دفاع ِپاکستان کے تقاضے اور ہماری ذمہ داری

(ترجمان،جمعیت اہلحدیث پاکستان)

آج وطن عزیز جن حالات سے دوچار وہ انتہائی تشویش ناک ہیں۔ اندرونی اور بیرونی طور پر دشمنان پاکستان ہماری جڑیں کھوکھلی کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ایک طرف بھارت ہے جس کو چین نصیب نہیں اوردوسری جانب افغان سرحد پر استعماری قوتیں اسلامی جمہوریہ کے خلاف سازشیں کرنے میں مصروف ہیں۔ اندرونی طور پر قبائلی علاقوں میں اپنی ہی فوج اپنی ہی عوام کے خلاف برسرپیکار ہے۔ بلوچستان میں ہماری اپنی کوتاہیوں کے باعث آزادی کی تحریک دن بدن زور پکڑ رہی ہے ،روشنیوں کے شہر ،کراچی پر ”تاریکی کا راج “ہے ،جبکہ دشمن قوتیں اپنے ایجنٹوں اور ملکی غداروں کو ساتھ ملا کر ملک توڑنے کے منصوبے بنا چکی ہیں ۔ایک طرف دہشت گرد حملوں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ ہنوز جاری ہے تو دوسری طرف مہنگائی بام عروج پر پہنچ چکی ہے اور حکمران ہیں کہ اُنہیں اقتدار کے مزے لوٹنے سے ہی فرصت نہیں ہے۔امریکہ بہادر پاکستان کے اندر تک گھس آیا ہے، بدنام زمانہ ”بلیک واٹر “ امریکی سفارتخانے کی زیر سرپرستی مصروف ہے۔ پاکستان کی سالمیت کا ضامن ایٹمی پروگرام خطرات میں گھرتا جا رہا ہے اور ہم سوئے ہوئے ہیں۔اِن حالات میں پاکستان کی داخلی اور خارجی صورت حال کسی طور امید افزا اور بہتر قرار نہیں دی جاسکتی۔ داخلی طور پر انتشار اور سیاسی ابتری کا ایک سلسلہ مستقل چل رہا ہے اور ماضی قریب میں رونما ہونے والی کچھ مثبت تبدیلیاں (عدلیہ کی بیداری، وکلا تحریک، الیکشن وغیرہ) برسوں کے آزمودہ، کرپٹ اور نااہل سیاستدانوں کے ہاتھوں یرغمال بننے کے بعد قریب قریب حالت نزاع میں ہیں۔ کمزور مرکزی حکومت اور مورال کی بدترین سطح پر پہنچی ہوئی افواج کی وجہ سے پاکستان بقول مغربی میڈیا (درحقیقت) عالمی دہشت گردوں کے لیے “محفوظ پناہ گاہ“ یا “سیف ہیون“ بنا ہوا ہے ۔قوموں اورملکوں کی تاریخ میں کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جو عام ایام کے برعکس بڑی قربانی مانگتے ہیں۔یہ دن فرزندان وطن سے حفاظت وطن کے لئے تن من دھن کی قربانی کا تقاضا کرتے ہیں، ماؤں سے ان کے جگر گوشے اور بوڑھے باپوں سے ان کی زندگی کا آخری سہارا قربان کرنے کامطالبہ کرتے ہیں۔قربانی کی لازوال داستانیں رقم ہوتی ہیں، سروں پر کفن باندھ کر سرفروشان وطن رزم گاہ حق و باطل کا رخ کرتے ہیں ،آزادی کو اپنی جان و مال پر ترجیح دے کر دیوانہ وار لڑتے ہیں، کچھ جام شہادت نوش کر کے امر ہو جاتے ہیں اور کچھ غازی بن کر سرخرو ہوتے ہیں۔ تب جا کر کہیں وطن اپنی آزادی، وقار اور علیحدہ تشخص برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔آج کے حالات بھی ہم سے کچھ اِ سی قسم کی قربانیوں کا تقاضا کر رہے ہیں۔آج ہم بھی یوم دفاع منا رہے ہیں، ہر سال کی طرح آج بھی وطن عزیز کے لئے دعائیں ہوں گی، سرکاری اور نجی سطح پر تقاریب کا اہتمام ہوتا ہے، افواج پاکستان پریڈ پیش کرتی ہیں ، توپوں کی سلامی سے شہداءکو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ دفاع وطن کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کے دعوے کئے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔اور پھر شام ہو جاتی ہے ، جب صبح سو کر اٹھتے ہیں تو سب کچھ بھول جاتا ہے، ایک دن قبل کئے گئے وعدے اور دعوے بھول جاتے ہیں۔ پھر وہی کاروبار زندگی، وہی سیاست کی سیاہ کاریاں، وہی دولت کی ہوس، وہی اقتدار کی جنگ، وہی کاسہ لیسی ، وہی غیروں کی غلامی، وہی ازلی دشمنوںسے دوستی کی پینگیں۔۔۔ نیز ہر وہ کام جو دفاع وطن کے فلسفے کے خلاف اور جو شہداءکے مقدس خون سے غداری کے مترادف ہو، حب الوطنی کے لبادے میں کیا جاتا ہے۔

آج کے دن ہم سب کو سوچنا چاہیئے کہ کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ کیا بحیثیت ریاست ہم اتنے آزاد ہیں کہ اپنی خارجہ پالیسی خود بنا سکیں؟ کیا ہماری پارلیمنٹ اتنی آزاد ہے کہ وہ قیامِ پاکستان کے مقاصد کے عین مطابق قانون سازی کرسکے؟کیا ہماری افواج اتنی آزاد اور خود مختار ہیں کہ وہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کرسکیں؟ سرحدوں کا دفاع تو دور کی بات ہے کیا وہ ملکی حدود میں گھس کر شہریوں کو قتل کرنے والے ڈرون طیاروں کو تباہ کرسکے؟؟؟آج نہ تو ہمیں14 اگست 1947ءکو جب ارضِ وطن آزاد ہوا تھا اس وقت کا جذبہ کہیں نظر آتاہے اور نہ ہی 6ستمبر1965کا وہ جوش ،جس نے رنگ ونسل کا فرق ختم کرتے ہوئے ہم کو متحد کر دیا تھا،لیکن آج وہ جذبہ مفقود ہے، کیونکہ ہم نے اللہ کی رسی کو چھوڑ دیا ہے۔آج ہم صوبائیت، لسانیت اور قومیت کے علم بردار بن گئے ہیں۔ایک الگ خطہ زمین جاگیر داروں،وڈیروں،جرنیلوں اور لٹیروں کے لئے نہیں، اسلام کے مطابق قانون سازی کرنے اور اسلامی قوانین کا نفاذ کرنے کے لئے حاصل کیا گیا تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اسلامیہ کالج پشاور میں قیامِ پاکستان کے پانچ ماہ بعدایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ۔۔۔۔۔ ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلا م کے اصولوں کو آزما سکیں۔(13جنوری1948ء)جبکہ قیام پاکستان سے چند سال قبل بانی ءپاکستان نے فرمایا تھاکہ: وہ کونسا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں؟ وہ کونسی چٹان ہے جس پر اس امت کی عمارت استوار ہے؟وہ کونسا لنگر ہے جس سے اس امت کی کشتی محفوظ کردی گئی؟ وہ رشتہ، وہ چٹان، وہ لنگر اللہ کی کتاب قرآن مجید ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے ہم میں زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔کیونکہ ہمارا ایک خدا، ایک رسول اورایک کتاب ہے،اِسی لئے ہم ایک امت ہیں ( اجلاس مسلم لیگ، کراچی: 1943ئ)اللہ رب العزت قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ ” اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔۔لیکن بدقسمتی سے آج ہم نے اللہ کی اس رسی کو چھوڑ کر صوبائیت، قومیت، لسانیت اور فرقہ واریت کے علم تھام لیئے ہیں۔ آج ہم تفرقے میں پڑ چکے ہیں۔ آج ہم مہاجر، سندھی، بلوچ، پٹھان، سرائیکی اور مختلف مسالک میں بٹے ہوئے ہیں۔ اسی لئے ایک دوسرے کا گلا کاٹا جارہا ہے، ٹارگٹ کلنگ ہورہی ہے، املاک جلائی جارہی ہیں، ہڑتالیں کی جارہی ہیں۔اسی وجہ سے مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی ہے کیوں کہ جب امت کا تصور ختم ہوجائے تو پھر صوبائیت، لسانیت اورفرقہ واریت ہی پروان نہیںچڑھتی بلکہ فرد صرف نفس کا بندہ بن جاتا ہے اور اپنے مفادات کو ہی دیکھتا ہے۔ غور کیجئے کہ کیا آج ہمارے معاشرے میں یہی صورتحال نہیں ہے؟افسوس کہ ہم نے اللہاور اُس کے رسول ﷺکے پیغام کو بھلادیا، آقائے نامدار ﷺکے فرمودات کو پس ِپشت ڈال دیا اور اب یہ صورتحال ہے کہ دشمن ہمارا گھیرا تنگ کر رہا ہے ،فرقہ پرستی و قوم پرستی کو ابھار رہا ہے۔ ہماری سرحدیں غیر محفوظ ہیں، ہماری شہہ رگ کشمیر ابھی تک دشمن کے پنجہ استبداد میں ہے اور ہم ابھی مستیوں میں مست ہیں، ہمارا نوجوان انڈین گانوں اور فلموں کے سحر میں مبتلا ہے، انٹرنیٹ اور sms میں الجھا ہوا ہے۔ ارباب اختیار محض اپنے اقتدار کو طول دینے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔ ملک کے طول وعرض میں بےگناہ انسانوں کاخون بہایا جارہا ہے،بوری بند لاشوں کا سلسلہ بھی جاری ہے اور روشنیوں کے شہر کو تو دہشت گردوں نے باقاعدہ یرغمال بنا رکھا ہے لیکن کسی کو کوئی فکر نہیں ہے ،ہر طرف خوف و ہراس اور مایوسی کا عالم ہے۔بانی پاکستان نے قیامِ پاکستان کے بعد اپنی تقاریر میں جو کچھ اِرشاد فرمایا ہماری سیاسی قیادت نے اُسے بھی یکسر فراموش کر دیا ہے ۔صوبائیت ،لسانیت اور قومیت کا زہر قوم کی رگوں میں پھیلانے والی ہماری سیاسی قیادت کیا بانی ءپاکستان کی اِن تقاریر کو بھول چکی ہے جس میں اُنہوں نے فرمایا تھا کہ ۔۔۔ میں صاف طریق پر آپ کو ان خطرات سے آگاہ کردینا چاہتا ہوں جو پاکستان کو اور خصوصاً آپ کے صوبے کو اب تک لاحق ہیں۔ پاکستان کے قیام کو روکنے کی کوشش میں ناکامی کے بعد اپنی شکست سے پریشان ہوکر دشمن اب مسلمانوں میں پھوٹ ڈال کر اس مملکت میں انتشار پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ان کوششوں نے اب صوبہ پرستی کو ہوا دینے کی صورت اختیار کی ہے۔ جب تک آپ اپنی ملکی سیاست سے اس زہرکو نکال پھینک نہیں دیں گے اس وقت تک آپ خود کو ایک حقیقی قوم میں نہیں ڈھال سکتے اور نہ ویسا جوش اور ولولہ پید اکرسکتے ہیں۔ آپ کو چاہئے کہ بنگالی، سندھی، بلوچ، پٹھان وغیرہ کی باتیں نہ کریں۔آپ سب ایک قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔(31مارچ 1948ءڈھاکہ)
ایک اور موقع پر پشاور میں خطاب کرتے ہوئے اُنہوں نے فرمایا۔۔۔۔

یاد رکھئے ہم ایک ایسی مملکت کی تعمیر کررہے ہیں جو پوری اسلامی دنیا کی تقدیر بدل دینے میں ایک اہم ترین کردار ادا کرنے والی ہے اس لئے ہمیں وسیع تر اور بلند تر بصیرت کی ضرورت ہے۔ ایسی بصیرت جو صوبائیت، قوم پرستی اور نسل پرستی کی حدود سے ماوراءہو۔ ہم سب میں حب الوطنی کا شدید اور قومی جذبہ پید اہوجانا چاہئے جو ہم سب کو ایک متحد اور مضبوط قوم کے رشتے میں جکڑ دے۔ یہ واحد طریقہ ہے اپنی منزل پر پہنچنے کا، اپنی جدوجہد کا نصب العین حاصل کرنے کا، وہ مقصد عظیم جس کی خاطر لاکھوں مسلمانوں نے اپنا سب کچھ لٹادیا ہے اور اپنی جانیں تک قربان کردی ہیں۔(12اپریل 1948ءاسلامیہ کالج پشاور)

