سیلاب کی تباہ کاریاں ،حکومتی بے حسی اور دینی طبقے کی ذمہ داریاں

پاکستان میں جب بارشیں نہیں ہوتیں تو خشک سالی آجاتی ہے اور جب بارشیں ہوتیں ہیں تو سیلاب آجاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہو تا ہے کہ یہ عذاب الہی نہیں بلکہ عذاب موجودہ نظام اوراس کو قائم رکھے ہوئے حکمران ہیں،کیونکہ بار بار کی سیلابی تباہی کے باوجود اس کے سد باب کے لیے کچھ نہ ہونے سے انتظامیہ ، حکومت اور نظام کا ناقص پن اور نااہلی ثابت ہوتی ہے۔ یہ پاکستان میں پہلا سیلاب نہیں ہے اور سب کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ آخری بھی نہیں ہے۔ لاکھوں افراد بے گھر اور بے سروسامان ہو چکے ہیں،خطرناک وبائیں پھیلنے کے آثار نمایاں ہیں، عوام بے یارو مدد گار مایوسی اور نامیدی میں زندہ لاشیں بنتے جا رہے ہیں جن کے پاس نہ کچھ کھانے کو اور نہ ہی پینے کو پانی تک ہے۔ تمام سیلاب زدہ عوام کچھ اور کسی امید کو ترس رہے ہیں جب کہ حکمران اور سیاسی جماعتیں اذیت اور دکھ کی اِس گھڑی میں اپنی اپنی سیاست کی دوکانداری چمکنے اور اپنے مالی اور سیاسی دھندوں کو بڑھانے کی فکر میں ہیں۔ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ان کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کی بجائے انہیں صرف استعمال کیا جا رہا ہے۔صوبہ سندھ میں آنے والے سیلاب کے نتیجے میں غیر سرکاری اطلاع کے مطابق دو سوسے زائد افراد اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ بچ جانے والے لٹے پٹے قافلوں کی صورت سیلاب کے ریلوں سے گزر گزر کر محفوظ مقامات کی طرف رواں دواں ہیں۔ گھروں کو تالے لگا کر خدا کے سپرد کر کے اب نہ جانے یہ لوگ کب گھروں کو واپس لوٹیں گے۔ اس آفت کے ٹلنے کے انتظار میں ہزاروں خاندان بے سروسامانی کی حالت میں کھلے آسمان تلے شب و روز کیسے گزاریں گے ؟؟؟بھوک سے نڈھال بچے ۔۔۔دودھ کے لئے بلکتے ننھے معصوم اور اپنے عزیز و اقارب اور گھروں کی سائبانی سے محروم جوان اور بوڑھے یاس اور مایوسی کی تصویر بنے آنکھوں میں مستقبل کے حسین خوابوں کی بجائے مدد کے لئے ایک امید کا چراغ روشن رکھے ہوئے ہیں۔۔۔ہمارے بادشاہ لوگوں نے اگر اب بھی آنکھ نہ کھولی اور بے حسی اور بے غیرتی کو جھٹک کر حالات کا ادراک نہ کیا، اور خود ہمت باندھتے ہوئے ایثار کا مظاہرہ اور دیانتداری سے پاکستان کے عوام کے لئے مثال نہ بنے تو ممکن ہے کہ یہ سیلاب پاکستان بھر کے پورے نظام کو بہا لے جائے۔ پاکستان کے عوام کے پاس دیگر وسائل کے ساتھ جذبہ ایک ایسا وسیلہ ہے جو بہت سے وسائل پہ بھاری ہے، ضروت اس امر کی ہے کہ اس جذبے کو مکمل ایمانداری سے چینلائیز کیا جائے اسے درست سمت عطا کی جائے اور ادروں کی نیک نیتی سے تشکیلِ نو کی جائے۔سندھ کا ایک بڑا حصہ سیلاب کی تباہ کاریوں کی زد میں آچکا ہے اور تقریباً پچاس لاکھ سے زائد پاکستانی اس تباہ کاری کا نشانہ بن چکے ہیں۔کئی شہر ،قصبے اور گاﺅں زیر آب آچکے ہیں اور انسانیت کی سسکیاں ہر طرف سے سنائی دے رہی ہیں۔ باد ی النظر میں ہر انسان یہی سوچتا ہے کہ ان تباہ حال ہم وطنوں کی مادی اور جسمانی مدد ہونی چاہیے ۔انسانی جانوں کو بچانے سے لیکر ان کی تباہ شدہ متاع حیات کو دوبارہ بحال کرنا نہ صرف حکومت کا اولین فریضہ ہے بلکہ تمام ہم وطنوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کے اس دکھ میں شریک ہو کر انہیں دوبارہ زندگی گزارنے کے قابل بنائیں۔