اخوان المسلمون کی تابناک تاریخ اور روشن مستقبل

 اخوان اور سنگھ کا موازنہ کرنے والے راہل گاندھی نہیں جانتے کہ ان تحریکات میں نہ صرف نظریاتی سطح پر بلکہ ان کے عملی رویہ کے اندر بھی زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ سنگھ کو جب جھکنے کے لیے کہا جاتاہے تو وہ سجدہ ریز ہوجاتا ہے مگر اخوان کے پائے استقلال میں کبھی جنبش نہیں آتی ۔ راہل گاندھی بڑے ذوق و شوق کے ساتھ ساورکر کے معافی نامہ سے کا ذکر کرتے رہے ہیں لیکن ایسی بزدلانہ دستاویز اخوان کی کی تاریخ میں ناپیدہے۔ آر ایس ایس نے اپنے آپ کو انگریزی سامراج کے عتاب سے محفوظ رکھن کی خاطر تہذیبی چولا اوڑھ رکھا تھا ۔ اس پر انگریزوں کے ساتھ ساز باز بلکہ جاسوسی کا الزام بھی لگتا رہا ہے۔ ایمرجنسی کے دوران بھی اس نے کمال بزدلی کا مظاہرہ کیا تھا مگر اخوان کا معاملہ اس کے کس قدر مختلف ہے اس کا اندازہ لگانے کے لیے مصر کی تاریخ کا جائزہ لینا ضروری ہے ۔ اخوان المسلمون کا قیام1928ءکے اندر عمل میں آیا ۔ شاہ فاروق کے زمانے میں جب تحریک عوام میں مقبول ہونے لگی تو اسی وقت سے قیادت پر قید وبند کی مشکلات کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ بانی تحریک حسن البناءکو 1949ءمیں سر بازار پولیس کی موجودگی میں گولیاں مار کر شہید کیا گیا اور پھر فوج نے کرفیو لگا دیا ۔ آمرحکومت نےجنازے میں مردوں کی شرکت پر روک لگا دی۔ حسن البناءشہید کا جنازہ خواتین نے اٹھایا اور اس جبرکے خلاف احتجاج کرنے والے گولیوں کا نشانہ بنائے گئے۔

جمال عبد الناصر کے زمانے میں اخوان کے اعلیٰ ترین 6رہنماوں کو پھانسی کی سزا دی گئی ۔اس ظلمِ عظیم کے خلف احتجاج کرنے والوں پر جمال ناصر نے ظلم کی انتہا کر کےفرعون ثانی کا لقب پایا۔ اس وقت اخوان کی پوری قیادت جیلوں میں ڈال دی گئی تھی لیکن کوئی معافی مانگ کر واپس نہیں آیا۔ انور سادات نے ابتداء میں تو اخوانی کارکنان کو جیلوں سے رہا کیامگر آگے چل کر اپنے اقتدار اور مغرب کی خوشنودی کے لیے اخوان پر پابندیاں لگا دیں۔ 1982ءمیں اخوان نے مصر کی پارلیمانی انتخاب میں حصہ لیااور36 ارکان کامیاب ہوئے لیکن پھرہزاروں اخوانیوں پر فوجی عدالت میں مقدمات چلائے گئے۔ حسنی مبارک نے بھی جمال ناصر کی یاد تازہ کرتے ہوئے اخوان المسلمون پر مظالم ڈھائے لیکن یہ قافلۂ سخت جان اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہا یہاں تک ایک عوامی انقلاب نے حسنی مبارک کا تختہ الٹ دیا اور جون 2012ءکے صدارتی انتخابات میں 51.83ووٹ حاصل کر کے ڈاکٹر محمدمرسی مصر کے صدر منتخب ہوئے۔ اس حقیقت سے انکار ناممکن ہے کہ مصر کے اندر فوجی آمریت کے خاتمہ میں سب سے اہم کردار اخوان المسلمون نے ادا کیا۔ ایسے میں اسے آر ایس ایس کا ہم پلہ قرار دینا نادانی نہیں تو اور کیا ہے؟
عرب بہار کے عروج پر اقتدار سنبھالنے کے بعد صدر مرسی نے عدلیہ اور فوج میں اصلاحات کا آغاز کیا۔ فوج کے سپریم کمانڈر حسین طنطاوی کوان کی مدت کار کے خاتمے پر عبد الفتاح السیسی سے بدل دیا گیا۔ صدر مرسی نے کابینہ میں اپنی اتحادی جماعتوں کو نمائندگی دی اور غریبوں کے لیے قابل قبول بجٹ بنایا۔ دیہات کی طرف ترقیاتی کاموں کا آغاز کیا اور امیروں پر ٹیکس لگایا کر غربت کے خاتمہ شروع کیا۔شراب خانوں،نائٹ کلبوں، سینما گھروں پر پابندی لگائی گئی اور مصر کو اسلامی فلاحی ریاست میں بدلنے کی خاطرتعلیم اور صحت کی سہولیات سے عام شہری مستفید کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے گئے۔ صدر مرسی نے امریکہ کے ساتھ غلامانہ تعلقات کی بجائے برابری کی بنیاد پر خارجہ پالیسی بنائی ۔ انہوں نے ترکی اور ایران کے ساتھ باہمی تجارت اور تعلقات کے حوالے سے کئی معائدے کیے اور یہ چیز امریکہ و اسرائیل پر گراں گزری۔غزہ کا راستہ چونکہ مصر سے ہے اس لیے ان محصورین کے لیے مصری سرحد سے غذا،ادویات اور کپڑے پہنچانے کا اہتمام کیا تاکہ وہاں کے 16لاکھ فلسطینوںکی زندگی آسان ہوجائے۔ اس دوران اسرائیل نے غزہ پر حملہ کیا تو مصر کے وزیر اعظم فلسطین گئے اور حماس کی قیادت سے ملاقاتیں کرکے یکجہتی کا اظہار کیا۔

