انصاف قوموں کی زندگی کو توانا رکھتا ہے

عظیم چینی فلسفی ’’کنفیوشس ‘‘سے کسی نے پوچھا کہ’’ اگر ایک قوم کے پاس تین چیزیں ہوں۔ انصاف، معیشت اور دفاع …اور بہ وجہ مجبوری کسی چیز کو ترک کرنا مقصود ہو تو کس چیز کو ترک کیا جائے؟‘‘…’’ کنفیوشس‘‘ نے جواب دیا…’’ دفاع کو ترک کردو‘‘… سوال کرنے والے نے پھر پوچھا ’’اگر باقی ماندہ دو چیزوں… انصاف اور معیشت میں سے ایک کو ترک کرنا لازمی ہو تو کیا کیا جائے؟‘‘…’’ کنفیوشس‘‘ نے جواب دیا ’’معیشت کو چھوڑدو‘‘… اس پر سوال کرنے والے نے حیرت سے کہا…’’ معیشت اور دفاع کو ترک کیا تو قوم بھوکوں مر جائے گی اور دشمن حملہ کردینگے؟‘‘… تب’’ کنفیوشس ‘‘نے جواب دیا…’’ نہیں! ایسا نہیں ہوگا۔ بلکہ ایسا ہوگا کہ انصاف کی وجہ سے اْس قوم کو اپنی حکومت پر اعتماد ہوگا اور لوگ معیشت اور دفاع کا حل اِس طرح کریں گے کہ پیٹ پر پتھر باندھ کر دشمن کا راستہ روک لیں گے‘‘

آج کل ہمارے پاکستان میں یہ تینوں چیزوں سے ہم اور ہمارا پاکستان کوسوں دور ہے.پاکستان میں کتنے کمیشن بنے کہ لوگوں کو جلدازجلد انصاف دیا جائے مگر کسی بھی کمیشن کی رپورٹ پر عمل نہ کراسکے جبکہ موجودہ پاکستان میں ریاست کے تینوں ستون – مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ – کے پاس انصاف کی فراہمی کے لیے بنائے گئے قانون کی حکمرانی کے اندر اپنے کردار کو بہتر بنانے کی بہت گنجائش ہے۔ ہر ادارے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے کردار کا جائزہ لے اور اپنے آپ کو عام شہریوں کے سامنے جوابدہ بنائے. گزشتہ سال میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے اپنے آپ کو جوابدہ ٹھہرانے اور وفاقی دارالحکومت میں عدالتی نظام کے پہلوؤں کو درست کرنے کی ایک کوشش کی تا کہ وفاقی دارالحکومت کے شہریوں کو ان کے گھروں کے دروازے پر انصآف فراہم ہو۔ اسلام آباد ہائی کورٹ آئین کے آرٹیکل 203 کے تحت دیے گئے ذمہ داری کے ذریعے اسلام آباد کی تمام عدالتوں کا انتظام چلاتی ہے۔ موجودہ جسٹس ریفارمز پروجیکٹ کا مقصد 21 ویں صدی کے تقاضوں کے مطابق عدالت نظام میں ہمہ گیر اصلا حات لانا ہے تاکہ عدلیہ پر عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔اس کی بنیادی توجہ اسلام آباد ہائی کورٹ اور اسلام آباد کی ضلعی عدالتوں پر ہوگی (جسے اجتماعی طور پر "اسلام آباد جسٹس ڈیلیوری سسٹم" کہا جاتا ہے)، اور یہ ان تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرے گا جن کا انصاف کے طریقہ کار میں براہ راست یا ذیلی کردار ہے.یہ بڑی خوش آئند بات ہے اس پر عمل کیا جارہا ہے.

