امرت پال سنگھ پر ’اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی؟‘

وزیر اعظم نریندر مودی کی چھاتی اگر چھپن ّ انچ کی ہے تو وزیر داخلہ امیت شاہ کا سینہ ساٹھ انچ سے کم نہیں ہے۔ ان کی زبان بھی وزیراعظم سے دوچار انچ لمبی ہی ہے اسی لیے انہوں نے ایوان پارلیمان میں اعلان کردیا تھاکہ کشمیر کے لیے جان دے دیں گے اوراکسائی چین ہمارا حصہ ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چین نے گلوان پر حملہ کرکے اپنی ناراضی کا عملی اظہار کردیا ۔ شاہ جی نے گجرات میں جاکر سبق سکھانے کی بات تو کی مگر سبق نہیں سیکھا ورنہ پنجاب میں صورتحال نہ ہوتی اور وزیر داخلہ کو امرت پال سنگھ کھلے عام دھمکی نہ دیتا کہ ’’پانچ سو سال ہمارے آباو اجداد نے اس سرزمین پر اپنا خون بہایا ہے۔ قربانی دینے والوں کو انگلیوں پر گنا نہیں جاسکتا‘‘۔ اپنی تمہید کے بعد وہ کہتا ہے’’ اس سرزمین کے دعویدار ہم ہیں۔ اس دعویٰ سے کوئی ہمیں پیچھے نہیں ہٹا سکتا۔ نہ اندرا ہٹا سکی تھی اور نہ ہی مودی یا امیت شاہ ہٹا سکتا ہے۔ دنیا بھر کی فوجیں آجائیں ، ہم مرتے مر جائیں گے لیکن اپنا دعویٰ نہیں چھوڑیں گے‘‘ ۔

وزیر داخلہ امیت شاہ کو یہ دھمکی محض یہ کہنے پر ملی تھی کہ پنجاب میں خالصتان کے حامیوں پر ان کی نظر ہے ۔ اس کے جواب میں اس نے کہا تھا کہ شاہ کو کہہ دو پنجاب کا بچہ بچہ خالصتان کی بات کرتا ہے۔ جو کرنا ہے کرلے ۔ ہم اپنا راج مانگ رہے ہیں کسی دوسرے کا نہیں۔ اس اشتعال انگیز بیان کے جواب میں بھی وزیر داخلہ نے کوئی اقدام تو دور ایک ٹویٹ تک نہیں کیا اس لیے وہ مکالمہ یاد آگیا’آخر اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی؟‘ وزیر داخلہ کے علاوہ ’گھر میں گھس کر مارنے والے‘ وزیر اعظم بھی بالکل خاموش ہیں۔ چہا ر جانب پسرے اس پر اسرار سناٹے نے پھر سے ثابت کردیا کہ جو گرجتے ہیں وہ برستےنہیں۔اجنالا میں پچھلے دنوں جو واقعہ رونما ہوا اس کی مثال تو اس وقت بھی نہیں ملتی جب پنجاب خالصتانی تشدد کی آگ میں جل رہا تھا۔ اس بار خالصتان کی حامی تنظیم’ وارث پنجاب دے‘سےتعلق رکھنے والےہزاروں افرادنے امرتسر کے اجنالا پولیس اسٹیشن پرحملہ کردیا۔ان کے ہاتھوں میں بندوقیں اور تلواریں تھیں۔

اپنی تنظیم کے سربراہ امرت پال سنگھ کی قیادت میں مسلح بھیڑ بیریکیڈ توڑ کر تھانے میں گھس گئی۔ دھکا مکی میں6؍پولیس اہلکار زخمی ہو گئے۔ اس پرامرت پال سنگھ نے کہا’’پولیس اہلکاروں کے زخمی ہونے کی جھوٹی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہےکہ وہ گر کر زخمی ہوئے تھے۔ ہمارے 10؍تا 12؍لوگوں کوچوٹیں آئی ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہلو پریت سنگھ طوفان کوایک دن کےاندر رہا کیا جائے‘‘۔ اس حیرت انگیز واقعہ کے بعد ’دہشت گردی پرصفر برداشت‘ کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کے پولیس کمشنر جسکرن سنگھ نے اعلان کیا کہ ’’طوفان کورہا کیا جارہا ہے۔ ان کے حامیوں نےان کی بے گناہی کے کافی ثبوت دیئے ہیں۔معاملے کی جانچ کے لیے ایس پی تیج بیر سنگھ ہنڈل کی قیادت میں ایک خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی گئی ہے‘۔ اس بیان کے کئی دلچسپ پہلو ہیں اول تو یہ کہ معاملے کی تفتیش کے ایس آئی ٹی کی تشکیل کی گئی ہے لیکن اس کی جانچ سے قبل طوفان چھوٹ گیا تو خصوصی ٹیم کی ضرورت ہی کیا ہے؟ وہ آخر کیا کرے گی ؟؟