اس سلسلے میں ملک کے دینی طبقے ،اہل قلم ،اہل دانش اور اہل فکر وتدبر کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مادی اور جسمانی کمک رسانی کے فریضے میں شریک ہو نے کے ساتھ ساتھ فکری ،اعتقادی اور نظریاتی حوالے سے سیلاب زدگان اور اس طبیعی آفت سے متاثرہو نے والے مسلمانوں /افراد کے اذہان میں اٹھنے والے سوالات کے جوابات فراہم کریں اور انہیں ان حوادث کا شکار ہو نے کی وجہ سے ہر قسم کے اعتقادی بحران سے بچائیں،چونکہ جسمانی اور مادی بحرانوں سے کہیں زیادہ انسان کا نظریاتی بحران اس کے لئے نقصان دہ ثابت ہو تا ہے اور اس سے باہمت زندگی گزارنے کا حوصلہ چھین لیتا ہے اور وہ اس نظریاتی بحران کی وجہ سے بہت جرائم اور گناہوں کو اپنے لئے جائز قرار دینے لگتا ہے۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک میں دینی اور فکری تربیت کا کوئی منظم اور درست نظام نہیں گو کہ یہ کام حکومتوں کے ہوتے ہیں کہ وہ اپنی قوم وملت کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ نظریاتی اور اعتقادی سرحدوں کی حفاظت کریں اور انہیں ہرقسم کی اعتقادی اور نظریاتی آفات سے محفوظ رکھیں خصوصاً اسلامی معاشرے کی اعتقادی محافظت اسلامی حکومت کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے،لیکن جب خود حکومت کی بنیاد ہی دینی اور اعتقادی حوالوں سے متزلزل ہو تو پھر اس کے بعد ملک کے دینی اور علمی مراکز اور شخصیات کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ذمہ داری کو نبھائیں اور مشکلات وآفات کے وقت اپنی ملت وقوم کو دینی شعور کے ساتھ ان حوادث کا مقابلہ کر نے کے لئے تیار کریں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک میں دینی مراکز اور علمی ادارے اپنا یہ فریضہ ادا کر نے کے بجائے ان مواقع پر اپنے لبوں پرمہر سکوت لگا لیتے ہیں اور یہ کام عطائی حکیموں کی طرح نیم ملا قسم کے اشخاص کے سپرد ہو جاتا ہے اور وہ مصیبت زدگان کی دلجوئی اور ان قدرتی اور طبیعی حوادث کو انسانوں کے گناہوں کے نتیجے میں منحصر کر کے حوصلہ ہارے قدموں کو مزید مایوسی اور نا امیدی اور احساس جرم کی تاریکی میں دھکیل دیتے ہیں۔حالانکہ آسمانی بلاﺅں اور قدرتی وطبیعی حوادث کا سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ قدرتی اور طبیعی حوادث کافر ومومن میں فرق نہیں کرتے سبھی ان سے متاثر ہوتے ہیں اور آسمانی بلائیں اور عذاب فقط کفار اور معاندین کو اپنا نشانہ بناتے ہیں۔لہذا ان حالات میں اہل علم وفکر اور دینی وعلمی مراکز کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیلاب جیسے قدرتی مسائل کی درست دینی ،قرآنی اور عقلی توجیہ کریں اور لوگوں کو ہرقسم کے اعتقادی بحران سے بچاتے ہوئے سطحی اور نیم حکیم قسم کے دانشوروں کے رحم وکرم پر نہ چھوڑیں تاکہ وہ اپنے اعتقادی حوصلوں کے ساتھ دوبارہ زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں اور مسلمان معاشرے میں کسی قسم کی مجرمانہ اور باغیانہ ذہنیت پرورش نہ پاسکے۔اس کے علاوہ اہل حکومت کو علمی اور دینی ادلہ کے ساتھ اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ ایسے قدرتی حوادث کے لئے پہلے سے آمادہ رہے اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے ملک کے طو ل وعرض میں قدرتی حوادث کا مقابلہ کر نے والے انتظامات میں کسی قسم کی سہل انگاری نہ کرے ،اہل علم ودانش کا فرض ہے کہ وہ علمی تحلیل وتجزیئے کے ذریعے پوری قوم کے سامنے ان حوادث کے علل واسباب کو سامنے لائیں اور ان علل واسباب کو فراہم کر نے والی خیانتوں کی نشاندہی کریں تاکہ آئندہ کسی بھی طبیعی حادثے کے نتیجے میں جانی ومالی نقصانات سے اگر بچ نہ بھی سکیں تو کم ازکم اس میں کمی ضرور کی جاسکے۔چونکہ قدرتی حوادث کو روکنا انسان کے بس میں نہیں لیکن ان کے مقابلے کے لئے انسانوں کو تیار کرنا تو ہماری ذمہ داری ہے۔یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب انسان ،ان حوادث کے فلسفے اور ان سے بچاﺅ کے طریقوں سے آگاہ ہو اور یہ آگاہی دنیافقط اہل علم ودانش کا فریضہ ہے نہ کہ کسی اور کا۔
Khalid Shahzad Farooqi
About the Author: Khalid Shahzad Farooqi Read More Articles by Khalid Shahzad Farooqi: 44 Articles with 45243 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.