باپ کا دیا نام بھی استعمال نہیں کیا، بلا خوف تنقید کرنے والے صحافی حسن نثار کا اپنے والد سے بھی ٹکراؤ اور بڑے فیصلے

image
 
انسان کی زندگی جدوجہد سے عبارت ہوتی ہے جس انسان نے اپنی زندگی کی ابتدا میں محنت کی اس کا صلہ کسی نہ کسی صورت اس کو اس کے رب کی جانب سے ضرور ملتا ہے- ہم آج جن افراد کو کامیابی کے عروج پر دیکھتے ہیں ان کی ابتدائی زندگی ایسی کامیاب نہیں ہوتی ہے بلکہ اس منزل کو پانے میں ان کی جدوجہد کا ایک طویل سفر ہوتا ہے ایسے ہی ایک صحافی حسن نثار بھی ہیں جن کی زندگی ان تمام لوگوں کے لیے ایک مثال ہوتی ہے-
 
ابتدائی زندگی
حسن نثار 5 جولائی 1951 کو فیصل آباد کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئے وہ چار بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے ابتدائی تعلیم فیصل آباد سے حاصل کرنے کے بعد یونیورسٹی کی تعلیم کے لیے لاہور آگئے جہاں سے انہوں نے جرنلزم میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی-
 
ان کے والد ان کو سی ایس پی آفیسر بنانا چاہتے تھے جبکہ دوسری طرف حسن نثار کو مووی رائٹر بننے کا شوق تھا جس وجہ سے انہوں نے صحافت کے شعبے کو اختیار کر لیا ان کی پہلی نوکری سے ان کی تنخواہ صرف 350 روپے ملی-
 
image
 
والد کا دیا نام اور ڈگری سب چھوڑ دی
حسن نثار کا یہ کہنا تھا کہ انہوں نے جب اپنے والد کی خواہش ماننے سے انکار کر دیا اور مقابلے کے امتحان میں بیٹھنے سے یہ کہہ کر انکار کیا کہ میں کسی کا ماتحت نہیں بن سکتا اور نہ ہی کسی کو اپنا ماتحت بنا سکتا ہوں تو ان کے والد نے ان کو کہا کہ جس دن اپنے پیروں پر کھڑے ہو جاؤ تب اپنے فیصلے کرنا -
 
اس موقع پر حسن نثار نے دو بڑے فیصلے کیے ایک فیصلہ اپنے باپ کے دیے نام کو استعمال نہ کرنے کا تھا۔ ان کا اصل نام اسرار الحق تھا جس کو انہوں نے تبدیل کر کے حسن نثار رکھ لیا اور دوسرا فیصلہ والد کے پیسوں سے حاصل کی گئی ڈگری کو استعمال نہ کرنے کا تھا- اپنے والد کے دلوائے گئے کپڑے تک واپس کر کے انہوں نے اپنے کچھ سامان کو فروخت کر کے کاروبار کرنے کا فیصلہ کیا-
 
گزر بسر کے لیے چھولے دہی بھلے کا ٹھیلا
جس کے بعد انہوں نے ماڈل ٹاؤن میں چھولے اور دہی بھلے کا ٹھیلا لگایا جہاں پر تکہ کباب بھی فروخت کیا جاتا تھا- اس کاروبار سے ملنے والی رقم ان کے گزر بسر کے لیے کافی ہوتی تھی مگر اس کے باوجود انہوں نے قلم سے ناطہ نہ توڑا اور شاعری کرتے ہوئے فلموں کے لیے گانے اور ایڈیٹر کے طور پر اپنی نوکری کو جاری رکھا-
 
سیاسی وابستگی کی سزا
زندگی میں کچھ سکون آیا تو انہوں نے ساتھی مصنفہ اور شاعرہ سعیدہ ہاشمی سے شادی کر لی جن سے ان کے تین بیٹے بھی ہوئے- سیاسی طور پر حسن نثار کا شمار ذوالفقار علی بھٹو کے حمائتی افراد میں ہوتا تھا مگر ذوالفقار بھٹو کی حکومت کے تختہ الٹنے کے بعد مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ضیا الحق کی جانب سے سخت ترین مسائل کا سامنا کیا- جس کی وجہ سے ان کو دو بار جیل بھی جانا پڑا اور معاشی طور پر شدید مسائل کا شکار ہو گئے-
 
image
 
اسی دوران ان کے تعلقات ان کی پہلی بیوی سے بھی خراب ہو گئے جس کی وجہ سے انہوں نے پہلی بیوی کو طلاق دے دی کچھ عرصے تک تو ان کے بیٹے ان کے ساتھ رہے مگر جب انہوں نے شازیہ نامی خاتون سے دوسری شادی کی تو ان کے تینوں بیٹے اپنی ماں کے پاس چلے گئے-
 
مسائل کے حل کے لیے ہجرت
اس موقع پر اپنے ایک دوست کی مدد سے حسن نثار سعودی عرب چلے گئے اور وہاں جاکر انہوں نے کام کیا جس کے سبب ان کے معاشی مسائل حل ہو گئے- یہاں تک کہ لاہور میں 30 سال کی عمر میں وہ اپنا گھر بنانے میں کامیاب ہو گئے-
 
مگر ضیا الحق کے دور میں جب الیکشن کا اعلان ہوا تو سب کچھ چھوڑ کر واپس پاکستان آگئے اور اس کے بعد انہوں نے صحافت کا آغاز کر دیا- مختلف اخباروں سے ہوتے ہوئے مختلف چینلز کے لیے کام کیا اور آج ان کا شمار کامیاب ترین صحافیوں میں کیا جاتا ہے-
 
خود پر یقین رکھنے والے حسن نثار نئی نسل کے لیے ایک مثال ہیں جنہوں نے کسی بھی کام کو عار نہیں سمجھا اور اپنے بل بوتے پر کامیابی حاصل کی-
YOU MAY ALSO LIKE: