لوکیش منی کی بدتمیزی اور جمعیۃ علماء ہند کی اعلیٰ طرفی

ملک میں موجود مختلف تنظیمیں وقتاً فوقتاً گوناگوں مقاصد کے حصول کی خاطر اجلاس عام کا انعقاد کرتی ہیں ۔ اسی ضمن میں جمعیۃ علماء ہند نے بھی اپنا 34واں اجلاس عام دہلی کے رام لیلا میدان میں منعقد کیا۔ یہ سہ روزہ اجلاس تھا جس میں مولانا محمود مدنی نے 11فروری کو قوم کے نام ایک پیغام میں اپنا خطبۂ صدارت پیش فرمایا۔ یہ چالیس صفحات پر مشتمل ایک نہایت جامع دستاویز ہے جس میں موجودہ حالات میں درپیش مسائل کو نہ صرف دوٹوک انداز میں بیان کیا گیا ہے بلکہ ان کا حل بھی سجھایا گیا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ دی وائر اردو نے اس اجتماع عام کی تفصیلی رپورٹ کے ساتھ اس کو من و عن منسلک کردیا۔ کسی دین بیزار پورٹل پراجتماع کی رپورتاژ کے ساتھ خطبۂ صدارت کی موجودگی اس کی معنوعیت کا منہ بولتا ثبوت ہے لیکن افسوس کے اس کے قارئین کی تعداد بہت مختصر ہے اور وہ سوشیل میڈیا میں وائرل تو دور بحث کا موضوع بھی نہیں بن سکا۔

اس خطبے کےحوالے سے یہ بھی ہوسکتا تھا کہ اس میں درج مضمرات پر سنجیدہ گفتگو ہوتی ۔ ان میں سےبیشتر کی تائید ہوتی ۔ اختلافی امور پر دلائل بیان کیے جاتے۔ ترجیحات زیر بحث آتیں اور مسائل کے جو حل تجویز کیے گئے ہیں اس میں مزید اضافہ کرکے ان کو موثر بنانے کی سعی کی جاتی ۔ایسا کرنے کی خاطر اسے پڑھنا پڑتا، اس پر غیر جانبدارانہ انداز میں تنظیمی عصبیت کو بالائے طاق رکھ کر غور کرنالازمی ہوتا ۔ ان سرگرمیوں کے لیے نہ تو کسی کو فرصت ہے اور نہ دلچسپی کیونکہ ہم لوگ چٹپٹے تنازعات کے عادی ہوچکے ہیں۔ اس کے سوا ہمیں کچھ اچھا نہیں لگتا ۔ یہی وجہ ہے کہ محنت و مشقت کے ساتھ لکھی جانے والی ایسی تحریر شاذو نادر ہی سہی جب پیش کی جاتی ہےتو میڈیا اور عوام اس کو اسی طرح نظر انداز کردیتے ہیں ۔اجلاس کے حوالے سے عوام کو جس تنازع کی ضرورت تھی اس کوپر وسنے کا کام لوکیش منی نے کردیا اور اس کے طفیل میڈیا اور قارئین نے جمیعۃ کی کانفرنس کو ہاتھوں ہاتھ لے لیا۔ یہ پرانی بیماری ہے اور ایسی ہی صورتحال سے بد دل ہو کر اکبر الہ بادی نے کہا تھا ؎
بوٹ ڈاسن نے بنایا میں نے اِک مضموں لکھا
ملک میں مضموں نہ پھیلا اور جوتا چل گیا

