یہ کیسے مسلمان ہیں

 سنگ پر سنگ چلاو تمہیں ڈر کس کا ہے
سینہ کس کا ہے میری جان جگر کس کا ہے
میرے گزشتہ کالم میں ‘ میں نے ماہ رمضان کیا ہے؟ اسکا مقصد‘ اسکی افادیت ‘ اہمیت کے متعلق کچھ لکھنے کی جسارت کی تھی ایسی بہت سی باتیں جس سے میں بذات خود نا آشنا تھی جیسے رمضان آیا ‘ رمضان چلا گیا! کبھی نہیں کہنا چاہیے ‘ ہمیشہ ماہ رمضان کہنا چاہیے اس سے ایک اور بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ ہر تہوار ‘ ہر انسان ‘ اور ہر چیز اپنی ایک الگ الگ حیثیت اور مقام رکھتی ہے جیسے اگر ہم اسکی اہمیت کو کم کریں گے تو اسکا نقصان بھی ہم خود ہی اٹھائیں گے اپنے گزشتہ کالم سے میں بہت مطمین تھی کہ چلو مجھ نا چیز کی وجہ سے کچھ اچھی باتیں لوگوں تک پہہخی‘ شاید کسی کے دل میں اثر کر جائے اور ہمارے رویوں میں تبد یلی آ جائے لیکن جب 28جولائی بروز جمعرات 2011 کو اخبار کے پہلے صفحہ پر شائع تھا کہ (رمضان المبارک کے دوران دن میں دوگنی لوڈشڈنگ کا فیصلہ ) لیکن اس خبر کے ساتھ ساتھ خو شحبری اور احسان بھی تھا کہ( سحری و افطاری کے اوقات میں لوڈشڈنگ نہیں کی جائےگی) چلو اس بیاں کو ہی پورا کر دیتے لیکن پہلی سحری پر ہی بجلی بند کر دی گئی ۔ پھر دل سے آواز آئی یہ کیسے مسلمان ہیں ۔ یہاں دل سے آواز آئی ‘ وہاں قلم نے آواز دی کہ چلو آج ان منہ بولتے مسلمانوں کو اصلی اور حقیقی مسلمانوں کے بارے میں بتاتے ہیں کہ آیا مسلمان ہے کیا ؟ مسلمان صرف پانچ وقت کے نمازی ‘ کلمہ گو اور ا رکان اسلام کو ادا کرنے والا نہیں ہوتا‘ مسلمان تو وہ ہے جو کسی مصلحت سے کام نہیں لیتا‘ وہ اپنی بات پر پوری توانائی سے ڈٹا رہتا ہے‘ جھکنا‘ بکنا‘ لچکنا‘ لرزنا ‘ ان کی فطرت کے خلاف ہیں۔جن کا جذبہ و جنون ختم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے‘ اس کے علاوہ ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے پاکیزہ و پوتر مقصد کے حصول کےلئے جنون کی حد بھی پھلانگ جایا کرتے ہیں بقول اقبال فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کے حنا بندی۔ مسلمان تو وہ ہے جس کی آنکھیں لہو رنگ‘ قلم شرر بار اور زبان آتش فشاں ہو اور اےسے حق گو اور بے با ک ہو تا ہے جو مصلحتوں کے جنگلوں اور سمندروں کے سینوں کو چیرنے کی صلاحیتیں رکھتے ہیں ۔ لیکن اب یہ کیسے مسلمان ہیں ‘ جو جھک بھی رہے ہیں‘بک رہے ہیں ‘ اور لرزنا بھی رہے ہیں ۔ جو اپنی فطرت کے خلاف جا رہے ہیں ۔ کیا ہمارے پیارے نبی نے شب معراج کے دن اس امت اور ایسے مسلمانوں کو بخشوانے کی دعا کی تھی؟شرم آنی چاہیے ۔ان کو اپنے انسان ہونے پر بھی جس کواللہ تعالٰی نے سب سے افضل قرار دیا ۔کیا ہوتا اگر یہ تحریر ہو تا کہ دوگنی لوڈشیڈنگ کی بجائے پورا ماہ رمضان لوڈشڈنگ نہیں کی جائے گی اس کی برعکس تمام اشیاءجات کی قیمتیں کم سے کم کر دی جائے گی ۔