قائد اعظم محمد علی جناح اور غازی علم دین شہید کا مقدمہ

ایک دانشور دوست کی پوسٹ اور حقیقت حال بیان کرتا ہوا ایک تبصرہ
جس کے بعد مزید کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں تھی مگر حقائق کے ادراک کے لیے ضروری تھا کہ احباب کی توجہ دلائی جائے۔

علم دین

ایک دانشور دوست کی پوسٹ اور حقیقت حال بیان کرتا ہوا ایک تبصرہ
جس کے بعد مزید کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں تھی مگر حقائق کے ادراک کے لیے ضروری تھا کہ احباب کی توجہ دلائی جائے۔
--------------------------
قائد اعظم محمد علی جناح اور غازی علم دین شہید کا مقدمہ
------------------------
تحقیق دلائل و شواہد کی محتاج ہوتی ہے اور اس میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی ۔
مگر یار دوست کسی ایک بات کو پکڑ کرفوراً فیصلہ صادر کردیتے ہیں یہ بھی نہیں دیکھتے کہ حالات و واقعات اور حقائق و شواہد کیا کہہ رہے۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ جو کچھ ہم یہاں لکھ رہے وہ حرف آخر ہے ممکن نئے قوی شواہد اس نکتہ نظر کو تبدیل کردیں مگر سردست یہ بات پیش نظر رہے کہ اس مقدمہ کے حوالے سے اس دور کے روزنامہ انقلاب کے کچھ تراشے پیش کرتے ہوئے یہ ضرور کہیں گے آپ حقائق کے ادراک کے لیے اس دور کے اخبارات اور عدالتی ریکارڈ کا ضرور مطالعہ کریں۔
-----------------------------
عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے غازی علم الدین کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جو لاہور کی عدالت میں ٹرائل و کیل کے طور پر مقدمہ لڑا تھا حالانکہ یہ ایک تاریخی مغالطہ ہے۔
قائد اعظم نے غازی علم الدین شہید کی طرف سے اس کی اپیل جولاہور ہائیکورٹ میں دائر کی گئی تھی صرف اس پر بحث کی تھی۔ اس اپیل پر قائد اعظم نے لاہور ہائیکورٹ میں جن نقاط پر بحث کی اس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔
ہندوستان کی تاریخ پر تحریک خلافت نے گہرے اثرات مرتب کئے۔ تحریک کے دوران ہندو مسلم اتحاد کے بے نظیر مظاہرے دیکھنے میں آئے لیکن ہندو مسلم اتحادکا یہ مصنوعی باب جلد ہی اپنے انجام کو بھی گیا۔ ہندو مہاسبہ اور آریہ سماجیوں نے مسلمانوں کے مذہب ، تمدن اور سیاسی تاریخ کو مسخ کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ آریہ سماجیوں کی سرگرمیوں کے مراکز تمام ہندوستان میں موجود تھے لیکن لاہور ان کا خاص مرکز تھا۔ 1923ء میں لاہور کے ایک پبلشر راج پال نے لعین پروفیسر پانی کی کتاب شائع کی۔ جس میں حضور اکرم ﷺ کی ذات اقدس پر ناروا حملے کئے گئے تھے۔
اس کتاب کے چھپتے ہی مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ مسلمانوں کی طرف سے کتاب کے پبلشر راج پال پر فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے الزام میں مقدمہ چلا دیا گیا۔ ماتحت عدالت نے مقدمہ کی سماعت کے بعد ملازم کو دو سال قید سخت اور ایک ہزار روپیہ جرمانہ کی سزاسنائی لیکن عدالت عالیہ کے ہند و چیف جسٹس سر شادی محل نے راج پال کو بری کر دیا۔ اس سے مسلمانوں میں مزید اشتعال پیدا ہوا۔