حالیہ تنازع کے پیش نظراس سوال پر بھی غور ہونا چاہیے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کانفرنس کے تین دنوں کی کارروائی میں سے لوکیش منی کے تین منٹ سے کم کی بدتمیزی اور مولانا محمود مدنی کے ذریعہ پیش کی جانے والی تیس سیکنڈ کی معذرت نے اتنا بڑا وبال کیوں کھڑا کردیا؟ اس کی پہلی وجہ تو اوپر بیان ہوگئی دوسری یہ ہے کہ ایک مختصر سے سانحہ کو باقی واقعات سے الگ کردیا جاتا ہے ۔ اس کو اپنے ذہن میں پہلے سے موجود تصورات کو پیش کرنے اور تقویت پہنچانے کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ اپنا غصہ نکالنے اور تنقید و تنقیص کے لیے اسے آلۂ کار بنایا جاتا ہے اور جو نقصان کسی دشمن اسلام نے پہنچایا اس سے بڑا خسارہ دوست و احباب کردیتے ہیں ۔ اس میں ایک خود پسندی کا عنصر بھی پوشیدہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں لوگ وہی بولیں جو ہمیں سننا ہے اگر ایسا نہیں ہوتا پریشانی ہونے لگتی ہے۔ اسی لب و لہجے میں بات کریں جیسے ہم کرتے ہیں ورنہ اعتراض ہونے لگتا۔ دوسروں کی بھی وہی ترجیحات ہوں کہ جو ہماری ہیں ورنہ الزام تراشی شروع ہوجاتی ہے جو بہتان سے گالم گلوچ تک پہنچ جاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے دوسروں کی آزادیٔ فکر پرلگام لگانے والے خود کسی پابندی کے روادار نہیں ہوتے ۔ اس رویہ پر صمیمِ قلب سے غور ہونا چاہیے ۔ اس کے لیے اگرسیرت کے ان واقعات کی مدد لی جائے جن ذکر تو تحریر و تقریر میں خوب ہوتا ہے مگر انطباق نہیں کیا جاتا تو مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
پہلا سوال تو یہ ہے لوکیش منی نے بدتمیزی کیوں کی؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ اس کے دل میں مسلمانوں کے خلاف بغض و عناد بھرا ہوا ہے لیکن اگر یہ بہت زیادہ ہوتا تو وہ آنے سے انکار کرسکتا تھا ۔ اس کو نہیں پتہ تھا کہ مولانا ارشد مدنی کیا کہنے والے ہیں؟ اس کے احمقانہ ردعمل سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہے کہ سارے ہندو اس کی طرح ہیں۔ اس اجتماع میں اور بھی لوگوں نے شرکت کی اور ان میں سوامی چدانند سرسوتی مہاراج، صدر پرمارتھ نکیتن رشی کیش بھی موجود تھے ۔ انہوں نے مسائل کو مشترکہ طور سے حل کرنے کی دعوت دی- لوکیش منی تو خیر ہندو بھی نہیں جین ہے جبکہ سوامی چدانند نے ہندو ہونے کے باوجود مولانا ارشد مدنی کی نہ صرف تائید کی بلکہ تعریف بھی کی۔ ان سے صحافیوں نے لوکیش منی کے بائیکاٹ کی با بت پوچھا تو انہوں نے اس کو غلط کہا ،اس ویڈیو ملت ٹائمز پر موجود ہے۔ اس کے علاوہ دیگر ایسے ہندو اور سکھ رہنماوں کے بیانات بھی سوشیل میڈیا پر ہیں جنہوں نے لوکیش منی کی مذمت کی۔ صحافت میں دیانتداری کا تقاضہ ہے کہ دونوں کو پیش کیا جائے۔

اس مخالفت کی دوسری وجہ مسلمانوں کا جم غفیر دیکھ کر اس کے دل میں پیدا ہونے والا حسد بھی ہوسکتا ہےاور جس کا اظہار اس نے بیہودہ غصہ سے کردیا (واللہ اعلم)۔ ایسا کرکے اس نے خود اپنی بد اخلاقی کا تعارف کرایا ۔ اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس کے جواب میں اگر اس کو مجمع میں ڈھکیل دیا جاتا اور وہ ماب لنچنگ کردیتا تو اسلام کا کیسا تعارف ہوتا؟ لوگ یاد دلاتے کہ نبی کریم ﷺ کی مخالفت کے خلاف تو کبھی ایسا ردعمل نہیں سامنے آیا۔ اس لیے جس صبر و ضبط کا مظاہرہ جمیعۃ نےکیا گیا وہ قابلِ تعریف ہے۔ اس ردعمل کی تیسری وجہ مولانا ارشد مدنی کی تقریر کا لوکیش منی کی توقعات کے خلاف ہونا بھی ہوسکتا ہے۔ سوامی چدانند نے انہیں بلانے کا مقصد سماج میں خیر سگالی پیدا کرکے باہمی ہم آہنگی پیدا کرنا بتایا ۔ یہی بات اسے بھی بتائی گئی ہوگی اس لیے ممکن ہے اس کو مولانا کی باتیں موضوع سے ہٹی ہوئی محسوس ہوئی ہوں اور وہ بپھر گیا ہو؟ اس کے باوجود اگر اس میں اعلیٰ ظرفی ہوتی تو وہ اپنی باری کا انتظار کرتا اور پروقار انداز میں دلائل سے اپنا اختلاف ظاہر کرتا۔اس میں وہ ناکام رہا ہے اور اپنی بے عزتی کروا کر رخصت ہوا ۔ کسی ایک فرد کے رویہ سے یہ فیصلہ کرلینا کہ غیر مسلمین کو تین دن میں سے کسی ایک سیشن میں بھی نہ بلایا جائے مناسب نہیں ہے۔ اپنے لوگوں کو غیروں کی زبان سے اعتراض کو سننے کا موقع دینا اور پھر اس کا جواب دینے کا طریقہ بتانا بھی تربیت کا حصہ ہے۔
رسول اکرم ﷺ نے جب کوہِ صفا پر چڑھ کر فرمایا: ”مجھے بتاؤ، اگر میں تمہیں بتاؤں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے ایک لشکر آنے والا ہے۔ کیا تم مجھے سچا سمجھو گے؟“ توانہوں نے کہا: ہاں، کیونکہ ہم نے آپ کو سچا ہی پایا ہے ۔ اس گواہی کے بعد ان کو جو بات بتائی گئی وہ ان کی توقعات کے خلاف تھی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا:” میں سخت عذاب سے، جو تمہارے سامنے آ رہا ہے، تمہیں ڈراتا ہوں۔ یہ سن کر “ ابولہب بول اٹھا، (نعوذ باللہ) تم ہلاک ہو جاؤ، تم نے اس لیے ہمیں جمع کیا تھا؟ اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی: ”ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ برباد ہو گیا۔ “۔ اس کے بعد بھی دعوت و تبلیغ کا سلسلہ جاری و ساری رہا ۔ یہ واقعات تقاریر اور تحریروں میں تو بہت اچھے لگتے ہیں لیکن جب ان پر عمل کا وقت آتا ہے تو مشکل پیش آتی ہے۔ چراغِ بوالہبی سے شرارِ بوالہبی سے کشمکش تاقیامت جاری رہے گی اور ایسے مراحل بار بارآئیں گے۔اسلوبِ دعوت پرآتش کا شعر صادق آتا ہے؎
جو اعلی ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں
صراحی سرنگوں ہو کر بھرا کرتی ہے پیمانہ

