اس ملک پاکستان کا قصور وار کون ہے

اس وقت ملک اور سندھ کی موجودہ صورتحال اور بلدیاتی اور قومی اور صوبائی الیکشن سے پہلے اسٹیبلیشمنٹ کی جانب سے متحدہ کے تینوں دھڑوں کو یکجا کرکے انہیں ایک پلیٹ فارم پر لیکر اسٹیبلشمنٹ ایسا کر کے کراچی کو قابو میں کرنا چاہتی ہے. کیوں کہ پیپلز پارٹی اندرون سندھ میں مضبوط ہے اور ایم کیو ایم کے دھڑوں میں تقسیم ہونے کا فائدہ پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی نے کراچی میں اُٹھایا ہے اب بھی متحدہ کے کمزور ہونے کے بعد توقع ہے کہ وہ کراچی میں بھی مضبوط ہونے کے لیے اپنے ہاتھ پیر ماررہی ہے، دوسرے طرف پی ٹی آئی پورے ملک میں جس طرح اسٹیبلیشمنٹ ، پی ڈی ایم اور دبے لفظوں امریکہ ان تینوں کے خلاف اپنی مہم جو چلا رہی ہے یہ اس سے ایسا لگتا ہے کہ یہ ساتھ ساتھ اپنی انتخابی مہم بھی چلارہی ہے اس ہی چیز کو مدنظر دیکھتے ہوئے کراچی میں اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ یہ دونوں سیاسی جماعتیں کراچی میں کوئی موثر پوزیشن حاصل نہ کر سکیں، تو اس کے لیے کامران ٹیسوری کو اس ہی مقصد کے لیے سندھ میں گورنر لایا گیا کہ یہ متحدہ پاکستان، پاک سر زمین پارٹی اور فاروق ستار کی بحالی موومنٹ کو بھی ایک پلیٹ فارم پر لانا اس چیز کی ایک کڑی ہے اس ہی طرح مہاجر قومی موومنٹ کے آفاق احمد کو بھی جوڑ توڑ میں دوستوں اور قریبی ساتھیوں کے زریعے پیغام پہنچائے جارہے ہیں. پاکستانی کی 75 سالہ محیط دورانیے اقتدار سیاست میں یہ کوئی نئی اچھنبے کی بات نہیں ہے کہ کوئی سیاسی یا مذہبی رہنما یا جماعت اسٹیبلشمنٹ کے اثرات سے باہر رہی ہو اس کی اہم وجہ پاکستان کی اکثریت سیاسی، مذہبی اور لسانی جماعتیں وراثتی نسلوں کے گرد گھومتی ہیں اور ان کے اکثریت رہنما سمجھتے ہیں کہ آگے بڑھنے کا یہی ایک بہترین اور بغیر سیاسی جدوجہد کے آسان طریقہ ہے جبکہ سیاست دان کبھی اتنے لاچار نہیں ہوتے جو اپنی سیاسی جدوجہد سے مرکز کی سیاست اور صوبہ کی سیاست میں پہنچے ہوں.

بے نظیر بھٹو شہید، آصف علی زرداری ، عمران خان، نواز شریف، شہباز شریف، خالد مقبول صدیقی، مولانا فضل الرحمن , اسفندر یار ولی یا سابق سیاستدان الطاف حسین ان کو عوام لاچار نہیں کہہ سکتے ان کے زہنوں میں ان کے نااہل مشیروں اور ناتجربہ کاروں وزیروں کی دانستہ سوچ نے ان کو بھی اس ہی لائین پر لگادیا کہ اسی کے سہارے سے ہم اقتدار کے ایوانوں میں آگے بڑھ سکتے اور جو منزل ہے اُس پر پہنچ سکتے ہیں اور یہ ہی افراد رات کی تاریکی میں گاڑیوں کی ڈگیوں میں ، دبی کے فائیو اسٹار ہوٹلوں کی راہداریوں میں ، لندن کے ایوان فیلڈ میں ، سعودیہ کے شاہی محلات میں یا قطر کے صحراء کے خیموں نما آرام گاہ میں ان سے ملتے بھی ہیں علیک سلیک و ظہرانہ و رات کا طعام بھی تناول بھی کرتے ہیں اور انکی مدد بھی لیتے ہیں۔ ہمیشہ ایسا ہوتا رہا ہے اور ہورہا ہے اور یہ پاکستانی سیاست دانوں کی ایک تلخ حقیقت تاریخ سے بھری ہوئی ہے. اس کی خاص وجہ ہمارے ملک کی سیاسی جماعتوں میں نظم وضبط نہ ہونے کا ہمیشہ سے فقدان رہا ہے ان کے سیاسی کارکنان کو یہ معلومات ہی نہیں پہنچائی جاتی کہ ان کے ارکان کون ہیں سیاسی جماعتوں میں موریثیت ہونے کی وجہ سے عوام کو جماعت میں وہ پذیرائی نہیں ملتی جس کا ایک جمہوری کلچر اور جمہوری معاشرے میں بے حد ضروری سمجھا جاتا ہے اس ہی وجہ سے اس کا فائدہ اسٹیبلشمنٹ اٹھاتی ہے اور آج تک اُٹھارہی ہے.

