بدعنوانی اور اڈانی کا بنگلہ دیش کنکشن

بنگلہ دیش حکومت اور اڈانی کی کمپنی کے درمیان بجلی سپلائی کا ایک بڑا معاہدے کے تحت گوتم اڈانی ہندوستان میں بجلی بنا کر بنگلہ دیش کو فراہم کرنے والےہیں ۔ اس کھیل کی ابتدا جون 2015؍ میں وزیر اعظم کے بنگلہ دیش دورے سے ہوئی۔ اس کے فوراً بعد یہ خبر آئی کہ ریلائنس اور اڈانی پاور نے دو الگ الگ ایم او یو پربنگلہ دیش پاور ڈسٹری بیوشن بورڈ کے ساتھ دستخط کردیئے ہیں۔ ریلائنس نے اعلان کیا کہ وہ تین بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرکے بنگلہ دیش میں تین ہزار میگاواٹ بجلی بنانے کا کارخانہ لگائے گا۔ اسی کے ساتھ اڈانی پاور نے ڈھائی بلین ڈالر خرچ کرکے 1600 میگا واٹ بجلی کے کارخانے کا اعلان کردیا۔ دلچسپ بات یہ ہے ریلائنس تو اس وقت اس کاروبار میں تھا مگر اڈانی پاور نامی کمپنی 6 ماہ بعد دسمبر کے اندرعالم وجود میں آئی یعنی اپنی پیدائش سے قبل اس نے ایک اتنے بڑے معاہدے کا اعلان کردیا۔ کیا یہ کام سرکار ی آشیرواد کے بغیر ممکن ہے۔ اس وقت تک کارخانوں کو بنگلہ دیش میں لگناتھاپھر اڈانی پاور کے اس سے باہر ہو نے کی خبر آئی جو غلط نکلی ہاں کارخانہ ضرور بنگلہ دیش سے نکل کر ہندوستان میں آگیا ۔ اس پر ریلائنس کو ملال تو ہوا ہوگا لیکن سچائی یہ تھی کہ ؎
راہِ دردِ عشق میں روتا ہے کیا​
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا​

مودی جی کے بعد اگلے سال شیخ حسینہ نے ہندوستان آکر بات آگے بڑھائی توتختہ پلٹ گیا ۔ دسمبر2015 میں اڈانی پاور بنی اور فروری 2016 میں اس کا بی پی ڈ بی کے ساتھ معاہدہ ہوگیا یعنی چٹ منگنی پٹ شادی ہوگئی۔ ریلائنس گیس کا استعمال کرکے آلودگی سے پاک کارخانہ لگانا چاہتا تھا مگر اڈانی نے کوئلے کو ایندھن کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ کوئلے کی دلالی میں اس کے ہاتھ پہلے سے کالے تھے۔ کا رخانہ چونکہ ہندوستان میں منتقل ہوچکا تھا اس لیے آلودگی پر بنگلہ دیش کے اعتراض کا حق ختم ہوچکا تھا۔ ماہرین پریشان تھے کہ ہندوستان میں بجلی بناکر سیکڑوں میل دور لے جانے کی کیا تُک ہے لیکن وہ نہیں جانتے تھے اپنے وطن میں اڈانی کے لیے راہیں ہموار کرنا جس طرح ممکن تھا وہ سہولت بنگلہ دیش میں نہیں تھی اسی لیے نقل مکانی کی گئی اور پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ ذرائع ابلاغ میں یہ خبر گرم تھی کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی ایما پر بنگلہ دیش کی سرکاری بجلی کمپنی بی پئ ڈی بی کو بیچنے کے لیے ہندوستانی ریاست جھارکھنڈ کے گوڈا علاقے میں مذکورہ تھرمل پاور پلانٹ لگے گا ۔ اس پر ہونے والی تنقید کی کسی کو پرا نہیں تھی ۔

کارخانے کا کام شروع ہوا تو اس کے راستے میں رکاوٹیں بھی آنے لگیں ۔ سب سے بڑا مسئلہ کارخانے کیلئے زمین حاصل کرنے کا تھا کیونکہ جس دیہی علاقے میں وہ درکار تھی وہاں ایس پی ٹی ایکٹ نافذ ہونے کے سبب زمین کو فروخت پر پابندی تھی۔کارخانے کے لیے جھارکھنڈ کا انتخاب اسی لیے تو کیا گیا تھا تاکہ اس وقت کی بی جے پی سرکار کے اختیارات کو استعمال کیا جاسکے۔ اس نے مقامی رکن اسمبلی پردیپ یادو کی مخالفت کو دبا دیا اور قبائلی لوگوں کے احتجاج کو طاقت کا استعمال کرکے کچل دیا ۔ اڈانی کو سہولت فراہم کرنے کے لیے قوانین میں تبدیلیاں کی گئیں اور اس طرح مودی ہے تو ممکن ہے والے فارمولے سے قانونی مشکلات پر بلڈوزر چلاکر مقامی افراد کو علاقے کی بلکہ (اڈانی کی) ترقی کیلئے حکومت کے حوالے کرنے پر مجبور کردیا گیا۔. اس کارخانے کے لیے قوانین اور ضابطوں کی جس طرح دھجیاں اڑائی گئیں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