27 ستمبر 1927ء کو ایک مسلمان خدابخش نے راج پال پر حملہ کیا لیکن وہ بد بخت بن گیا۔ 9 اکتوبر 1927 کو ایک اور نوجوان عبد العزیز نے دوبارہ راج پال پر حملہ کیا لیکن اس بار بھی وہ موت کے منہ میں جانے سے کیا۔ اس کے بعد لاہور کے مریاں والا بازار کے غازی علم الدین شہید نے راج پال پر حملہ کی اور اسے موت کی گھاٹ اتار دیا۔ غازی علم الدین شہید پر سیشن عدالت میں مقدمہ چلا تو اس کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔
سیشن عدالت کے فیصلے کے خلاف عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی گئی جس کی پیروی کے لئے قائد اعظم محمد علی جناح کو بمبئی سے لاہور بلوایا گیا۔ اس سلسلے میں قائد اعظم نے عدالت عالیہ کو تار دیا کہ 15 جولائی کو مقدمہ کو سماعت کے لئے تاریخ مقرر کی جائے۔
یاد رکھا جائے کہ پنجاب کے مشہور سیاسی را ہنما اور وکیل سر محمد شفیق نے اس مقدمہ کی پیروی کرنے سے اس وجہ سے انکار کر دیا تھا کہ ہندو اسے برا سمجھیں گے۔
اس وقت ایک ہائی کورٹ کا وکیل دوسرے ہائی کورٹ میں پیش نہیں کر سکتا تھا۔ اس لئے بھی ہائی کورٹ کے مسٹر جناح کو پنجاب ہائیکورٹ کے جج مسٹر جسٹس براڈوے نے اجازت دینے کی مخالفت کی لیکن چیف جسٹس سر شادی لعل نے قائد اعظم کو پیش ہونے کی خصوصی اجازت دی۔ 15 جولائی 1929ء کو جسٹس براڈوے اور جسٹس جانسن کے روبرو مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی ۔
قائد اعظم محمدعلی جناح نے مقدمہ کے واقعات کو سامنے رکھ کر انتہائی قابلیت کے ساتھ غازی علم الدین کے لیے گناہی ثابت کیا۔ سب سے پہلے قائد اعظم نے عینی گواہوں کے بیانات پر جرح کی۔ قائد اعظم نے عدالت کو بتلایا کہ عینی گواہ کردار ناتھ مقتول کا لازمی ہے اس لئے اس کی گواہی تامل اور غور کے بعد قبول کرنی چاہئے۔ دوسرے کیدار ناتھ نے اپنے ابتدائی بیات میں بھگت رام نے بیان کردہ قاتل غازی علم الدین پر کتابیں پھینکیں اور اس کا تعاقب کیا۔
کیدار ناتھ نے ابتدائی بیان میں ملزم کے متعلق یہ نہیں کہا کہ اس نے گرفتاری کے بعد اقبال جرم کیا۔ عدالت سیشن جے میں وہ بیان دیتا ہے کہ ملزم نے کہا ہے کہ میں رسول کی عزت کا بدلہ لیا ہے۔ ان حقائق سے قائد اعظم نے یہ ثابت کیا کہ عینی گواہ نمبر 2 کدار ناتھ جھوٹا ہے۔ اسی طرح قائد اعظم نے دوسرے عینی گواہ ملی بھگت رام کی شہادت کی کمزوریاں واضح کیں ۔ اس کے بعد انہوں نے وزیر چند تانک چند اور پرمانند وغیرہ کے بیانات پر نقادانہ بحث کر کے ثابت کیا کہ کوئی بیان اصلا قابل اعتماد نہیں بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک خاص بیان وضع کر کے مختلف آدمیوں کو طوطے کی رٹا دیا گیا ہے۔
قائد اعظم نے اپنی بحث میں سب سے اہم نکتہ یہ نکالا کہ عام بیانات کے مطابق واقعہ کے وقت مقتول کی دوکان پر ایک مقتول اور اس کے دو ملازم تھے۔ ڈاکٹر کی شہادت سے ثابت ہوتا ہے کہ مقتول کے آٹھ زخم لگے یعنی اٹھارہ انیس سال کے ایک معمولی نوجوان نے دن دہاڑے تین مردوں میں گھس کر ایک کے جسم میں آٹھ دفعہ چھری گونپی اور نکالی اور تین آدمی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے، اس کو عقل انسانی میں تسلیم نہیں کر سکتی۔ اس کے بعد مسٹر محمد علی جناح نے آتمارام کباڑی کی شہادت پر جرح کی اور اس کے تارپود بکھیر دئیے اور اس کے خلاف کئی دلائل قائم کئے ۔ مثلاً