میں کون سا کہہ رہی ہو ں پورے سا ل کی لو ڈشیڈنگ بند کر دو صرف 30دن ہی تو مانگ رہی ہو ں تو شاید ان 30 دنو ں کی روشنی 365دنوں کی روشنی سے کم نہ ہو تی اور میری بچاری بجلی سے ترسی ہو ئی عوام کے لئے عید سے پہلے عید ہو جاتی اور یہ بھی ہو سکتا تھا جن کہ دلو ںسے 365دن تمھارے لئے بددعائیں نکلتی ہیں وہی عوام اربا ب اخیتار کو اپنی دعا ﺅں میں شامل کر تے لیکن ہمار ے ارباب اخیتار دعاﺅں سے بہت دور ہو چکے ہیں تبھی تو وہ پاکستانی عوام کو خوشی نہیں دے سکتے یہ اور ہی حکمران ہو تے ہیں جو اپنی عوام کو خوشیو ں سے بالاتر کر سکتے ۔ جسے بیر ونی ملکو ں لیڈر شب اپنی عوام کو ریلیف دینے کے لئے طرح طرح کے پروپیگنڈے عمل میں لاتے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے ہم تو مسلمان ہیں ۔ارکان اسلام فرضی فرائض انجام تو دے رہے ہیں مگر اس کے اصلی مقاصد کو فراموش کر چکے ہیں کیا یہ سچ نہیں کہ ہمارا ملک جس کو ہمارے بانی قائد نے خوشیوں کا گہوارہ بنایا تو تھا لیکن ایسا نہ ہو سکاخوشیو ں کی بجائے آج ہمارے پیارے پاکستان میں گلی کوچوں اور دیگر شہروں میں مہنگائی کے ساتھ ساتھ کرائم نے اس قدر لوگو ں کو منتشرکر رکھا ہیں اور اب ہر آنکھ میں خون کے آنسو نظر آتے ہیں جس دورِ جاہلیت کو 1400سال پہلے ختم کر دیا گیا تھا لیکن آج پھر سے دورے جاہلیت کا دور آتا دکھائی دے رہا ہے شاید میرے ان اصل حقائق کو نظر انداز کو ہمیشہ کے لئے فراموش کر دیا جائے لیکن مجھے یہ کہنے سے کوئی عار نہیں کہ مسلمانوں کا یہ دستور بن چکا ہیں کہ برائیا ں عقاب کی آنکھ سے چنتے اور صبا کی رفتار سے پکڑتے ہیں ۔ آخرمیں اتناہی کہوں گی کہ خدا کے لئے ملک کو سلامتی کا گہوار بناﺅاور نیکیو ں پر بھی نظر کرم کر لیا کر ﺅ تمھاری فطرتیں خوبصورت ہو جائیں گی اگر کسی کو حقیقت پر مبنی باتوں سے کوئی تکلیف ہو تی ہیں تو مجھے ایک لمحہ کے لئے بھی کوئی ندامت نہیں کیو نکے میں ان لوگوں میں سے نہیں ہو جو انسانی ضمیر کی سوداگری کرتے قوم کو بیچتے پھرتے ملک سے غداری کرتے جس ہنڈیاں میں کھاتے اسی میں چھید ڈالتے ہیں میں نے صرف اللہ کے سامنے جھکنا سیکھا ہے میں ان لوگو ں کی وارث نہیں جنہوں نے درباروں کی دہلیزیں چاٹی ہیں بلکہ میں ان کی وراث ہو ں جو شہادت کے راستوں پر سروں کو ہتھلی پر لئے پھرتے ہیں اس موقعہ پر کیا خوب حضرت امام حسین نے فرمایا ہے
سویا ہو ا انسان پانی کی بوندوں سے جگ جاتا ہے
لیکن سوئی ہوئی قوم کو جگانے کے لئے شہیدوں کے لہو ں کی ضرورت پڑتی ہیں۔
Sana Ali
About the Author: Sana Ali Read More Articles by Sana Ali: 20 Articles with 23455 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.