حیات آباد کرکٹ گراﺅنڈ پی سی بی کے حوالے اور غیر ملکی کرکٹر کا خوف


صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے کم و بیش ایک ہفتہ قبل حیات آباد سپورٹس کمپلیکس میں واقع کرکٹ سٹیڈیم پی سی بی کے حوالے کرنے کے کے حوالے سے معاہدہ کیا معاہدے کی تفصیلات سامنے نہیں لائی گئی تاہم اب یہ سٹیڈیم پی سی بی کے زیر انتظام رہے گی کم و بیش چھ ماہ قبل بھی اس حوالے سے پی سی بی نے حیات آباد کرکٹ سٹیڈیم کو لینے کیلئے صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے رابطہ کیا تھا لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوا لیکن نئے سیکرٹری سپورٹس جوکرکٹ کے بہت زیادہ شائق ہیں نے آتے ہی سب سے پہلے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے زیرانتظام حیات آباد کرکٹ سٹیڈیم ان کے حوالے کرنے کیلئے معاہدہ کردیا. اس معاہدے کے لئے پی سی بی کے چیف ایگزیکٹو آئے تھے معاہدہ ہوتے ہی پی سی بی کے رمیز راجہ نے یہ بیان داغ دیا کہ پشاور غیر ملکی کھلاڑیوں کیلئے محفوظ نہیں اور وہ یہاں پر آنا ہی نہیں چاہتے سیکورٹی وجوہات کی بناء، جس کے بناءپر پشاور سمیت خیبر پختونخواہ میں کھیلوں کے شائقین بہت زیادہ ناراض ہیں کہ ایک طرف پی سی بی نے صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے زیر انتظام حیات آباد کرکٹ سٹیڈیم لے لیا اور اب اس طرح کے بیانات دیکر پی سی بی کیا ثابت کرنا چاہتی ہیں.



پاکستان کرکٹ بورڈ کے ریجنل حکام نے صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں بھی اپنے لئے دفتر حاصل کرلیا ہے اور اب ان کی سرگرمیاں یہاں پر بھی شروع ہونگی دوسری طرف ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم پی سی بی کے حوالے کرنے کے حوالے سے چہ میگوئیاں چل رہی ہیں ، کہ پاکستان کرکٹ بورڈ خیبر پختونخواہ کے واحد اکلوتے گراﺅنڈ جو کہ پشاور شہر میں واقع ہے کو لینا چاہتی ہے اور تعمیراتی کام مکمل ہوتے ہی اسے بھی موجودہ سیکرٹری سپورٹس پی سی بی کے حوالے کردینگے.۔



سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ خیبر پختونخواہ کے حوالے سے یہ بات علی اعلان کر چکے ہیں کہ بین الاقوامی کرکٹر یہاں پر سیکورٹی وجوہات کی بناءپر آنا چاہتے ، اگر بین الاقوامی کرکٹ یہاں پر آنا نہیں چاہتے ، پی ایس ایل کے میچز بھی نہیں ہوسکتے تو پھر صوبائی حکومت نے جن دو گراﺅنڈز پر کروڑوں روپے لگا لئے اسے سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے کس کھاتے میں پی سی بی کے حوالے کردیا ، اگر یہاں کے کھلاڑی اس سے مستفید نہیں ہوسکتے ، بین الاقوامی کرکٹر یہاں آنا نہیں چاہتے تو پھر پی سی بی حکام حیات آباد کرکٹ گراﺅنڈ اور ارباب نیاز کرکٹ گراﺅنڈ میں کیا "مرغیوںکا فارم"کھلوانے کےلئے آرہے ہیں.



اگر یہ گراﺅنڈ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے زیر انتظام ہوتے تو پھر پی سی بی کو صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو ادائیگی کرنی پڑتی کیونکہ یہاں پر میچز کرانے سمیت دیگر معاملات پر پی سی بی کو اخراجات اٹھانے پڑتے لیکن پی سی بی میں بیٹھے "ہوشیارترین"لوگوں نے پہلے حیات آباد کرکٹ گراﺅنڈ کو حاصل کرلیا جہاں پر سب کچھ سیٹ اپ مفت میں پی سی بی کو مل گیا ، دوسری طرف پی سی بی کے ریجنل آفس کو صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں بھی دفتر دے دیا گیا.اگر یہی دفتر وہ باہر لیتے تو انہیں لاکھوں روپے میں پڑتا تو انہوں نے ہوشیاری دکھائی اور مفت میں ہی سب کچھ لے لیا.



