کراچی ،سوموٹو ایکشن

روزہ کھلنے کو کوئی گھنٹہ بچا ہوگا۔میں طوفانی رفتار سے مری کی پہاڑیاں اتر رہا تھا اور تھا بھی بالکل اکیلا۔میرا خیال تھا کہ بہارہ کہو میں ایک دوست کے پاس رک روزہ افطار کر لوں گا کہ ایک موڑ مڑتے ہی ایک نہایت ضعیف اماں جی نے مجھے رکنے کا اشارہ کیا۔آج کل کسی اجنبی کے روکنے پہ رکنا صرف کراچی ہی نہیں پورے ملک میں خطرے سے خالی نہیں لیکن اماں جی کی عمر اور حالت دیکھ کے میں نے اپنی زندگی داﺅ پہ لگانے کا فیصلہ کر لیا۔اماں جی کی عمر ہوگی کوئی اسی سال لیکن ماشاءاللہ روزے سے تھیں اور مجھ سے زیادہ صابر بھی۔بیٹھتے ہی پہلے تو انہوں نے مجھے گاڑی آہستہ چلانے کی ہدایت کی اور پھر نجانے کیوں انہوں نے مجھ سے کراچی کے حالات کے بارے بات چیت شروع کر دی۔میں ابھی تک بارہ کہو، دوست اور روزہ انہی خیالوں میں گم تھا لیکن اماں کے اس فقرے نے مجھے چونکا دیا کہ پتر یہ لوگ عام معاملات میں جج صاحب کی نہیں سنتے کراچی کے مسئلے پہ کیا سنیں گے؟میں نے اماں سے پوچھا کہ اماں آپ کبھی کراچی گئی ہیں۔آپ کا کوئی عزیز کراچی میں رہتا ہے۔اماں کا جواب نفی میں تھا لیکن پتر کراچی میں اللہ کی مخلوق تو بستی ہے ناں اور اللہ کو اپنی مخلوق سے بڑا پیار ہے۔جو لوگ عوام کے لئے عذاب کا باعث بنتے ہیں اللہ انہیں تباہ کر دیتا ہے۔یہی اللہ کی سنت ہے۔وہ اپنے مظلوم بندوں پہ ہونے والے ظلم کا بڑا سخت انتقام لیتا ہے۔میں اماں جی کی گفتگو میں دلچسپی لینے ہی لگا تھا کہ انہوں نے مجھے ایک تقریباََ غیر آباد سی جگہ پہ گاڑی روکنے کو کہااور گاڑی سے اتر کے یہ جا وہ جا۔

وہ اتر گئیں تو میں سوچنے لگا کہ کراچی کو لہو رنگ دیکھ کے وہ لوگ بھی دکھی ہیں جنہوں نے کبھی کراچی دیکھا نہ ہی ان کا کوئی پیارا کراچی میں رہائش پذیر ہے۔نہ انہوں نے کبھی کراچی جانا ہے اور نہ وہ یہ جانیں کہ کراچی سے ہمیں کتنی کمائی ہوتی ہے۔ہمیں انسانوں کی فکرکم اور اس بات کا ڈر زیادہ ہے کہ کراچی پاکستان کا معاشی hubہے۔کراچی کی معاشی تباہی ملک کی تباہی ہوگی۔شاید ہماری اسی سوچ ہی کی وجہ سے قتل و غارت گری اپنے عروج پہ ہے۔ہمیں اپنی معیشت کی انسانی جان سے زیادہ پریشانی ہے۔وہ انسان جو اس زمیں پہ اللہ کا نائب ہے۔جسے اللہ کریم اپنا عیال قرار دیتا ہے۔خون انسان کی کوئی قیمت ہی نہیں ۔معیشت ہماری ترجیح ہے اور اللہ کی ترجیع انسان ۔ترجیحات ہی کا یہ فرق ہی دراصل کراچی کو پر امن نہیں ہونے دیتا۔ہمیں اب بھی سوچ لینا ہے کہ ہم نے انسان بچانے ہیں یا مال۔تاریخ عالم گواہ ہے کہ انسان کسی بھی المیے سے بچ نکلے تو ملک کی تعمیر اس کی ہمت کے آگے پرکاہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ جدید تاریخ میں جاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔۔

اللہ اللہ کر کے سپریم کورٹ نے کراچی کے حالات پہ ازخود نوٹس لے لیا ہے۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اب اس کیس کی سماعت بھی کراچی ہی میں ہوگی تاکہ قصہ زمیں بر سر زمیں ہی حل کیا جا سکے۔آئینی حکومت میں اس سے اچھا اور کوئی قدم ہو ہی نہیں سکتا۔حکومت اور اس کے حلیفوں یا حریفوں کے درمیان کسی معاملے یا مسئلے پر اختلاف ہے۔عدالت قانون کے مطابق دونوں کے درمیان فیصلہ کر دے گی اور بس۔دونوں فریق اس پہ سر تسلیم خم کریں گے اور معاملہ حل ہو جائے گا۔آپ سمجھتے ہیں کہ ایسا ہی ہوگا؟ اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو پھر یا آپ پاکستانی نہیں یا پھر آپ سائیں لوک ہیں جو ایسا سمجھتے ہیں۔عدالت کا کام ہوتا ہے ثبوتوں اور گواہوں کی موجودگی میں کسی بھی قضیئے اورتنازعے کا فیصلہ کرنا۔حکومت وقت ثبوت مہیا کرتی ہے۔عدالت ان ثبوتوں کی روشنی میں فیصلہ سنا دیتی ہے۔