صدر محمد مرسی کے ذریعہ مظلوموں کی حمایت نےغاصب اسرائیل کو امریکہ کی مدد سے ایک جعلی بحران پیدا کرواکر ان کا تختہ الٹنے پر مجبور کیا۔ صدر مرسی کے خلاف چلنے والی مہم کو عالمی میڈیا میں بڑھا چڑھا کرپیش کیا گیا اور یہ الزام لگایا کہ انہوں نے حسنی مبارک سے زیادہ اختیارات حاصل کر لیے ہیں۔ ان کی دستور سازی پر اعتراض کیا گیا جبکہ 1952ءکے فوجی انقلاب کے بعد جمال ناصر نے اپنی مرضی کا دستور بناکر تمام اختیارات اپنے پاس رکھ لیے تھے۔ 1971ء میں انور سادات نے بھی اپنی منشاءکا دستور بنایا اور ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بن گئے۔ حسنی مبارک اس دستور کے مطابق 30سال مسلط رہے ۔ اس دوران مصر میں صدارتی نظام حکومت رائج تھا ۔ اسلامی انقلاب کے بعد صدر مرسی نے عوامی نمائندگی اور وسیع تر مشاورت کی خاطر ملک میں پارلیمانی نظام حکومت قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ صدر مرسی نے تمام سیاسی پارٹیوں کی نمائندہ آئینی کمیٹی کو دستور سازی کا کام سونپ دیا لیکن جوں ہی اس نے کام شروع کیا آئینی عدالت نے اسے غیر قانونی قرار دے دیا ۔عدالت کا الزام تھا چونکہ پارلیمنٹ میں اسلام پسندوں کی اکثریت ہے اس لیےآئینی کمیٹی پورے مصر کی نمائندہ نہیں ہے۔ عدلیہ کی اس بیجا مداخلت کو صدارتی آرڈیننس سے منسوخ کیا گیا تاکہ ملک میں پارلیمانی نظام کو مستحکم کیا جائے۔

صدر مرسی کی اس کوشش نےفوج اور انتظامیہ کو بے چین کردیا کیونکہ وہ پارلیمانی نظام کو اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔ ان کو سیاسی و معاشی اصلاحات سے روکنے کے لیے ملک میں کبھی بجلی کا بحران پیدا کیا جاتا تو کبھی ایندھن غائب کردیا جاتا۔ اس سے بات نہیں بنی تو ایک فٹ بال میچ میں تشدد پھیلا کر چھیاسی لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ اس عدالت نے فوراً فیصلہ سنا کر ایک فریق میں تشدد بھڑکایا اور حکومت کے دشمن غنڈوں نے اس کی آڑ میں ملک کے اندر انارکی پھیلا دی۔ اس نازک صوتحال میں بھی صدرمحمد مرسی نے عوام کی مدد سے خرابیوں کا مداوا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اس کے ساتھ ساتھ شخصی اقتدار مستحکم کرنے کے بجاے اداروں کو مستحکم کرنے پر توجہ مرکوز رکھی۔ ان بحرانوں کے درمیان ملک میں پہلا آزادانہ دستور بن کرتیار ہوگیا۔ عوام کا اعتماد بحال رکھنے کی خاطر دستور ساز اسمبلی میں اخوانیوں نے اپنے مخالفین کو منتخب کر وایا، تاکہ متفق علیہ دستور بنے اور فرد واحد کے بجاے ریاست کا اقتدار مستحکم کیاجائے۔ اس دوران اعتراضات اور احتجاج کا سلسلہ اس قدر شدید ہوگیا کہ قصر صدارت تک کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی گئی لیکن بالآخر ریفرنڈم ہوا اور 64فی صد عوام نے دستور کے حق میں ووٹ دے کر ملک کے پہلے متفق علیہ دستور کو منظوری دے دی ۔

