بھارت جوڑو یاترا : ایک متبادل بیانیہ کی تشکیل

’بھارت جوڑو یاترا ‘راہل گاندھی کے سیاسی تشخص کی نئی تشکیل کر رہی ہے۔ یہ بیداری مہم کے دوران ان پر لگنے والے مختلف الزامات کی تردید ہورہی ہے۔ ایک زمانے میں راہل گاندھی کا پپو کہہ کر مذاق اڑایا جاتا تھا۔ اب ایسا کوئی نہیں کہتا کیونکہ ملک کے کسی ’ پپو‘ میں ببانگ دہل ’چوکیدار چور ہے‘ کہنے کی جرأت نہیں ہے ۔راہل کی سیاسی پختگی صرف الزام تراشی تک محدود نہیں رہی بلکہ کورونا کے زمانے میں اور اس کے بعد بھی ان کے کئی مشوروں پر حکومت نے بادلِ نخواستہ عمل کیا ہے۔ راہل پر یہ الزام بھی تھا کہ وہ جز وقتی سیاستداں ہیں اور انتخابی مہم کے بعد غیر ملکی دورے پر نکل جاتے ہیں ۔ ایسے رہنما کے لیے ہمہ وقت سیاست میں غرق رہنے والوں کا مقابلہ کرنا ناممکن ہے۔ ساڑھے تین ہزار کلومیٹر کے پیدل سفر کا اعلان کرکے انہوں نے اس الزام کا کچو مر نکال دیا ہے۔ وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں شامل ان کا کوئی حریف ایسی ملک گیر مہم نہیں چلا سکتا ۔ راہل کو اب عوام کے ساتھ ملنے جلنے میں لطف آنے لگا ہے اور اس لیےمبادہ پھر سے بیرونِ ملک چھٹی گزارنے کے لیے جانے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ یہ ایک ایسے رہنما کی سیاسی شبیہ میں وہ واضح تبدیلی ہے جس کو اس کے دوست و دشمن دونوں محسوس کررہے ہیں ۔

’ بھارت جوڑو یاترا ‘ کوئی انتخابی نو ٹنکی نہیں بلکہ عوامی بیداری کی ایک مہم ہے ۔ اس لیے اس کے راستے میں نہ تو ہماچل پردیش آیا اور نہ وہ گجرات میں داخل ہوئی ۔ مہاراشٹر سے مدھیہ پردیش میں داخل ہونے سے قبل درمیان میں دو دون کا وقفہ رکھا گیا تھا ۔ اس دوران راہل تنہا بغیر یاترا کےگجرات گئے اور دو خطابات عام میں تقاریر کیں ۔ سورت سے قریب آدیواسیوں کو خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اس ملک کے پہلے مالک ہیں ۔ ان کی اس حیثیت کا انکار کرنے کی خاطر سنگھ پریوار انہیں ونواسی کہہ کر پکارتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ جنگل میں ہی پڑےرہیں ۔ ان کو کوئی جدید سہولت دستیاب نہ ہو اور نہ وہ ترقی کر سکیں ۔ سوراشٹر کے اندر انہوں نے موربی پُل کے ٹوٹنے کا ذکر کرکے کہا ڈیڑھ سو لوگوں کی ہلاکت کے باوجود کسی مجرم کے خلاف ایف آئی آر تک درج نہیں ہوئی کیونکہ وہ بی جے پی کے لوگ تھے ۔ راہل نے اپنے آسان دلائل اور منفرد انداز سے عوام کو متاثر کیا ۔
بھارت جوڑو یاترا کے ذریعہ راہل گاندھی سنگھ پریوار کے خلاف ایک متبادل بیانیہ پیش کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں ۔ ان کی نہایت سہل منطق یہ ہے کہ نفرت سے سماج ٹوٹتا ہے اور اس کی بیخ کنی کے بغیر عوام کو جوڑا نہیں جاسکتا۔ راہل گاندھی اپنی تقاریر میں نفرت کے پھیلنے کی وجہ ’ڈر‘ کے ماحول بتاتے ہیں ۔ یہ بات جگ ظاہر ہے کہ سنگھ پریوار کا ایک نکاتی ہدف ہندو سماج کے اندر مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنا ہے اور کی خاطر انہیں ڈرایا جاتا ہے کہ اگر وہ متحد اور صف آرا نہیں ہوئے تو پھر سے ملک میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوجائے گی اور ماضی کے مظالم کا سلسلہ شروع ہوجائے گا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عوام پر جس قدر ظلم واستحصال موجودہ سرکاریں کررہی ہیں اس کا عشر عشیر بھی کسی مسلمان بادشاہ نے نہیں کیا تھا ۔ مغلیہ دور کی خوشحالی نے تو ہندوستان سونے کی چڑیا ک بنا دیا تھا۔ راہل کے مطابق موجودہ سرکار چونکہ عوام کے بنیادی مسائل مثلاً مہنگائی اور بیروزگاری وغیرہ کو حل کرنے میں ناکام ہوگئی ہے اس لیے وہ نفرت کی آگ بھڑکا کرخوف کا ماحول بناتی ہے۔ ان کے خیال میں نفرت کے خاتمے کی خاطر ڈر کا خاتمہ ضروری ہے۔ اس یاترا کا مقصد لوگوں کو آپس میں جوڑ کر باہمی اعتماد بحال کرناہے تاکہ خوف و منافرت کا خاتمہ ہوسکے۔

