لانگ مارچ میں صحافی کی ہلاکت

گذشتہ دنوں تحریک انصاف کے لانگ مارچ میں نجی چینل کی رپورٹر صدف نعیم نے پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی کے دوران جان دے دی۔ صحافتی امور نبھاتے ہوئے رپورٹرز کی اموات کا یہ واقعہ نیا نہیں ہے۔ ایسے کئی واقعات پاکستان کی صحافتی تاریخ کا حصہ ہیں۔ اس واقعہ کے بعد مثبت پہلوؤں کو اگر دیکھا جائے تو عمرا ن خان کا ’’مارچ شو‘‘ فوری ملتوی کر دینا ایک قابل ذکر امر تھا جسے بہرحال سراہا جانا چاہئے۔

دوسری جانب وفاقی اور صوبائی حکومت کا فوری طور پر لواحقین کیلئے پچاس، پچاس لاکھ روپے مالی امداد کا اعلان بھی قائل ستائش تھا ۔ محکمہ اطلاعات پنجاب الگ سے مرحومہ کے خاندان کو 10 لاکھ روپے مالی امداد دے رہا ہے جبکہ اس کے بچوں کی تعلیمی کفالت کا بھی ذمہ لیا گیا ہے۔ یہ تمام عوامل فوری اور بروقت ہونا مرحومہ کے خاندان کے لئے اس لحاظ سے بھی حوصلہ افزاء ہیں، کہ صدف نعیم کا تعلق اس کیٹیگری کے میڈیا ہاؤس سے تھا جہاں صحافیوں کا استحصال معمولی بات ہے ۔ اس تناظر میں صدف کئی ماہ کی تنخواہ سے بھی محروم تھی ۔ اس کے گھر کا نظام کیسے چل رہا تھا، یہ صرف وہی جانتی تھی۔

صدف نعیم اس لحاظ سے بھی ایک محنتی اور متحرک رپورٹر تھی کہ ادارے کی جانب سے وسائل نہ ملنے کے باوجود پیشہ ورانہ فرائض کی روانی میں فرق نہیں آنے دیتی اور اپنی استعداد کار سے بڑھ کر نتائج دیتی تھی۔ لیکن اس کے سیٹھوں نے کام کا بوجھ ڈالنے کے باوجود اس پر کبھی خوشی اور اطمینان کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی مالی طور پر اسے آسودہ کیا۔

صدف کیسے جاں بحق ہوئی، اس پر کئی تبصرے آ رہے ہیں ۔ عمران خان کے گارڈز نے دھکا دیا، دھکم پیل کی وجہ سے گری، ہاتھ پھسلا، یا جو بھی ہوا، جانے والی چلی گئی اور ہمیں اپنے رویوں پر نظرثانی کا پیغام دے گئی کہ سیاستدانوں کے گارڈز کو شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ہونے کی بجائے ’’انسان‘‘ ہونا چاہئے۔ عموماً ہم انہیں سخت گیر جلادوں کے روپ میں ہی دیکھتے ہیں جو فیصلہ ساز ہونا اپنا حق سمجھتے ہیں ۔ یہ چاہیں گے تو میڈیا ورکر، ان کے ’’صاحب‘‘ تک رسائی حاصل کر سکے گا۔ اعلیٰ شخصیات کے گارڈز کو اپنے رویوں پر نظرثانی کرنی چاہئے اور دوسروں کے مسئلہ کو سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ بھرپور تعاون کرنا چاہئے کیونکہ میڈیا ورکر، ان کے ’’صاحب‘‘ کو نقصان پہنچانے نہیں بلکہ کور کرنے آتا ہے، اور یہ میڈیا کارکن کا متعلقہ شخص پر احسان ہے ۔ ایسی صورت میں رپورٹر کو عزت دینا نہ صرف متعلقہ شخص پر فرض ہے، بلکہ اس کے عملے اور بالخصوص گارڈز پر بھی واجب ہے…… شخصیات کو چاہئے کہ اپنے گارڈز اور دیگر عملے کو میڈیا کارکن کے ساتھ بلاتفریق تعاون کا پابند کریں تاکہ صدف نعیم جیسے واقعات رونما نہ ہوں…… وگرنہ حادثہ ہونے کے بعد تعزیتی بیانات یا مرحوم کے گھر اظہار افسوس کیلئے جانا لواحقین کے زخموں پر نمک پاشی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔

دوسری جانب سیاسی پارٹیوں کی میڈیا ٹیمیں اور سیاستدانوں کی ’’چوکیداری‘‘ پر مامور دیگر متعلقہ ذمہ داران اور والنٹئیرز بھی انٹرویوز کیلئے صرف من پسند صحافیوں یا چینلز کو نوازنے سے گریز کریں، کیونکہ اپنے اپنے اداروں کو نتائج دینا دیگر رپورٹرز کا بھی حق ہے، سیاسی پارٹیوں کے کرتا دھرتا ان سے یہ حق چھین کر ’’ثواب‘‘ مت کمائیں اور دوسروں کو بھی اپنی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں میں سرخرو ہونے کا موقع دیں ۔

میڈیا ہاؤسز کو اپنی اپنی مصنوعات کے اشتہارات دینے والے اداروں ، کمپنیوں کو بھی چاہئے کہ وہ ایسے اداروں کے ذریعے تشہیری بزنس دیں جن کے ہاں پیسہ سیٹھوں کی جیب میں جانے کی بجائے پہلے کارکن کو بروقت ادائیگی یقینی بنائی جاتی ہے۔ جن اداروں میں کارکن کا استحصال ہوتا ہے، کمپنیاں ان کا بزنس بند کریں ۔ ان کا سیٹھ بھوکا بیٹھے گا تو شاید اس کو اپنے ورکر کے کرب کا احساس ہو سکے ۔

پیمرا سے بھی گزارش ہے کہ صرف میڈیا کے پروگرامات کو آڑے ہاتھوں نہ لیا کرے بلکہ میڈیا ہاؤسز میں ورکرز کے استحصال پر نظر رکھتے ہوئے ایسا ضابطہ اخلاق جاری کرے جس میں نہ صرف ورکر کی تنخواہ پر کیٹیگری بنائے بلکہ انہیں بروقت اور متواتر ادائیگیاں یقینی بنائے…… یہی نہیں بلکہ رپورٹرز کو میڈیا ہاؤس کی جانب سے فیلڈ میں وسائل کی فراہمی یقینی بنانے اور ان کے تحفظ و انشورنس میں بھی کردار ادا کرے۔ پیمرا کے یہ اقدامات مجبوریوں کی بیڑیوں میں بندھے صحافی بہن بھائیوں کی آنکھ میں چبھتے درد کو محسوس کرتے ہوئے میڈیا کے سیٹھوں کے ہاتھوں ورکرز کا استحصال روکنے میں معاون ثابت ہوں گے ۔
 

Noor Ul Huda
About the Author: Noor Ul Huda Read More Articles by Noor Ul Huda: 82 Articles with 70588 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.