(1) پہلی بات قائد اعظم نے ثابت کی کوئی دوکانداران باریک بین نہیں ہو سکتا کہ اپنے ہر گاہک کو یاد رکھے جو کہ اس کی دوکان پر صرف ایک مرتبہ آیا ہو۔ اس کباڑی نے ملزم کو شناخت پریڈ کے دوران کے ملزم کے چہرے کو ایک نشان کو دیکھ کر پاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ پولیس نے اسے یہ نشان بتلا دیا ہو گا کہ جس کی بناء پر اس نے ملزم کو شناخت کر لیا۔
(۲) گواہ آتمارام کا دعوی تھا کہ وہ چا قووں کو پہچان سکتا ہے لیکن جب یا تو اس کے روبرو پیش کئے گئے تو وہ پہچان نہ سکا۔گواہ آتمارام کباڑی اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ اس کی نظر کمزور ہے۔ ان حقائق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آتمارام سکھایاپڑھایا ہوا گواہ ہے۔ اس کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے اس سوال پر سیر حاصل بحث کی کہ اگر علم الدین قاتل نہیں تھاتو اس کے کپڑوں پر انسانی خون کے دھبے کس طرح لگے تھے۔
انہوں نے ڈاک کا یہ بیان پیش کیا کہ مقتول کا خون فوارے کی طرح نہیں اچھلا اور جب حالت یہ ہے وہ بیان کردہ قاتل کے جسم پردھے نہیں پڑ سکتے لیکن ڈاکٹرنے کہا کہ ڈاکٹر کی شہادت کا یہ حصہ بالکل لغو ہے۔ اسے رائے دینے کا کوئی حق نہیں تھا۔ سیشن نے اس بات کو تسلیم کرتا ہے مقتول کا خون فوارے کی طرح نہیں اچھا اور اس بات کو بھی تسلیم کرتا ہے کہ ملزم کے کپڑے مقتول کی لاش سے چھوئے نہیں لیکن لکھتا ہے کہ ڈاکٹر کی رائے کے مطابق یہ خون انسانی ہے۔
اس لئے مقتول کا خون اور چھری سے ٹیک کر ملزم کے کپڑوں پر گرا ہے۔ مسٹر جناح نے کہا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ جس خون کے دھبے ملزم کے کپڑوں پر ہیں وہ واقعی منتقل کیا ہے۔ مسٹر جناح نے کہا کہ میرا یہ دعوی ہے کہ یہ خود ملزم کا خون ہے۔ ملزم کا بیان ہے کہ اسے گرفتار کرنے کے بعد ہندوؤں نے اسے ماراپیٹا اور اس مار پیٹ سے اس کی انگلی اور ران پر زخم آئے۔
مسٹر جناح نے ایک اہم بات یہ کہیں کہ سیشن نے مسلم اسیسروں کی رائے کے سلسلے میں خواہ مخواہ ہندو مسلم سوال پیدا کیا۔ اس مقدمے میں چاراسیسر تھے۔ دو مسلمان اور دو غیر مسلم، مسلمان اسیسروں نے ملزم کو بے گناہ بتلایا غیر مسلم اسیسروں نے جرم کا اثبات کیا۔ سیشن نے لکھا ہے کہ مسلم اسیروں کے فیصلے پر یقین نہیں کیا جا سکتا اس لئے جو ہو سکتا ہے کہ ان کے دل میں فرقہ وارانہ تعصب موجود ہو۔ مسٹر جناح نے اس پر بحث کرتے ہوئے فرمایا کہ مسلمان اسیروں کے فیصلے پر یقین نہیں کیا جا سکتا اس لئے ہو سکتا ہے کہ ان کے دل میں فرقہ وارانہ تعصب موجود ہو۔ مسٹر جناح نے اس پر بحث کرتےفرمایا کہ مسلمان اسیروں کے فیصلے پر یقین نہیں کیا جاسکتا اس لئے ہو سکتا ہے کہ ان کے دل میں فرقہ وارانہ تعصب موجود ہو۔ مسٹر جنات نے اس پر بحث کرتے ہوئے فرمایا کہ مسلمان آ سیسروں کے متعلق یہ کیوں کیا گیا دوسرے امیروں کے متعلق کیوں نہیں کیا گیا۔