بلوچستان کے غیور عوام سے خطاب کے یہ چند الفاظ بھی کیا ہماری یاداشت کا حصہ نہیں؟؟؟

بلوچستان آزاد اور بہادر انسانوں کی سرزمین ہے اس لئے آپ کی نظروں میں قومی آزادی، عزت اور طاقت کے الفاظ خاص قدروقیمت رکھتے ہیں۔ یہ ”ملکی “ اور ”غیر ملکی “ کی باتیں نہ ملک کے لئے مفید ہیں نہ آپ کے شایانِ شان ہیں۔ اب تو ہم سب پاکستانی ہیں۔ ہم نہ بلوچی ہیں نہ پٹھان ہیں نہ سندھی ہیں نہ بنگالی نہ پنجابی۔ (15جون 1948ءکوئٹہ) قائدِ اعظم محمد علی جناح کے یہ الفاظ اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ جو سیاسی جماعتیں اور گروہ لِسانی اور نسلی عصبیت پھیلا کر اپنی سیاست چمکا رہی ہیں عوام ان کو یکسر مسترد کر دیں اور قران وسنت کا دامن تھام کر ایک قوم ہی نہیں بلکہ ایک اُمت ہونے کا ثبوت دیں اور دوسری بات بھی یاد رکھیں کہ جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا نے میں مصروف تھا اور واقعی ہر دور کے نیرو کے پاس اپنی اپنی بانسری ہوتی ہے اور بانسری کا یہ شغل انہیں جلتے درو دیوار کب دیکھنے دیتا ہے ،یہ نیرو اپنی دلچسپیوں کی بانسری کے سروں میں ایسے منہمک ہیں کہ بڑے سے بڑا سانحہ بھی انہیں خواب غفلت سے چونکانے میں ناکام رہتا ہے۔ ہماری” خود پسند زردار اور شریف قیادتیں“ عوامی احساسات اور امنگوں سے کوسوں فاصلے پر ہیں، نہ یہ اجتماعی غموں کو محسوس کرتی ہیں نہ ان غموں کے مداوے کی کوشش کرتی نظر آتی ہیں۔یومِ دفاع کے موقع پر بھی پورا معاشرہ ظلم کاشکا ر ہے ،مہنگائی ،بے روزگاری ،لوٹ کھسوٹ ،دہشت گردی،تخریب کاری ،بربریت ،ٹارگٹ کلنگ ،بم دھماکوں ،خود کش حملوں اور اِقتدار کی ہوس نے پوری پاکستانی عوام کو ذہنی مریض بنا دیا ہے ۔کیا یہ بات درست نہیں ہے کہ ہم من حیث القوم روز حادثوں کو سانحوں میں بدلتا دیکھ رہے ہیں اوراِنہیں بدکردار لوگوں اور حکومت سے توقعات وابستہ کر کے مطمئن نہیں ہوجاتے ؟؟؟ضرورت اِ س اَمر کی ہے کہ معاشرے کے تمام عناصر فعال ہو کر آگے بڑھیں اور اپنی ذمہ داری ادا کریں اور اس ظلم کے خلاف ایک منظم تحریک بپا کریں کیونکہ آج ہماری اجتماعی ذمہ داری دو چند ہو جاتی ہے۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم خیر کی قوتوں کو مجتمع کرنے پر اپنی ساری صلاحیتیں لگا دیں ،کیونکہ ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ اللہ کے عذاب جب آتے ہیں توافراد پر نہیں قوموں پر آتے ہیں ۔ہماری عافیت اس میں ہے کہ ہم اپنی حجت تمام کر کے اپنے رب کے حضور سر خرو ہو کر پیش ہوں کیونکہ وقت کی ریت مٹھی سے نکلتی جا رہی ہے ہمارا مستقبل داؤ پر لگ چکا ہے وقت جس جدوجہد کا متقاضی ہے اگر ہم نے اسکا حق ادا نہ کیا تو آئندہ نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔
khalid shahzad farooqi
About the Author: khalid shahzad farooqi Read More Articles by khalid shahzad farooqi: 44 Articles with 45245 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.