سرمایہ دارانہ جمہوریت اور منافقانہ سیاست کی داستانِ محبت

 امسال جی ٹوئنٹی کی میزبانی کر تے وزیر اعظم مودی نے ہندوستان کو "جمہوریت کی ماں" تو قرار دے دیا مگر انہوں نے خود "منافقت کا باپ" بن کر اس سے بیاہ رچا لیا۔ جمہوریت اور منافقت کا رومانس بہت دلفریب ہوتا ہے مگر جب و ہ رشتۂ ازدواج میں ایک دوسرے سے وابستہ ہوجاتے ہیں تو ان کی اولاد یعنی عوام کا جینا دوبھر ہوجاتا ہے۔ وطن عزیز میں فی الحال یہی ہورہا ہے۔ سیاستدا نوں اور سرمایہ داروں کا تعلق بھی اسی طرح کا ہے۔ ان دونوں کے درمیان مناسب فاصلے سے تعاون و اشتراک تو عوام کے لیے مفید ہوتا ہے لیکن ان کا آپس میں ایک جان دوقالب ہوجانا ملک و قوم کے لیےسوہانِ جان بن جاتا ہے۔ مودی اور اڈانی کے درمیان 2014 کے انتخاب سے پہلے بھی شنا سائی تھی اور بعد میں بھی تعلقات قائم رہے مگر ایک مہین فاصلہ تھا۔ 2019 کے بعد یہ دوریاں مٹ گئیں اور پھر ایک ایسی لوٹ مار کا آغاز ہوگیا جس نےایک قلیل عرصہ کے اندر اڈانی کو امیر ترین لوگوں کی فہرست میں 56 ویں درجہ سے دوسرے مقام پر پہنچا دیا ۔ اڈانی جس تیزی سے اوپر گئے اسی رفتارسے نیچے آرہے ہیں لیکن اپنے ساتھ مودی جی کو لارہے ہیں ۔

دنیا کی ہر رومانی داستان میں ہر کوئی عاشق و معشوق کا دشمن ہوتا ہے۔ اسمرتی ایرانی نےجارج سوروس کو ہندوستان کے جمہوری ڈھانچے کو نقصان پہنچانے والی ایک غیر ملکی طاقت کا آلۂ کار قرار دے دیا لیکن نام نہیں لیا ۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا نہیں اور ان کے آقا کونام لینے میں ڈر لگتا ہے؟؟ ایک سوال یہ ہے کہ کل تک تو ساری دنیا مودی جی کی دوست تھی آج اچانک دشمن کیوں بن گئی؟ ہنڈن برگ ریسرچ رپورٹ کے معاملے میں مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل میں ناکامی کے بعد کانگریسی رہنما جیا ٹھاکر نے اڈانی گروپ اور اس کی ساتھی کمپنیوں کے خلاف سپریم کورٹ کے ایک موجودہ جج کی نگرانی میں مرکزی تفتیشی بیورو اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ جیسی مرکزی ایجنسیوں سے تحقیقات کرانے کی ہدایت کے لیے عدالتِ عظمیٰ سے رجوع کیا۔ ان سے قبل اس معاملے میں ایڈوکیٹ وشال تیواری اور منوہر لال شرما کی مفاد عامہ کی عرضی بھی داخل کی جاچکی تھی ۔ مدھیہ پردیش میں کانگریسی خواتین یونٹ کی جنرل سکریٹری ڈاکٹر ٹھاکر نے اپنی عرضی میں الزام لگایا کہ اڈانی گروپ اور اس کی ایسوسی ایٹ کمپنیوں نےشیئر مارکیٹ اور منی لانڈرنگ کے ذریعے عوام کی محنت سے کمائے گئے لاکھوں کروڑوں روپیوں کی دھوکہ دہی کی ہے۔ ان کے مطابق اڈانی گروپ اور اس کی ایسوسی ایٹ کمپنیوں نے ماریشس، متحدہ عرب امارات، سنگاپور اور کیریبین جزائر جیسے ٹیکس پناہ گاہوں میں حوالات کے ذریعے رقوم کی منتقلی کے لیے مختلف آف شور کمپنیاں قائم کررکھی ہیں۔ اس طرح وہ منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں۔