ہو سکتا ہے دونوں مسلمان اسیروں کے فیصلے بالکل ایماندار نہ ہوں۔ ان کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ وجہ بتلائیں کہ وہ فلاح فیصلے پر کیوں پہنچے۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ جج نے مسلمان اسیروں سے متعلق تعصب کا اظہار کیا۔ ملزم کے حق میں جو شہادت تھی سیشن نے اسے ناقابل قرار دیا۔ اور کے خلاف جو شہادت تھی اسے درست سمجھا۔ اس پر جسٹس براڈوے نے کہا کہ حج کو اختیار ہے کہ وہ جس شہادت کو چاہے قبول کرے جس کو چاہے مسترد کرے۔ مسٹر جناح نے جواب دیا کہ یہ میں ہے مگر قول وعدم قبول کے لئے دلیل بھی ہونی چاہئے۔ علم دین کو بے گناہ ثابت کرنے کے بعد مسٹر جناح نے مقدمہ کے دوسرے پہلو پر نظر ڈالی اور بحث جاری رکھتے ہوئے فرمایا اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ملزم واقعی قاتل ہے تو بھی اس کی سزا پھانسی نہیں بلکہ عمرقید ہونی چاہئے۔ اس کے لئے مندرجہ ذیل دلائل پیش کئے۔
(1) ملزم کی عمر اٹھارہ انیس سال کی ہے۔
(۲)راج پال نے اسی کتاب چھاپی جسے عدالت عالیہ نے بھی تفاق انگیز اور شر انگیز قرار دیا۔
(۳) ملزم نے کسی لغو اور وکیل خواہش سے یہ ارتکاب نہیں کیا بلکہ ایک کتاب سے غیرت کھا کر الیا گیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے عدالت عالیہ کے سامنے تقریر میں عدالت عالیہ سے درخواست کی کہ وہ ملزم کو اس الزام سے بری کر دے۔ قائد اعظم نے فرمایا سب سے پہلے میں اس پولیس افسر کو شہادت کی طرف عدالت عالیہ کی توجہ مبذول کراتا ہوں جس نے بیان کیا کہ ہم ملزم سے یہ اطلاع پاتے ہیں کہ میں نے آتمارام کباڑی سے یہ چھری خریدی ہے۔ اور اس کی دوکان پر پہنے ، پولیس نے بذات خود کوئی تفتیش نہیں کی اور صرف ملزم کے بیان پر اکتفا کی لیکن دفعه 27 قانون شہادت کی روسے ملزم کا بیان بطور شہادت پیش نہیں ہو سکتا۔ میں چاہتاہوں کہ ج صاحبان اس کا فیصلہ صادر کریں۔
مسٹر جسٹس براڈوے نے کہا کہ شہادت کے قابل قبول با قابل قبول ہونے کے سوال کا فیصلہ کرناعدالت ماتحت کا کام ہے۔ مسٹر جناح نے کہا کہ آپ اس نقطہ پر اب نہیں تو آخر میں فیصلہ کر سکتے ہیں۔ سلسلہ بحث جاری رکھتے ہوئے مسٹر جناح نے کہا کہ اب غور طلب امر یہ ہے کہ ملزم کو اس مقدمہ میں ماخوذ کرنے کی کافی وجوہ موجود ہیں یا نہیں ۔ 6 اپریل کو راج پال قتل کیا گیالیکن سوال یہ ہے کہ جس نے راج پال کو قتل کیا وہ کون تھا۔
استغاثہ کی شہادتوں میں دو عینی گواہوں کے بیانات ہیں۔ یہ دونوں گواہ کردار ناتھ اور بھگت پال قتل کیا گیالیکن سوال یہ ہے کہ جس نے راج پال کو قتل کیا وہ کون تھا۔ استاد کی شہادتوں میں دو میں گواہوں کے بیانات ہیں۔ یہ دونوں گواہ دار ناتھ اور بھگت رام ہیں ۔
