سپورٹس کمپلیکس کی تعمیر نو، غیر معیاری کام ؒ اور نیشنل گیمز

مسرت اللہ جان



صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے زیر انتظام پشاور سپورٹس کمپلیکس میں واقع فٹ بال گراؤنڈ اور اتھلیٹکس ٹارٹن ٹریک سمیت شائقین کیلئے بنائے گئے سٹیڈیم کی دوبارہ تعمیر نو کا کام تقریبا شروع ہوگیا ہے اور ابتدائی مرحلے میں شائقین کے لئے بیٹھنے کی جگہوں یعنی سٹیپ کو چوڑا کیا گیا تاکہ لوگ آرام سے بیٹھ بھی سکیں اور اس کے آگے بھی خالی جگہ ہو اس ابتدائی مرحلے میں تعمیراتی کام میں کس نوعیت کی اینٹیں استعمال کی گئی اور کتنے ٹوٹی پھوٹی اینٹیں لگائی گئی اس کی تصاویر وائرل بھی ہوگئی جس پر نوٹس لیا گیا مگر اتنا نوٹس لیا گیا کہ صرف ایک طرف سے ٹوٹی پھوٹی اینٹیں نکال دی گئی اور دوسری طرف پر خاموشی چھا گئی جبکہ ٹھیکیدار نے سیمنٹ کا مصالحہ دیکر فوری طور پر انہیں بند بھی کردیا تاکہ مزید تصاویر سامنے نہ آسکیں.



راقم کو سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ایک " وڈے افسر" جو ایک اہم ونگ کے رکن ہیں نے یہ کہہ کر دبانے کی کوشش کی کہ محکمے کے صاحب آپ سے بڑے ناراض ہیں. البتہ شکر گزار ہیں لیکن ساتھ میں انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ناراض کیوں ہیں اور شکر گزار کیوں ہیں. یہ ابتدائی مرحلے کا قصہ ہے. کم و بیش چوالیس کروڑ روپے اس ڈائریکٹریٹ کے ٹارٹن ٹریک پر لگنے ہیں پہلے مرحلے میں بننے والے پی سی ون میں یہ رقم کم و بیش اڑتیس کروڑ روپے تھی جو بعد ازاں چوالیس کروڑ روپے ہوگئی او ر اب واقفان حال بتاتے ہیں کہ چھیاسٹھ کروڑ روپے کی لاگت اس سٹیڈیم کی تعمیر نو کیلئے مختص کی گئی ہیں.البتہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا تعمیرات کے حوالے سے ایک ونگ ہے جو اس معاملے میں خاموش ہیں شائد انہیں " اوپر" سے احکامات ملے ہیں یا پھر انہیں نوکری پیاری ہوگی یا پھر " قائد اعظم " نے انہیں آنکھیں بند کرنے پر مجبور کیا ہوگا. کیونکہ ایک صاحب کے بقول یہ سی اینڈ ڈبلیو کا پراجیکٹ ہے اور اس میں وہ کسی کی مداخلت برداشت نہیں کرتے.



اس سٹیڈیم پر لگنے والی بیشتر رقم اس صوبے کے بھوکی ننگی عوام کے پیسے ہیں اور اس سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں پی ایم ایس افسران سے لیکر کلاس فور تک سب انہیں بھوکی ننگی عوام کے ٹیکسوں سے پیسوں سے پل رہے ہیں کیونکہ تنخواہیں انہیں عوام کا خون چوس کر دی جارہی ہیں لیکن اس منصوبے کے ابتدائی مرحلے کی تعمیر نو سے اندازہ ہورہا ہے کہ آگے بھی بہت کچھ ہوگا. ویسے بھی کنسٹرکشن کا کام انہی اداروں کو دیا جاتا ہے جن کے کام معیاری ہونے کی تصدیق پہلے ہو چکی ہو یا پھر کنٹریکٹر کے سابقہ منصوبوں کو دیکھ کر ادارے پراجیکٹ ان کے حوالے کرتے ہیں.شائد سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی اس حوالے سے اپنی کوئی انوکھی پالیسی ہوگی لیکن بھوکی ننگی عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونیوالی آمدنی کو اس طرح کے منصوبوں پر دینے سے قبل کیا ذمہ دار افراد نے ان تمام منصوبے چیک کئے ہیں جو اس سے قبل ان لوگوں نے مکمل کروائے ہیں.صرف سی اینڈ ڈبلیو کے کاغذات میں " اوکے"ہونا یا پھر " سوات اور مردان" کے بڑے لوگوں کے کاغذات میں اوکے ہونے سے کچھ نہیں ہوتا.



