میں خوف زدہ نہیں ہوں

بے گناہ اور معصوم ناظم جوکھیو کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ پاکستان میں پہلی بار نہیں ہوا۔ایک بے گناہ آدمی مارا گیا، ایک سال سے پانچ سال تک کے بچے بے سہارا ہو گئے۔ ساہیوال کا کیس بھی تو ابھی تک سب کو یاد ہے۔ یہ باتیں شاید سوچنے والی نہیں، کرنے والی نہیں، کسی سے پوچھنے والی نہیں، ناظم جوکھیو کا بااثر قاتل گرفتار ہو چکا ہے۔ ایف آئی آر درج ہو چکی ہے۔ یہ سب کچھ سوشل میڈیا نے ممکن بنایا۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ کیا ناظم شہید کو انصاف مل سکے گا؟

پاکستان کی بد قسمت مٹی پر بہت سے بے گناہوں کے خون کے قطرے گرے، قاتل گرفتار ہوئے، مقدمے درج ہوئے، عدالتیں لگیں اور پھر پیسے کے زور پر بااثر قاتلوں کی طرف سے اُن مرنے والے معصوم، مظلوم اور بے گناہ افراد کے گھر والوں کو خرید لیا گیا یا زور زبردستی، دھمکا کر خاموش کرا دیا گیا۔ اس مٹی پر ایسے بد نصیب المیوں کی داستان طویل ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی جام اویس گہرام اپنی گرفتاری بھی پیش کر چکے ہیں۔ اور پولیس نے عدالت سے اُن کا جسمانی ریمانڈ بھی لے لیا ہے۔ یہ وہ کہانی ہے جو اکثر بے گناہ افراد کے قتل کے واقعات کے بعد روٹین میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہاں سے قانون اور عدالتی نظام کا امتحان شروع ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے اور سماج میں بہت سے امیر زادے اور سیاسی پارٹیوں کے اراکین اپنی طاقت اور دولت کے نشے میں وہ کچھ کر گزرتے ہیں کہ اِن کی بے لگام طاقت کے آگے دیوار باندھنا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ ناظم جوکھیو نے سیاسی پارٹی کے رکن اسمبلی کے دوستوں کی اپنے گاؤں میں شکار کرنے کی ویڈیووائرل کی تھی۔ کیا یہ اتنا بڑا جرم تھا کہ ناظم جوکھیوکو تشدد کر کے جان سے مار دیا جاتا۔ رکن اسمبلی کے فارم ہاؤس سے ناظم جوکھیو کی لاش ملی۔ مگر پولیس نے موت کی وجہ کی تصدیق نہیں کی۔ ناظم جوکھیو نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں قتل سے قبل بتایا تھا کہ اُسے دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ اُس نے اپنے گاؤں میں کچھ افراد کو نایاب پرندوں کے شکار سے منع کیا تھاجو علاقے کے بااثر زمیندار کے مہمان تھے۔ ناظم جوکھیو نے اپنے ویڈیو بیان میں کسی شخص کا نام نہیں لیا تھا البتہ یہ ضرور کہا تھا کہ مجھے کچھ ہوا تو ذمہ دار مجھے دھمکیاں دینے والے ہوں گے۔ میں خوف زدہ نہیں ہوں۔ لیکن میرے ویڈیو بیان کو ریکارڈ میں رکھا جائے۔ مجھے جو دھمکیاں دے رہے ہیں۔میں اُن سے معافی نہیں مانگوں گا۔
یہ ہمارے سماج کا المیہ ہے کہ ہمارے ملک کے طاقتور لوگ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ سندھ کے دیہات میں بااثر زمینداروں کو لگام ڈالنے کی ضرورت ہے۔ اُنہیں یہ احساس دلانا ہوگا کہ وہ خدا نہیں ہیں بلکہ انسان ہیں اور اپنے آس پاس رہنے والے انسانوں کی طرح ہیں۔ یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بااثر لوگوں یا سیاسی پارٹی کے اراکین کو قانون شکنی کی صورت میں قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرے۔

ہمارے معاشرے میں ہمیشہ ہی ایسا ہوتا رہا ہے کہ بے گناہ اور معصوم لوگوں کے قتل کے واقعات پر قانون اُس وقت تک حرکت میں نہیں آتا جب تک سوشل میڈیا پر انصاف کی فراہمی کی تحریکیں نہ چلیں۔ کراچی کا مشہور شازیب قتل کیس، ساہیوال کا واقعہ، موٹروے زیادتی کیس، نور مقدم قتل کیس، کس کس واقعے کی مثال دی جائے۔ ایسے کیسز میں کیا کچھ نہیں ہوتا رہا۔ تحقیقات، کئی افراد پر مشتمل کمیٹیاں، تحقیقاتی ٹیمیں، آئی جی کا نوٹس وزیر اور وزرا ء اعلی کی رہائش گاہوں پر آمد، صدر اور وزیراعظم کے نوٹسز، مقتول کے اہل خانہ کے ساتھ ہمدردیاں، انصاف کی یقین دہانیاں، مقتول کے لواحقین کو تسلیاں تعزیت کے اظہار اور پھر آہستہ آہستہ سب کچھ فیڈ آؤٹ ہو جاتا ہے۔ ہمارا میڈیانئی پسوڑیوں میں پھنس جاتا ہے۔ نہایت ہائی فائی کیس سے سب کی نظریں اوجھل ہو جاتی ہیں۔ لوگ بھول جاتے ہیں کوئی شاہ زیب، نور مقدم یا ناظم جوکھیو تھا۔ تب کچھ مہینوں بعد اچانک ایک خبر نمودار ہوتی ہے شاہ زیب کے گھر والوں نے شاہ رخ جتوئی کو معاف کر دیا۔نور مقدم اور ظاہر جعفر کے گھر والوں میں صلح ہو گئی۔ ساہیوال کے واقعے میں بھی قصور وار بے قصور ٹھہرا دئیے جاتے ہیں۔

مجھے ڈر ہے کہ کہیں ناظم جوکھیو کے کیس میں بھی ایسی بد دیانتی نہ برتی جائے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ناظم جوکھیو کے قتل سے بڑا المیہ ہوگا۔ ہمارے معاشرے کے بھاگ اور مقدر ہی تاریک ہیں۔ ہم ایک حادثے سے ابھی جان نہیں چھڑا پاتے کہ ہمیں دوسرا حادثہ آن پکڑتا ہے۔ غالباً ہم سب نے حیران ہونا چھوڑ دیا ہے۔ ہمیں اب ایک داستان تمام ہونے پر حیرت نہیں ہوتی۔ بقول منیر نیازی۔
وہ بے حسی ہے مسلسل شکستِ دل منیر
کوئی بچھڑ کے چلاجائے، غم نہیں ہوتا

ناطم جوکھیو نے ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ وہ خوف زدہ نہیں ہے لیکن جس راہ میں ہم بطور قوم چل رہے ہیں مجھے اُس سے خوف آرہا ہے۔



 

Ahmed Naveed
About the Author: Ahmed Naveed Read More Articles by Ahmed Naveed: 47 Articles with 17829 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.