کراچی میں سائبر کرائم کے کیسز میں اضافہ

دنیا بھر میں ٹیکنالوجی کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے اور اس کے بڑھتے ہوئے استعمال سے کئے خطرناک جرائم بھی جنم لے رہے ہے جس کی ایک مثال سائبر کرائم بھی ہے، یورپی ممالک میں قوانین سخت ہونے کی وجہ سے وہاں سائبر کرائم کے واقعات بہت کم رپورٹ ہوتے ہے لیکن ان واقعات میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بھی گزشتہ سال سے لیکر اب تک کئے سائبر کرائم کے واقعات رپورٹ ہوئے جس میں زیادہ تر کرائم کی تعداد موبائل فون کے ذریعے کسی دوسرے شخص کو ہراساں کرنا تھا

کراچی میں سائبر کرائم کے کیسز میں اضافہ

دنیا بھر میں ٹیکنالوجی کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے اور اس کے بڑھتے ہوئے استعمال سے کئے خطرناک جرائم بھی جنم لے رہے ہے جس کی ایک مثال سائبر کرائم بھی ہے، یورپی ممالک میں قوانین سخت ہونے کی وجہ سے وہاں سائبر کرائم کے واقعات بہت کم رپورٹ ہوتے ہے لیکن ان واقعات میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بھی گزشتہ سال سے لیکر اب تک کئے سائبر کرائم کے واقعات رپورٹ ہوئے جس میں زیادہ تر کرائم کی تعداد موبائل فون کے ذریعے کسی دوسرے شخص کو ہراساں کرنا تھا

عالمی سائبرکرائم پر گہری نظر رکھنے والے ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے مختلف ممالک میںں سب سے زیادہ سائبر کرائم کے واقعات ہوتے ہے یہ ہی وجہ ہے کہ یورپی ممالک کے طرح ایشیائی ممالک بھی سائبر کرائم کے واقعات میں بہت آگے ہے، سائبر کرائم کا بنیادی مطالب غلط طریقے سے کسی دوسرے انسان کو آن لائن یا پھر موبائل کے ذریعے ہراساں کرنا یا پھر ان کو دھمکانا ہے جو پاکستان میں ایک بنیادی جرم ہے پاکستان میں ہر سال سائبر کرائم کے لاکھوں کیسز رپورٹ ہوتے ہے جن کے خلاف کریک ڈاون بھی کیا جات ہے

مدثر احمد جو کہ گلشن اقبال کے رہاشی ہے گزشتہ سال دسمبر میں ایک سائبر کرائم کے واقعہ میں گہر گئے انھوں نے بتایا کہ ایک غلط نمبر سے ان کو کال کی گئی اور غلط بیانی کرکے ان سے 50 ہزار روپے سے زائد کی رقم لوٹی گئی جس کے بعد انھوں نے سائبر کرائم کی وننگ سے رابطہ کیا اور سائبرکرائم میں ملوث ان گروہ کے خلاف شکایات درج کراوئی گئی، کراچی میں سائبر کرائم سرکل اس حوالے سے پرامید ہے کہ رواں سال بھی سائبر کرائم کرنے والوں کے خلاف سخت کریک داون کیا جائے گا

سائبر کرائم سرکل نے آر ٹی ٓآئی کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال70 ہزار سے زائد سائبر کرائم کے واقعات کراچی میں رپورٹ ہوئے جس میں زیادہ واقعات رپورٹ ہونے کی شرح آن لائن ہراساں کرنا تھا ، جبکہ ان واقعات میں سب سے زائدہ واقعات سوشل میڈیا پر کسی دوسرے انسان کو ہراساں کرنے میں بھی شامل تھے، سائبر کرائم سرکل کے قانون کے مطابق سائبر کرائم پیکا ایکٹ کے تحت کسی بھی شخص کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرنا پر کارروائی کرسکتا ہے سائبر کرائم سرکل کے ایک سینئر افیسر نے بتایا کہ کراچی میں انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے سب سے سائبر کرائم کے ہوئے۔

نام نہ ظاہر کرنے کی شرط میں ایک آفیسر کا کہنا تھا کہ سائبر کرائم کے بڑھتے واقعات کا تعلق انٹرنیٹ کے غلط استعمال بھی ہے جبکہ کراچی میں کسی بھی شخص کو دھمکی دینا سوشل میڈیا کے ذریعے آسان ہوگیا جس کی وجہ سے جرائم میں ملوث اافراد کے خلاف قانونی کارروائی کرنے میں مشکل آتی ہے لیکن 2022 میں سائبر کرائم نے متعدد کاررائی کرتے ہوئے 655 افراد کے خلاف مقدمے کیے۔

اعداد و شمار کے مطابق تین سالوں میں سائبر کرائم کے واقعات میں تقریباً 83 فیصد اضافہ بتایا گیا ہے، ان اعداد و شمار کے مطابق ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ کو سال 2021 میں ایک لاکھ سے زائد شکایات موصول ہوئیں۔

گذشہ تین سال میں درج ہونے والے کیسز کی تعداد کچھ یوں رہی، سال 2020 میں 606 سائبر کرائم کے کیسسز رجسٹر کیے گئے۔ جب کہ سال 2021 میں 1224 اور سال 2022 میں 1469 کیسز رجسٹر کیے گئے۔

سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 'لاک ڈاون سے قبل کی گئی وارداتوں میں سے شکایت کنندگان نے تقریباً چھ کروڑ روپے کے فراڈ کے مقدمات درج کروائے تھے جبکہ لاک ڈاؤن کے دوران چار کروڑ 22 لاکھ کے نقصان کے کیسز درج کروائے گئے۔

ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ ’نامزد ملزمان کو پیش ہونے کے لیے نوٹس جاری کیے گئے لیکن وہ پیش نہیں ہوئے۔ تاحال کوئی شخص انکوائری میں شامل نہیں ہوا۔ ایف آئی اے نے نجی چینل پر چلنے والے پروگرام جیتو پاکستان کو خط لکھ کر تمام معلومات اور ریکارڈ طلب کیا ہے، پاکستان میں فیڈرل انیوسٹیگشن ایجنسی کا ادارہ سائبر کرائم کے واقعات پر گہری نظر رکھتا ہے اور رپورٹ ہونے والی کے خلاف کاررائی بھی کرتا ہے۔

کراچی میں سائبر ساکلر کے تحت سائبر کرائم میں ملوث افراد کے خلاف چار سال سے زائد عمر قید اور ایک لاکھ سے زائد کا جرمانہ ہوسکتا ہے ، حکومت راوں سال بھی ایف آئی اے کو طاقتور بنانے کے لیے ادارے کو مزید اختیارات دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت جعلی خبر پر چار سال قید بھی ہو سکتی ہے۔
 

Arsalan Shahzad
About the Author: Arsalan Shahzad Read More Articles by Arsalan Shahzad: 9 Articles with 12118 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.