اس بیان کا دوسرا مضحکہ خیز پہلو یہ کہ ایک ملزم کے حامیوں سے مطمئن ہوکر پولیس نے اسے چھوڑ دیا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا پولیس تھانے کا محاصرہ کرنا، اس پر قبضہ کرکے اہلکاروں کو یرغمال بنا لینا اور بدلے میں اپنے آدمی کو چھڑوانا کوئی جرم نہیں ہے؟ اس کی تفتیش اور سزا کسی کو ہوگی یا نہیں ؟ اس سوال کا جواب وزیر اعظم کو دینا ہوگا کیونکہ یہ محض صوبائی نہیں بلکہ قومی مسئلہ ہے۔اجنالا پولیس تھانے پر حملہ اچانک نہیں ہوا بلکہ ایک دن قبل امرت پال نے متنبہ کردیا تھا کہ اگر اس پر اور ساتھیوں پر دائر ایف آئی آر ایک دن کے اندررد نہ کی گئی تو وہ اپنے حامیوں سمیت پولیس اسٹیشن کا گھیراؤ کرنے پہنچے گا۔ اعلان کے مطابق دو دن بعد امرت پال تھانے پہنچا اور اس کے بعد وہاں بھیڑ جمع ہوگئی۔ اس اعلان کے پیش نظر امرتسر میں پولیس انتظامیہ نے سیکورٹی کا سخت انتظام کیا تھا۔ الگ الگ راستوں سے اجنالا پولیس اسٹیشن میں پہنچنے والے مقامات پر خصوصی ناکہ بندی کی گئی تھی اور زبردست پولیس فورس کی تعیناتی ہوئی تھی۔ اس کے باوجود امرت پال کے حامی بڑی تعداد میں تھانہ اجنالا کے باہر پہنچ گئے جہاں پہلے سے تعینات پولیس فورس نے انھیں حراست میں لے لیا لیکن بعد میں امرتسر دیہات کے ایس ایس پی نے حراست میں لیے گئے نوجوانوں کو چھوڑ دیا ۔

اس ہنگامہ آرائی کی اطلاع ملتےہی امرت پال بھی اجنالا تھانے پہنچ گیا اور اس نے ایس ایس پی ستیندر سنگھ سے ملاقات کی ۔ اس ملاقات کا یہ نتیجہ نکلا کہ انہوں نے امرت پال سنگھ کےساتھ معاہدہ طے پانے کا اعلان کردیا۔ انہوں نے تصدیق کی کہ لوپریت طوفان موقع واردات پر موجود نہیں تھا اس لیے اگلے دن عدالت میں درخواست دے کراسےرہا کر دیا جائے گا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا عدلیہ کا کردار معطل ہوچکا ہے اور سارے اختیارات انتظامیہ کو سونپ دیئے گئے ہیں؟ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اگر طوفان بے قصور تھا تو اسے گرفتار کیوں کیا گیا اور قصوروار تھا تو چھوڑا کیوں گیا؟ایک طرف تو انتظامیہ یہ نرمی دِکھا رہا تھا مگر اس کے جواب میں امرت پال سنگھ نے اعلان کررہا تھا کہ جب تک پولیس تحریری بیان نہیں دیتی وہ پیچھے نہیں ہٹیں گےاورتحریری یقین دہانی کےبعد تھانہ تو خالی کر دیا جائے گالیکن مقدمہ ختم ہونے تک اجنالا میں ڈٹے رہیں گے۔