اب ذرا کراچی کے منظر نامے کو ذہن میں لائیے اور سارے تعصبات سے پاک ہو کے سوچئیے کہ کراچی میں جھگڑا کیا ہے اور کس کے درمیان ہے۔کراچی میں کیا مسلم لگ نون اور جماعت اسلامی والے آپس میں باہم دست وگریبان ہیں۔کیا تحریک انصاف اور جمیعت علمائے اسلام کا کسی معاملے پر اختلاف ہے۔کیا یہ سنی تحریک اور سپاہ صحابہ کا کوئی مسئلہ ہے۔کیا طالبان تحریک جعفریہ کے ساتھ باہم سر پھٹول کر رہے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ ان میں سے بھی کوئی پارٹی حالات کا فائدہ اٹھا رہی ہو۔ہو سکتا ہے کہ القاعدہ را ،موساعد یا اپنی سی آئی اے بھی کراچی کے اس گرم تندور پہ اپنی روٹیاں لگا رہے ہوں۔آپ لیکن تعصب کی ایک دفعہ تمام عینکیں اتار کے براہ کرم تجزیہ کیجئیے اور بتایئے کہ کیا یہ ایم کیو ایم پیپلز پارٹی اور اے این پی کی لڑائی نہیں ۔کیا چور ہی شور نہیں مچا رہا۔کیا یہی تینوں پارٹیاں کراچی پہ حکمران نہیں۔کیا انہی پارٹیوں نے اختیارات اور مزید اختیارات اور اپنے مفادات کے لئے خون ناحق بہانے کا تمام سابقہ ریکارڈ نہیں توڑ دئیے۔کیا واقعی آپ جانتے نہیں کہ یہ سب انہی کا کیا دھرا ہے۔اگر آپ جانتے ہیں تو کیا وہ نہیں جانتے جنہیں جاننا چاہیئے۔

کل جو عدالت لگے گی کیا وہ کسی دوسرے ملک کی عدالت ہے۔وہ جو عدالت کے فیصلوں کے کل پشتیباں ہوں گے کیا یہ بات ان کے علم میں نہیں۔اگر ہے تو پھر آپ ہی بتائیں کہ عدالت کا فیصلہ کیا ہوگا اور وہ کس طرح فیصلہ کرے گی۔عدالت کو ثبوت کون دے گا،صفائی کون دے گا اور جرح کون کرے گا۔عدالت کی اس کاروائی کا نتیجہ کیا نکلے گا۔یہ کاروائی کتنے عرصے میں اپنے انجام کو پہنچے گی اور اس دوران کتنے مزید گھروں کے چراغ گل ہو چکے ہوں گے۔کیا عدالت پھر وہی الزام اپنے سر لے کے واپس اسلام آباد نہیں سدھارے گی کہ ہم تو پکڑتے ہیں عدالتیں چھوڑ دیتی ہیں۔ایک ایسا آدمی جس نے آپ کے سامنے قتل کیا ہو اگر عدالت سے چھوٹ کے آجائے تو آپ اس عدالت کے بارے میں کیا کہیں گے۔عدالتیں اس آدمی کو صرف اسی حالت میں پھانسی کے تختے کا حکم دے سکتی ہیں جب آپ عدالت میں جا کے یہ کہہ سکیں کہ ہاں اس شخص نے میرے سامنے یہ خون کیا ہے۔

جب قتل کرنے والے ہی مدعی ہوں اور و ہی مدعا الیہ تو پھر عدالتوں کی کیا مجال کہ کسی کو سزا دے سکیں۔جب وکیل صفائی، وکیل استغاثہ، سب کا ایک ہی موقف ہو کہ ملزم کو نجانے زمیں نگل گئی یا آسمان کھا گیا اور یہ عدالت کے روبرو اس مقدمے میں ماخوذ شخص تو فرشتہ ہے تو عدالت خود ہی سوچئیے کہ اس ملزم کے بارے میں کیا فیصلہ دے سکے گی۔کیا ہم آئے روز اخباروں اور ٹیلی ویژن کی سکرینوں پہ نہیں دیکھتے کہ فلاں مقدمے کا بڑا ملزم ناکافی ثبوتوں کی بنا پہ بری۔جب کراچی کے مقدمے کا بھی عدالت عظمیٰ یہی فیصلہ کرے گی تو عوام الناس میں اس عظمت کی جو گت بنے گی اس کا اندازہ لگانے کو کسی ارسطو یا افلاطون کی عقل کی تو میرے خیال میں کوئی ضرورت نہیں۔پھر عوام عدالت کا ازخود نوٹس لیں گے اور میرے ممدوح جناب زراداری کا ایک اور خواب پائے تکمیل کو پہنچ جائے گا۔
Qalandar Awan
About the Author: Qalandar Awan Read More Articles by Qalandar Awan: 63 Articles with 54217 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.