ملک کے 75 سالہ دور حکومت میں نصف سے زائد عرصہ آمریت کی چھتری میں گزرا لیکن جب جمہوری ادوار میں اسٹیبلشمنٹ کا اثر تو ہوا کہیں نہ کہیں سیاست دان بھی اپنا وہ کام نہ کرسکے جس سے اقتدار میں پہنچے اس میں کہنے میں کوئی آر نہیں سیاست دان بھی ناکام ہوئے. جبکہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت اس کے برعکس پاکستان پر سیکورٹی صورتحال دباؤ میں رہی جب تلک ملک میں بیرونی اور اندرونی سیکورتی دباؤ رہیں گئے تب تلک ہمارے ملک میں اسٹیبلیشمینٹ کا پلڑا بھاری رہیگا

اس کی وجہ کچھ ملک اپنی جنگ پاکستان کے اندر پراکسی وار لڑنا چاہتے ہیں کہ یہ شدت پسندی ان کے ملکوں میں نہ پہنچ جائے جس کی وجہ سے ملکی حکمران سیاسی جماعت کھل کر کوئی فیصلہ نہیں کرپاتی انہیں ہر صورت میں اسٹیبلیشمنٹ کا مرہون منت رہنا پڑتا ہے جس سے ان کی ملک سے باہر اور ملک میں ایک دہاک بیٹھ جاتی ہے کہ یہ ہی فیصلہ کرنے میں اپنا اختیار رکھتی ہے اور سیاسی حکمرانوں میں ان کی دھاک بیٹھ جاتی ہے اس طرح سے اسٹیبلیشمنٹ کا کردار ہر سیاسی فیصلوں پر اثرانداز ہوتا ہے.

اکثر جب ملک میں کوئی ناگہانی آفت نمودار ہو تو سویلین کی مدد کے لیے اسٹیبلیشمنٹ اپنے فوجی جوانوں کو زلزلہ ، سیلاب ، ایک حکم کے زریعے روانہ کردیتی ہے کیونکہ سیاسی حکمرانوں نے سوائے ایک دوسرے سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کی ٹانگیں کھیچنے کہ علاوہ کچھ کام کیا ہو تو آج پاکستان کی صورتحال یہ نہ ہوتی جو آج کل عوام کو نظر آرہا ہے تاہم جب بہت سے سول ادارے امور مثلاً انتخابات، سیلاب ، زلزلوں ، مردم شماری اور دیگر بڑے کاموں میں جب سول حکمران اسٹیبلیشمنٹ کی طرف دیکھیں تو اس سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اس ملک کے ان حکمرانوں نے اپنے دوران حکمرانی میں ان اداروں پر کبھی توجہ نہیں دی جس کا فائدہ ظاہر سی بات ہے اسٹیبلیشمنٹ کو ہوتا اور جب یہ ہی جوان عام عوام کے ساتھ مل کر اُن کی بحالی میں قدم ملاکر کام کرتے ہیں جس سے ان کی عوام میں بہت پزیرائی ملتی ہے اور سیاسی حکمران میدان سے راہ فرار اختیار کرلیتے ہیں جیسے حالیہ سیلاب میں سندھ، بلوچستان، پشاور اور جنوبی پنجاب میں سول انتیظامیہ اور قومی اور صوبائی وزیر و ممبران اسمبلی بری طرح عوام میں ناکام رہے جس سے عوام میں ایک بار پھر جوانوں کو پھول نچھاور کیے گئے اور عوام ان کو ہی اپنا نجات دہندہ سمجھنے لگے.

دنیا کہ قرعہ ارض پر ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ اسٹیبلیشمنٹ نے سیاست میں آ کر رضا کارانہ طور پر سیاست چھوڑی ہو. سیاسی امور پر اگر نظر دوڑایں تو اس سے یہ ہی نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے اثر کی وجہ نہ صرف سیاست دانوں کی بیوقوفانہ طرز حکمرانی بنی ہیں بلکہ ابتدا سے ہی ہمارے قابل سیاستدانوں کو ان ہی کی سیاسی جماعتوں کے جاگیردانہ سوچ رکھنے والوں نے ایک طرف بیٹھا دیا یا ان کو جماعت سے دربدر کردیا مثلا حسن شہید سہروردی کے ساتھ ان ہی کی جماعت مسلم لیگ کی جاگیردانہ سوچ رکھنے والوں نے جماعت سے تو باہر نکالا ہی ملک میں بھی داخلے پر پابندی لگوائی آخر کار وہ ڈھاکہ پہنچے اور اپنی نئی جماعت عوامی لیگ کی بنیاد رکھی جس کی قیادت بعد میں مجیب کو ملی جس نے بنگلہ دیش کے نام سے ملک حاصل کیا اور پاکستان اپنے ہی سیاست دانوں کی غلطی سے نہ ہی کوئی سبق حاصل کیا اور نہ ہی اپنے سیاسی کارکنان اور عوامُکی درست خطوط پر تربیت ہی نہ کرسکے اس وقت پاکستان کے لیے وقت کی اہم ضرورت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے سامنے برابر کا توازن قائم کیا جائے اور اس کے لیے پاکستان کے سیاست دانوں میں اتفاق ، محبت اور ہم آہنگی بہت ضروری ہیں۔
Engr Shahid Siddique Khanzada
About the Author: Engr Shahid Siddique Khanzada Read More Articles by Engr Shahid Siddique Khanzada: 277 Articles with 87969 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.