ڈاکٹر مرسی کی منتخب حکومت نے اس عظیم سیاسی اصلاح کے علاوہ اقتصادی میدان میں بھی انقلابی فیصلے کیے تاکہ معاشی خوشحالی کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس کے تحت بحیرۂ احمر کو بحیرۂ روم سے ملانے والی اور عالمی اقتصادی نظام میں شہ رگ کی حیثیت رکھنے والی نہر سویز اور اس کے ملحق علاقوں کے لیے ایک ایسا جامع منصوبہ تیار کروایا گیا تاکہ اس کی تکمیل پر قومی خزانے میں سالانہ 100ارب ڈالرکی آمدنی ہو اور مصر پورے علاقے کا تجارتی و مواصلاتی مرکز بن جائے۔ پڑوسی ملک سوڈان کے ساتھ ایک ایسے منصوبہ بندی کی گئی جس کے تحت 20لاکھ ایکڑغیر آباد سوڈانی زمین پر مصر کے لیے غلہ اُگانےکا پلان بنایا گیا۔ ملک کے اندر بے زمین کاشت کاروں کو 5سے 10 ایکڑ زمین بے زمین کاشت کاروں کو دے کرخودکفیل بنانے کی خاطر 6 لاکھ 60ہزار ایکڑ کا ایک اور 3لاکھ 66 ہزار ایکڑ کا دوسرا زرعی منصوبہ تیار کیا گیا۔ بیرونی سرمایہ کاری کو متوجہ کرنے کی خاطر کئی منصوبے بنائے گئے۔ عوامی فلاح و بہبود کے ان کاموں نے مخالفین کے ہوش اڑا دئیے۔ انہوں نے سوچا کہ اگریہ سرکار اپنے چار سال مکمل کرلے تو اس کو ہرانا یا ہٹانانا ممکن ہوجائے گا ۔صدر محمد مرسی کی ان اصلاح پسند کاوشوں پر روک لگانے کے لیے ملک میں مارشل لاء لگا کر فوج نے اقتدار پر قبضہ جمالیا۔

ایک عالمی سازش کے تحت کی جانے والی اس اقتدار کو مسلط کرنے کے لیے عوام میں بے حد مقبول صدر مملکت کو گرفتار کر کےساتھیوں سمیت جیل میں ڈال دیا گیا جن کی تعداد تقریباً 40ہزار تھی۔ اخوان المسلمون کے لاکھوں کارکنان ہر شہر میں ان اقدامات کےخلاف دھرنے پر بیٹھ گئے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ 65 سالہ فوجی اقتدار کے بعد منتخب ہونے والا صدر بحال ہو، 64فی صد عوام کی تائید سے بنایا جانے والا دستورنافذ کیا جائے اور انقلاب کے وقت تحلیل کی جانے والی منتخب سینیٹ بحال کی جائے۔ ان نہایت معقول مطالبات کو کچلنے کے لیے 6 جولائی 2013کو بعد فجر 120نمازی شہید ایک ہزار سے زائد افرادکو زخمی کیا گیا۔ 24 جولائی کی فائرنگ میں 250 سے زائد نمازیوں نے جام شہادت نوش کیا اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ اس کے بعد 14؍ اگست کو خوں ریزی کی بدترین تاریخ رقم کی گئی۔ اس روز صرف رابعہ میدان کے 2600 شہدا کی فہرستیں بنیں، زخمیوں کی تعداد 10ہزار سے متجاوز تھی، گرفتار شدگان بھی ہزاروں میں تھے۔ اس قیامت صغریٰ کے خلاف دو روز بعد 16؍اگست کو پورے ملک میں پھر مظاہرے ہوئے۔ شہر کی 28 مساجد سے عوامی جلوس آکر قاہرہ کے میدانِ رعمسیس میں جمع ہوئے لیکن اسے بھی بزور قوت منتشر کرکے مصر ی حکمرانوں نے یہ سمجھ لیا کہ وہ کامیاب ہوگئے مگر وہ اس ارشادِ ربانی کو بھول گئے کہ :’’ظلم کرنے والے عنقریب جان لیں گے کہ وہ کس انجام کی طرف لوٹائے جائیں گے‘‘۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1226397 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.