دسمبر 2016 میں وزارت توانائی نے یہ ہدایات دی تھیں کہ کوئلہ پر چلنے والے سرکاری کارخانے بیرون ملک بجلی اسی وقت دے سکیں گے جبکہ وہ مقامی ضرورت سے زیادہ ہو۔ ہندوستان میں آج بھی بجلی ضرورت سے کم ہے اس لیے اڈانی پاور کے لیے اسے باہر بھیجنے کا جواز نہیں تھامگر جب سیاں بھئے کوتوال تو ڈر کاہے کا؟ جھارکھنڈ سرکار نے 2016 میں پالیسی بدل دی اور کہا کہ کم ازکم 25% صوبے کو دی جائے مگر اڈانی کو صد فیصد بجلی بنگلہ دیش بھیجنے کی اجازت دے دی گئی ۔ ایسا کیوں ہوا اور کس کے اشارے پر کیا گیا یہ جاننے کے لیے کسی شرلاک ہومز کی ضرورت نہیں ہے؟اڈانی کو فائدہ پہنچانے کے لیے موحولیات کے ساتھ ہونے والا کھلواڑ بے مثال ہے۔ کسی کارخانے کو لگانے سے قبل وزارت ماحولیات و جنگل سے اجازت نامہ لینا پڑتاہے سو اس کے لیے بھی لیا گیااور اس میں یہ وعدہ کیا گیا کہ چیرو ندی سے پانی لیا گائے گا۔ آگے چل کر بنا بتائے اس گنگا سے پانی لیا جانے لگا جس کے بارے میں وزیر اعظم نے کہا تھا’ماں گنگا نے بلایا ہے‘۔

اس دھاندلی کے خلاف جولائی 2022 میں گرین ٹریبونل کے اندر شکایت کی گئی تو اسے منسوخ کرتے ہوئے کہا گیا چونکہ مدعی متاثرین میں سے نہیں ہے اس لیے اس کو شکایت یا اعتراض کا حق ہی نہیں ہے نیز یہ بھی کہا گیا کہ اس نے شکایت کرنے میں تاخیر کردی تیس دن کے اندر نہیں آسکا اس لیے سماعت تک نہیں ہوئی کیا کوئی اور ایسی جرأت کرکے اس مہربانی کی توقع کرسکتا ہے۔ ایسا احسان تو صرف سرکاری داماد کے لیے مختص ہوتا ہے۔2019 سے قبل اچانک اس علاقہ کو خصوصی معاشی خطہ (ایس ای زیڈ) قرار دے دیا گیا۔ اس طرح اڈانی پاور پلانٹ کسی ایس ای زیڈ میں قائم ہونے والا پہلا بجلی کارخانہ بن گیا اور اس کو ہر قسم کے ٹیکس سے نجات مل گئی۔ عام لوگوں کی کنپٹی پر پستول رکھ کر جی ایس ٹی وصول کرنا اگر دیش بھگتی ہے تو کیا یہ دیش دروہ نہیں ہے؟ یہی وہ زمانہ تھا جب اڈانی کو بیرونِ ملک سے آلات درآمد کرکے اس پر کسٹم ڈیوٹی ادا کرنی تھی ۔

اس وقت سے ا ب تک چین سرحد پر پے درپے دراندازی کیے جارہا ہے اور اڈانی گروپ اپنے کارخانے کے لیےفروری 2022 تک 95.58% آلات چین سے درآمد کرچکاہے۔ ان سب کو جی ایس ٹی، سرچارج ڈیوٹی ، امپورٹ ڈیوٹی اور سیس سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے۔ اس سے اڈانی اور ان کے آقا کا تو فائدہ ہوگیا مگرملک کے خزانے کی جیب کٹ گئی۔ اڈانی کا یہ کارخانہ آئندہ پچیس سالوں میں سات سے نو ملین ٹن کوئلہ سالانہ خرچ کرے گا اس کو ملک میں رائج کلین انرجی سیس نہیں بھرنا پڑے گا۔ اس طرح آئندہ پچیس سالوں میں اسے $39.02 فی ٹن کے حساب سے ایک بلین ڈالر کا فائدہ ہوگا نیز پانچ سال کوئی انکم ٹیکس نہیں ، پھر پانچ سال پچاس فیصد کی چھوٹ اور آگے پانچ سال برآمد کے پچاس فیصدکی وجہ سے کم ٹیکس۔

