دنیائے شعر و ادب کی نامور شخصیت ڈاکٹر جاوید آغا

جاوید آغا طبعاً بہت نیک اور شریف انسان ہیں۔اخلاقیات کو جو درس ان کی شاعری میں جگہ جگہ آتا ہے وہ خود بھی اس پر عمل پیرا نظر آتے ہیں۔اسے وہ نہ صرف محسوس کرتے ہیں بلکہ غم دنیا اور غم جاناں بہم ان کی شخصیت سے عیاں ہوتا ہے۔

ڈاکٹر جاوید آغا

دنیا ئے شعر و ادب کی نامور شخصیت جاوید آغا ۵۱ کتوبر ۵۶۹۱ء کو جھاوریاں تحصیل شاہ پور ضلع سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ ایک منفرد شاعر،محقق، نثر نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے کلارنٹ نواز بھی ہیں۔ موسیقی سے منسوب حلقوں میں انھیں اساتذہ کی صف میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کا تعلق آغا، میاں خاندان سے ہے۔

مجموعی شخصی خاکہ:
جاوید آغا طبعاً بہت نیک اور شریف انسان ہیں۔اخلاقیات کو جو درس ان کی شاعری میں جگہ جگہ آتا ہے وہ خود بھی اس پر عمل پیرا نظر آتے ہیں۔اسے وہ نہ صرف محسوس کرتے ہیں بلکہ غم دنیا اور غم جاناں بہم ان کی شخصیت سے عیاں ہوتا ہے۔رشتہ دار،دوست احباب شاگرد بھی ان سے خوش ہیں کہ نالاں ہونے کا خیال تک نہیں ابھرتا وہ سگے رشتے ناطوں کو تو نبھاہی رہے ہیں لیکن منہ بولے رشتوں کے تقدس اور پاسداری میں بھی یکتا ہیں۔ان کے ایک دوست خواجہ ادیب ناصر سینئر صحافی بتاتے ہیں۔

”جاوید آغا میرے دوست یا بھائی ہی نہیں بلکہ انھوں نے ہمارے ساتھ بطو ر فیملی ممبر وقت گزارا ہے۔ان کے ساتھ بہت خوبصورت یادیں وابستہ ہیں دوست وہ اپنی مثال آپ ہیں انھیں اگر رات ۲ بجے بھی یاد کیا تو ملاقات ضرور ہوئی ہے۔“

محنت،لگن اور شفقت کی بدولت وہ ہمیشہ ایک بہت اچھے استاد کے طو رپر مانے جاتے ہیں اپنے شاگردوں کے لیے خاص نرم رویہ اختیار کر تے ہیں اور پڑھائی کو کبھی ان پر بوجھ نہیں بننے دیتے۔جاوید آغا کی شخصیت میں صاف گوئی اور بے تکلفی پائی جاتی ہے سچ بات کہتے ہیں اور مصلحت بینی میں سچ کو نہیں چھپاتے روزمرہ کے معاملات اور علم و ادب کے مسائل پر جب بھی گفتگو کرتے ہیں تو دلائل کا انبار لگا دیتے ہیں آپ جس مسئلے پر بات کر رہے ہوں اس کے تمام پہلوؤں کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں اپنے ارادوں اور سوچ کے پکے ہیں۔ اپنی رائے بدلنے پر بڑی مشکل سے آمادہ ہوتے ہیں لیکن اگر انھیں اپنی غلطی کا احساس ہو جاتا ہے تو فراخ دلی سے اس کا اعتراف کر لیتے ہیں ان کی باتوں میں کوئی الجھاؤ، کوئی جھجک نہیں ہوتی ان کے ہاں جو چیز بھی ہے جیسی بھی ہے سامنے ہے ان کے چہرے کی طرح ان کا دل بھی روشن ہے وہ علم اور تجربے کے باوجود کسی بات پر دوسروں سے مشورہ لینے میں عیب نہیں سمجھتے زبان وبیان پر ان کو کافی عبور ہے۔ پھر بھی انھیں جہاں معمولی ساشک پڑ جائے اور یقین نہ ہو تو اصطلاح کر لیتے ہیں۔پروفیسر خواجہ شاہد زادہ بتاتے ہیں:
”جاوید آغا کی سیرت، خلوص، وفا، شرافت اور سادگی سے عبارت ہے ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں وہ جتنے بڑے ملنسار ہیں اتنے بڑے مہمان نواز بھی ہیں وہ مریضوں کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں اور ان کا مقصد مریضوں سے پیسے بٹورنا نہیں ہوتا بلکہ مریض کا صحت یاب ہوجانا دلی سکون کا باعث بنتا ہے۔
جاوید آغانے غزل کے ساتھ ساتھ نظم نگاری بھی جاری رکھی ہے فی البدیہ شعر کہنے میں ملکہ رکھتے ہیں ادبی نشستوں اور مشاعروں میں شرکت کرتے رہتے ہیں جن ادیبوں اور دانشوروں کے ساتھ وہ مشاعروں میں شرکت کرتے رہے ہیں اُن میں پروین شاکر، فیض احمد فیض، امجد اسلام امجد، انور مسعود، احمد ندیم قاسمی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔

جاوید آغا کا کلام ملک کے معروف مقامی اور انٹرنیشنل رسائل و جرائد میں شائع ہوتا رہتا ہے جن میں
۱۔ نوائے وقت
۲۔ نوادر
۳۔ جذبہ
۴۔ الجلال
اخبارات کے علاوہ شاعری
۱۔ سنجان صادق آباد
۲۔ آفاق راولپنڈی

۳۔ ارژنگ لاہور
۴۔ کامران سرگودھا
۵۔ اسالیب سرگودھا
۶۔ شاعری کراچی،قابل ذکر ہیں۔
ان کی شہرت میں PTVکے ادبی پروگرام ادب نام نے کلیدی کردار ادا کیا اور اس کے علاوہ پاکستان ریڈیو نے بھی کم کردار ادا نہیں کیا۔
اگرچہ جاوید آغا کی جنم بھومی جھاوریاں ہے لیکن ان کی ادبی صلاحیتیوں کو جلا بھلوال کی ادبی فضا سے ملی ہے۔خواجہ ادیب ناصر کہتے ہیں:
”جاوید آغا شاعری میں میرے استاد ہیں میں نے ان سے اصلاح لی ان سے میرا رشتہ دوست اور استاد کا ہے شاعری میں علم عروض سے واقفیت ایسی کہ مصرعہ دوبارہ بولیں کہتے ہیں تو مجھے احساس ہوجاتا ہے کہ سُقم ہے دوست ہیں تو ایسے کہ تیس سال گزر گئے ہیں کبھی ہمارے مابین ناراضگی نہیں ہوئی سادہ اور رشتوں کے ایسے کہ اکثر غلطی مجھ سے ہی سرزد ہوئی ہے اور معذرت انھوں نے کی ہے مجھے ان کی دوستی پر اتنا فخر ہے کہ عمر میں وہ مجھ سے چھوٹے ہیں لیکن میں انھیں بڑا بھائی سمجھتا ہوں۔“۰۲؎

جاوید آغا نے ۶۸۹۱ء میں بھلوال میں اردو ادب سوسائٹی کی بنیاد رکھی۔ پھر ۵۹۹۱ء میں حلقہ ارباب سخن کی بنیاد رکھی۔ آج بھی جن کا شمار اچھی ادبی تنظیموں میں ہوتا ہے۔ جاوید آغا کو اکثر لوگ فرزندِ بھلوال کے نام سے موسوم کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ جھاوریاں کا مان اور فخر ہیں۔

اگر ہم نظم کی طرف آتے ہیں تو کتاب میں منظوم اور نثری نظم اپنا روپ نکھارے آنگن سنوارے پوری آب و تاب کے ساتھ ملتی ہے۔ منظوم نظم سے اشعار”اسے جب یاد آئے گا“
اسے جب یاد آئے گا
میں کیسے بات کرتا ہوں
تو آنکھیں مسکرائیں گی
یا دامن بھیگ جائے گا
اسے جب یاد آئے گا

منظوم نظم”تجھے میری قسم جاناں“کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
نہ خوشیاں اس طرح بانٹو
کہ غم تن سے لپٹ جائیں
سنو سن کر نہیں رونا
مثال اک تجھ کو سادہ دیں
شجر وہ سوکھ جاتا ہے
جسے پانی زیادہ دیں

۔ڈاکٹر انعام الحق جاوید چیئرمین پاکستانی لینگویجز علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد، اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں۔ نوجوان نسل کا یہ نمائندہ شاعر جاوید آغا غزل میں ترنم امیز لہجہ لئے ہوئے مصرعوں میں ٹھہراؤ اور سوالیہ انداز کے ساتھ قارئین کو تھوڑی دیر کے لیے متخیر کرتاہے اور ساتھ ہی تضاد و تخالف اور وضاحتی جواز لا کر اپنی بات کی معنویت اور مقصدیت کو قاری کی ذہنی شراکت Brain Sharingکی سطح تک لے آنے میں بہت حد تک کامیاب تجربے کر رہا ہے بے شک جاوید آغا کی غزل لفظ، فرد اور انسان کی تکوین کے ساتھ ساتھ لفظوں کے پھیلاؤ سے تہذیب، ثقافت اور کلچر کے کے نقوش ابھارنے میں جاوید آغا اہل قلم قبیلے کے ساتھ قدم قدم چلتا ہوا کبھی کبھی ترسیل جذب و احساس انفرادی اور اجتماعی تجربے دکھ سکھ و انسباط کے لیے نئی نئی راہوں کی تلاش میں گُم اور معلوم کیگھتیاں سلجھاتا نظر آتا ہے۔

جاوید آغا ایک ایسے شخص جن کی زندگی دشواریوں اور مشکلات کا مرکز رہی لیکن ہارے نہیں۔ معاشرتی و معاشی پریشانیوں ان کے ادبی سفر میں کانٹے نہیں بکھیر سکیں انھوں نے جو کہا روبرو کہا سچ کہا یہی ان کی شخصیت اور فن کی شناخت ہے اور میں امید کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ آنے والا وقت اور اس وقت کے شعرا و ادبا انہیں فراموش نہیں کرسکیں گے۔
ڈاڈ
 

SALMA RANI
About the Author: SALMA RANI Read More Articles by SALMA RANI: 10 Articles with 7457 views I am SALMA RANI . I have a M.PHILL degree in the Urdu Language from the well-reputed university of Sargodha. you will be able to speak reading and .. View More