ق ما علینا الاالبلاغ

انار مہنگے اور کم ہیں مگر عوام کا قلب وسیع اور خالق کی رحمت سب جہانوں پر غالب ہے۔

ایک انار سو بیمار کا محاورہ اس لیے پرانا ہو گیا ہے کہ اب آبادی بہت بڑھ چکی ہے اور انار مہنگے بھی بہت ہو گئے ہیں۔ مگر اس کے باوجود ملک کے اندر پیدا ہونے والے انار ناکافی ہوتے ہیں تواس کمی کو پورا کرنے کے لیے انار باہر سے درآمد کیے جاتے ہیں۔ باہر سے منگوائے انار کا معیار اور تعداد ہی نہیں قیمت بھی مقتدر قوتوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ درآمدی انار ہی نہیں کرسی کے بیمار بھی اس معیار پر پورے اترتے ہیں

مقتدر قوتوں بارے تحریک انصاف کی حکومت کے آخری دنوں میں ایک صاحب راز نے کہا تھا (پاکستان میں مقتدر قوتیں ہمیشہ اقتدار میں ہوتی ہیں اور جب اقتدار میں نہیں ہوتی تو زبردست اپوزیشن کرتی ہیں) وہ صاحب پاکستان کی معیشت کو کھانے والے کیک سے تشبیہ دے کر کسی کے حصے کی بات کر رہے تھے۔ ٹویٹ داغنے اور ڈیلیٹ کرنے کا قصہ چھیڑا ہی تھا کہ اس وقت کے وزیر اعظم نے ان کی زبان بند کر دی تھی۔ وہ زبان تو بند ہوگئی مگر اب عمران خان کے اقتدار سے نکلنے کے بعد بہت ساری زبانیں بے لگا م ہو چکی ہیں۔ بے لگام ہونے کی اصطلاح گھوڑے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی اکثریت کی مثال گھوڑے ہی جیسی ہے جو کاٹھی ڈال لے اسی کی ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں صرف دو سیاسی پارٹیاں ہیں جن میں جمہوریت ہے۔ دونوں ہی عوام کے آستانے سے راندہ درگاہ ہیں۔ جن دنوں ایم کیو ایم کے گھوڑے پر الظاف بھائی نے کاٹھی ڈالی ہوئی تھی۔ مقتدرہ نے کاٹھی کی زیریں بلٹ خنجر سے کاٹ دی۔اس کامیاب تجربے کے بعد نون لیگی شہسوار کو اسی تکنیک سے گرایا گیا۔ اب کپتان بھی کہتا ہے اچھے بھلا سواری کر رہا تھا۔ پہلے تو فوج کا نام لیا پھر ایک جرنیل پھر تین جرنیل پھر بیس لوگوں کا نام ادھر ہی سے آ رہا ہے۔ یہ بیس ہیں یا ڈیڑھ سو یا پانچ سو، سب سنی سنائی کہانیاں ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ یہی طبقہ پاکستان کا مقتدرہ ہے۔ اسی مقتدرہ کا، گلہ، اسلام آباد کی عدالت کا برطرف شدہ جج کرتا پایا جاتا ہے۔ عدالت عظمی کا ایک حاضر جج اور اس کا خاندان بھی اپنے آپ کو اس مقتدرہ کی گرفت سے مشکل سے بچاتا ہے۔ سیاستدان تو عوام کے کھیت کی وہ مولی ہے جس کو کرپٹ اور غدار کہہ کر ہمیشہ ہی کاٹا گیا ہے۔ اسی مقتدرہ کے اشارے پر صحافیوں کو شمالی علاقوں کی سیر کرائی جاتی ہے بلکہ گولیاں تک مار دی جاتی ہیں۔ عوام جو دن کی ابتدا ہی جنرل ٹیکس کی ادائیگی کر کے کرتی ہے، اس کو حکومت میں شمولیت کا احساس ہوتا ہے نہ اس کے ووٹ سے منتخب نماہندوں کو۔ مقتدرہ کے، بظاہر، دباو پر قومی اسمبلی کے منتخب وزیر اعظم کی انتظامی افسروں کی تعیناتی کو عدالت موٹے شیشوں والی عینک لگا کر دیکھتی ہے مگر ایک صوبے میں ہونے والی غیر آئینی قانون سازی کو نظر انداز کر دیتی ہے۔ ریکوڈک حرام مگر رق وڈق پکار کر حلال کر لیا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو شکائت ہے عدلیہ کو ان کے اور عوام کے ججوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ ایسی تقسیم پولیس میں بھی بتائی جاتی ہیں اور ایک انتظامی افسر کو مرکزی حکومت کے احکام کو نظر انداز کرتے عوام کی آنکھوں نے خود دیکھا۔ دوسری طرف صوبے سے پولیس کے سربراہ کو اسلام آباد عدالت میں بلا کر بے توقیر کیا جاتا ہے۔ عوام پریشان ہے اور آئین اور قانون کے طالبعلم حیران ہیں کہ ادارے اپنے حصے کا کام کرنے کی بجائے دوسرے اداروں پر انگلی اٹھانے کو جوان مردی کیوں سمجھتے ہیں۔بہرحال کچھ سبق عوام کو ازبر ہو چکے ہیں

لوگ جس زبان میں بات کرنا چاہتے ہیں کرنے دیں *

لوگ جس جگہ رہنا چاہیں انھیں رہنے دیا جائے *

انصاف ہونا چاہیے اور ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے *

ٓآئین میں کی گئی مثبت ترامیم کو قبول کیا جانا چاہیے *

سسٹم کو چلنے دیا جائے اور سہولت کاری کا رویہ اپنایا جائے *

جس ادارے کا جو کام وہ اسی پر توجہ دے *

پچھتر سالوں میں جس بات پر عوام متفق ہو چکی ہے۔ اس کے اعتراف اور عمل درآمد پر کیا مزید پچھتر سال لگیں گے۔ وقت بتاتا ہے کہ وقت بدل چکا ہے۔ دیکھنے اور سننے، لکھنے اور پڑہنے، سیکھانے اور پڑھانے ۔۔۔ سب کچھ ڈیجیٹل ہو چکا ہے۔ ڈیجیٹل دنیا انٹر نیٹ کے بادل پر سوار ہو کر انسان کے ہاتھ میں اٹھائے موبائل پر اتر چکی ہے۔ اس وقت محکوم ذہنی طور پر حاکموں سے آگے نقل چکے ہیں۔ شہسوار، گھوڑے، خنجر اپنی جگہ موجود ہوتے ہوئے اپنا کردار کھو چکے ہیں۔ تصویر کبھی ممنوع ہوا کرتی تھی مگر کیمرہ مجبوری بن چکا ہے۔

جس پر عوام متفق ہو چکی اس کا اعتراف کرنے ہی میں زندگی ہے۔ اعتراف معافی کی طرح ہوتا ہے اور معافی انسان کو با کردار بناتی ہے۔ جو معافی نہیں مانگتا اسے خالق معاف کرتا ہے نہ مخلوق۔

انار مہنگے اور کم ہیں مگر عوام کا قلب وسیع اور خالق کی رحمت سب جہانوں پر غالب ہے۔

دپلذیر
About the Author: دپلذیر Read More Articles by دپلذیر: 135 Articles with 150564 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.