بڑے میاں تو بڑے میاں، چھوٹے میاں سبحان اللہ

آرایس ایس اپنے سربراہ کو سرسنگھ چالک (یعنی ڈرائیور) اور سیکریٹری جنرل کو سرکاریہ واہک (یعنی کنڈکٹر) کہتا ہے سنگھ کی ایک پرمپرا کے مطابق اکثر چالک کے چل دینے پر واہک کو اس کی جگہ بیٹھا دیا جاتا ہے ۔ اس لیے ممکن ہے کہ موجودہ سیکریٹری دتاتریہ ہوسبلے مستقبل کے سربراہ ہوجائیں۔ جئے پور میں ان کی تازہ تقریر کا موہن بھاگوت کے انٹرویو سے موازنہ کیا جائے تو محاورہ ’بڑے میاں تو بڑے میاں ، چھوٹے میاں سبحان اللہ‘یاد آتا ہے .98 برسوں تک خاموشی سے کام کرنے کے بعد اب اسے بھی خبروں میں رہنے کاچسکہ لگ گیا ہے اور وہ متنازع بیانات دینے لگی ہے۔ جئے پور کے برلا آڈی ٹوریم میں دین دیال یادگار خطاب میں دتاتریہ ہوسبلے نے مینا کشی پورم میں قبولِ اسلام کا حوالہ دے کر کہا کہ جب تمل ناڈو میں تبدیلیٔ مذہب کے خلاف ہندو بیداری نے اعلان جنگ کیا تو اخبار نویسوں کی تنظیم کے کہنے پر خبر تک نہیں چھپی لیکن آج سنگھ چھپتا ہے تو اخبار بکتا ہے۔ اس کی وجہ سنگھ کے رہنماوں دانشمندی یا مقبولیت نہیں بلکہ متنازع بیانات ہیں جس سے اخبار بکتا ہے۔ ہوسبلے کے مطابق ملک میں سنگھ کےسیکڑوں لوگوں کا قتل ہوا لیکن کارکن ڈرے نہیں۔ سنگھ کےسب سے زیادہ کارکنان کا قتل مغربی بنگال اور کیرالہ میں ردعمل کے طور پر ہوا۔ وہ لوگ اشتراکی یا ترنمول کے لوگوں پر حملہ کرتے ہیں تو انہیں جواب ملتا ہے اور اس سیاسی لڑائی بھڑائی سے بی جے پی کو تھوڑے بہت ووٹ تو مل جاتے ہیں مگر قوم کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

دتا تریہ ہوسبلے نےفرمایا ہندوستان میں 600 سے زیادہ ذاتوں کے لوگ کہتے تھےکہ ہم الگ ہیں ۔ ہم ہندو نہیں ہیں۔ ملک دشمن طاقتوں نے انہیں اکسانے کا کام کیا تھا۔ اس پر گولوالکر نے کہا کہ وہ ہندو ہیں ۔ ان کے لیے دروازے بند نہیں ہیں کیونکہ ہم ساری دنیا کو ایک کنبہ مانتے ہیں ۔ کسی نے مجبوری میں گائے کا گوشت کھالیا ۔ کسی وجہ سے چلے گئے تو دروازہ بند نہیں کرسکتے ۔ آج بھی ان کی گھر واپسی ہوسکتی ہے۔ یہ بات اگر درست ہے تو ملک بھر میں بی جے پی کے اقتدار میں آجانے سے گائے کے نام پر ہجومی تشدد کیوں شروع ہوگیا؟ ابھی حال میں وارث نام کے ایک نوجوان کو میوات میں سنگھ کی بجرنگ دل کے غنڈوں نے کیوں شہید کردیااور بی جے پی کی سرکار نے اس قتل کو حادثہ کہہ کر رفع دفع کرنے کی کوشش کیوں کی؟ سنگھ نے اس کو کیوں نہیں روکا ؟ ہوسبلے کو معلوم ہونا چاہیے کہ دروازہ صرف آنے کے لیے نہیں جانے کی خاطر بھی ہوتا ہے۔ ان کی بات اگر درست ہے تو تبدیلیٔ مذہب کے خلاف بی جے پی والے سخت قانون کیوں بناتے ہیں؟ان کے بقول یہاں کے لوگ کوئی بھی مذہب اختیار کریں تب بھی ہندو ہی رہتے ہیں تو نام نہاد لوجہاد سے کیا پریشانی ہے کیونکہ اس کے بعد بھی لڑکی تو ہندو ہی رہتی ہے۔ اس تضاد کا سنگھ کے پاس کیا جواب ہے؟