بنگلہ دیش اس معاہدے پر نظر ثانی چاہتا کیونکہ جس وقت معاہدہ ہوا تھا کارخانے پر سارے ٹیکس لاگو ہورہے تھے ۔ اسی کی بنیاد پر لاگت آنکی گئی تھی اب چونکہ ان میں چھوٹ مل گئی ہے اس لیے نرخ پر دوبارہ غور ہونا لازمی ہے۔ بی پی ڈی بی کے مطابق اس معاہدے کے تحت بنگلہ دیش کو 16% زیادہ کپے سٹی چارج اور 45% فیصد اضافی ایندھن کا نرخ ادا کرنا پڑے گا ۔ ان ٹیکسوں کی فہرست بہت طول طویل ہے جوبنگلہ دیش سے تو وصول کی جائے مگر ہندوستانی خزانے میں جانے کے بجائے اڈانی جیب میں چلی جائے گی۔سوال یہ کہ کیا اس کرم فرمائی کا کوئی حصہ انتخابی بانڈ میں تبدیل نہیں ہوگا ؟ اس معاہدے میں درج ہے کہ اگر ٹیکس کی بابت کوئی تبدیلی آئے گی تو فریق ثانی کو ایک ماہ کے اندر مطلع کیا جائے گا مگر چار سال ہوگئے اڈانی اس پر خاموش ہیں۔ کیا یہ معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہے کیونکہ ان کے سبب بجلی کی قیمت میں خاصا اضافہ ہوچکا ہے۔ بنگلہ دیش اگر کسی اور ہندوستانی کارخانے سے بجلی خریدے تو اسے اوسطاً $0.062 فی یونٹ میں مل سکتی ہے جبکہ اڈانی سےیہ ڈالر0.17 فی یونٹ پڑے گی جو دو گنا سے زیادہ ہے۔

لطف کی بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش خود21,280 میگا واٹ بجلی بنانے کی صلاحیت رکھنا اور اس کی زیادہ سے زیادہ ضرورت 13,525 میگا واٹ ہے۔ اس مطلب یہ ہے مختلف وجوہات کی بناء پر اس کا 38% فیصد استعمال نہیں ہوپارہا ہے ایسے میں بنگلہ دیش کو بجلی درکار ہی نہیں ہے اور معاہدہ ختم ہوجائے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔یہی وجہ ہے بنگلہ دیش کے اندر بجلی کارخانوں کو پچھلے سال $1.35 بلین کا خسارہ ہوا ہے۔ ایسے میں اگر اڈانی سے بنگلہ دیش بجلی خریدے تو بنگلہ کو زیادہ سے زیادہ $1.17 بلین یا کم ازکم $918.18 ملین ڈالر سالانہ اڈانی کوادا کرنے پڑیں گے۔ یہی وجہ کہ وہ لوگ نظر ثانی کی بات کرتے ہیں۔ اڈانی گروپ اس کی درخواست کے وجود کا منکر ہے جیسے مودی جی ہوگئے تھے’نہ کوئی آیا نہ آئے گا‘۔ بنگلہ دیش بجلی بورڈ نے پچھلے سال جنوری میں نرخ میں پیداوار کی قیمت کے بہانے 66% فیصد اضافہ کا مطالبہ کیا تھا جس کوبنگلہ دیش میں بجلی ریگولیٹ کرنے والے ادارے بی ای آر سی نے ٹھکرا دیا۔اس کے مطابق یہ جائزہ فالج زدہ تھا۔بی ای آر سی نے دسمبر 2022, کو 19.92% فیصد نرخ بڑھایا۔

اس معاہدے میں ادائیگی بھی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے کیونکہ بی پی ڈی پی سے بجلی خرید کر بنگلہ دیش حکومت سستے داموں پر اسے فروخت کرتی ہے ۔ اس نے پچھلی ادائیگی میں پانچ ماہ کی تاخیر کردی جبکہ اڈانی سیٹھ روزآنہ کی بنیاد سود صول کرنے کا معاہدہ کرچکے ہیں اس لیے تاخیر کی وجہ سے بجلی اور بھی مہنگی ہوجائے گی۔ ایک مسئلہ ڈالر میں ادائیگی کا بھی ہے۔ 2017 میں ایک ڈالر کے عوض 81.19 ٹکہ ملتے تھے جبکہ اب یہ بھاو 104.2 پر پہنچ چکا ہے۔ اس لیے ایک چوتھائی اضافہ تو ویسے بھی ہوچکا ہے ۔اس طرح اگلے پچیس سالوں میں بنگلہ دیش کو $23.87 بلین ڈالر اضافی دینے ہوں گے۔ بنگلہ دش جانتا ہے کہ اڈانی سے خریدی جانے والی بجلی کسی اور ہندوستانی کمپنی کی بجلی سے تین گنا اور بنگلہ دیش کی کمپنیوں سے دوگنا زیادہ مہنگی ہے۔ ایسی صورتحال میں یہ امکان بھی ہے کہ بنگلہ دیش اس معاہدے کو منسوخ کردے کیونکہ 2021 میں وہ 18 میں سے 10 پروجکٹس کو عالمی صورتحال میں تبدیلی کا بہانہ بناکر مستردکرچکا ہے۔ مودی اور اڈانی کی قربت کے پیش نظر اس معاملے میں پنگا لینا بنگلہ دیش کو مہنگا پڑسکتا ہے کیونکہ اس سے باہمی تعلقات پر اثر پڑے گا لیکن یہ حالت اس وقت تک رہے گی جب تک اڈانی کے سر پر اقتدار کا سایہ ہو گا لیکن جب یہ اٹھ جائے گا تو شیش محل دھڑام تختہ بن جائے گا۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1226186 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.