچی کی تجارت،صنعت اور کاروبار پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہوئے ۔،۔

۱۰ اپریل ۲۰۲۲؁ کو عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستانی سیاست ایک ایسی ڈگر پر چل نکلی ہے جس میں ٹکراؤ اور مخاصمت کے علاوہ کچھ نہیں بچا۔عمران خان اپنی حکومت کے خاتمے کو امریکی سازش قرار دیتے ہیں۔جنرل قمر جاوید باجوہ جن کا شمار عمران خان کے محسنوں میں ہوتا ہے آجکل وہ عمران خان کے نشانے پر ہیں۔وہ انھیں اپنی حکومت کے خاتمہ کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں ۔ ایک کھلی جنگ ہے جو افواجِ پاکستان کے خلاف چھیڑ دی گئی ہے۔عمران خان فوری انتخابات کا مطا لبہ کر رہے ہیں اور اپنے مطالبہ کو تقویت دینے کیلئے عمران خان نے دو اسمبلیوں کو قربان کیا لیکن ہنوز دہلی دور است والا معاملہ ہے کیونکہ شہباز شریف کی حکومت پی ٹی آئی کے مطالبہ کو در خورِ اعتنا نہیں سمجھ رہی۔وہ اسمبلیوں کی پانچ سالہ مدت پوری ہونے کے بعد انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے۔عمران خان نے اپنے چار سالہ دورِ اقتدار میں جس طرح اپوزیشن کو جیلوں کی ہوا کھلائی اسی طرح موجودہ حکومت بھی عمران خا ن اور اس کے قریبی ساتھیوں کو اسی طرح جیلوں کی ہوا کھلانا چا ہتی ہے۔شدید ٹکراؤ کی اس سوچ میں عدالتو ں کے احکامات اور پولیس کے احکامات کو پسِ پشت ڈالا جا رہا ہے،حکومت عمران خان کو گرفتار کرنا چاہتی ہے تا کہ آنے والے انتخابات میں انھیں نا اہل قرار دے دیا جائے لیکن عمران خان حکومتی احکامات کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔ اس سلسلے میں زمان پارک سے پولیس اور رینجرز پر جس طرح شیلنگ کی گئی اور ان پر جس طرح پٹرول بم برسائے گے یہ اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ تھا۔سیاستدان کے گھر سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف جس طرح کا ری ایکشن دیکھنے کو ملا اس سے پہلے اس طرح کا ری ایکشن کبھی نہیں دیکھا گیا۔ عدالت کے گرفتاری وارنٹ نے جس کشیدگی کو جنم دیاہے اس نے پاکستان کے درو دیوار کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ لوگ انگشت بدندان ہیں کہ سیاست کا یہ کونسا چلن ہے؟ یہ کون سی سیاسی روش ہے جس سے عوام اور قانون نافذ کرنے والے ادارے آمنے سامنے کھڑے ہو گے ؟ عمران خان گرفتاری سے تو بچ گے لیکن جو نقصان ملک کا ہوا،سسٹم کا ہوا،اداروں کا ہوا،ملکی وقار کا ہوا، ملکی استحکام کا ہوا، ملکی اتحاد کا ہوا،ملکی بقا کا ہوا اس کا حساب کو ن دے گا ؟میں تو بس یہی کہنے پر اکتفا کروں گا ۔،۔
( آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں۔،۔ محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی)۔،۔
 

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 449180 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.