شہرہ آفاق کالم نگار ، ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف محمد اسلم لودھی (پانچویں قسط)

ملک کی اہم علمی، ادبی ، معاشرتی شخصیات اور پاک فوج کے شہیدوں پر لکھناآپ کا محبوب مشغلہ رہا
غریب گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود آپ نے غربت کو اپنے راستے کی دیوار نہیں بننے دیا
آپ دو سال روزنامہ جرات،چھ ماہ روزنامہ دن ، تین سال روزنامہ پاکستان ، دو سال پشاور کے ارود اخبار آج اور چودہ سال نوائے وقت میں ہفتہ وار کالم لکھتے رہے
آپ کا دو مرتبہ تمغہ حسن کارکردگی کے لیے حکومت پنجاب کی جانب سے نام تجویز کیا گیا لیکن ایوارڈ نہ مل سکا
آپ کو 2007ء میں اردو کالم نگاری کا پہلا ٹیٹرا پیک ایوارڈ (پچاس ہزار کا چیک)حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے
آپ کی گیارہ کتابیں صوبہ پنجاب ، گیارہ خیبرپختونخوا اور گیارہ کتابیں آزاد جموں و کشمیر کے تعلیمی اداروں کی لائبریریوں اور بپلک لائبریریوں کے لیے منظور ہو ئیں
انٹرویو ۔ شہزاد چودھری

 ایک صبح نئے کپڑے پہن کر میں اور مجھ سے دو چھوٹے بھائی (محمد اشرف اور محمد ارشد)والدہ کے ساتھ ہی چلتے ہوئے لاہور چھاؤنی کے ریلوے اسٹیشن پرجا پہنچے ۔والد صاحب بھی گاڑی میں ہمیں سوار کروانے کے لیے ہمارے ساتھ تھے ۔ جیسے ہی ٹرین ریلوے پلیٹ فارم پر رکی تو دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگیں ۔بہت کم مرتبہ ہمیں بیٹھنے کے لیے سیٹیں ملتیں وگرنہ فرش پر ہی بیٹھ کر سفر کرناپڑتا ۔ کیونکہ اس وقت ریلوے کو ہی محفوظ ذریعہ سفر سمجھا جاتا تھا اور عوام کی بہت بڑی تعداد ریل گاڑیوں میں سفرکرنا پسند کرتی تھی۔ بہرحال جیسے ہی ٹرین رائے ونڈ سے قصور کی جانب مڑی تو ہم تینوں بھائی کھڑکی پر جم کے بیٹھ گئے اور ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ ٹیلی مواصلات کے کھمبوں کی گنتی شروع کر دی ۔کسی اسٹیشن کا فاصلہ سترہ کھمبے ہوتا تو کسی کا انیس کھمبے ۔ جیسے ہی کوئی اسٹیشن آتا تو کوئی نہ کوئی بوڑھی عورت بلند آواز سے پوچھتی ۔"پترا کیڑا ٹیشن آیا اے" ۔ میں بڑے فخرسے اسٹیشن کا نام پڑھ کے بتا دیتا ، جیسے ٹرین میں مجھ سے زیادہ پڑھا لکھا اور کوئی نہ ہو۔والدہ کو بھی میرے میٹرک پاس ہونے پر خاصا فخر تھا ۔اگر گاڑی میں سوار کوئی عورت پوچھتی تو میری والدہ فخر سے کہتیں۔ خیرنال میرے بیٹے نے میٹرک کا امتحان پاس کرلیا ہے۔مزے کی بات تو یہ تھی کہ ہراسٹیشن پر جب گرما گرم پکوڑوں کی آوازیں ہمارے کانوں سے ٹکراتی تو بھوک کا شدت سے احساس ہونے لگتا ۔ اسی لمحے معصوم سا چہرہ بنا کروالدہ کو التجا بھرے لہجے میں ہم کہتے ۔ "امی جان بھوک لگی اے "۔ چونکہ والدہ کے پاس پکوڑے خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے تھے، اس لیے پہلے تو والدہ ہماری بات کو سنی ان سنی کردیتیں اگر ہمارا اصرار زیادہ بڑھ جاتا تو گڑ والی میٹھی روٹیاں نکال کر ہمیں کہتیں ، یہ کھالو ۔ گڑ والی میٹھی روٹیا ں کھاکھا کر ہم تنگ آچکے تھے لیکن والدہ کے پاس پیسے ہوتے تو ہمیں چیزیں خریدکر دے دیتیں ۔