پشاور سپورٹس کمپلیکس جس میں اس وقت ٹیگ بال، آرچری، فٹ بال، اتھلیٹکس، جیولن،ڈسکس تھرو،لانگ جمپ سے لیکر واک کیلئے آنیوالے افراد کی بڑی تعداد روزانہ کی بنیاد پر موجود ہوتی ہیں اگر اٹھارہ ماہ اس طرح لگاتار کام کرکے پورا کرے جس طرح پشاور سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ہاکی گراؤنڈ کو جنوری میں کھود کر مئی میں مکمل کیا جانا تھا اور ابھی دسمبر 2022 میں اسے مکمل کیا گیا جو کم و بیش پانچ ماہ سے بارہ ماہ تک پہنچ گیا تو یقینا اٹھارہ ماہ کی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی دوبارہ تعمیر نو کا یہ منصوبہ بھی انشاء اللہ چار سال تک پہنچ جائے گا. اور بقول کھیلوں سے وابستہ ایک اہم شخصیت کے گراؤنڈ تو بن جائیگا لیکن کھلاڑی کہاں سے آئیں گے اس پر ابھی تک کوئی سوچ ہی نہیں رہا.



پشاور سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں ری کنسٹرکشن کا یہ کام ایسے وقت میں شروع کیا جارہا ہے جب مئی میں نیشنل گیمز کوئٹہ میں ہونے ہیں جس کیلئے صوبے کی ٹیمیں بھی جائیں گی اور خیبر پختونخواہ کی ٹیمیں بھی نیشنل گیمز میں حصہ لینگی ایسے میں اگر سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا یہ گراؤنڈ جس میں بیک وقت فٹ بال، ٹیگ بال، آرچری اور اتھلیٹکس کے مختلف کھیل ہوتے ہیں اگر نہیں ہونگے تو پھر کھلاڑی کہاں پر کھیلیں گے یہ اس ڈائریکٹریٹ کے وزیر کھیل، سیکرٹری سمیت ڈائریکٹریٹ سے وابستہ ہر ملازم اور کھیلوں کے مختلف ایسوسی ایشنز کو ابھی سے سوچنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر میدان نہیں ہوگا تو پھر ان کھیلوں کے کھلاڑی کہاں پر کھیلیں گے اور اگرپریکٹس نہیں کرینگے تو پھر نیشنل گیمز سمیت کس طرح مقابلوں میں حصہ لیکر صوبے کا نام " روشن کرینگے".یہ وہ بنیادی سوال ہیں کیونکہ نیشنل گیمز بلوچستان میں ہورہے ہیں اگر خدانخواستہ وہاں پر نہ ہوں اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے حوالے کئے جائیں تو پھر صوبائی محکمہ اس معاملے میں کیا کرے گا اور اگر بلوچستان میں بھی ہوں تو چار ماہ میں ان کے پاس کونسا آپشن یا جگہ ہیں جہاں پر آرچری، اتھلیٹکس، فٹ بال، ٹیگ بال کے کھلاڑی پریکٹس کرینگے تاکہ ان کی بھرپور تیار ی ہوں اور وہ صوبے کا نام روشن کرسکیں.



ساتھ میں چلتے چلتے اس بات کی بھی یقین دہانی ضروری ہے کہ اگر تعمیرنو کا کام صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کر بھی رہی ہے تو جو کام ہوگا وہ معیاری اوراس لیول کا ہوگا جس کے دعوے بڑے دھڑلے سے سپورٹس کے وزیر کرتے آرہے ہیں کہ ہم نے پچاس ارب کے منصوبے شروع کردئیے ہیں اور ہم نے گراؤنڈز کے جال بچھا دئیے ہیں ویسے جو گراؤنڈز بنے ہیں ان کا معیار کسی نے چیک بھی کیا ہے یا نہیں.مثال کے طور پر اسلامیہ کالج کے آسٹروٹرف سے لیکر ڈی آئی خان، نوشہرہ، سوات کے ہاکی ٹرف سمیت حیات آباد سپورٹس کمپلیکس، کوہاٹ سمیت کھیلوں کے ایک ہزار سہولیات منصوبے میں بننے والے بہت ساری منصوبے جس کی تختیاں تو بہت خوبصورت ہیں لیکن... اندر خیر خیریت ہی ہے.اور حکومت جانے کے بعد جب تحقیقات کرنے والے ادارے جو ابھی سوئے پڑے ہیں فائلیں بناکر انکوائریاں کروائیں گے تو پھر اسے سیاسی انتقام کہا جائیگا حالانکہ جس طرح اندھا ریوڑیاں بانٹے اندھوں میں، والی صورتحال اس ڈائریکٹریٹ میں چل رہی ہیں تو الامان الحفیظ



Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 422121 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More