برباد ملکی معیشت اور تاریک مستقبل

تعلیم کی کمی، صحت کا ناسازگار ماحول،تربیت کا فقدان، گھٹن زدہ ماحول، بنیادی ضروریات کے نہ ہونے کی مایوسی، ایک طبقے کیلئیتفریحی مواقع کا غائب ہونا، ترجیحات کی غلط ترتیب، مقاصد سے لاعلمی وغیرہ وغیرہ جیسی ان گنت وجوہات ہیں اور یہ سب ہماری ذمہداریوں میں اضافہ کرتی ہیں۔ ہم اپنی ذمہداریوں سے فرار حاصل کر کے خود کو مطمعن کرلیتے ہؔیں، ہمارے یہاں گنگا الٹی بہتی ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ اسلامی نظام بھی کوئی نظام ہے۔ کیا یورپ میں اسلامی نظام ہے تو جواب نہیں میں ملتا ہے۔ اس سوال کا جواب بہتر حکمت عملی، قوم سے اخلاص اور درمند ہونے کی ضرورت ہے۔ ملک کی افواج، بیوروکریسی کی عیاشیاں، کروڑوں روپے کی گاڑیوں میں بیتھنے والے یہ شعبدہ باز قوم اورملک کے ڈاکو جنہیں لاکھوں روپے پینشن، گاڑی اسکا تیل، بجلی اور گیس کی سہولیات، اشیاےء خور د و نوش، ادویات کی قیمتوں میں روز بروز اضافہ، بیماریوں میں اضافہ، چوری، ڈکیتی، حرام کاری گلی گلی میں شور ہے مگر سب اچھا ہے کی رٹ ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہین لے رہی، پچھلی ایک دہائی میں مسلسل بگڑتی ہوئی معاشی اور سماجی ملکی صورتحال سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان تمام نوجوانوں کی کل تعداد اندازوں سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ آج یہ لمحہ فکریہ ہی نہیں بلکہ لمحہ تباہی ہے۔ کہ ہما رے کارخانے بند ہو رہے ہیں، فیکٹریاں جام ہو چکی ہیں ان کارخانوں اور فیکٹریوں میں کا م کرنے والے لاکھوں لوگ بے روزگاری کی بھٹی میں جل رہے ہیں۔ ملک میں محدود معیشت، سماجی پسماندگی، روزگار کے کم تر مواقع اور مغرب میں قدرے سہل، پرتعیش اور آزاد زندگی ناگزیر طور پر سب سے زیادہ تعلیم یافتہ افراد اور ہنر مندوں کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں۔ جس سے ہمارے ملک کے ہنر مند انجینئر، ڈاکٹر اور دوسرے تیکنیکل لوگ اس جہنم کو چھوڑ کر اپنی زندگی کو آرام دہ اور سہل بنانے کیلئے کوشاں رہتے ہیں لیکن اس کا ناقابل تلافی نقصان ہمارے ہی ملک کو ہوتا ہے کیونکہ عوام کے پیسے اور ماں باپ کی محنت سے کئی سال تعلیم و تربیت اور پرورش کے بعد سماج مستقبل کے ایک فعال ہنر مند سے محروم ہو جاتا ہے اور اسکا تمام تر فائدہ غیر ممالک اٹھا رہے ہیں۔ ہمارے یہاں جو چیزیں جدید ٹیکنالوجی کے طوفان کو ہضم نہیں کرنے دیتیں ان میں سب سے بڑا سرمایادار طبقہ ہے۔۔ انہیں زیادہ، کا لالچ، دولت کو معمولی عوضانے پر حاصل کرنا، اپنے مزدوروں اور ملامین کا خون چوسنا اپنے مرہون منت رکھ کر اس کو ڈرا اور دھمکا کر اس سے روزی چھیننے کی دھمکی دینا اور بے جا، بلا ضرورت اور بلا مقصد کا دولت کا انبار اور اس سے نئی نئی فیکٹریاوں کا قیام مگر ملازمین کی تنخواہون کی شرح مہنگائی کے تناسب سے انتہائی کم ہونا اور گزر بسر مشکل ہونا اور غیر قانونی اور مزدور کے خون اور پسینے سے ؔحاصل ہونے والی دولتکا استعمال بد ہضمی میں مبتلا کر رہا ہے جو جذباتی ہیجان کا باعث بن رہا ہے۔ اور یہ گھر گھر کی کہانی ہے۔ جس میں بسنے والے اپنے مخدوش حالات کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہیں۔ مگر وہ ادارے جو انکی کارکردگی اور مزدور کے تحفظ کیلیئے بنائے گئے ہیں وہ ان سرمایہ داروں کے دلال، بے غعرت اور وہ بے ضمیر ہیں جو اپنے معمولی سے ذاتی فائدے کیلئے مزدروں کا استحصل کرنے میں پیش پیش ہے۔

ہمارے یہاں کا سرمایہ دار طبقہ ایک دلال کی حیثیت رکھتا ہے اور تکنیکی، سماجی، تہذیبی اور شعوری طور پر ترقی نہیں دے سکتا اس لئے ریاست نے عوام کو شعوری طور پر پراگندہ رکھنے اور تقسیم در تقسیم رکھنے کے لئے مسلسل لسانی، نسلی اور فرقہ وارانہ منافرتوں کو استعمال کیا ہے۔ یعنی اسے ایسا سماجی اعتبار سے پسماندہ ہنر مند اور محنت کش چاہیے جو دوائی دے سکتا ہو، پیچ کس کا استعمال جانتا ہو، سارا دن مشین چلا سکتا ہو، کھاتے سیدھے رکھ سکتا ہو لیکن معاشی یا سماجی مسائل پر غور و فکر نہ کرے اور سوال کرنے کی اہلیت سے بالکل عاری ہو۔ اس کی سب سے ہولناک جھلک ہمیں نظام تعلیم میں ملتی ہے جس میں منطق نامی چیز دور دور تک نہیں، معیاری اور مسابقتی ہونا تو دور کی بات ہے۔

اس وقت پاکستانی معیشت اور سماجی معاملات کے حوالے سے جو بھی اعدادوشمار پیش کئے جاتے ہیں ان پر یقین کرنا ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ ہر حکومت اپنی مرضی اور سیاسی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اعدادوشمار کا ایک ایسا ڈھونگ رچاتی ہے کہ سچائی کی تلاش جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اس کے باوجود کچھ ایسے حقائق موجود ضرور ہیں جو حالات کی نازکی کا پتہ دے رہے ہیں۔ جو صرف اور صرف ایک ایسی حکومت جو ملک اور قوم سے مخلص ہو۔ اور درد رکھتی ہو وہی کر سکتی ہے اس کی شرط سوشلزم کے درست پروگرام سے لیس ایک انقلابی پارٹی کی قیادت میں سماج کی انقلابی تبدیلی ہے جو اس سماج کو ہر قسم کی پراگندگی، ظلم و جبر اور تفریق سے پاک کرے۔۔
Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 139623 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.