وہ تو خود بھی ٹرین پر سفر بھی ریلوے کے کچے یا پکے پاس پر کیا کرتی تھی جو میرے والد کو ریلوے کی جانب سے سال میں تین پکے اور دس کچے پاس ملا کرتے تھے۔پکے پاسوں پر پشاور سے کراچی تک کا سفر مفت کیا جا سکتا تھا اور کچے پاسوں پر آدھا کرایہ بھی ادا کرنا پڑتا تھا۔ عارف وا لا جانے والی ٹرین بھی اتنی سست رفتار تھی کہ شاید ہی کوئی اسٹیشن ایسا ہوگا ،جہاں وہ رکتی نہ ہو ۔ٹرین لاہور چھاؤنی سے رائے ونڈ ، اٹھیل پور ،راؤ خاں والا سے قصور پہنچی ، وہاں سے اپنا رخ تبدیل کرکے کھڈیاں خاص ، عثمان والا ،بصیر پور ، کنگن پور ، حویلی لکھا اور وساوے والا سے ہوتی ہوئی پاکپتن جا پہنچی ۔وہاں کچھ دیر قیام کے بعد دو تین اسٹیشن عبور کرنے کے بعدجب ہمیں پٹرول کے بڑے بڑے ٹینکر دکھائی دیتے تو ہم سمجھ جاتے کہ ٹرین عارف والا پہنچ گئی ہے ۔
 
یہا ں یہ بھی بتاتا چلوں 1965 کی پاک بھارت جنگ جب عروج پر جا پہنچی تو سرحد پر چلنے والی توپوں کے گولوں کی چمک اور دھمک ہمارے گھروں کے دروازوں اور کھڑکیوں کو توڑنے لگی تو والد صاحب نے اپنے تمام گھروالوں کو عارف والا جانے کا حکم دے دیا ۔جب ہم صبح نو بجے والی ٹرین پر سوار ہو کر لاہور چھاؤنی سے روانہ ہوئے تو جب ہماری ٹرین حویلی لکھا اور وساوے والا کے درمیان میں پہنچی تو مشرق کی جانب سے دو بھارتی طیارے (جن کا رنگ سیا ہ تھا )نچلی پرواز کرتے ہوئے ہماری ٹرین پر بمباری کے لیے ابھی تیاری کے مراحل میں ہی تھے کہ سرگودھا سے پاک فضائیہ ایک جنگی طیارہ ان کے تعاقب میں آ پہنچ گیا ۔والدہ نے جب بھارتی طیاروں کی گھن گھر ج سنی تو بہت خوفزدہ ہوکر آیت الکرسی پڑھ پڑھ کے جہازوں کی طرف پھونکیں مارنے لگیں اور ہمیں حفظ ماتقدم کے طور پر سیٹوں کے نیچے لیٹنے کا حکم دے دیا ۔اس وقت میری عمر بمشکل دس سال ہوگی ، میں نے زندگی میں پہلی بار جنگی طیاروں کو دیکھاتھا اور وہ بھی بھارتی جنگی طیارے تھے جو ٹرین پر حملہ آور ہونے کے لیے سرحدپار سے آئے تھے ۔ ایک طرف والدہ نے آیت الکرسی کا ورد جاری رکھا تو دوسری جانب پاکستانی طیار ہ، بھارتی طیاروں کو ٹرین سے دور لے جانے کی کوشش کرنے لگا لیکن جب بھی پاکستانی طیارہ بھارتی طیاروں پر حملہ آور ہونے کی جستجو

(2)
کرتا تووہ ایک بار پھر چلتی ہوئی ٹرین کے اوپر پرواز کرنے لگتے ۔ پاکستانی شاہین کے پہنچنے کے بعد بھارتی طیاروں کو حملہ کرناتو بھول چکا تھا، ان کو اپنی بقا کی فکر پڑچکی تھی ۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ نہ ٹرین کسی ایک جگہ رکی اور نہ بھارتی جنگی طیارے تعاقب سے باز آئے ۔حتی کہ اس گومگوکی حالت میں ٹرین پاکپتن شریف جا پہنچی ۔ بھارتی اور پاکستانی جنگی طیاروں کی ڈاگ وار جاری تھی ۔ جب ٹرین پاکپتن سے روانہ ہوئی تو بھارتی طیارے ایک بار پھر ٹرین پر پرواز کرنے لگے ۔ ہمارے سمیت تمام مسافروں کی سانس رک چکی تھی اور یوں محسوس ہورہا تھا کہ کسی بھی وقت بھارتی طیارے ٹرین پر بمباری شروع کردیں گے لیکن مجھے یہ کہتے ہوئے فخر محسوس ہوتا ہے کہ پاک فضائیہ کے ایک طیارے نے دو بھارتی طیاروں کو ٹرین پر بمباری کرنے کی مہلت ہی نہ دی ۔ جب ٹرین عارف والا پہنچ گئی اور ہم ٹرین سے اتر گئے تو اگلے اسٹیشن جس کا نام "فتنہ "تھا وہاں پہنچ کر پاکستانی پائلٹ نے ایک بھارتی طیارے پر بم دے مارا جس سے بھارتی طیارے کا آدھا حصہ نیچے کھڑے ہوئے ریلوے کے چھکڑے پر آگر ا۔ بھارتی طیارے کے باقی حصہ کچھ دور ریت کے ٹیلوں میں جاگرا ۔ جبکہ دوسرے بھارتی طیارے کو پاکستانی پائلٹ نے سرحد کے اند ر ہی تباہ کردیا ۔ دونوں بھارتی پائلٹوں گرفتار کرکے عارف والا لایا گیا تو سارے شہر کے لوگوں نے جمع ہو کر ان بھارتی سکھ پائلٹوں کو نہ صرف دیکھا بلکہ ان پر لعنت بھی بھیجی ۔بعد ازاں پاک فوج کے جوان انہیں گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے گئے۔یہ ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کی بات ہے، جیسے ہی ہم نانی کے گھر پہنچے تو دو انڈین طیارے عارف والا کی فضا میں پرواز کرتے ہوئے دکھائی دیئے ۔میری نانی کے گھر میں باورچی خانے کے نیچے ایک تہہ خانہ تھا جس میں لکڑیاں وغیر ہ محفوظ کی جاتی تھیں ،ہم سب نے اس تہہ خانے میں پناہ لے لی تو دو زور دار دھماکے ہوئے ۔بھارتی جنگی طیاروں نے پٹرول کے ٹینکروں پر بم گرائے تھے جس سے آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے ۔والدہ نے کہا ہم جنگ سے بھاگ کر یہاں آئے ہیں اور بھارتی جنگی طیارے یہاں بھی پہنچ گئے ہیں ۔ یوں محسوس ہورہا تھا جیسے آگ کے شعلے پورے عارف والا شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے ۔

یہاں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ عارف والا سے بھارتی سرحد تقریبا 45 کلومیٹر کے فاصلے پر بہاول نگر کے بالکل ساتھ واقع ہے ۔یہاں باقاعدہ پاکستانی فوج موجود نہ تھی بلکہ ایوب خان نے ہزاروں قبائلی لاکر سرحد پر کھڑے کردیئے تھے ۔جو رات کے اندھیرے میں سرحد عبور کے بھارتی علاقے میں چلے جاتے اوروہاں سے بھارتی عورتیں اٹھاکر لے آتے ۔ دوران جنگ ہر صبح عارف والا میں بھارتی عورتوں کی منڈی لگا کرتی تھی ،لوگ قبائلوں کو پیسے دے کر بھارتی عورتوں کو مسلمان کر کے نکاح کرلیا کرتے تھے ۔جب پٹرول کے ٹینکروں کی آگ نہ بجھی بلکہ شعلے بڑھتے ہی جا رہے تھے تو نانی جان نے فیصلہ کیا کہ عارف والا شہر کو چھوڑ کر چک 45چلے جاتے ہیں جو ساہیوال کی جانب دس میل کے فاصلے پر واقع تھا ،وہاں میری نانی جان کے دو بھائی فتح خاں اور عطا خاں رہائش پذیر تھے ۔1965ء کی جنگ کے باقی دن ہم نے چک 45 میں گزارے ۔وہاں ایک پرانا جوہڑ تھا جس کے کنارے پر بوہڑ کا ایک بھاری بھرکم درخت تھا اس درخت کے نیچے گاؤں کے مرد حضرات چارپائیاں بچھا کر دوپہر گزارہ کرتے تھے جبکہ ہم بھی گاؤں کے بچوں کے ساتھ بوہڑ کے اس درخت کے نیچے ہی کھیلا کرتے تھے ۔یہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کی باتیں ہے جن کا تذکرہ درمیان میں آگیا ۔
................