درخواست گزار جیا ٹھاکرنے ایل آئی سی اور ایس بی آئی) کے ذریعہ اڈانی انٹرپرائزز کے ایف پی او کو 1600 -1800 روپے کے بجائے 3200 روپے میں خریدنے کی تحقیق پر بھی زور دیا۔ انہوں نے مختلف پبلک سیکٹر اور پرائیویٹ بینکوں سے 82000 روپے کا قرضہ پر سوال اٹھائےاور مرکزی تفتیشی ایجنسیوں سے اس کی جانچ کا مطالبہ کیا۔ اس شکایت کو قابلِ سماعت سمجھتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس پی ایس نرسمہا اور جے بی پاردیوالا کی بنچ نے نے اشارہ دیا کہ وہ مشورہ کے لیے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دے سکتا ہے۔ اس کا مقصد مستقبل میں سرمایہ کاروں کو بڑے نقصان سے بچانے کے لیے سسٹم میں اصلاح کرنا ہوگا۔ عدالتِ عظمیٰ کی دلیل یہ ہے کہ شیئر بازار میں صرف دولت مند لوگ ہی سرمایہ کاری نہیں کرتے بلکہ متوسط طبقہ بھی پیسے لگاتاہے۔ سپریم کورٹ کے ججوں نے مزید کہا کہ حال میں سرمایہ کاروں کے لاکھوں کروڑ روپے ڈوب چکے ہیں ایسے میں سرمایہ کاروں کے مفادات کا تحفظ ضروری ہے۔ان واضح تبصروں کو سن کر سرکار کے ہوش ٹھکانے آگئے۔

ایوانِ پارلیمان میں تو حکومت نے اپنی اکثریت کے بلڈوزر تلے تفتیش کا مطالبہ روند دیا تھا مگربادلِ نخواستہ اسے سپریم کورٹ کی نگرانی میں جانچ کمیٹی بنانے پر اپنی رضامندی ظاہر کر نی پڑی کیونکہ عدالت اس کی مرضی کے خلاف بھی ایسا کرنے کی مجاز ہے ۔سرکاری وکیل تشار مہتا نے مجبوراً کہا کہ سیبی حالات سے نمٹنے میں اہل تو ہےلیکن حکومت کو جانچ کمیٹی بنائے جانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن پھر ڈنڈی مارتے ہوئے شیئر بازار کو مضبوط کرنے کے مقصد سے ماہرین کا پینل بنانے کے لیے مرکز نے اپنا مشورہ کو سیل بند لفافے میں دے دیا۔ اس کو توقع رہی ہوگی کی عدالتِ عظمیٰ اس لفافے کو شکریہ کے ساتھ وصول کرکے سرکار کے نامزد کردہ لوگوں تفتیش کروائے گی اور ایک نورا کشتی کے بعد سارا معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہوجائے گا لیکن سپریم کورٹ نے رنگ میں بھنگ ڈالتے ہوئے اس لفافے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا عدالتِ عظمیٰ بھی مودی سرکار کے خلاف کسی سازش میں شریک ہوگئی؟ اس طرح ساری دنیا کو ملک کا دشمن قرار دینے کا سلسلہ آخر کہاں جاکر رکے گا؟

اڈانی-ہنڈن برگ معاملے پر سپریم کورٹ کا سرکار کی جانب سے دیئے گئے سیل بند لفافے کو قبول کرنے سے انکار حکومت کے گال پر زور دار چانٹا تو تھا لیکن عدالت نے یہ اقدام تفتیش کی شفافیت یقینی بنانے کے لیے کیا ۔ اس تعلق سے چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کا خیال ہے کہ سرکار کے پیش کردہ نام اگر فریقِ ثانی کو نہ دیئے جائیں تو شفافیت کی کمی ہوگی۔ اس لیےو ہ خود اپنی طرف سے کمیٹی بنائیں گے۔ ویسے حکومت کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ سالیسٹر جنرل تو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ بازار کو متاثر کیے بغیر سچ کوسامنےلانا چاہتے ہیں ۔ ویسےان کی خواہش تھی کہ عدالت کسی سابق جج کو نگرانی کا ذمہ سونپے لیکن بقول غالب’ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے‘۔ اڈانی کے معاملے بات دن بہ دن بگڑتی جارہی ہے۔ اس پی ای آئی ایل کے ایک مدعی وشال تیواری جانچ کے ذریعہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اڈانی کمپنیاں اپنے شیئر کی زیادہ قیمت دکھا کر قرض لینے میں کیسے کامیاب ہوجاتی ہیں۔ اس پہلو سے جانچ پت ان کا اصرار ہے۔

