ہمیں پاکستان سے محبت ہے

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کو میرا اداب
جناب عام طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ کسی معاملے کے بارے میں فیصلہ کرنے سے پہلے تصویر کے دونوں رخ دیکھ لینے چاہیئں تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں لیکن جب ہم اپنے ملک کی معاشی اور اقتصادی صورت حال پر نظر ڈالتے ہیں تو یہاں تصویر کے ایک یا دو نہیں بلکہ کئی رخ نظر آتے ہیں اگر ایک طرف ہم دیکھیں تو حکمران پارٹی کے لوگ آج کے حالات کا ذمہ پچھلی حکومت پر ڈالتے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف پچھلی حکومت کے لوگ اپنی حکومت کے دور کی کامیابی کے قصے سناتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن کسی کی ذات پر کوئی بھی اثر پڑتا ہوا دکھائی نہیں دیتا جبکہ تیسری جانب ملک کے اندر دہشت گردی کے واقعات اتنے بڑھ گئے ہیں کہ عام آدمی اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگا ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ان حالات کو دیکھکر یہاں کے بسنے والے ایک عام آدمی کے ذہن میں یہ ہی سوال گردش کرتا نظر آتا ہے کہ ہمارا کیا ہوگا ؟

لیکن اس سوال کا تعلق ان لوگوں سے ہر گز نہیں ہے جن کے پاس مال و دولت کا ایک انبار لگا ہوا ہے اپنے ملک کے علاوہ باہر کے ممالک کے بینک اکائونٹس میں کتنا پیسہ ہے انہیں خود بھی نہیں معلوم ، اس سوال کا تعلق ان لوگوں سے نہیں ہے جو چاہیں تو خود سے اس ملک کا سارا قرضہ اتار سکتے ہیں لیکن وہ ایسا کیوں کریں گے ؟ اس سوال کا تعلق ان لوگوں سے نہیں ہے جو صرف ایک اقتدار کی خاطر خود تو بڑے آرام سے چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں جبکہ اپنے لوگوں کو مشکلات اور پریشانیوں میں مبتلہ کردیتے ہیں ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ایک عام آدمی پچھلے 75 سالوں سے یہ سوال لیکر گھومتا ہوا نظر آتا ہے کبھی وہ کسی سیاستدان کے پاس چلاجاتا ہے تو کبھی اس کی نظر ہمارے ملک کے بڑے بڑے فیصلے کرنے والی عدالتوں کی طرف ہوتی ہے تو کبھی اس کی نظر اپنا سوال لیکر ملک کی افواج کی طرف اٹھ جاتی ہے لیکن بدقسمتی سے اسے سوائے جھڑکیوں اور مزید پریشانیوں کے آج تک کچھ نہیں ملا جبکہ اس وقت ہمارا ملک جن حالات سے دوچار ہے اس کا اثر سب سے زیادہ اس ملک میں بسنے والے اسی ایک عام آدمی پر پڑتا ہے لیکن اس کے پاس نہ تو وسائل ہوتے ہیں اور نہ ہی کوئی راستہ بس وہ ان ھالات میں ایک بےبسی کی تصویر بنے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ یہیں وقت گزارنے پر مجبور نظر آتا ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں جس طرح ہر انسان کی سوچ اور خیالات مختلف ہوتے ہیں بلکل اسی طرح عوام کے اندر موجود عام ادمیوں کی سوچ بھی یکثر مختلف دکھائی دیتی ہے عوام کا ہر نمائندہ خاموش تماشائی بنا سب کچھ دیکھنے میں مصروف نہیں ہوتا بلکہ آئے دن ملک کے مختلف شہروں میں ہونے والے ڈکیتی اور لوٹ مار کے واقعات میں یہ ہی عام آدمی ملوث نظر آتا ہے ہم نے دیکھا ہے کہ ہمارے معاشرے میں سب سے بڑی لڑائی صرف ایک روٹی کے کے لئے ہوتی ہے کیوں کہ بھوک انسان کی سب سے بری دشمن ہے اور اسی بھوک کی خاطر ہم نے باپ کو بیٹے کو مارتے ہوئے دیکھا ہے تو بیٹے کو باپ کو قتل کرتے ہوئے دیکھا ہے ایک روٹی کے پیچھے لوگ اپنے بچوں سمیت خود کشی تک کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں اور یہ سب کچھ ہمارے اسی معاشرے میں ہی ہوتا ہے جہاں ہم سانس لے رہے ہیں اپنی زندگی گزار رہے ہیں ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں جب بھی ہماری غیرت کے خلاف کسی نے کوئی بات کی تو ہم مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں تو یہ کیا اس ملک کی غیرت ہماری غیرت نہیں ہے کیا اس ملک کے موجودہ ھالات پر آپس میں بیٹھکر کسی مناسب فیصلے پر پہنچنے والا یا پہنچانے والا کوئی غیرت مند انسان نہیں ہے ؟ اپنی ذاتی انا اور مقاصد کو بالائے طاق رکھکر صرف عام آدمی کے لئے اپنی غریب عوام کی خاطر ایسی قربانی دینے والا کوئی نہیں ؟ کیا یہ مردانگی ہے کہ ہم اس ناقص اور برے معاشی اور اقتصادی حالات کے پیش نظر اجلاس بلاتے رہیں ؟ اور کوئی مقصد حاصل نہ ہو کیا یہ مردانگی ہے کہ ان حالات میں ہم نئے نئے منصوبے کے افتتاح کی تقریبات منعقد کرکے لوگوں کو یہ باور کرائیں کہ ہم اتنے خرچ سے یہ منصوبہ بنارہے ہیں ؟ کیا یہ مردانگی ہے کہ اس برے حالات میں بھی ہم الیکشن کروانے کے درپے ہیں جبکہ خزانہ خالی ہے ؟