انتہا پسند امرت پال سنگھ اپنے جس معاون لوپریت سنگھ طوفان کو بزورِ قوت رہا کروانے میں کامیاب ہوگیا اس پر دیگر الزامات کے علاوہ اغوا کا بھی الزام تھا۔ اس معاہدے کے ایک دن بعد وہ ٹھاٹ باٹ کے ساتھ جیل سے باہر نکل آیا کیونکہ پولیس کی درخواست پر عدالت کو رہائی کا حکم دینا پڑا۔ اجنالا سانحہ کو امرت پال سنگھ کے اس چیلنج کی روشنی میں دیکھنا چاہیے کہ جس میں انہوں نے کہا تھا وزیراعلیٰ میں ہمت ہے تو ان کے خلاف مقدمہ درج کر کے دکھائیں۔ وہ بولے پولیس بار بارٹٹولتی ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ ہم یہاں یہ دکھانے کے لیے آئے ہیں کہ ہم کیا کر سکتے ہیں؟یہ کوئی ریاستی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ امرت پال سنگھ کہتا ہے:’ ہم خالصتان کے مطالبے کو بے حد پُرامن طریقے سے آگے بڑھا رہے ہیں‘۔ اس کے بعد وہ کہتا ہے ، ’وزیرداخلہ امیت شاہ نے کہا تھا کہ خالصتان تحریک کو نہیں بڑھنے دیں گے۔ میں نے کہا تھا کہ اندرا گاندھی نے بھی ایسا ہی کیا تھا اور اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ کو نتائج بھگتنے ہوں گے‘۔ اپنے اس بیان کے بعد امرت پال نے ایک ایسی بات کہہ دی جس نے پورے سنگھ پریوار کو آئینہ دکھا دیا۔ وہ کہتا ہے ’ اگر وزیر داخلہ ’ہندو راشٹر‘ کا مطالبہ کرنے والوں سے یہی کہتے ہیں تو میں دیکھوں گا کہ کیا وہ وزیرداخلہ بنے رہتے ہیں؟‘ اس طرح امرت پال نے خالصتان کو ہندو راشٹر کے برابرپلڑے میں ڈا ل کر کھڑا کردیا۔

اتر پردیش کے بھگوا دھاری وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا تھا کہ بھارت ایک ہندوراشٹر ہے اور یہاں کا ہر شہری ہندو ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہندو کوئی مذہب یا فرقہ نہیں ہے۔ یہ ایک ثقافتی اصطلاح ہے، جو ہر شہری کے لیے موزوں ہے۔ اب اگر یوگی جی میں ہمت ہے تو پنجاب جاکر امرت پال کو سمجھائیں کہ بھیا یہ ریاست بھی ہندو راشٹر کا حصہ ہے۔ ہندوستان ایک ہندو راشٹر تھا ،ہے اور رہے گا ۔ اس کے علاوہ یہ بھی بتائیں کہ بیٹا امرت پال تم بھی سکھ نہیں بلکہ ہندو ہی ہو۔ اس کے بعد انہیں دال آٹےکا بھاو پتہ چل جائے گا اس لیے کہ اپنی گلی میں تو ہر کوئی شیر ہوتا ہے۔ امرت پال تو ملک وزیر داخلہ امیت شاہ کو دھمکی دے چکا ہے کہ ’اندراگاندھی نے دبانے کی کوشش کی تھی کیا حشر ہوا؟ اب امیت شاہ اپنی خواہش پوری کرکے دیکھ لے ‘۔

اس سنگین صورتحال کے باوجود وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کوشمال مشرق کی ننھی منی ریاستوں میں فینسی ڈریس شو کرکے انتخابی مہم چلانے میں مصروف رہے۔ اب تو وہاں کے انتخابی نتائج بھی آچکے ہیں اور وزیر اعظم کیا تیز مار سکتے ہیں یہ بھی عوام نے دیکھ لیا۔ تریپورہ میں بی جے پی کی چار اور اس کی پارٹنتر نے سات سیٹیں گنوادیں ۔ ناگالینڈ میں دنیا بھر کا تماشا کرنے کے باوجود ایک سیٹ بھی نہیں بڑھا سکے اور جونیر کے جونیر پارٹنر ہی رہے۔ میگھالیہ میں قبائلی لباس پہن کر تلوار لہرانے کے باوجود پہلے بھی دو اور اب بھی دوہی رہیں۔ تین صوبوں میں سے ایک میں وزیر اعلیٰ پہلے تھا سو اب بھی ہے ۔ باقی دو میں دوسروں کی جوتیاں سیدھا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ پہلے تھا نہ اب ہے۔ اس سے فرصت نکال کر انہیں پنجاب کی جانب توجہ دینی چاہیے تھی۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ ملک کا شمال مغربی صوبہ سنگین مسائل سے دوچار ہے اور حکمرانوں کو شمال مشرق میں انتخابی کامیابی کی فکر ستا رہی تھی ۔ ایسی صورتحال میں ان پر علامہ اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1226147 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.