حالانکہ یہی پی سی بی ریجنل سپورٹس آفس گذشتہ دو سالوں سے سکولز ٹورنامنٹ منعقد کروا رہی ہیں جس کیلئے ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سمیت صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے بھی کم و بیش دس کروڑ روپے کی رقم لے لی گئی جبکہ اس سے کم رقم پی سی بی نے بھی دی.فنڈز سارے صوبائی محکموں نے ادا کئے سب سے کم ادائیگی پی سی بی نے کی اور نام انہوں نے اپنا کرلیا کہ پی سی بی نے سکولز ٹورنامنٹ کروالیا ، چلیں سکول سطح پر پی سی بی نے کرکٹ ٹورنامنٹ کروا بھی لیا تو یہ سوال پوچھنے کی ضرورت ہے کہ گذشتہ سال جو ٹورنامنٹ کروایا گیا تھا اس کے بچے کہاں پر چلے گئے اب کہاں پر ہیں ، اس بارے میں خاموشی ہیں ، اور جن بچوں نے امسال ٹاپ پوزیشن لی وہ کہاں پر جائیں گے. اس سوال پربھی خاموشی ہیں.



چلیں پاکستان کرکٹ بورڈ میں تو ریجنل سطح سے لیکر مرکزی سطح تک سارے ہوشیار اور عقلمند لوگ بیٹھے ہیں لیکن ہمارے اپنے صوبے میں کھیلوں کے اہم اہم عہدوں پر بیٹھے ڈی ایم جی اور پی ایم ایس جو دیانتداری میں لوگوں کو اپنی مثال دیتے ہیں کی اتنی سوچ اور ہمت نہیں کہ وہ یہ پوچھ سکیں کہ سال 2018میں کرکٹ اکیڈمی کیلئے جو معاہدہ پی سی بی نے کروایا تھا اس کا کیا بنا.جو کہ سابق ڈائریکٹر جنرل سپورٹس جنید خان نے کیا تھا .صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے زیر انتظام صرف ایک کرکٹ اکیڈمی اس وقت سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں چل رہی ہیں جس میں کم و بیش تین سو کے قریب کم عمر بچے روزانہ کھیلنے کیلئے آتے ہیں جن سے ماہانہ فیس صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ لے رہی ہیں ایک سو کی گنجائش رکھنے والی اس اکیڈمی میں حال یہ ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ ماہ میں دو بچے سر پر گیند لگنے کے باعث زخمی ہوگئے ، کیونکہ کرکٹر بننے کے شوقین بچوں کی تعداد زیادہ ہے لیکن انہیں یہ دکھائی نہیں دیتا ، اگر حیات آباد سپورٹس کمپلیکس میں واقع کرکٹ گراﺅنڈز میں اکیڈمی صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے زیر انتظام بنائی جاتی تو نہ صرف پشاور بلکہ خیبر ضلع سے تعلق رکھنے والے کرکٹر کی زیادہ تعداد وہاں پر آتی اور یوں نہ صرف کرکٹ کا معیار بہتر ہوتا بلکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی کم ہوتی اور دوسری طرف رش بھی دو جگہوں پر اکیڈمی ہونے سے کم ہو جاتا اور سب سے زیادہ کہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو فیس کی مد میں لاکھوں روپے ہی ملتے.لیکن ایسے سوچنے والے کہاں پر ہیں.اور اگر ہوں بھی تو انہیں "کار خاص" کانوں میں کچھ اور کہہ دیتے ہیں.



یہاں پر تو سوچ بس اتنی سی ہے کہ کھیلوں کے کونسے مقابلوں اور کونسے اقدام سے " صاحب"لوگوں کے جیب بھاری ہنے کے امکانات زیادہ ہیں.رہے کھیل اور کھلاڑی کی بہتری کی تو کون جیتا ہے تیرے زلف کے سر ہونے تک...
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 422069 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More