اس بیداری کی مہم نے نہ صرف راہل گاندھی کو عام لوگوں سے رابطہ قائم کیا ہے بلکہ جہاں جہاں سے یاتراگزر رہی ہے وہاں کی عوام کو بھی ان سے جوڑ دیا ہے ۔ یاترا میں شامل لوگوں کے جنون کااندازہ ویڈیوز اور رپورٹوں سے نہیں لگایا جاسکتا ، اس کے لیے مشاہدہ لازمی ہے۔ بھارت جوڑو یاترا کے لیے جاڑے میں صبح پانچ بجے لوگوں کا نکل کھڑا ہونا اور راستوں میں نوجوانوں ، خواتین اور بزرگوں کا گھنٹوں انتظار کرنا ایک خاموش تبدیلی کا واضح اشارہ ہے۔ اس یاترا کے دوران نوجوان پیچھے سے دوڑ کر آگے نکلنے کے بعدجب راہل کو دیکھتے ہیں تو پکار اٹھتے ہیں ’نظر آ گیا‘۔ خواتین بچوں کو گود میں لے کر یاترا میں چلنا اپنے لیے سعادت سمجھتی ہیں۔ بزرگ راستوں پر کھڑے ہوکر دعا کرتے ہیں ۔ ایک تپسیا سمجھ کراس یاترا میں شامل ہونے وا لوں کا مشاہدہ جا بجا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مخالفین اسے مختلف حیلوں بہانوں سے روکنے کا اشارہ کررہے ہیں اور راہل کا جواب ہے:’ بڑھتے قدم نہ رک پائیں گے،کوئی روک سکے تو روک لے‘۔

ہندوستان ایک بہت بڑا ملک ہے اس لیے کنیا کماری سے کشمیر تک کے پیدل سفر کرنےکے باوجود ملک کی ایک بہت بڑی اکثریت اس بے بہرہ ہے۔ عصر حاضر میں اس خلاء کو میڈیا کے ذریعہ پُر کیا جاتا ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعہ ایک مقامی واردات کو عالمی سطح پر اٹھا کر ساری دنیا میں پھیلا یا جاسکتا ہے۔ ہندوستان میں قومی میڈیا کو چونکہ مرکزی حکومت نے اپنے گود لے لیا ہے اور اس کے منہ میں بچوں کی چسنی کے مانند اشتہارات لگے رہتےہیں ۔ سرکار کی پھینکی ہوئی ہڈیوں کو چباتے چباتے اس کے دانت ٹوٹ گئے ہیں اس لیے ’بھارت جوڑو یاترا‘ کی ویسی تشہیرنا ممکن ہے کہ جو اس کا حق ہے۔ گودی میڈیا اگردانستہ طور پریاترا کو نظر انداز نہیں کرتا تو بڑی آسانی سے عوام کی بڑی تعداد اس سے منسلک ہوجاتی لیکن نمک خواری اس کی مجبوری ہے۔ ابتداء میں جب بی جے پی والے مختلف انداز میں مخالفت کررہے تھے تواس وقت ’بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا ‘ کی مصداق یاترا کو شہرت مل رہی تھی ۔ آگے چل کر بی جے پی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اس نے اپنے اور میڈیا کی زبان پر بھی لگام لگا دی۔

