عورت

اللّه نے سب کو equality کا درجا دیا ہے کیا عورت کیا مرد . . . . . . کچھ بھی نہی ہے گیرت کے نام پر بہت ظلم ہو رہا ہے بہن بیٹی کو تو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا زمانہ جاہل میں مگر اب دور چینج ہو گیا طریقہ بھی بدل گیا لیکن سوچ نہی بدلی بہن بیٹی تو اب بھی دافنای جاتی ہے اسے زندہ رکھ کر مردوں کی سی سی زندگی بخشی جاتی ہے بھیک میں۔وہ اپنے ہی گھرگھروں میں محفوظ نہیں ہیں۔مرد سوچتے ہیں کے ہم ان کی حفاظت کر رہے ہیں۔

کیا عورت کو اپنی مرضی سے شادی ریجیکٹ کرنے کا حکم نہی دیا گیا اگر اسکی شادی کسی برے شرابی بدكار مرد سے کروائی جائے ۔اسے حق ہے کے وہ انکار کر سکے۔
میرا مقصد یہ نہی ہے کے میں عورت کو بےحیائی کی طرف پروموٹ کروں ہرگز نہیں
عورت اپنے مرتبے کا خیال رکھے اور مرد اپنے عورت اپنے احکام کی پابند رہے جو اللہ نے دے رکھے ہیں
اور عورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے میں اچھائی کے ساتھ۔ ہاں مردوں کو عورت پر فضیلت ہے اور اللہ تعالی غائب ہے، حکمت والا

یہاں پر عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق دیئے گئے ہیں۔ اور فضیلت مردوں کو اسلیئے دی کہ ان کا کام عورتوں کی عزت اور انکی حفاظت اور انہیں ضروریات مہیا کرتا ہے۔

اور جو نیک عمل کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت بشر طیکہ ہو وہ مومن ہو ایسے ہی لوگ جنت میں داخل ہوں گئے اور کجور کی گھٹلی کے شگاف کے برابر ا کی حق تلفی نہ کی جاے گی

چنانچہ ایک اور جگہ سورۃ nahl میں آیت نمبر 97 میں اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے۔

جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت لیکن با ایمان ہو تو ہم اسے یقینا نہایت بہتر زندگی عطا فرمادینگے۔ اور انکے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور دیں گے"

اسلام میں عورت کا کیا کردار ہے؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورتیں مردوں کی بہنیں ہیں۔ خواتین معاشرے کا نصف حصہ ہیں اور وہ مردوں اور عورتوں کی آنے والی نسلوں کی پرورش، رہنمائی اور اصلاح کی ذمہ دار ہیں ۔ یہ عورت ہی ہے جو قوم کی روحوں میں اصولوں اور ایمان کو سمیٹتی ہے۔

قرآن کی کون سی آیت عورت کے بارے میں بتاتی ہے؟


اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک اور حکم سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 59 میں ہے، جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی چادریں اپنے تمام بدن پر لٹکا لیا کریں۔ مکمل طور پر سوائے آنکھوں کے یا راستہ دیکھنے کے لیے ایک آنکھ)۔

اسلام میں خواتین کو صحت مند زندگی کے لیے بنیادی حقوق فراہم کیے گئے ہیں۔

اسلام میں عورت کو اپنے جیون ساتھی کے انتخاب کا حق حاصل ہے۔

اسلام میں عورت کو اپنے جیون ساتھی کا انتخاب کرنے اور نکاح کے بعد بھی اپنا خاندانی نام رکھنے کا حق ہے ۔ اسلام میں عورت کو اپنی مرضی کے خلاف کسی سے شادی کرنے پر مجبور کرنا منع ہے۔ تاہم، یہاں شرط لاگو ہوتی ہے، وہ ایک متقی اور نیک مسلمان آدمی ہو۔ اس کا کسی غیر مسلم سے نکاح کرنا اسلام قطعی حرام اور حرام ہے۔ اسے معقول جائز بنیادوں پر کسی کی شادی کی تجویز کو قبول کرنے اور انکار کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ اسلام میں یہ لازم ہے کہ جو عورت نکاح کر رہی ہو اس کے ساتھ ولی اور اس کی اجازت سے ہو۔

ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور پیاری حدیث میں ہے کہ ایک عورت آپ کے پاس آئی اور کہنے لگی، میرے والد نے اپنی سماجی حیثیت کو بلند کرنے کے لیے میری شادی میری کزن سے تے کر دی ہے اور میں اس پر مجبور ہو گی ہوں۔ رسول الله صلى اللہ علیہ وسلم نے لڑکی کے والد کو بلوایا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں لڑکی کو یہ اختیار دیا کہ وہ شادی کر لے یا نکاح کو منسوخ کر دے۔ اس نے جواب دیا ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، میں نے قبول کر لیا ہے جو میرے والد نے کیا، لیکن میں دوسری عورتوں کو دکھانا چاہتی تھی کےان سے زبردستی نکاح نہیں کیا جا سکتا ہے کیوں کے ہمارے دین نے اجازت نہیں دی ہے کے عورت کو مجبور کیا جائے کسی بھی کام ک لیے ۔

عورت سے ہے زمانہ عورت سے ہی ہے یہ زندگی عورت نہ ہوتی تو تم بھی نہ ہو تے عورت ہی ہے جو تمہارے دکھ چنتی ہے کسی چریا کی طرح جو ایک ایک کر کے سارے دانے چنتی ہے زمانہ بیت جاتا ہے وہ تھکتی نہیں ہے۔عورت بھی نہیں تهكتی سارے غم سمیٹ لیتی ہے اور اف بھی نہیں کرتی ہے
عورت ہے عورت سے ہے زندگی کیوں کہ عورت ماں بھی تو ہے ماں کہ بینا تو کہیں گزارا ممکن نہیں عورت کی تو ہر ممکن تعاون کی ضرورضرورت ہو تی ہے۔عورت سے ہی معاشرے کا سدھار ہے عورت نہ ہو تو معاشرے کا بگاڑ ہے تربیت تو عورت ہی کرتی ہے۔ہم بلوگت تک ماں کی پاس ہوتے ہیں اور پھر بیوی دونوں کے بنا گھر گھر نہیں رہتا کھنڈر بن جاتا ہے۔

یون تو آج کل عورت ہر قدم پر مردوں کے شانہ بشانہ ہے آفس ,ہسپتال ,بینک ہر جگا عورت نے اپنا مقام بنا لیا ہے .عورت کی انہی کوشیشوں نے عورت کا مقام بلند کر دیا ہے تھا اب لڑکے یا لڑکی میں کوئی فرق نہیں کرتے .ابھی تو بوہت آگئے جانا ہے .لیکن اپنے اسلامی قوانین کو سمجھنا ہے۔

بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پوچھا جارہا ہے کہ کیا معاشرے کی تعمیر میں مسلمان عورت کا کوئی عمل دخل اور ذمے داری ہے ؟ اگر سوال یہ ہے تو اس کا جواب نہ صرف اثبات میں ہے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ عورت کا تو وجود ہی خود ایک بہت بڑا کردار ہے۔ اس لیے کہ یہ عورت ہی تو ہے جو نفس انسانی کی کشت کاری کرتی ہے اور مرد ہو یا عورت سب کو اپنی کوکھ سے جنم دیتی ہے اور جنم دینے کے بعد اس کی پرورش بھی کرتی ہے۔ میری مراد یہ ہے کہ جب اس تھی جان کو، جو خالق حقیقی نے اپنی قدرت کا ملہ سے ماں کے رحم میں پیدا فرمائی اور نک سک سے مکمل کی تھی، وہ رقم مادر سے باہر بھیجتا ہے۔

اللہ تعالی نے تخلیق انسانی کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے:

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُللَةٍ مِن طِينٍ ثُمَّ جَعَلْنَهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مكين ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْتَاً الْمُضْغَةَ عِظَمًا فَكَسَوْنَا الْعِظَمَ لَحْمًا ثُمَّ انْقَالَهُ خَلْقًا أَخَرَ فَتَبَرَكَ اللهُ أَحْسَنُ الخلقِينَ (المومنون : ۱۳ - ۱۴) ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا، پھر اسے ایک محفوظ جگہ نیکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا، پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا، پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کر کھڑا کیا۔ پس بڑا ی با برکت ہے اللہ سب کاری گروں سے اچھا کاری گر" چنانچہ جب رقم مادر اپنے ایک ٹکڑے کو کاٹ کر پھینکتا ہے، یعنی جب ماں بچہ کو جنم دے کر اس دنیا کے سپر د کر دیتی ہے تو کیا اس کے بعد اس کا کام ختم ہو جاتا ہے؟نہیں نہیں نہیں جی نہیں ۔

Husna
About the Author: Husna Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.