اس ہی طرح پاکستان کی تاریخ میں ہر سیاسی جماعت یا کوئی بھی شخض کسی بھی خاص ادارے یا پاکستان کے اہم سرکاری افراد پر اپنے خطابات، آرٹیکل، تجزیہ وغیرہ میں ان اداروں یا فرد کو تنقید برائے تعمیر پر اپنا تجزیہ یا رائے پیش کرتا اُس پر ریاست بغاوت یا بغاوت پر اُکسانا وغیرہ پر مقدمات بنا کے اُسے گرفتار کرکے زیر تفتیش کے لیے لیجایا جاتا تھا. اورپھر مہینوں بعد کورٹ میں پیش کیا جاتا تھا. اس قانون کا استعمال ہر سیاسی جماعت اور ادارے اپنے اپنے مفادات کے لیے اس کا غلط استعمال کیا جارہا تھا اور بیشتر اس کا %85 غلط استعمال ہورہا تھا. اس پر پرنٹ میڈیا، الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا میں برملا اس قانون سیکشن 124 اے پر نثر ثانی کے لیے مقننہ اور عدلیہ سے اپیلیں بھی کی جاتیں تھیں. مگر یہ انگریزی دور کا قانون پھر بھی مسلسل چلا آرہا تھا. زیادہ طور ہر اس کا استعمال سیاسی لیڈران اور سیاسی کارکنان پر کچھ زیادہ ہی ہوگیا تھا. حالیہ دنوں میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے بغاوت کی دفعات کے تحت مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے بغاوت کے قانون کے سیکشن 124 اے کو آئین سے متصادم قرار دے دیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواستوں میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ اس قانون کو سیاسی مقاصد کے لیے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ موقف تھا کہ تقاریر پر بھی بغاوت کا مقدمہ درج کر لیا جاتا ہے جبکہ پاکستان کا آئین آزادی اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے۔ اس دوران سماعت سرکاری وکلا نے بغاوت کے قانون کے سکیشن 124 اے کا دفاع کیا تھا تاہم درخواست گزار کا موقف تھا کہ بغاوت کا قانون 1860 میں بنایا گیا جو انگریز دور کی نشانی کرتا ہے جبکہ انڈین سپریم کورٹ نے بغاوت کےمقدمے اور ٹرائل روک دئیے ہیں. جبکہ ہمارے پاکستان میں یہ قانون مسلسل چل رہے تھے جس پر کسی بھی سیاسی جماعت کے حکمرانوں یا آمریت دور اقتدار یا حزب اختلاف نے کبھی اس کالے قانون کو روکنے کیے لیے کوئی اقدام کیا ہو, ’بغاوت کا قانون غلاموں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اور کسی کے کہنے پر بھی مقدمہ درج کر لیا جاتا ہے۔ اب بھی سابق حکمرانوں کیخلاف تقاریر پر دفعہ 124 اےلگادی جاتی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا .اور ’لاہور ہائیکورٹ نے فوجداری قانون کی دفعہ 124A کو آئین سے متصادم قرار دے دیا اور ریاستی اداروں پر تنقید کا آئینی حق تسلیم کر لیا گیا ہے۔ جج نے اپنے فیصلہ میں لکھا لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے یہ فیصلہ بغاوت کے قانون کو کالعدم قرار دینے کی ایک جیسی درخواستوں کے جواب میں سنایا، تاہم تفصیلی فیصلہ ابھی آنا باقی ہے۔ جبکہ اس فیصلے سے درجنوں سیاسی بنیادوں پر بنائے مقدمے ختم ہو جاتے ہیں۔ جبکہ دیکھا جائے یہ فیصلہ پاکستان کی 75 سالہ عدالیہ کی کارگردگی کا بہت ہی اعلی اور آزادی کے اصولوں کو تسلیم کیا جانیوالا فیصلہ ہے۔ جس کے دورس نتائج آگے چل کے آئینگے. جیسے شہباز گل کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان کے خلاف بغاوت کے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا جا رہا ہے، اسی طرح (پی ٹی ایم) سے تعلق رکھنے والے محسن داوڑ، علی وزیر سمیت دیگر قانون سازوں کا ذکر بھی اس میں درج ہے ، جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انہیں بھی غداری کے الزامات کی بنیاد پر قانونی کارروائی کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف نامور صحافی شہید ارشد شریف، خاور گھمن، عدیل راجا اور صدف عبدالجبار کو بغاوت کے الزامات کی بنیاد پر قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ جاوید ہاشمی کو بھی غداری کے الزام میں 23 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ یہ معاملہ پرنٹ میڈیا، الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا میں شہید ارشد شریف نےاٹھایا تھا اسکا کریڈٹ ان کو جاتاہے، بغاوت کا قانون کالعدم قرار دینے کا فیصلہ آزادی اظہار رائے کی جیت ہے،اس فیصلےسے عوام کی کالے قانون سے جان چھوٹ جائیگئی ۔اور اس کیس میں جو بھی سیاسی مذہبی، لسانی یا فرقہ واریت جماعتوں کے قائدین، کارکنان کے لیے یہ لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے انصاف کی ایک شروع ہونے والی پہلی سیڑھی پر قدم رکھنے کی اُمید کی کرن ہے جو منتشر ریوڑ کو ایک قوم بنانے کی ابتدا ہے اس ہی لیے کہا گیا ہے کہ

’’انصاف قوموں کی زندگی کو توانا رکھتا ہے‘‘

 

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 267 Articles with 83595 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.