مہا راشٹر کے اندر مرکزی حکومت کی اس نئی حکمت عملی نے بھارت جوڑو یاترا کو سوشیل میڈیا کی حد تک محدود کردیا۔ ایسے میں کسی ایسے شوشے کی ضرورت تھی کہ جس سے یہ لگام ٹوٹے اور مخالفین کے لیے خاموش رہنا مشکل ہوجائے۔ مہاراشٹر کے اندر جہاں یاترا کو زبردست کامیابی مل رہی تھی کانگریس کو ایک تنازعہ کی ضرورت کا احساس ہوا مگر اس وقت صوبے کے اندر یہ کارواں اپنے آخری پڑاو میں داخل ہورہا تھا اور شے گاوں میں ایک زبردست جلسۂ عام کی تیاری ہورہی تھی۔ ایسے میں راہل گاندھی نے منصوبہ بند طریقہ پر ونائک دامودر ساورکر پر لب کشائی کی اورایک پریس کانفرنس میں ان کا معافی نامہ پڑھ کر سنایا۔یہاں بھی وہی منطق کارفرما تھی کہ ساورکر نے خوف کی وجہ سے معافی نامہ پر دستخط کیے اور جیل میں بند گاندھی ، نہرو اور پٹیل کو بھی ایسا کرنے کا مشورہ دیا۔ راہل نے اس رویہ کو غداری بتاتے ہوئے ساورکر اور ان کے پیروکاروں کے خلاف کانگریس پارٹی کے نظریاتی فرق کو واضح کیا ۔ موجودہ ابن الوقتی کی سیاست میں نظریہ کی بات ایک خوشگوار تبدیلی تھی۔

ونایک ساورکر پر راہل گاندھی کے بیان نے پورے مہاراشٹر کے اندر ایک زبردست کھلبلی مچا دی ۔ یہ قیاس آرائی ہونے لگی کہ شے گاوں میں راہل گاندھی کی تقریر کا مرکزی موضوع ونایک دامود ساورکر ہوگا ۔ بی جے پی والے اس کو بھنانے کی تیاری میں لگ گئے اور میڈیا کو گودی سے نکال کر میدان میں دوڑا دیا ۔ اس کو یقین تھا کہ خطاب عام کے اگلے دن شیوسینا مجبوراً مہاوکاس اگھاڑی سے الگ ہو جائے گی اور اسے بھارت جوڑو یاترا کی بہت بڑی ناکامی کے طور پر پیش کیا جاسکے گانیزیاترا کو بدنام کرنے کے لیے ایک بڑی خبر میڈیا کے ہاتھ لگ جائے گی۔ بڑے ارمانوں کے ساتھ سارا میڈیا شے گاوں کے خطاب عام کو براہِ راست نشر کرنے کے لیے جلسہ گاہ پہنچا اور وہاں موجود عوام کے جم غفیر کی تصاویر نشر کرتا رہا لیکن راہل گاندھی سے ساورکر پر جس تنقید کی توقع تھی اس پر پانی پھر گیا یعنی غالب کا یہ شعر پھر سے زندہ ہوگیا ؎
تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا

شے گاوں کے خطاب عام میں راہل تو دور کسی بھی مقرر نے ساورکر کا ذکر کرنے کی زحمت نہیں کی جو اس تنازعہ کے منصوبہ بند ہونے کا واضح اشارہ ہے۔ اس معاملے میں چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل ایک استثناء تھے جنھوں نے اس نظریاتی جنگ کی جانب اشارہ تو کیا مگر وہ اس قدر بلا واسطہ اور محتاط انداز میں تھا کہ اس پر تنقید کرنے کی گنجائش ہی نہیں نکلی۔ شے گاوں میں راہل گاندھی کی تقریر تو خیر خوب چلی جس میں ساورکر ندارد تھے لیکن بگھیل نے جو کچھ کہا وہ بہت دلچسپ ہے۔ انہوں نے جیسے ہی کہا ’آزادی سے قبل ‘ تو میڈیا کے کان کھڑے ہوگئے۔ اس کو محسوس ہوا کہ اب اپنی من مراد پوری ہونے والی ہے۔ کیمروں کے زوم جب بھوپیش بگھیل پر مرکوز ہوگئے تو انہوں نے بال گنگا دھر تلک کا ذکر کیا اور پھر ان کو گاندھی جی سے جوڑ کرآگے بولے آزادی سے قبل ملک کے تین کونے ہندو ، مسلمان اور انگریز تھے ۔ گاندھی جی جانتے تھے جب ہندو اور مسلمان یکجا ہوں گے تو انگریز بھاگ جائیں گے اس لیے انہوں نے ان دونوں کو جوڑ دیا لیکن اس وقت کچھ لوگ ہندووں کو انگریزوں سے جوڑنے کی سعی کررہے تھے ۔ وہ کون لوگ تھے ؟ یہ بگھیل نے نہیں بتایا مگر لوگ سمجھ گئے کہ وہ کون تھا اور کیا چاہتا تھا؟اس طرح سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی لیکن ایک ایسا متبادل بیانیہ پیش ہوگیا جو سنگھ پریوار کے لیے زہر ہلاہل سے کم نہیں ہے۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1223135 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.