اب ہم واپس 1972ء میں آتے ہیں ۔ جونہی ٹرین عارف والا کے پلیٹ فارم پر رکی تو بڑے ماموں ہدایت خاں جو محکمہ ڈاک میں پوسٹ مین کی حیثیت سے ملازم تھے ۔تلاش کرتے کرتے ہم تک آ پہنچے۔ والدہ اپنے بھائی سے مل کر بہت خوش ہوتی اور ہمارے سروں پر کپڑوں کی پوٹلیاں رکھ دی گئیں ہم ہچکولے کھاتے ہوئے پلیٹ فارم سے اتر کر عارف والا شہر کی جانب پیدل ہی روانہ ہوگئے ۔ چلتے چلتے جب تھکاوٹ کا احساس ہونے لگا تو عارف والا کی نیلی بار کاٹن ملز کی بڑی سی دیوار ہمیں حوصلہ دینے کے لیے کافی تھی ۔ ہمیں اس بات کا علم تھا کہ جیسے ہی نیلی بار کاٹن ملز کی دیوار ختم ہوگی ،ایک گلی چھوڑ کر دوسری گلی کا دوسرا مکان ہماری نانی جان کا ہے ۔ جہاں پہنچتے ہی ہمارے لیے زندگی آسان ہو جائے گی ، سکون ہی سکون ہو گا ۔ ہمیں معزز مہمان کا درجہ حاصل ہو جائے گا، ہم جو مانگیں گے وہ ہمیں مل جائے گا ۔

جیسے ہی ہم دروازے پر لگا ہوا پردہ اٹھا کر نانی کے گھر داخل ہوئے تو نانا نانی، ماموں طفیل اور دونوں ممانیاں ہمارے صدقے واری جانے کے لیے دوڑ پڑیں ۔ ہمارے سر پر رکھی ہوئی کپڑوں کی پوٹلی اتاریں اور ہم گھر میں رکھے ہوئے موڑوں اور بچھی ہوئی چار پائیوں پر بیٹھ جاتے ۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے میں اپنی نانی کے گھر کا نقشہ بتانا ضروری سمجھوں گا ۔میری نانی کے گھر کا رقبہ کوئی پانچ مرلے ہوگا ۔مین دروازہ (جس پر ہمیشہ ٹاٹ کا پردہ پڑا رہتا تھا) میں داخل ہوتے ہی سامنے دو کمرے دکھائی دیتے ہیں ۔ایک کمرہ پختہ اور دوسرا کمرہ کچی مٹی کا بنا ہوا تھا۔ پختہ کمرہ میرے ماموں ہدایت خاں کا تھا اور کچی مٹی کا کمرہ میری نانا نانی کا تھا ۔ جبکہ میرے چھوٹے ماموں طفیل خان اپنے لیے اسی گلی میں کچھ فاصلے پر ایک پورا مکان خرید لیا تھا ،ان کی فیملی بھی صبح ہوتے ہی نانی کے گھر آجاتی تھی پھر شام ڈھلے تک سب یہیں قیام پذیر ہوتے ۔ مین دروازے کے ساتھ ہی ایک بیٹھک نما کمرہ تھا جس میں چند کرسیاں اور میز رکھے ہوئے تھے ۔یہ کمرہ اس وقت کھلتا تھا جب ماموں کا کوئی دوست انہیں ملنے آتا تھا ۔ مجھے اکثر اس کمرے میں جانے کا تجسس ہی رہتا ۔ جیسے ہی وہ کھلتا تو میں بھی کسی بہانے اندر داخل ہو جاتا ۔ مجھے دیکھ کر ماموں طفیل میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اپنے دوست کو بتاتے یہ میری لاہور والی بہن کا بیٹا ہے ۔ماشا اﷲ اس نے میٹرک کا امتحان بھی پاس کرلیا ہے ۔جب ماموں میرے بارے میں گفتگو کررہے ہوتے تو میں اپنی تعریف سن کر بہت خوش ہو تا ۔
( جاری ہے )
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 666210 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.