ان معینی گواہوں کے قابل اعتماد ہونے کو پرکھنے کیلئے میں قاتل مجنوں کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ یہ دونوں گوادراج پال کے ملازم تھے۔ ان شہادتوں کے پرکھنے کا صرف یہی طریقہ ہے کہ ان کے بیانات کے اختلاف کو دیکھا جائے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی اس بحث کے بعد عدالت نے سرکاری وکیل کا جواب سنے بغیر حاضرین کو باہر نکال دیا اور فیصلہ محفوظ رکھا۔ چار بجے شام کے قریب عدالت نے فیصلہ سنایا اور اپیل نامنظور کر دی۔
------------
https://www.neelab.com/mianwali/mianwali-history/3438
بشکریہ خالد سعید ایڈوکیٹ
-----------------
اب رہی یہ بات کہ قائد اعظم نے مقدمہ کی ہزاروں روپیہ فیس وصول کی اور مقدمہ کا فیصلہ ہونے کے بعد بمبئی سدھارے تو عرض ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح پیشہ ورانہ اخلاق پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ انھوں نے زندگی کے کسی بھی موڑ پر پیشہ وارانہ ضابطہ اخلاق کی پابندی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ ان کی چیمبر پر یکٹس کےلئے فیس فی گھنٹہ کے حساب سے ہوتی تھی اور موکل اندازے سے فیس ادا کردیتے تھے۔ بارہا ایسا ہوا کہ اگر موکل کا اندازہ ا ن کی مصروفیت کے اصل وقت سے زیادہ ہوگیا اور اس نے زائد رقم ادا کردی تو قائد اعظم اضافی رقم واپس کردیتے تھے، مثلاً موکل نے چیمبر میں قائد اعظم کو 5 گھنٹے مصروف دیکھ کر فیس کی ادائیگی کی اور قائداعظم نے اس موکل کا کام صرف ایک گھنٹے میں مکمل کیا تھا تو وہ بقیہ چار گھنٹے کی فیس واپس لوٹا دیتےتھے۔
ان کی زندگی کا کوئی شعبہ اصولوں سے مبرا نہ تھا۔ خود داری اورشرافت ان کے اندر بدرجہ اتم موجود تھی۔ کلائنٹس سے معاملات اور پیشے کا وقار ان کے پیش نظر رہتا تھا۔ کمرہ عدالت میں بھی وہ اصولوں، پیشے کے احترام و وقار، خودداری اور عزت ِنفس کو ہر قیمت پر ملحوظ خاطر رکھتے تھے۔ کئی بار نازک مواقع آئے مگر وہ ہمیشہ احترامِ پیشہ اورعزت ِ نفس اوراپنے اصولوں پر ڈٹے رہے۔
چنانچہ وکالت کا جائز معاوضہ کی وصولی بھی قائدِاعظمؒ کے اصول میں تھی جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے تھے اس ایک مثال وہ مقدمہ ہے جو تین پیشیوں ہی میں جیت لیا اور فیس کے صِرف پندرہ سو روپے وصول کیے۔ حالانکہ کلائئینٹ نے اس کامیابی کی خوشی میں پورے پانچ ہزار پیش کرنا چاہے تو قائدِاعظمؒ نے جواب دیا، ’’میں نے اپنا حق لے لیا ہے۔‘‘
چنانچہ فیس کا حصول ایک وکیل کا حق ہے کہ وہ اپنے موکل سے فیس جائز فیس وصول کرے ۔قائد اعظم خود کہتے ہیں کہ میرا اصول ہے کہ مَیں فی پیشی فیس لیتا ہوں ۔ اس تناظر میں اگر قائد اعظم نے اس مقدمہ میں فیس وصول کی تو کیا غلط کیا وہ بطور ایک وکیل بلائے گئے تھے اور ان کی خدمات حاصل کی گئیں تھیں ۔ ان کے اس عمل پر انگلی اٹھانا اور چینی نکتہ چینی کرنا کیا درست ہے یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ قائد نے اپنی جائیداد کا ایک بڑا حصہ کیا پاکستان اور پاکستان کے تعلیمی اداروں کے نام نہیں کیا ۔
----------
لہذا گزارش ہے کہ تحقیق کیجئے اور حقائق تلاش کرکے دلیل کے ساتھ سامنے رکھئے
محمداحمد ترازی
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 313832 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More