یہ معاملہ جب عدالت میں پہنچا تو اڈانی نے بھی نفسِ مسئلہ سے توجہ ہٹانے کی خاطر اپنی جانب سے ایک مدعی کے ذریعہ پی آئی ایل داخل کروادی۔ اس کے آلۂ کاروکیل ایم ایل شرما شارٹ سیلنگ کی جانچ کروانا چاہتے ہیں ۔ ان سے جب سی جے آئی نے پوچھا کہ شارٹ سیلر کیا کرتا ہے؟ تو وہ بولے وہ میڈیا کے ذریعہ غلط فہمی پھیلاکر بغیر ڈیلیوری شیئر فروخت کرتا ہے۔ سی جے آئی کو اس جواب پر اطمینان نہیں ہوا تو انہوں نے پھر سے استفسار کیا کہ کیا شارٹ سیلرس میڈیا کے لوگ ہوتے ہیں؟‘‘ اس سوال پر شرما جی پھنس گئے ۔ انہوں نے کہا جی نہیں، یہ مارکیٹ کو متاثر کرکے منافع کمانے والے لوگ ہیں۔ یہ تو دنیا ہے اس میں لوگ انتخاب کو متاثر کرکے سیاسی منافع کماتے ہیں اور وہ جائز ہے تو کسی سرمایہ دار کے بازار پر انداز ہوکت منافع کمانے میں کیا غلط ہے؟ دراصل کمزور بنیاد پر عمارت کھڑی کرنے سے وہ عمارت جب دھڑام سے زمین بوس ہوتی ہے تو اسے تعمیر کرنے والے بھی اس کے نیچے دب کر مرجاتے ہیں بیچارے شرما جی کے ساتھ یہی ہوا کہ وہ پہلی ہی گیند میں کلین بولڈ ہوگئے۔
تیواری اور شرما سے علی الرغم معروف سماجی کارکن اور وکیل پرشانت بھوشن نے عدالت کی نگرانی میں ایس آئی ٹی یا سی بی آئی جانچ کا مطالبہ کررکھا ہے۔ سی جے آئی نے جب ان سے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ مان چکے ہیں اس معاملے میں کچھ گڑ بڑ ہوئی ہے تو بھوشن نے کچھ نئے سوال کھڑے کردیئے۔ انہوں نے کہا کہ آخراڈانی کمپنیوں کے 75 فیصد سے زیادہ شیئر خود پروموٹر یا ان سے وابستہ لوگوں کے پاس کیوں ہیں؟ وہ ہنڈن برگ رپورٹ میں گوتم اڈانی اور ان کی کمپنیوں پر لگے الزامات کی جانچ کے ساتھ اس پہلو کابھی احاطہ کرنا چاہتے ہیں۔ پرشانت بھوشن ان شیل کمپنیوں کی تفتیش بھی چاہتے ہیں کہ جو اڈانی گروپ کے شیئرس خریدتی ہیں اور ان کے ذرائع آمدنی کی جانچکا بھی تقاضہ کرتے ہیں۔ پرشانت بھوشن نے ریگولیٹری نظام میں اصلاح کا مطالبہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ ایل آئی سی کس بنیاد پرسرمایہ کاری کرتا ہے؟ انھوں نے ایل آئی سی پر الزام لگایا کہ اس نے اڈانی کے شیئر کی قیمت بڑھانے میں مدد کی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اڈانی آج امیر ترین لوگوں کی فہرست 33ویں نمبر پر اس لیے ٹکا ہوا ہے کیونکہ ایل آئی سی اور ایس بی آئی وغیرہ کے ذریعہ مودی سرکار نے اسے سنبھال رکھا ہے۔ یہ سہارا اگر آج ہٹ جائے تو اڈانی کے شیئر اوندھے منہ نیچے آجائیں؟ یہ حسنِ اتفاق ہے کہ لیلیٰ مجنوں سے لے کر رومیو جولیٹ تک دنیا کی ہر لافانی رومانی داستان کا انجام وہی ہوا ہے جس کی جانب مودی اور اڈانی جوڑی بڑھ رہی ہے ۔ اڈانی کے سبب والے سیاسی نقصان کے باوجودمودی جی کا ’دل ہے کہ مانتا نہیں ‘ ایسے میں ان کو عبیداللہ علیم کے اس مشورے پر عمل کرنا چاہیے؎
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے


 
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1226184 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.