کیایہ مردانگی ہے کہ ملک کو درست سمت کی طرف گامزن کرنے کی بجائے ہم ملک میں افراتفری پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں ؟

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں خوددار اور غیرتمند حکمرانوں سے تاریخ بھری پڑی ہے تو پھر یہاں کوئی ایسا حکمران کیوں پیدا نہیں ہوتا ؟ یہاں میں یہ بات بھی کرنا چاہوں گا کہ اس میں سارا قصور حکمرانوں کا نہیں ہے بلکہ ہم عوام کا بھی ہے اگر ہم دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی طرف دیکھتے ہیں تو ہمیں کئی ایسے ممالک نظر آتے ہیں جہاں کی عوام اپنی مدد آپ کے تحت بھی اپنے علاقے اور اپنے شہر کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن ہمارے یہاں ہر کوئی ایک دوسرے پر انحصار کرتا ہوا دکھائی دیتا عو ام حکمانوں پر انحصار کرتی ہے تو حکمران بیرونی امداد پر انحصار کرتے دکھائی دیتے ہیں اسی لئے ہمارے ملک کو ترقی کے راستے پر چلنے میں رکاوٹ ہوتی ہے ایک عوام اور ایک قوم ہونے کے ناطے ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ اس ملک کی ترقی میں کوئی کردار ادا کریں کیوں کہ اگر ہم صرف حکمرانوں پر انحصار کرتے رہیں گے تو ہمیں ترقی کبھی نصیب نہیں ہوگی ہمارے معروف شاعر جناب ظفر علی خان نے کیا خوب کہا کہ
" خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا "

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں دنیا کے بہت سے معاشی ماہرین نے پوری دنیا میں پانی اور غذائی قلت کی پیشنگوئی کردی ہے جو کہ ہمارے لیے ایک لمحئہ فکریہ ہے خاص طور پر ہمارے ناقص معاشی حالات میں یہ خطرہ اور زیادہ دکھائی دیتا ہے ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے بڑھتی ہوئے آبادی کے پیش نظر کئی زرعی زمینوں کو لوگوں کے لئے رہائش کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا گیا ہے جو ہمارے لئے ایک خطرہ ہے جبکہ ایسے معاملات کے لیے غیر زرعی زمینوں کو استعمال کیا جاتا ہے ایسا کرنے سے ہماری غذائی قلت میں اضافہ ہونے کا خدشہ ہے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں یہ ملک ہمارے لئے ایک سایہ دار درخت کی ماندد ہے جسے اللہ رب العزت نے ہمیں رمضان المبارک جیسے مبارک مہینہ میں عطا کیا اور جو ہمارے لئے بڑی نعمت ہے یہ درخت جو ہمیں چھائوں بھی فراہم کرتا ہے اپنے پیڑ پر لگے پھل سے ہماری غذائی ضروریات بھی پوری کرتا ہے اور آرام کرنے کے لئے سکون بھی فراہم کرتا ہے لیکن اگر ہم اسی درخت کو کاٹنے کے درپے ہوجائیں گے تو ہمارا کیا ہوگا؟

خدارا کوئی تو اس ملک کے بارے میں سوچے ؟ اس کے غریب عوام اور ان کی مشکلات کی طرف کسی کی تو نظر جائے ؟ اپنی جھوٹی انا اور ضد کے بت کو توڑ کر صرف اس ملک کے لئے کوئی سوچنے والا ہو ؟ وہ ملک جسے اللہ تبارک وتعالی نے بیشمار نعمتوں سے مالامال کررکھا ہے اگر ان نعمتوں سے ملنے والا پیسہ سے اپنا پیٹ اور اپنی جیب بھرنا بند کردیں اور اس ملک کی فلاح و بہبود اور عوام کو آسانیاں فراہم کرنے کے لئے خرچ کرنا شروع کردیں تو ہمارا ملک بھی بہت جلد دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوسکتا ہے۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیئے بلکہ اللہ باری تعالی سے امید رکھنی چاہیئے کہ وہ اس مٹی کی لاج رکھتے ہوئے ہمارے گناہوں کی پرداپوشی فرماتے ہوئے ہمیں نہ صرف اچھے حکمران عطا کرے گا بلکہ نظام مصطفی صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کا نفاظ بھی قائم کرے گا انشاءاللہ میں اپنی اس تحریر کا اختتام حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے اس شعر پر کروں گا جس میں وہ فرماتے ہیں کہ
" نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
زرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی "

 

محمد یوسف برکاتی
About the Author: محمد یوسف برکاتی Read More Articles by محمد یوسف برکاتی: 129 Articles with 86523 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.