اپنے سربراہ موہن بھاگوت کی بات کو دوہراتے ہوئے انہوں نے بھی اعلان کردیا کہ ’’ہندوستان میں رہنے والے سبھی لوگ ہندو ہیں کیونکہ ان کے آباو اجداد ہندو تھے ۔ ان کی عبادت کا طریقہ الگ ہوسکتا ہے لیکن ڈی این اے ایک ہے‘۔ یہ کمال ڈھٹائی ہے کہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر تفریق وامتیاز کرنےکے بعد سب کو ہندو کہہ دیا جائے۔ اس ملک کی اقلیتیں تو دور خود کو ہندو کہنے والے دلتوں کو اب بھی مندر میں گھسنے نہیں دیا جاتا۔ مارا پیٹا جاتا ہے۔ سوامی پرشاد موریہ کے سر کی قیمت لگائی جاتی ہے اور اکھلیش یادو جیسے ہندو کو مندر میں گھسنے سے روکنے کا اعلان خود ہندو سادھو سنت کرتے ہیں ۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ دتاتریہ ہوسبلے اگر اپنے ہی بھائی بندوں کو سمجھا نہیں پاتے کہ سب کا ڈی این اے ایک ہے تو دوسروں کو پروچن دےکر کنفیوز کرنے سے کیا حاصل؟ سنگھ والے پہلے کہتے تھے کہ ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانا ہے لیکن اب ان کا سُر بدل گیا ہئ۔ دتاتریہ ہوسبلے نے کہا بھارت ہندو راشٹر ہے۔اس کی وجہ یہ بتائی کہ اس ملک کو بنانے والے ہندو ہیں ۔

ہوسبلے کے مطابق ڈاکٹر ہیڈگیوار اس تعریف میں نہیں پڑے کہ ہندو کون ہے؟ بھارت بھومی کو پدرِ وطن ماننے والے ہندو ہیں ۔ جن کے آبا و اجداد ہندو ہیں وہ لوگ ہندو ہیں۔ جو خود کو ہندو مانے وہ ہندو ہے اور جنہیں ہم ہندو کہتے ہیں وہ ہندو ہیں ۔ یہ ہندو کی ایک ایسی احمقانہ تعریف ہے کہ جس کو سن کر ہنسی آتی ہے اور رونا بھی آتا ہے یعنی کل کو اگر یہ لوگ پوپ پال کو ہندو کہہ دیں تو وہ ہندو ہوجائیں گے۔ امام حرم بھی ان کے کہنے پر ہندو ہوجائیں گے ایسا حماقت خیز بیان چونکہ کوئی قبول نہیں کرسکتا اس ہوسبلے نے کہا سنگھ کو سمجھنے کے لیے دماغ نہیں دل چاہیے۔ ظاہر ہے ایسی جاہلانہ بات کوئی عقلمند آدمی کیسے مان سکتا ہے؟ اس لیے من کی بات سنو اور آنکھیں موند کر تسلیم کرلو ۔ ہوسبلے نے کہا دل اور دماغ بنانا ہی سنگھ کا کام ہے لیکن ایسی باتوں کو منوانے کے لیے عقل کی بتی بجھانا ضروری ہے اور وہی سنگھ کررہا ہے۔انہوں نے کہا غیر ملکی صحافی نے لکھا ہے کہ ملک میں جمہوریت قائم کرنے میں سنگھ کا اہم کردار ہے لیکن بی بی سی بھی تو غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ہے۔ اس نے فلم بناکر گجرات کا سچ پیش کیا اس پر پابندی کیوں لگائی گئی؟

خیر یہ تو چھوٹے میاں کی بڑی بڑی باتیں تھیں لیکن فی الحال بڑے میاں یعنی موہن بھاگوت ایک بڑی مصیبت میں گرفتار ہیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو روشن خیال ثابت کرنے کے لیے ایک ایسا بیان دے دیا کہ خود ہندوتوا نواز دانشور بھی ان کے خلاف ہوگئے۔ یوٹیوبر اور دائیں بازو کے قلمکار سندیپ دیو نے آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت، ‘پانچ جنیہ’ کے مدیر پرفل کیتکر اور ‘آرگنائزر’ کے مدیر ہتیش شنکر کے خلاف مبینہ طور پر ہندو جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا الزام لگا کراندور میں شکایت درج کرادی ۔اس شکایت میں بھاگوت پر ہم جنس پرستی کی حمایت میں اسے ہندو مذہبی شخصیات سے جوڑنے اور کرشن کے خلاف اشتعال انگیز تبصرہ کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) کے سابق عبوری ڈائریکٹر ایم ناگیشور راؤ نے بھی اپنے ٹوئٹر ہینڈل پراس شکایت کی ایک کاپی شیئر کردی ۔ بھاگوت نے کہا تھا کہ ہندو تہذیب نے روایتی طور پر ایل جی بی ٹی کیو + کمیونٹی کو قبول کیا ہے اور دلیل کے طور پر مہابھارت کا مندرجہ ذیل حوالہ پیش کردیا۔

’’ہنس اور دمبھک جراسندھ کے دو کمانڈر تھے ۔ وہ اتنے اچھے دوست تھے کہ جب کرشن نے یہ افواہ پھیلائی کہ دمبھک مر گیا ہے تو ہنس نے بھی خودکشی کر لی۔ کرشن نے دونوں کو ایسے ہی مار ڈالا۔ یہ و ہی چیز ہے،ان دونوں کےویسے تعلقات تھے۔ یہ انسانوں میں ایک ٹائپ ہے، یہ پہلے سے موجود ہے۔ جب سے انسان آیا ہے تب سے ہے۔ میں چونکہ جانوروں کا ڈاکٹر ہوں اس لیے جانتا ہوں کہ یہ ٹائپ جانوروں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ اپنی فطرت میں حیاتیاتی ہے ۔ اس کے مطابق انہیں ایک الگ پرائیویٹ اسپیس ملے اور پوری سوسائٹی کے ساتھ ہم بھی ہیں، ایسا ان کو لگے۔ اس کا اہتمام بغیر کسی ہنگامے کے ہم اپنی روایت میں کرتے آئے ہیں۔ ہمیں آگے اس پر غور کرنا ہو گا، کیونکہ باقی باتوں سے نہ حل نکلا ہے اور نہ نکلے گا ۔ اس لیے سنگھ ان تمام باتوں پراپنی روایات کے تجربات کو قابل اعتماد مان کر غوروفکر کرتا ہے‘‘۔

اس بیان پرسندیپ دیو کی شکایت میں کہا گیا ہے کہ ہنس اور دمبھک کو ہم جنس پرست جوڑے کے طور پر پیش کرنایا ان کاایک دوسرے کی طرف راغب ہونا حقائق کی رو سے درست نہیں ہے۔ انہوں نے اس ‘تاریخی واقعہ’ کے حقیقی ورژن کے طور پر’شری ہری ونش پران’ کا حوالہ دیا ہے۔شکایت میں کہا گیا ہے، شاستروں سے حقائق کو غلط طریقے سے پیش کرنے کی حوصلہ افزائی کبھی نہیں کی جاتی ۔ دیو نے بھاگوت پر ہندو دھرم شاستر کے حوالے سے ‘ہم جنس پرستی’ جیسے غیر فطری عمل کو جواز فراہم کرنے کا الزام لگایا ہے۔دیو کے مطابق چند پیروکاراور عوام کے ایک حصے کی حمایت حاصل کرنے کے لیے دھرم گرنتھوں سےاس طرح کی غیر مجاز اور ہتک آمیز غلط بیانی سے ان کے اور بہت سے ہندوؤں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ دیو نے آر ایس ایس کے سربراہ پر ہندو صحیفوں کی غلط تشریح پیش کرنے کا الزام لگاتےہوئے لکھا کہ ’ایسا لگتا ہے جیسے سنگھ مغرب کی نادیدہ طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے! اس معاملے پر ہندو سماج کی خاموشی کی وجہ سے مجھے قانون کا راستہ اختیار کرنا پڑا‘۔ معروف کالم نگار اور مصنفہ مدھو پورنیما کشور نے بھی سندیپ دیو کے ساتھ ویڈیو بات چیت میں بھاگوت کے بیان کی مذمت کی اور کہا، ‘بھاگوت کا بیان عیسائی مشنریوں اور مذہب تبدیل کروانے والےمافیاؤں کے زمرے میں آتا ہے۔ مجھے اس سےپریشانی ہے۔ یتی نرسمہانند نے بھی بھاگوت کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔ اس طرح سرخی میں رہنے اور خود کو روشن خیال ثابت کرنےکے چکر میں بڑے میاں بھی پھنس گئے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مسابقت میں کون کس کو مات دیتا ہے؟

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1227561 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.