مولانا محمود مدنی کی معذرت کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ انہوں نے لوکیش منی کو جو موضوع بتا کر دعوت دی تھی یہ گفتگو اس سے مختلف تھی اس لیے انہوں نے سوبارمعافی مانگ لی حالانکہ اگر وہ ایسا نہ کرکے لوکیش منی کو آئینہ دکھاتے تو بہتر تھا لیکن جو بات کسی ایک فرد کو ٹھیک لگتی ہے وہ دوسرے کو بھی لگے یہ ضروری نہیں ہے۔مولانا ارشد مدنی کا دو ٹوک انداز میں توحید کی دعوت پیش فرمانا قابلِ تحسین تھا لیکن اگر وہ اس کو ہندو عقائد و صحیفوں سے نہ جوڑتے تو اچھا تھا۔ ہندو مذہب کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں کسی بات پر اتفاق نہیں ہے۔ جینی سناتن دھرم سے بنیادی قسم کااختلاف رکھنے کے باوجود خود کو ہندو کہتے ہیں۔ ہم اگر انہیں یہ بتائیں کہ اسلام میں قرآن و حدیث کی یہ تعلیم ہے تو انہیں پریشانی نہیں ہوتی لیکن جب یہ بتایا جاتا ہے کہ تمہارے یہاں بھی یہی ہے تو وہ پریشان ہوجاتے ہیں۔ مثلاً کوئی ہم سے کہے کہ ویدوں میں یہ لکھا ہے یا گیتا یہ کہتی ہے تو اس کا ہم سے کیا لینا دینا لیکن اگر وہ اس کی کوئی ایسی بات جیسے’ ہر ذرے میں خدا ‘(کن کن میں بھگوان) کوقرآن و حدیث سے منسوب کردے تو تردید کرنا ہماری مجبوری ہوجاتی ہے۔

فی زمانہ منو کا نام مانو کم اور منو سمرتی کےخالق سے زیادہ جڑا ہوا ہے ۔ اس لیے منو کہتے ہی اس کا خیال ذہن میں آجاتا ہے ۔ منو سمرتی کے نہایت غیر انسانی ضابطۂ حیات ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور اس کا شمار غالباً ہندووں کی مقدس کتابوں میں بھی نہیں ہوتا۔ اس لیے اگر ہم قرآن و حدیث کی تعلیم پیش کرکے دعوت دیں تو ردو قبول کا امکان تو ہے مگر اس طرح کا متشدد ردعمل نہیں آئے گا اور اگر انبیائی طریقہ پر دعوت دینے کے نتیجے میں آزمائش آئے تو ہمیں اس کا اسوۂ رسول ﷺ کی سیرت کے مطابق مقابلہ کرنا چاہیے۔ اس دینی تقاضے کا تعلق ہماری فلاحِ آخرت سے ہے۔ جمیعۃ علمائے ہند کے اس اجلاس میں ملک و قوم کی مختلف تنظیموں کی شرکت ایک خوش آئند باب ہے۔ اس میں جو لائحۂ عمل پیش کیا گیا ہے اس پر حسبِ اتفاق عمل کرنا امت کی ذمہ داری ہے۔ اس دورِ پر فتن میں عصرِ حاضر کے مسائل کو زیر بحث لاکر ان کا حل پیش کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ اجلاس کے منتظمین کواجرِ عظیم سے نوازے ۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1227594 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.